سچ تو یہ ہے!

arifkarim

معطل
صرف اردو زبان میں ترقی کی ضد میں شاید ہم چار پانچ سو سال میں ترقی کر ہی لیں ترقی یافتہ اقوام سے ترقی کے معاملے میں تو ہم اب بھی سو برس پیچھے ہیں ہی ۔۔ چینی یا جاپانی اگر کسی اور زبان میں بھی اسی قدر محنت کرتے جتنی انھوں نے کی ہے تو وہ آج بھی وہیں ہوتے جہاں وہ ہیں ۔۔

بلاشبہ ، ون یونٹ ہمارے بہت سے مسائل کا حل ہے ۔۔
وسلام

نہیں طالوت! ہر قوم صرف اپنی زبان میں ہی ترقی کر سکتی ہے۔ کیونکہ اسکی زبان اسکی پہچان ہوتی ہے۔ میں تو ابھی بھی شرم سے منہ چھپاتا پھرتا ہوں کہ جب نارویجنز کو سویڈن و ڈنمارک سے آزادی حاصل ہوئی، تو انہوں نے اپنے ملک میں قومی، ادبی و دفتری زبان نارویجن ہی رکھی۔۔۔ اور اسی زبان مین ترقی بھی کی۔( اس وقت ناروے دنیا کے امیر ترین ممالک میں شامل ہے۔) بیشک یہ زبان ناروے کے 4 ملین باشندوں کے علاوہ اور کوئی نہیں بولتا۔ لیکن انکو کبھی بھی احساس کمتری نہیں ہوتی کہ انکا کلچر و ثقافت امریکیوں کے مقابلے میں نچلے درجہ کا ہے! یہ سچ ہے کہ یہاں کی نوجوان نسل بھی بہتے نالے کا شکار ہو رہی ہے، آخر سب انسان ہی ہیں نا۔۔۔۔ لیکن اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ غیروں کی چال ایسی چلنے لگے ہیں کہ اپنی بھی بھول گئے:)

جبکہ ہمارے ملک میں کروڑوں لوگ اردو بولتے اور لکھتے ہیں۔ لیکن احساس کمتری اس حد درجہ کی ہے کہ اس زبان کو دفاتر اور ہائی اسٹینڈرڈ اسکولوں میں رائج کرنے کے خیال ہی سے ہاتھ پاؤں تھر تھر کانمپنے لگتے ہیں:rollingonthefloor:
اردو کئی زبانوں کی مجموعہ ہونے کے سبب تمام لاطینی آوازوں کو مسخر کر سکتی ہے۔ جیسے عربی میں پ،ٹ،ڑ نہیں ہوتی، لیکن اردو میں موجود ہے۔ اسی طرح اردو کی گرامر اتنی آسان ہے کہ کسی بھی دوسری زبان کے الفاظ اس میں ایڈجسٹ ہو سکتے ہیں اور جملے خراب بھی نہیں ہوتے!
پس اردو وہ واحد زبان ہے جو زمانہ قدیم کے مذہبی علوم اور دور جدید کے سائنسی علوم کو باہم یکجا کر سکتی ہے۔ کبھی کبھار انگریزی اور نارویجن میں دینی علوم کی اصطلاحیں ڈھونڈنی پڑتی ہیں اور میں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ یہ لاطینی زبانیں خاص کر مذہب اسلام کی بہت سی اصطلاحوں کے تراجم نہیں رکھتیں۔ ایسی صورت میں مطلب سمجھانے کیلئے لمبے لمبے جملے لکھنے پڑتے ہیں۔

آپنے مجھے ایک بار یہ مثال دی تھی کہ اگر مغربی سائنسدان ، عربی بو علی سینا کے جوتے چاٹ سکتے ہیں تو ہمیں کیا تکلیف ہے؟ یہاں آپ یہ بتانا بھول گئے تھے کہ ان مغربیوں نے پہلے ان عربی کتب کا اپنی زبانوں میں ترجمہ کیا تھا اور پھر انکی اشاعت کی تھی۔ اگر یہ لوگ بھی عربی ہی کو اپنا لیتے تو آج عربی و عجمی برابر ذہین ہوتے!

اسلئے اردو کو فروغ دیں اور اپنے دل کو غیروں کی غلامی سے آزاد کریں!
 

طالوت

محفلین
میرا خیال ہے کہ احساس کمتری اردو زبان کو رائج نہ کرنے کا سبب نہیں (جو بےچارے اردو کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہیں مجھے ان سے ہمدردی ہے کہ میرے قریب خاصے لوگ موجود ہیں) ، تن آسانی ہے ۔۔ کون اس جھنجھٹ میں پڑے ؟ ۔۔۔ تاہم صرف اردو اردو کی رٹ لگائے رکھنے سے ہم پیچھے تو جا سکتے ہیں آگے نہیں ، وقت کے ساتھ ساتھ اردو کو رائج کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے مگر ہم بہت بہت پیچھے ہیں اور ہمارا راستہ بھی اردو کی طرف نہیں جاتا ، اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔۔
اسکے لیئے ہمیں بہت کام کرنا پڑے گا ، اور وہ ہم نہیں کرنے والے ۔۔ جدید تعلیم کے معاملے ہمارے یہاں کتنے لوگ ہیں جو اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے حوالے سے عملی کام کر سکیں ؟ شعراء بہت ، کالم نگاروں کی بھرمار ، ناول نگاروں کا سمندر ، مگر علوم جدید کے مترجم ؟

اسلئے اردو کو فروغ دیں اور اپنے دل کو غیروں کی غلامی سے آزاد کریں!
انگریزی زبان تو بہت چھوٹا سا نقطہ ہے غلامی کا اور وہ بھی شاید چند فیصد کے یہاں ، کیونکہ پاکستان کی اکثریت انگریزی زبان کسی احساس کمتری کی وجہ سے نہیں بلکہ آگے بڑھنے کے لیے سیکھتی ہے ، کیونکہ صرف اردو کے ساتھ آگے بڑھنے کے مواقع صفر فیصد ہیں ۔۔
وسلام
 

راشد احمد

محفلین
طالوت بھائی آپ کی بات درست ہے انگلش کے ساتھ ساتھ اردو بھی بہت ضروری ہے لیکن ہم اس لئے پیچھے رہ گئے کہ ہمارے کچھ علما نے یہ فتوی جاری کردیا تھا کہ انگلش کافروں کی زبان سے جو سیکھے گا وہ دین اسلام سے خارج ہوجائے گا۔ وہ سب تو مر کھپ گئے لیکن ہمیں انہوں نے پیچھے کی طرف دھکیل دیا۔

آپ ہندوستان کی مثال لیں وہاں ایک بچہ انگلش بھی سمجھ سکتا ہے اور ہندی بھی۔ ان لوگوں نے مسلمانوں کی کمزوریوں کا خوب فائدہ اٹھایا اور ہم سے آگے نکلنے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی رہے۔ جب وہ ہندی بول رہے ہوتے ہیں‌تو ایسا لگتا ہے کہ اردو بول رہے ہیں ۔صرف رسم الخط کا فرق ہے اگر ہم چاہتے تو اردو کو عالمی طور پر فروغ دے کر ان کا رسم الخط بھی تبدیل کرواسکتے تھے
 

arifkarim

معطل
جدید تعلیم کے معاملے ہمارے یہاں کتنے لوگ ہیں جو اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے حوالے سے عملی کام کر سکیں ؟ شعراء بہت ، کالم نگاروں کی بھرمار ، ناول نگاروں کا سمندر ، مگر علوم جدید کے مترجم ؟
انگریزی زبان تو بہت چھوٹا سا نقطہ ہے غلامی کا اور وہ بھی شاید چند فیصد کے یہاں ، کیونکہ پاکستان کی اکثریت انگریزی زبان کسی احساس کمتری کی وجہ سے نہیں بلکہ آگے بڑھنے کے لیے سیکھتی ہے ، کیونکہ صرف اردو کے ساتھ آگے بڑھنے کے مواقع صفر فیصد ہیں ۔۔
وسلام

یہی تو ہماری اخلاقی پستی ہے کہ ہم غیروں کی زبان میں تعلیم حاصل کرنا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ آکسفورڈ اور کیمبرج کی کتب اسکولوں میں رائج کرا کر اپنے بچوں کو بہت پڑھا لکھا سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی طالب علم او لیول کرے تو ماشاءاللہ، اگر میٹرک کرے تو فٹے منہ! کاش اگر ہم اپنے تعلیمی نظام کو فروغ دیتے تو ہمیں‌مغربیوں کے جوتے چاٹنے کی نوبت نہ آتی۔ بجائے یہ کہ ہم اپنے تعلیمی نظام میں‌جدت پیدا کریں ، الٹا امپورٹڈ نظام کو رواج دیا جا رہا ہے:mad:

یہ جو آپنے لکھا کہ ’’انگریزی زبان کسی احساس کمتری کی وجہ سے نہیں بلکہ آگے بڑھنے کے لیے سیکھتی ہے ‘‘ یہاں آگے بڑھنے سے کیا مراد ہے؟ کیا غیروں کی غلامی میں‌آگے بڑھنے کیلئے؟ یا اپنے وطن سے دوری میں آگے بڑھنے کیلئے انگریزی سیکھتی ہے:confused:

دوسرا انگریزی زبان کوئی چھوٹا نقطہ نہیں ہے۔ جب آپ بچپن سے پچپن تک صرف انگریزی میں ہی تعلیم حاصل کریں گے تو پاکستان کو کیا دیں گے۔ ظاہر ہے اعلیٰ تعلیم کیلئے دیار غیر تو جانا ہی ہے۔ اور واپس کونسا پاکستان میں آکر کرپٹ معاشرے میں نوکری کرنی ہے۔ یا اسکی فلاح کیلئے کام کرنا ہے۔ واپس آکر بیرونی ڈگریوں کیساتھ ملک کو ہی لوٹنا ہے نا! تو اعلیٰ تعلیم کی پھر کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے :laughing: جو علم آپکے اور آپکے وطن کے کام ہی نہ آئے۔

جدید علوم کے ارد و میں ترجمے کرکے حکومت کتب بنائے۔ اور انکو تمام اسکولوں میں رواج دے۔ہمیں‌کوئی ضروت نہیں ہے یہ سوچنی کی کہ جتنا مغرب کو کاپی کریں گے اتنا ہی ترقی کریں گے۔ براہ کرم اپنی سوچ کو تبدیل کریں۔
 

arifkarim

معطل
آپ ہندوستان کی مثال لیں وہاں ایک بچہ انگلش بھی سمجھ سکتا ہے اور ہندی بھی۔ ان لوگوں نے مسلمانوں کی کمزوریوں کا خوب فائدہ اٹھایا اور ہم سے آگے نکلنے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی رہے۔ جب وہ ہندی بول رہے ہوتے ہیں‌تو ایسا لگتا ہے کہ اردو بول رہے ہیں ۔صرف رسم الخط کا فرق ہے اگر ہم چاہتے تو اردو کو عالمی طور پر فروغ دے کر ان کا رسم الخط بھی تبدیل کرواسکتے تھے

خالی تعلیمی میدان میں آگے نکلنا کوئی بڑی بات نہیں۔ اخلاقیات میں‌تو یہ لوگ مسلمانوں‌سے بھی گر گئے ہیں۔ جو تعلیم انسان کو اخلاق نہ سکھا سکے، اس تعلیم کا کیا فائدہ ؟ انڈیا میں بنائے گئے اکثر سافٹویرز فلاپ ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ کسی بھی صورت مغرب کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ چاہیں اپنی قومی زبان انگلش ہی کیوں نہ کر لیں۔ فلم انڈسٹری کا معیار بھی آپکے سامنے ہی ہے، ہر فلم مغرب زدہ اور کاپی ہوتی ہے:rollingonthefloor:
 

شمشاد

لائبریرین
راشد بھائی ہندوستان کا تقریباً ہر فرد انگریزی سمجھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں تقریباً تیس بڑی زبانیں بولی جاتی ہیں، تو انہوں نے انگریزی کو کامن زبان بنا رکھا ہے۔ اب ہر فرد تو پندرہ بیس زبانیں نہیں بول سکتا۔ یہاں تک کہ ان کے ایک وزیر اعظم دیوی گوڑا کو ہندی نہیں آتی تھی۔
 

راشد احمد

محفلین
جدید علوم کے ارد و میں ترجمے کرکے حکومت کتب بنائے۔ اور انکو تمام اسکولوں میں رواج دے۔ہمیں‌کوئی ضروت نہیں ہے یہ سوچنی کہ جتنا مغرب کو کاپی کریں گے اتنا ہی ترقی کریں گے۔ براہ کرم اپنی سوچ کو تبدیل کریں۔

حکومت ایسا کیوں کرے؟ حکومت کے پاس بالکل وقت نہیں ہے ایسا کرنے کا۔ جاگیرداروں، سرمایہ داروں، بیوری کریسی، لٹیروں کی فوج سے یہ امید نہ رکھئے۔ میرے خیال میں حکومت ایسا نہیں کرنا چاہتی اگر لوگ پڑھ لکھ گئے تو یہ کس پر حکومت کریں گے؟

اس لئے یہ کام ہمیں‌خود ہی کرنا چاہئے فلاحی ادارے بنا کر ، جو زکوذ یا ٹیکس ہم حکومت کو دیتے ہیں ضروری ہے کہ اس سے خود ہی کچھ ایسا کر لیں۔
 

راشد احمد

محفلین
راشد بھائی ہندوستان کا تقریباً ہر فرد انگریزی سمجھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں تقریباً تیس بڑی زبانیں بولی جاتی ہیں، تو انہوں نے انگریزی کو کامن زبان بنا رکھا ہے۔ اب ہر فرد تو پندرہ بیس زبانیں نہیں بول سکتا۔ یہاں تک کہ ان کے ایک وزیر اعظم دیوی گوڑا کو ہندی نہیں آتی تھی۔

دیوگوڑا کون ہے ایک دن کا بادشاہ ؟
 

arifkarim

معطل
حکومت ایسا کیوں کرے؟ حکومت کے پاس بالکل وقت نہیں ہے ایسا کرنے کا۔ جاگیرداروں، سرمایہ داروں، بیوری کریسی، لٹیروں کی فوج سے یہ امید نہ رکھئے۔ میرے خیال میں حکومت ایسا نہیں کرنا چاہتی اگر لوگ پڑھ لکھ گئے تو یہ کس پر حکومت کریں گے؟

اس لئے یہ کام ہمیں‌خود ہی کرنا چاہئے فلاحی ادارے بنا کر ، جو زکوذ یا ٹیکس ہم حکومت کو دیتے ہیں ضروری ہے کہ اس سے خود ہی کچھ ایسا کر لیں۔

فلاحی ادارے بھی تو حکومت کی اجازت کے بغیر اردو کتب کو رواج نہیں دے سکتے نا، جبتک اردو ٹیکسٹ بورڈز نہ مطمئن ہوں:(
 

طالوت

محفلین
یہی تو ہماری اخلاقی پستی ہے کہ ہم غیروں کی زبان میں تعلیم حاصل کرنا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ آکسفورڈ اور کیمبرج کی کتب اسکولوں میں رائج کرا کر اپنے بچوں کو بہت پڑھا لکھا سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی طالب علم او لیول کرے تو ماشاءاللہ، اگر میٹرک کرے تو فٹے منہ! کاش اگر ہم اپنے تعلیمی نظام کو فروغ دیتے تو ہمیں‌مغربیوں کے جوتے چاٹنے کی نوبت نہ آتی۔ بجائے یہ کہ ہم اپنے تعلیمی نظام میں‌جدت پیدا کریں ، الٹا امپورٹڈ نظام کو رواج دیا جا رہا ہے:mad:
تھوڑی سی + سوچ برادر ! :) پہلی بات تو یہ آپ سارے پاکستان کو ایک چھڑی سے ہانکنا چھوڑ دیں ۔۔ نہ تو سب اس پر فخر کرتے ہیں اور نہ سارے فٹے منہ ۔۔
یہ جو آپنے لکھا کہ ’’انگریزی زبان کسی احساس کمتری کی وجہ سے نہیں بلکہ آگے بڑھنے کے لیے سیکھتی ہے ‘‘ یہاں آگے بڑھنے سے کیا مراد ہے؟ کیا غیروں کی غلامی میں‌آگے بڑھنے کیلئے؟ یا اپنے وطن سے دوری میں آگے بڑھنے کیلئے انگریزی سیکھتی ہے:confused:
انگریزی آگے بڑھنے کے لیے اس بچے کے لیے جس کا باپ مزدور ہے اور اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر وہ اسے اس لیے نہیں پڑھاتا کہ وہ پڑھ لکھ کر چنے بیچے ، کیونکہ پاکستان کے سرکاری ادراے ہوں یا نجی ہر جگہ انگریزی ہی چلتی ہے اسلئیے وہ انگریزی کو اردو پر فوقیت دیتے ہیں ،مگر اردو کوئی بھولا تو نہیں نا ۔۔
دوسرا انگریزی زبان کوئی چھوٹا نقطہ نہیں ہے۔ جب آپ بچپن سے پچپن تک صرف انگریزی میں ہی تعلیم حاصل کریں گے تو پاکستان کو کیا دیں گے۔ ظاہر ہے اعلیٰ تعلیم کیلئے دیار غیر تو جانا ہی ہے۔ اور واپس کونسا پاکستان میں آکر کرپٹ معاشرے میں نوکری کرنی ہے۔ یا اسکی فلاح کیلئے کام کرنا ہے۔ واپس آکر بیرونی ڈگریوں کیساتھ ملک کو ہی لوٹنا ہے نا! تو اعلیٰ تعلیم کی پھر کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے :laughing: جو علم آپکے اور آپکے وطن کے کام ہی نہ آئے۔
بچپن سے پچپن والے کتنے فیصد ہیں پاکستان میں ؟ مگر نظام سارا انھی کے ہاتھ ہے ۔۔
جدید علوم کے ارد و میں ترجمے کرکے حکومت کتب بنائے۔ اور انکو تمام اسکولوں میں رواج دے۔ہمیں‌کوئی ضروت نہیں ہے یہ سوچنی کہ جتنا مغرب کو کاپی کریں گے اتنا ہی ترقی کریں گے۔ براہ کرم اپنی سوچ کو تبدیل کریں۔
یہ کی نا کام کی بات ۔۔ مگر مغرب کو کاپی کرنا اور کسی ملک کی زبان سیکھنا حصول علم کے لیے دو مختلف باتیں ہیں ۔۔ یہ ضرور ہے کہ ہمیں اپنے لوگوں کے درمیان اردو یا ہماری علاقائی زبان میں بات چیت کرنا چاہیے ۔۔ اس پر اعتراض ہو ہی نہیں سکتا ۔۔
وسلام
 

طالوت

محفلین
راشد بھائی ہندوستان کا تقریباً ہر فرد انگریزی سمجھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں تقریباً تیس بڑی زبانیں بولی جاتی ہیں، تو انہوں نے انگریزی کو کامن زبان بنا رکھا ہے۔ اب ہر فرد تو پندرہ بیس زبانیں نہیں بول سکتا۔ یہاں تک کہ ان کے ایک وزیر اعظم دیوی گوڑا کو ہندی نہیں آتی تھی۔

:idontknow::idontknow:
ان کا نظام تعلیم ہم سے بہتر ضرور ہے ۔۔
وسلام
 

arifkarim

معطل
انگریزی آگے بڑھنے کے لیے اس بچے کے لیے جس کا باپ مزدور ہے اور اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر وہ اسے اس لیے نہیں پڑھاتا کہ وہ پڑھ لکھ کر چنے بیچے ، کیونکہ پاکستان کے سرکاری ادراے ہوں یا نجی ہر جگہ انگریزی ہی چلتی ہے اسلئیے وہ انگریزی کو اردو پر فوقیت دیتے ہیں ،مگر اردو کوئی بھولا تو نہیں نا ۔۔

بچپن سے پچپن والے کتنے فیصد ہیں پاکستان میں ؟ مگر نظام سارا انھی کے ہاتھ ہے ۔۔

یہی تو میں کہہ رہا کہ ہمیں تعلیمی نظام میں تبدیلی لانی ہوگی ۔ مغربی نظام رائج ہونے کے باوجود ہماری ڈگریوں کی مغربی ممالک میں کوئی حیثیت نہیں۔ جب ہماری ڈگریوں کی ویسے ہی بیرون ممالک میں کوئی عزت نہیں تو پھر مسلسل انگریزی نظام کی رٹ کیوں لگائی جا رہی ہے؟ اپنےملک میں ’’اپنی‘‘ قومی زبان رائج کرو۔ دفتری زبان بھی اردو کرو کہ کم از کم ایک زبان پر تو عبور حاصل ہو :biggrin:

ہمارا تو یہ حال ہے کہ ’’کوا چلا ہنس ہی کی چال تو اپنی بھی بھول گیا!‘‘ :rollingonthefloor:
 

طالوت

محفلین
یہی تو میں کہہ رہا کہ ہمیں تعلیمی نظام میں تبدیلی لانی ہوگی ۔ مغربی نظام رائج ہونے کے باوجود ہماری ڈگریوں کی مغربی ممالک میں کوئی حیثیت نہیں۔ جب ہماری ڈگریوں کی ویسے ہی بیرون ممالک میں کوئی عزت نہیں تو پھر مسلسل انگریزی نظام کی رٹ کیوں لگائی جا رہی ہے؟ اپنےملک میں ’’اپنی‘‘ قومی زبان رائج کرو۔ دفتری زبان بھی اردو کرو کہ کم از کم ایک زبان پر تو عبور حاصل ہو :biggrin:
ہمارا تو یہ حال ہے کہ ’’کوا چلا ہنس ہی کی چال تو اپنی بھی بھول گیا!‘‘ :rollingonthefloor:
بھئی مان گیا ، مجھ سے تو "چند" اراکین خوامخواہ ناراض ہیں کہ تنقید بہت کرتا ہوں ، مگر یقین کریں آپ مجھ سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں ;) ۔۔ ارے بھائی میے مغربی ممالک میں بےشک ہماری ڈگریاں ردی کے ٹکڑے ہیں مگر وہ ردی کے ٹکڑے انھیں اداروں کے ہیں جنھیں ہم سرکاری ادارے کہتے ہیں ۔۔ جن اداروں میں غیر ملکی اساتذہ تعلیم دیتے ہیں اور ڈالروں میں فیس دی جاتی ہے ان کے ساتھ ایسا معاملہ بالکل نہیں ۔۔ البتہ ان ردی کے ٹکڑوں پر بہت ہیں نام کمانے والے ، گنوانے کی ضرورت نہیں ۔۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمتی ، وقت کے ساتھ ساتھ اردو کو اختیار کیا جا سکتا ہے مگر ابھی انھیں انگریزی میں پڑھ لینے دیں " پلیزززززززززززززز "
:notlistening: :notlistening:
وسلام
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ہم لوگ مختلف حصوں میں بٹے ہوئے ہیں پشتون، پنجابی، بلوچی، سرائیکی، سندھی

میری نظر میں یہ فرق سیاسی جماعتیں کرتی ہیں جو صرف ایک صوبے تک محدود ہیں اور صرف اپنے علاقے کے بارے میں سوچتے ہیں اور صوبائی تعصب پھیلاتے ہیں۔ میرے خیال میں ان جماعتوں پر فی الفور پابندی لگادی جائے

دوسرا یہ کہ صوبوں کے نام بھی تبدیل کردینے چاہئیں تاکہ پنجاب سے پنجابی، سندھ سے سندھی، بلوچستان سے بلوچی کا فرق ہی ختم ہوجائے اور ہر صوبے کو مزید دو یا تین حصوں میں تقیسم کرکے نئے صوبے بنا دئیے جائیں۔

سارے ملک میں اردو زبان رائج کردی جائے اور علاقائی زبانوں پر پابندی لگادی جائے۔ شاید ہم ایسا نہ کرسکیں لیکن اتنا تو کرسکتے ہیں کہ سرکاری ونجی اداروں، سکولوں، کالجوں میں علاقائی زبان بولنے پر پابندی لگادی جائے۔

بھائی اگر زبان تبدیل ہو جائے تو شاید کچھ مسئلہ حل ہوجائے میں یہاں سرحد کے لوگوں کو جانتا ہوں جو یہاں اردو بولتے ہیں لیکن اگر کسی محفل میں بیٹھے ہوں تو اپنے پشتون بھائی سے پشتو میں بات کرنا شروع ہوجاتے ہیں جو محفل کے آداب کے منافی ہے۔

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ صوبائی تعصب ہے جو ہمیں کبھی ایک قوم نہیں بننے دے گا۔

اگر آپ دنیا کے کامیاب تعلیمی نظام دیکھیں تو ان میں علاقائی زبانوں کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔ خصوصاً پرائمری سطح پر۔
ہاں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اردو کو بطور قومی و سرکاری زبان سنجیدگی سے لینا بہت ضروری ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
یہی تو میں کہہ رہا کہ ہمیں تعلیمی نظام میں تبدیلی لانی ہوگی ۔ مغربی نظام رائج ہونے کے باوجود ہماری ڈگریوں کی مغربی ممالک میں کوئی حیثیت نہیں۔ جب ہماری ڈگریوں کی ویسے ہی بیرون ممالک میں کوئی عزت نہیں تو پھر مسلسل انگریزی نظام کی رٹ کیوں لگائی جا رہی ہے؟ اپنےملک میں ’’اپنی‘‘ قومی زبان رائج کرو۔ دفتری زبان بھی اردو کرو کہ کم از کم ایک زبان پر تو عبور حاصل ہو :biggrin:

ہمارا تو یہ حال ہے کہ ’’کوا چلا ہنس ہی کی چال تو اپنی بھی بھول گیا!‘‘ :rollingonthefloor:

بھئی مان گیا ، مجھ سے تو "چند" اراکین خوامخواہ ناراض ہیں کہ تنقید بہت کرتا ہوں ، مگر یقین کریں آپ مجھ سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں ;) ۔۔ ارے بھائی میے مغربی ممالک میں بےشک ہماری ڈگریاں ردی کے ٹکڑے ہیں مگر وہ ردی کے ٹکڑے انھیں اداروں کے ہیں جنھیں ہم سرکاری ادارے کہتے ہیں ۔۔ جن اداروں میں غیر ملکی اساتذہ تعلیم دیتے ہیں اور ڈالروں میں فیس دی جاتی ہے ان کے ساتھ ایسا معاملہ بالکل نہیں ۔۔ البتہ ان ردی کے ٹکڑوں پر بہت ہیں نام کمانے والے ، گنوانے کی ضرورت نہیں ۔۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمتی ، وقت کے ساتھ ساتھ اردو کو اختیار کیا جا سکتا ہے مگر ابھی انھیں انگریزی میں پڑھ لینے دیں " پلیزززززززززززززز "
:notlistening: :notlistening:
وسلام

ہماری ڈگریوں کی اہمیت نہ ہونے کی بنیادی وجہ ذریعہء تعلیم نہیں بلکہ تعلیمی سال ہے۔ ہمارے یہاں ماسٹرز 16 سال میں ہوتا ہے جبکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ماسٹرز ڈگری کے لئے 18 سال کی پڑھائی شرط ہے۔ دوسری وجہ ہمارا نصاب ہے۔ جو نصاب ہمارے یہاں کالج کی سطح پر پڑھایا جاتا ہے وہ ان ممالک میں سکول کے نصاب میں شامل ہوتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
کیا بیرونی ممالک میں بھی پرائمری اور مڈل / میٹرک کی سطح تک ہر کلاس میں چھ سے آٹھ مضامین پڑھائے جاتے ہیں؟
 

arifkarim

معطل
کیا بیرونی ممالک میں بھی پرائمری اور مڈل / میٹرک کی سطح تک ہر کلاس میں چھ سے آٹھ مضامین پڑھائے جاتے ہیں؟

جی ہاں، کم از کم ناروے میں تو اتنے ہی مضامین ہوتے ہیں:
انگریزی
نارویجن(لسانیات)
حساب
سائنس
معاشرتی علوم
تاریخ
مذہب
کھیل کود(پریکٹکل ورک)
 
Top