منصور آفاق

محفلین
دیوار پہ دستک
سکینڈ ہینڈلوگ
منصور آفاق
یہ دو دن پہلے کی ایک خوشگوار شام تھی۔میں ایک دوست کے ساتھ لندن کے ایک بہت بڑے شراب خانے میں گیا ۔جہاں اس کے دو دوست اس کا انتظار کررہے تھے۔ملاقات ہوئی ۔پتہ چلا کہ ان میں سے ایک تعلق نون لیگ کے ساتھ ہے ۔دوسراپیپلز پارٹی سے تعلق رکھتا ہے۔میرے دوست نے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ میرے دوست منصور ہیں کیئر اینڈ ریلیف فاونڈیشن میں کام کرتے ہیں ۔وہ بڑے پُر جوش انداز میں ملے مگر جیسے ہی انہیں معلوم ہوا کہ میں شراب نہیں پتیاتو انہوں نے مجھے بالکل ہی نظر انداز کردیا اورمیرے لئے اورنج جوس کا آڈر دے کر اپنی گفتگو میں مصروف ہوگئے ۔ میں اردگرد کے ماحول کا جائزہ لینے لگا۔یہ ایک بڑا ہال تھا جس کے ایک طرف کاونٹر تھا جس کے پیچھے شراب کی بے شمار بوتلیں سجی ہوئی تھیں۔جہاں دو خوبصورت لڑکیاں ساقی کے فرائض سر انجام دے رہی تھیں۔ہال کی سمت میں ایک سٹیج بنا ہوا تھاجہاں مغنیہ گا رہی تھی۔وہ جو کچھ گا رہی تھی ۔میں اسے سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔جو کچھ سمجھ میں آیا وہ یہ تھا:۔
©”یہاں ہر چیز سکینڈ ہینڈ یعنی استعمال شدہ ہے۔“
”پیار ، محبت ، دوست ، لمس ،لیڈر شپ ،عدالتیں،پولیس ،کوئین“
گیت پر توجہ زیادہ دیر مرکوز نہ رہ سکی کیونکہ وہ دوست جس کا تعلق نون لیگ سے تھا۔شاید وہ کافی دیر سے پی رہا ہے اور اب اس کے منہ میں ایک جملہ پھنسے ہوئے ریکارڈ کی طرح بجنا شروع ہوگیا تھا۔ میرے پچاس ہزار پونڈ۔میرے پچاس ہزار پونڈ۔ میرے پچاس ہزار پونڈ۔پچاس ہزار پونڈ برطانیہ میں بھی خاصی رقم ہوتی ہے تقریباً اسی لاکھ روپے پاکستانی بنتے ہیں ۔سومجبور اً مجھے پچاس ہزار پونڈ کے معاملہ پر غور کرنا پڑ گیا۔قصہ یہ تھا کہ بیچارے کے پچاس ہزار پونڈ ضائع ہوگئے تھے۔دراصل اسے پارٹی لیڈر شپ کی طرف اسے یہ کام سونپا گیا تھاکہ وہ ڈاکٹر طاہر القادری کے بیرون ملک اثاثوں کے بارے میں تحقیق کرائے۔بقول اس کے ،اس مقصد کےلئے پارٹی کے کہنے پر ہی اس نے ایک کمپنی ہائر کی تھی۔اس کمپنی سے پچاس ہزار پونڈمیں سودہ طے ہواتھا۔باقاعدہ ایگریمنٹ ہواتھاجس پر اس نے دستخط کئے تھے۔قانونی سودے کے مطابق کمپنی نے انہیںپندرہ دن میں یہ معلومات فراہم کرنا تھی۔پندرہ دن کے بعد کمپنی نے باقاعدہ رپورٹ دی کہ پاکستان کے ایک کنال کے مکان کے علاوہ ڈاکٹر طاہر القادری یا اُن کے بیٹوںکے نام دنیا میں کہیں کوئی زمین ،کوئی مکان کوئی عمارت کوئی بنک بیلنس نہیں ہے۔باقی تمام چیزیں ان کے مختلف اداروںکے نام پر ہیں ۔زیادہ تر عمارات منہاج القران کے نام ہیں ۔اُس کمپنی کو پانچ ہزار پونڈ ایڈوانس دئیے گئے تھے اور پیتالیس ہزار پونڈ ابعد میں دینے تھے ۔وہ کمپنی ہفتہ بھر باقی رقم مانگتی رہی اور پھرمایوس ہوکر اس نے اپنے وکیل سے قانونی نوٹس بھجوا دیا۔دوسری طرف پارٹی باقی پیتالیس ہزار ادا کرنے پر بالکل تیار نہیں۔پارٹی کا شاید یہ خیال تھا کہ کمپنی نے درست تحقیق نہیں ہے۔اس صورت حال میں نون لیگ کے برطانوی نژاد رہنما کو مجبوراً یہ رقم جیب سے ادا کرنے پڑ گئی تھی۔کیونکہ برطانیہ یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ کسی کے ساتھ معاہدہ کریں اور پھر رقم نہ ادا کریں ۔یہاں کی عدالتیں بہر حال انصاف کرتی ہیں اگر وہ رقم ادا نہ کرتا اورکمپنی عدالت میں چلی جاتی تو اُس شخص کواصل رقم کے ساتھ مقدمے کے اخراجات بھی ادا کرنے پڑتے ۔
یہ وہ معاملہ تھا جو ریکارڈ کی طرح شراب خانے میں بج رہا تھا۔وہ شخص کبھی گیت کے اَنترے کی طرح ڈاکٹر طاہر القادری کو گالیاں نکالنے لگتا تھا اور کبھی استھائی کی طرح نواز شریف پر اٹک جاتا تھا۔اُس شرابی کے چندجملے دیکھیے اور لطف لیجئے:۔........” یہ جس کا نام طاہرالقادری ہے یہ تو کوئی پاگل آدمی ہے۔ دنیا میں اربوں روپے کی عمارتیں اس شخص کے پاس ہیں مگر سب منہاج القران کے نام ہیں اس سے اتنا نہیں ہوسکا کہ دوچار اپنے نام لگوا لیتا ۔اس نے تو خیر ڈی چوک پر مرنا ہے۔ بچوں کےلئے کچھ تو چھوڑ جاتا۔اوریہ بابرہ شریف ۔اسے تو اب واقعی چلا جانا چاہیے۔دیکھتے نہیں ارب نہیں کھرب پتی ہے۔اور میرے پچاس ہزار پونڈ نہیں بھیج رہا۔“ میرے دوست نے کہا ....”بابرہ شریف نہیں ،نواز شریف “........ کہنے لگا.... ”ہاں ہاں وہی“ ....میرے دوست نے اسے مشورہ دیا.... ”چل اِلفرڈ چلتے ہیں ۔ وہاں حسن نواز کے پلازے کے سامنے بیٹھ کراحتجاج کرتے ہیں۔وہاں کھڑے ہوکر تم نے چار ”گو نواز گو “ کے نعرے لگائے تو حسن نواز اسی وقت پچاس ہزار پونڈتمہیں لا دے گا۔“ شرابی کانوں کوہاتھ لگا کر بولا.... ”ناں بابا ناں!.... تم چاہتے ہو کہ جو تھوڑی بہت امید ہے وہ بھی گٹرمیں پھینک دوں۔ ناں بابا ناں ۔“پیپلز پارٹی والے نے بڑی سنجیدگی سے کہا ....”دیکھو!.... ہم کارکن ہمیشہ سے اپنے لیڈرو ں کےلئے استعمال ہوتے چلے آرہے ہیں۔پہلی بار استعمال ہونے کے بعد ہم ایک استعمال شدہ چیز بن جاتے ہیں ۔کوئی پھینک دیتا ہے ۔ کوئی دوسری بار استعمال کےلئے رکھ لیتا ہے۔تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ انہوں نے تمہیں استعمال کیا ہے۔ یہ بڑے اعزازکی بات ہے وگرنہ بادشاہوں کے حرم میں تو کئی کنزیں ایسی بھی ہوتی ہے ۔جنہیں دوسری بار بادشاہ کا قرب کئی سالوں کے بعد نصیب ہوتا ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت خوب سر۔۔۔۔ ویسے پاکستان میں الیکشن بھی کارکنوں کے خرچے پر ہی لڑے جاتے ہیں۔ بڑے شہروں کا تو پتا نہیں لیکن میرے چھوٹے سے شہر میں تو یہی ریت و رواج ہے۔ :) اور پھر یہ استعمال شدہ کارکن کلرک کو جا کر کہتے ہیں کہ کرتا ہے کام یا کروں بڑے صاحب کو فون۔۔۔ اور بس۔۔۔۔۔ :)
 
Top