سچ تو یہ ہے!

طالوت

محفلین
سر پیٹتے بیٹے ، آنسو بہاتی مائیں ، سسکتے بلکتے بچے ، افسردہ گم سم بوڑھے ، غرض یہ کہ جس طرف نظر دوڑائیں تو بچہ بھوکا ہے تو مسلم ، عزت تارتار ہے تو مسلم ، جاہل ہیں تو مسلم ، قدرتی آفتوں میں مرتا ہے تو مسلم ، انتہا پسند ہے تو مسلم ، انسان بک رہا ہے تو مسلم ، مر رہا ہے تو مسلم ، دنیا کی شاید ہی کوئی ایسی ذلت ہو جس کا طوق مسلم کی گردن پر نہ سجا ہو ۔۔ اور جواب میں مسلم کیا ہے ؟ بھانت بھانت کی بولیاں ، زمین کے ٹکڑوں پہ لڑنا جھگڑنا ، عرب و عجم کا بےہودہ نعرہ ، خاندان و قبیلے کی برتری ، کام چوری ، علم سے بیزاری ، اقرباء پروری ، عدم مساوات ، کمزور کے لیے قانون کی پاسداری ، طاقتور کے لئیے قانون گھر کی لونڈی ، غریب بچے کو پیٹ کے لالے ، امیر بچے کی تعلیم یورپ و امریکہ ، ایک مشک میں روز نہاتا ہے ، دوسرا اپنی ہی بو سے گھبراتا ہے ، ایک پچاس ہزار کے سوٹ پر اتراتا ہے ، ایک برہنگی چھپانے کو ٹاٹ لٹکاتا ہے ، ایک کے بالوں میں چاندی اتر آتی ہے ، ایک سونے میں تولی جاتی ہے ، ایک "حلالے" میں مست ، دوسرا سر جھکائے پست ، ایک کی زندگی تفریح سے خالی ، دوسرے کا وطن "بالی" ، ایک کے ہاتھ میں کوئلوں کا منجن ، دوسرے کا مطب لندن ، کیا قومیں ان خلیجوں کے ساتھ ترقی کا سفر کیا کرتی ہیں ؟
سچ تو یہ ہے کہ قومیں اپنے ارادے و عمل سے آگے بڑھتی ہیں ۔۔ سیدنا احمد (علیۃ الصلوۃ و سلام) کی مکی و مدنی زندگی بالترتیب اس ارادے و عمل کا ایک ایسا نادر نمونہ ہے جس کی مثال دینے سے مشرق و مغرب کی ہزار ہا صدیاں و باشندے قاصر ہیں ۔۔ دنیا جانتی ہے کہ 23 برسوں کے اس مضبوط ارادے اور بہترین عمل نے ایک ایسی چھوٹی سی قوم تشکیل دی جس نے اگلے محض 13 برسوں میں مشرق و مغرب کی تاریخ کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا کہ شاید ہی دنیا کبھی اس تاریخ کو دہرا سکے ۔۔ اپنے پیر کامل سے حاصل شدہ الھدٰی سے عدل و انصاف کے ان مٹ نقوش چھوڑنے والے یہ عظیم لوگ دنیا کے ہر جبر ہر ظلم کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندتے چلے گئے ۔۔ کجھوروں کی پوٹلی اور پانی کی چھاگل سے ایک ایسا نظام قائم کرنا جس کی نظیر نہ کبھی ملتی ہو نہ آئندہ ملنے کی امید ہو یقیننا قابل غور ہے ۔۔ مگر ہمارا سارا غور ، سارا زور اس بات پر ہے ؟ کہ آیا چند کجھوروں اور پانی کی بوندوں سے کیسے لاکھوں مربع میل میں بسی سینکڑوں اقوام کو عدل مہیا کیا گیا ، کیونکر ہر تن ڈھانکا گیا ، کیونکر ہر شکم بھرا گیا ، کس طرح سے انسان کی فلاح ممکن ہوئی ۔۔ نہیں یقیننا نہیں ! ہمیں تو بس اس بات کی فکر ہے کہ کس طرح میرے گروہ کی برتری و فضیلت ثابت ہو ، کس طرح سے میں اپنی انا کو تسکین دینے کی خاطر کسی کو طنز و تضحیک کا نشانہ بناؤں ، کس طرح سے میرا گروہ ممتاز اور بڑا نظر آئے ، ہر ایک اپنی ڈیڑھ اینٹ کو سینے سے چمٹائے خود کو برحق اور دوسرے باطل قرار دینے میں جٹا ہے ، مگر سب کے سب ذلیل ، خوار ، پستیوں میں گھرے ۔۔ آج ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اپنے معمولی اور بےجا اختلافات پس پشت ڈال کر خود کو ارادے و عمل کے حوالے کریں ، ہر اس بات سے گریز کریں جو نفرت میں اضافے کا سبب ہو ، ایک دوسرے کا لحاظ کریں ، بغیر کسی مصلحت یا اندیشے کے ایک دوسرے کی مدد کریں ، اپنے دروازوں کو ہر ہر مسلم کے لیے ہر ہر لمحے کھلا رکھیں ، بھائی چارے کی فضاء کے لیے عدم تشدد اور برداشت کا مظاہرہ کریں ، کانٹے بونے کی بجائے رستوں کا صاف کریں لیکن کیا یہ سب تقریروں یا تحریروں سے ممکن ہو گا ؟ جناب اس کے لیے ایک مضبوط ارادہ باندھیں ، ایک دوسرے سے عہد کریں ، کوئی بھٹکنے لگے تو اسے اس کا عہد یاد دلائیں ، اپنی ذات کے خول سے نکل کر اجتماعی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر اس عمل کی حوصلہ شکنی کریں جس سے نفرتوں کو ہوا ملتی ہو ، یاد رکھیے جس نفرت میں آپ کسی کو جلانا چاہ رہے ہیں نفرت کی وہ آگ دراصل آپ کے اپنے آپے کو ہی جلائے جا رہی ہے ۔۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اور دوسرے بچوں کو تعلیمی میدان میں دھکیلیں ، اخلاقی پستی سے نکلیں ، جدید علم نہ صرف حاصل کریں بلکہ دوسروں کو اس طرف راغب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی راہنمائی بھی کریں ، اپنے جیب خرچ یا آمدنی میں سے چھوٹے چھوٹے گروپس کی صورت میں ایسے لوگوں کے لیے کتابوں ، لباس و خواراک کا اہتمام کریں جو اس سے محروم ہیں ، ذہین افراد کے لیے تعلیمی وظائف کا اہتمام کریں ، سینکڑوں ایسے کام ہیں جن کو سر انجام سے کر ہم اپنی دنیا اور عاقبت دونوں سنوار سکتے ہیں ۔۔ کسی ادارے کو اپنی قیمتی رقم دے کر یخود کو یہ تسلی دے لینا کہ ہم نے تو نیک نیتی کے ساتھ دیا اب وہ جانیں اور خدا ، بھی اپنے فرائض سے غفلت ہے ۔۔ ہمارا ایک ایک قطرہ ایک ایسے دریا کو جنم دے گا جو طاغوت کی طاقتوں کو لے ڈوبے گا ، ایک دن میں ہم کچھ بھی بدل نہیں سکتے ہمارا ہر چھوٹے سے چھوٹا عمل ایک بڑے نتیجے کی صورت ظاہر ہو گا اس لیے کسی بھی اچھے کام کو معمولی یا فضول سمجھ کر اس سے صرف نظر نہ کریں ۔۔ کب تک ہم اپنے شاندار ماضی پر چمکتی آنکھوں اور برے حال پر نمناک آنکھوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے چلے جائیں گے ، سال نو کا آغاز ہو چکا ہے اس سال پر کم از کم یہ عہد تو ہمیں کرنا ہی چاہیے کہ بہت ہو چکیں نفرتیں اب کچھ پل محبت کے بھی !

----------
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔۔
وسلام
 

شمشاد

لائبریرین
اس کی وجہ مسلمانوں کا آپس میں پارہ پارہ ہونا اور مسلم مخالفوں کا مسلمانوں کے خلاف متحد ہوتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
طالوت بھائی، آپ بھی عجیب بات کرتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو دور جدید کا علم دیکر بھی اس بحران سے نہیں نکل سکتے، کیونکہ ’’اعلیٰ‘‘ تعلیم کیلئے بہر حال ہمیں مغربیوں کے جوتے تو چاٹنے ہی پڑیں گے۔ بعد میں جو چاٹنے ہیں تو ابھی چاٹنے میں کیا تکلیف ہے؟
 

طالوت

محفلین
اس کی وجہ مسلمانوں کا آپس میں پارہ پارہ ہونا اور مسلم مخالفوں کا مسلمانوں کے خلاف متحد ہوتا ہے۔
افسوسناک بات تو یہ ہے کہ اقوام عالم ہمیں بطور ایک قوم "ٹریٹ" کرتی ہیں مگر ہمی ایک قوم بننے کو تیار نہیں۔۔
طالوت بھائی، آپ بھی عجیب بات کرتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو دور جدید کا علم دیکر بھی اس بحران سے نہیں نکل سکتے، کیونکہ ’’اعلیٰ‘‘ تعلیم کیلئے بہر حال ہمیں مغربیوں کے جوتے تو چاٹنے ہی پڑیں گے۔ بعد میں جو چاٹنے ہیں تو ابھی چاٹنے میں کیا تکلیف ہے؟
اگر انھوں نے الکندی ، ابن رشد ، ابوالہیثم کے جوتے چاٹے ہیں تو ہمیں کیا تکلیف ہے ؟ مگر ہمارے پاس اتنے وسائل ہیں کہ ہم بغیر جوتے چاٹے بھی یہ سب کر سکتے ہیں ۔۔ صرف درست راستے کا تعین کرنا ضروری ہے۔۔
وسلام
 

arifkarim

معطل
اگر انھوں نے الکندی ، ابن رشد ، ابوالہیثم کے جوتے چاٹے ہیں تو ہمیں کیا تکلیف ہے ؟ مگر ہمارے پاس اتنے وسائل ہیں کہ ہم بغیر جوتے چاٹے بھی یہ سب کر سکتے ہیں ۔۔ صرف درست راستے کا تعین کرنا ضروری ہے۔۔
وسلام

شاباش! اب سب سے پہلے ہمارا لائحہ عمل یہ ہونا چاہیے کہ ہم تعلیمی نظام اپنی قومی زبان ’’اردو ‘‘ میں رائج کریں۔
 

راشد احمد

محفلین
شاباش! اب سب سے پہلے ہمارا لائحہ عمل یہ ہونا چاہیے کہ ہم تعلیمی نظام اپنی قومی زبان ’’اردو ‘‘ میں رائج کریں۔

اردو میں تعلیمی نظام کا حال دیکھ لیں وہی ٹاٹوں والے سکول جو ہمارے زمانے میں ہوتے تھے۔استاد کا طالب علم کو پڑھانے کی بجائے رٹا کی ترغیب دینا۔ گلی محلے والے سکولوں کا حال دیکھ لیں۔ ہمارے دفتروں کا حال دیکھ لیں ہماری سرکاری زبان اردو کے ساتھ ساتھ انگلش بھی ہے۔ جو انگلش بولتا ہے اسے پڑھا لکھا سمجھاجاتا ہے۔ ہماری اردو خراب ہوگئی ہے کیونکہ اس میں انگلش داخل ہوگئی ہے۔جب ہم اردو بولتے ہیں تو انگلش کے الفاط لازمی استعمال کرتے ہیں

میں‌ٹرائی کرتا ہوں۔ آئی تھنک یہ کام کمپلیٹ ہوجائے گا۔

جب ہم اپنی زبان صحیح نہیں بول سکتے تو اردو زبان میں تعلیم کا فائدہ سیدھا انگلش میڈیم کردیں سب کچھ تاکہ غیروں کے آگے
ہمارا اعتماد کم نہ ہو۔

ہر شخص کی بولی ہی علیحدہ ہے کوئی پنجابی بولتا ہے۔کوئی سندھی، کوئی پشتو، کوئی سرائیکی، کوئی بلوچی۔ ہم ایک قوم نہیں علیحدہ علیحدہ گروہ ہیں۔ جو سارا دن تماشہ دیکھ کر شام کو اپنے گھروں میں لوٹ جاتے ہیں۔
 

زین

لائبریرین
بہت خوب طالوت بھائی ۔

بہت اچھا لکھا ہے ۔ میری نظروں سے یہ تحریر ابھی گزری ہے ۔
 

طالوت

محفلین
جب ہم اپنی زبان صحیح نہیں بول سکتے تو اردو زبان میں تعلیم کا فائدہ سیدھا انگلش میڈیم کردیں سب کچھ تاکہ غیروں کے آگے ہمارا اعتماد کم نہ ہو۔

ہر شخص کی بولی ہی علیحدہ ہے کوئی پنجابی بولتا ہے۔کوئی سندھی، کوئی پشتو، کوئی سرائیکی، کوئی بلوچی۔ ہم ایک قوم نہیں علیحدہ علیحدہ گروہ ہیں۔ جو سارا دن تماشہ دیکھ کر شام کو اپنے گھروں میں لوٹ جاتے ہیں۔

بھائی پنجابی سندھی بلوچی پشتو وغیرہ تو ہماری علاقائی زبانیں ہیں ۔۔ انھیں تو ہم چھوڑنے سے رہے ۔۔اصل مسئلہ زبان کا نہیں۔۔
وسلام
 

راشد احمد

محفلین
بھائی پنجابی سندھی بلوچی پشتو وغیرہ تو ہماری علاقائی زبانیں ہیں ۔۔ انھیں تو ہم چھوڑنے سے رہے ۔۔اصل مسئلہ زبان کا نہیں۔۔
وسلام

ہم لوگ مختلف حصوں میں بٹے ہوئے ہیں پشتون، پنجابی، بلوچی، سرائیکی، سندھی

میری نظر میں یہ فرق سیاسی جماعتیں کرتی ہیں جو صرف ایک صوبے تک محدود ہیں اور صرف اپنے علاقے کے بارے میں سوچتے ہیں اور صوبائی تعصب پھیلاتے ہیں۔ میرے خیال میں ان جماعتوں پر فی الفور پابندی لگادی جائے

دوسرا یہ کہ صوبوں کے نام بھی تبدیل کردینے چاہئیں تاکہ پنجاب سے پنجابی، سندھ سے سندھی، بلوچستان سے بلوچی کا فرق ہی ختم ہوجائے اور ہر صوبے کو مزید دو یا تین حصوں میں تقیسم کرکے نئے صوبے بنا دئیے جائیں۔

سارے ملک میں اردو زبان رائج کردی جائے اور علاقائی زبانوں پر پابندی لگادی جائے۔ شاید ہم ایسا نہ کرسکیں لیکن اتنا تو کرسکتے ہیں کہ سرکاری ونجی اداروں، سکولوں، کالجوں میں علاقائی زبان بولنے پر پابندی لگادی جائے۔

بھائی اگر زبان تبدیل ہو جائے تو شاید کچھ مسئلہ حل ہوجائے میں یہاں سرحد کے لوگوں کو جانتا ہوں جو یہاں اردو بولتے ہیں لیکن اگر کسی محفل میں بیٹھے ہوں تو اپنے پشتون بھائی سے پشتو میں بات کرنا شروع ہوجاتے ہیں جو محفل کے آداب کے منافی ہے۔

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ صوبائی تعصب ہے جو ہمیں کبھی ایک قوم نہیں بننے دے گا۔
 

arifkarim

معطل
شاید ہم ایسا نہ کرسکیں لیکن اتنا تو کرسکتے ہیں کہ سرکاری ونجی اداروں، سکولوں، کالجوں میں علاقائی زبان بولنے پر پابندی لگادی جائے۔
یہ ملک کی آزادی رائے کےمنافی ہے۔ ہر شخص کو حق حاصل ہے، اسکولوں، کالجوں میں اپنے مرضی کی زبان بول سکتا ہے۔ ہاں دفتری زبان بیشک ایک ہونی چاہیے اور انگلش ختم کرکے اردو رائج ہونی چاہیے!
 

طالوت

محفلین
صوبوں کے نام بھی تبدیل کردینے چاہئیں تاکہ پنجاب سے پنجابی، سندھ سے سندھی، بلوچستان سے بلوچی کا فرق ہی ختم ہوجائے اور ہر صوبے کو مزید دو یا تین حصوں میں تقیسم کرکے نئے صوبے بنا دئیے جائیں۔
آپ کی تمام تجاویز رد کی جاتی ہیں:) ۔۔ صوبوں کی مزید تقسیم پر جو سول وار ہو گی اس کا آپ کو اندازہ نہیں ۔۔ اور جب چار صوبے اکھٹے نہیں بیٹھ سکتے تو آٹھ کیسے بیٹھیں گے ۔۔ ون یونٹ میں ڈویژن کا نظام شاید کچھ تبدیلی لاسکے اس طرح سے صوبے اور صوبائی اسمبلیوں کی پخ سے بھی چھٹکارا مل جائے گا ، ذریعہ تعلیم اردو ہی ہو یہ کوئی لازمی نہیں۔۔ تعلیم ہونی چاہیے چاہے کسی زبان میں بھی ہو ۔۔ کیونکہ اردو فی الحال اتنی صلاحیت نہیں رکھتی کہ بغیر انگریزی یا کسی دوسری زبان کی مدد کے موجودہ دور کے تقاضوں پر پورا اتر سکے ۔۔ وسلام
 

arifkarim

معطل
تعلیم ہونی چاہیے چاہے کسی زبان میں بھی ہو ۔۔ کیونکہ اردو فی الحال اتنی صلاحیت نہیں رکھتی کہ بغیر انگریزی یا کسی دوسری زبان کی مدد کے موجودہ دور کے تقاضوں پر پورا اتر سکے ۔۔ وسلام

انگلش میں تعلیم حاصل کرنے کا انجام تو آپکے سامنے ہی ہے۔ نہ اپنی زبان سے محبت، نہ اپنے ملک سے محبت قائم رہتی ہے۔ غیروں کی زبان میں تعلیم حاصل کریں گے تو مزید ’’غدار‘‘ پیدا ہوں گے۔ آپکا یہ کہنا کہ اردو اس دور کے تقاضے پورے نہیں کرتی، آپکے اپنے احساس کمتری کا ثبوت ہے!!!
چینیوں نے ترقی اپنی زبان میں کی، جاپانیوں نے ترقی اپنی زبان میں کی۔ جبکہ ہم ابھی بھی غلامی کا خون لیے جی رہے ہیں۔:(
 

arifkarim

معطل
انگریز نےپوری دنیا پر حکومت کی لیکن صرف ایک ’’غیر زبان‘‘ ایک عرصہ تک اپنائی۔ اور وہ زبان ’’اردو‘‘ تھی!
 

راشد احمد

محفلین
آپ کی تمام تجاویز رد کی جاتی ہیں:) ۔۔ صوبوں کی مزید تقسیم پر جو سول وار ہو گی اس کا آپ کو اندازہ نہیں ۔۔ اور جب چار صوبے اکھٹے نہیں بیٹھ سکتے تو آٹھ کیسے بیٹھیں گے ۔۔ ون یونٹ میں ڈویژن کا نظام شاید کچھ تبدیلی لاسکے اس طرح سے صوبے اور صوبائی اسمبلیوں کی پخ سے بھی چھٹکارا مل جائے گا ، ذریعہ تعلیم اردو ہی ہو یہ کوئی لازمی نہیں۔۔ تعلیم ہونی چاہیے چاہے کسی زبان میں بھی ہو ۔۔ کیونکہ اردو فی الحال اتنی صلاحیت نہیں رکھتی کہ بغیر انگریزی یا کسی دوسری زبان کی مدد کے موجودہ دور کے تقاضوں پر پورا اتر سکے ۔۔ وسلام

ون یونٹ کے نظام کا انجام آپ نے یحیی دور میں دیکھ لیا ہے جیسے ہی ون یونٹ ختم ہوا ملک کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ میں صوبوں کے مزید حصوں کے حق میں ہوں‌لیکن پہلے ان چھوٹی اور علاقائی جماعتوں اے این پی، جے یو آئی، ایم کیو ایم، بی این پی پر پابندی لگا کر یہ کام کیا جائے تو کوئی سول وار نہیں ہوگی۔ یہی جماعتیں نہ صرف بڑی جماعتوں کو بلیک میل کرتی ہیں بلکہ دو سیٹیں جیت کر بڑے عہدوں کے خواب دیکھتی ہیں ویسے بھی ملک میں اتنی جماعتیں نہیں ہونی چاہیئے دو جماعتی نظام ہوامریکہ اور برطانیہ کی طرح

جب بھی کوئی کسی پارٹی سے نکالا جاتا ہے یا پارٹی چھوڑ دیتا ہے تو اپنی جماعت کھڑی کر لیتا ہے اور بکواس کرنا شروع کردیتا ے۔

ویسے ون یونٹ اگر بنایا بھی جائے تو اسے ختم نہ کیا جائے
 

طالوت

محفلین
صرف اردو زبان میں ترقی کی ضد میں شاید ہم چار پانچ سو سال میں ترقی کر ہی لیں ترقی یافتہ اقوام سے ترقی کے معاملے میں تو ہم اب بھی سو برس پیچھے ہیں ہی ۔۔ چینی یا جاپانی اگر کسی اور زبان میں بھی اسی قدر محنت کرتے جتنی انھوں نے کی ہے تو وہ آج بھی وہیں ہوتے جہاں وہ ہیں ۔۔

بلاشبہ ، ون یونٹ ہمارے بہت سے مسائل کا حل ہے ۔۔
وسلام
 

مغزل

محفلین
سر پیٹتے بیٹے ، آنسو بہاتی مائیں ، سسکتے بلکتے بچے ، افسردہ گم سم بوڑھے ، غرض یہ کہ جس طرف نظر دوڑائیں تو بچہ بھوکا ہے تو مسلم ، عزت تارتار ہے تو مسلم ، جاہل ہیں تو مسلم ، قدرتی آفتوں میں مرتا ہے تو مسلم ، انتہا پسند ہے تو مسلم ، انسان بک رہا ہے تو مسلم ، مر رہا ہے تو مسلم ، دنیا کی شاید ہی کوئی ایسی ذلت ہو جس کا طوق مسلم کی گردن پر نہ سجا ہو ۔۔ اور جواب میں مسلم کیا ہے ؟ بھانت بھانت کی بولیاں ، زمین کے ٹکڑوں پہ لڑنا جھگڑنا ، عرب و عجم کا بےہودہ نعرہ ، خاندان و قبیلے کی برتری ، کام چوری ، علم سے بیزاری ، اقرباء پروری ، عدم مساوات ، کمزور کے لیے قانون کی پاسداری ، طاقتور کے لئیے قانون گھر کی لونڈی ، غریب بچے کو پیٹ کے لالے ، امیر بچے کی تعلیم یورپ و امریکہ ، ایک مشک میں روز نہاتا ہے ، دوسرا اپنی ہی بو سے گھبراتا ہے ، ایک پچاس ہزار کے سوٹ پر اتراتا ہے ، ایک برہنگی چھپانے کو ٹاٹ لٹکاتا ہے ، ایک کے بالوں میں چاندی اتر آتی ہے ، ایک سونے میں تولی جاتی ہے ، ایک "حلالے" میں مست ، دوسرا سر جھکائے پست ، ایک کی زندگی تفریح سے خالی ، دوسرے کا وطن "بالی" ، ایک کے ہاتھ میں کوئلوں کا منجن ، دوسرے کا مطب لندن ، کیا قومیں ان خلیجوں کے ساتھ ترقی کا سفر کیا کرتی ہیں ؟
سچ تو یہ ہے کہ قومیں اپنے ارادے و عمل سے آگے بڑھتی ہیں ۔۔ سیدنا احمد (علیۃ الصلوۃ و سلام) کی مکی و مدنی زندگی بالترتیب اس ارادے و عمل کا ایک ایسا نادر نمونہ ہے جس کی مثال دینے سے مشرق و مغرب کی ہزار ہا صدیاں و باشندے قاصر ہیں ۔۔ دنیا جانتی ہے کہ 23 برسوں کے اس مضبوط ارادے اور بہترین عمل نے ایک ایسی چھوٹی سی قوم تشکیل دی جس نے اگلے محض 13 برسوں میں مشرق و مغرب کی تاریخ کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا کہ شاید ہی دنیا کبھی اس تاریخ کو دہرا سکے ۔۔ اپنے پیر کامل سے حاصل شدہ الھدٰی سے عدل و انصاف کے ان مٹ نقوش چھوڑنے والے یہ عظیم لوگ دنیا کے ہر جبر ہر ظلم کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندتے چلے گئے ۔۔ کجھوروں کی پوٹلی اور پانی کی چھاگل سے ایک ایسا نظام قائم کرنا جس کی نظیر نہ کبھی ملتی ہو نہ آئندہ ملنے کی امید ہو یقیننا قابل غور ہے ۔۔ مگر ہمارا سارا غور ، سارا زور اس بات پر ہے ؟ کہ آیا چند کجھوروں اور پانی کی بوندوں سے کیسے لاکھوں مربع میل میں بسی سینکڑوں اقوام کو عدل مہیا کیا گیا ، کیونکر ہر تن ڈھانکا گیا ، کیونکر ہر شکم بھرا گیا ، کس طرح سے انسان کی فلاح ممکن ہوئی ۔۔ نہیں یقیننا نہیں ! ہمیں تو بس اس بات کی فکر ہے کہ کس طرح میرے گروہ کی برتری و فضیلت ثابت ہو ، کس طرح سے میں اپنی انا کو تسکین دینے کی خاطر کسی کو طنز و تضحیک کا نشانہ بناؤں ، کس طرح سے میرا گروہ ممتاز اور بڑا نظر آئے ، ہر ایک اپنی ڈیڑھ اینٹ کو سینے سے چمٹائے خود کو برحق اور دوسرے باطل قرار دینے میں جٹا ہے ، مگر سب کے سب ذلیل ، خوار ، پستیوں میں گھرے ۔۔ آج ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اپنے معمولی اور بےجا اختلافات پس پشت ڈال کر خود کو ارادے و عمل کے حوالے کریں ، ہر اس بات سے گریز کریں جو نفرت میں اضافے کا سبب ہو ، ایک دوسرے کا لحاظ کریں ، بغیر کسی مصلحت یا اندیشے کے ایک دوسرے کی مدد کریں ، اپنے دروازوں کو ہر ہر مسلم کے لیے ہر ہر لمحے کھلا رکھیں ، بھائی چارے کی فضاء کے لیے عدم تشدد اور برداشت کا مظاہرہ کریں ، کانٹے بونے کی بجائے رستوں کا صاف کریں لیکن کیا یہ سب تقریروں یا تحریروں سے ممکن ہو گا ؟ جناب اس کے لیے ایک مضبوط ارادہ باندھیں ، ایک دوسرے سے عہد کریں ، کوئی بھٹکنے لگے تو اسے اس کا عہد یاد دلائیں ، اپنی ذات کے خول سے نکل کر اجتماعی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر اس عمل کی حوصلہ شکنی کریں جس سے نفرتوں کو ہوا ملتی ہو ، یاد رکھیے جس نفرت میں آپ کسی کو جلانا چاہ رہے ہیں نفرت کی وہ آگ دراصل آپ کے اپنے آپے کو ہی جلائے جا رہی ہے ۔۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اور دوسرے بچوں کو تعلیمی میدان میں دھکیلیں ، اخلاقی پستی سے نکلیں ، جدید علم نہ صرف حاصل کریں بلکہ دوسروں کو اس طرف راغب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی راہنمائی بھی کریں ، اپنے جیب خرچ یا آمدنی میں سے چھوٹے چھوٹے گروپس کی صورت میں ایسے لوگوں کے لیے کتابوں ، لباس و خواراک کا اہتمام کریں جو اس سے محروم ہیں ، ذہین افراد کے لیے تعلیمی وظائف کا اہتمام کریں ، سینکڑوں ایسے کام ہیں جن کو سر انجام سے کر ہم اپنی دنیا اور عاقبت دونوں سنوار سکتے ہیں ۔۔ کسی ادارے کو اپنی قیمتی رقم دے کر یخود کو یہ تسلی دے لینا کہ ہم نے تو نیک نیتی کے ساتھ دیا اب وہ جانیں اور خدا ، بھی اپنے فرائض سے غفلت ہے ۔۔ ہمارا ایک ایک قطرہ ایک ایسے دریا کو جنم دے گا جو طاغوت کی طاقتوں کو لے ڈوبے گا ، ایک دن میں ہم کچھ بھی بدل نہیں سکتے ہمارا ہر چھوٹے سے چھوٹا عمل ایک بڑے نتیجے کی صورت ظاہر ہو گا اس لیے کسی بھی اچھے کام کو معمولی یا فضول سمجھ کر اس سے صرف نظر نہ کریں ۔۔ کب تک ہم اپنے شاندار ماضی پر چمکتی آنکھوں اور برے حال پر نمناک آنکھوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے چلے جائیں گے ، سال نو کا آغاز ہو چکا ہے اس سال پر کم از کم یہ عہد تو ہمیں کرنا ہی چاہیے کہ بہت ہو چکیں نفرتیں اب کچھ پل محبت کے بھی !

----------
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔۔
وسلام

بہت خوب طالوت بھائی ۔
بحیثیتِ مجموعی کالم حقیقت پر مبنی ہے۔
کچھ باتوں پر اختلاف ہے مجھے ، مگر آپ کو آزادی ہے ۔
والسلام
 

طالوت

محفلین
اجازت ہو تو میں اپنے بلاگ میں شامل کرلوں
آپ جانتے ہیں نا کہ میں کسی قسم کے کاپی رائٹ ایکٹ کا حامی نہیں ہوں ۔۔ پھر یہ اجازت کیسی ؟ ویسے بھی میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ آپ کے بلاگ کا مجھ ناچیز کی کوئی تحریر حصہ بنے ۔۔
وسلام
 

زین

لائبریرین
ہم لوگ مختلف حصوں میں بٹے ہوئے ہیں پشتون، پنجابی، بلوچی، سرائیکی، سندھی

میری نظر میں یہ فرق سیاسی جماعتیں کرتی ہیں جو صرف ایک صوبے تک محدود ہیں اور صرف اپنے علاقے کے بارے میں سوچتے ہیں اور صوبائی تعصب پھیلاتے ہیں۔ میرے خیال میں ان جماعتوں پر فی الفور پابندی لگادی جائے

دوسرا یہ کہ صوبوں کے نام بھی تبدیل کردینے چاہئیں تاکہ پنجاب سے پنجابی، سندھ سے سندھی، بلوچستان سے بلوچی کا فرق ہی ختم ہوجائے اور ہر صوبے کو مزید دو یا تین حصوں میں تقیسم کرکے نئے صوبے بنا دئیے جائیں۔

سارے ملک میں اردو زبان رائج کردی جائے اور علاقائی زبانوں پر پابندی لگادی جائے۔ شاید ہم ایسا نہ کرسکیں لیکن اتنا تو کرسکتے ہیں کہ سرکاری ونجی اداروں، سکولوں، کالجوں میں علاقائی زبان بولنے پر پابندی لگادی جائے۔

بھائی اگر زبان تبدیل ہو جائے تو شاید کچھ مسئلہ حل ہوجائے میں یہاں سرحد کے لوگوں کو جانتا ہوں جو یہاں اردو بولتے ہیں لیکن اگر کسی محفل میں بیٹھے ہوں تو اپنے پشتون بھائی سے پشتو میں بات کرنا شروع ہوجاتے ہیں جو محفل کے آداب کے منافی ہے۔

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ صوبائی تعصب ہے جو ہمیں کبھی ایک قوم نہیں بننے دے گا۔

السلام علیکم!
جناب راشد احمد صاحب !

حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ملک متنوع ثقافتوں کا امین ہے جن کا اظہار مختلف علاقائی زبانوں کے ذریعہ کیا جاتا ہے ۔ یہ زبانیں‌اپنے اپنے علاقے کی ثقافتی علامتیں ہیں ۔

صوبوں‌میں‌اب بھی اردو پر تحفظات پائے جاتے ہیں اور علاقائی زبانوں پر پابندی لگا کر مزید تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔
 
Top