سچی مُحبّت نہ جسمانی ہوتی ہے نہ رومانی- ایک عمدہ تحریر

سچی مُحبّت نہ جسمانی ہوتی ہے نہ رومانی۔
وہ بہت مصروف صبح تھی کہ ساڑھے آٹھ بجے کے قريب ايک بوڑھا شخص جو 80 سال کا ہو گا اپنے انگوٹھے کے ٹانکے نِکلوانے کيلئے آيا۔ اُسے 9 بجے کا وقت ديا گيا تھا مگر وہ جلدی ميں تھا کہ اُسے 9 بجے کسی اور جگہ پہنچنا ہے۔ ميں نے اہم معلومات لے ليں اور اُسے بيٹھنے کيلئے کہا کيونکہ اس کی باری آنے ميں ايک گھنٹہ سے زيادہ لگ جانے کا اندازہ تھا۔ ميں نے ديکھا کہ وہ بار بار گھڑی پر نظر ڈال رہا ہے اور پريشان لگتا ہے۔ اُس بزرگ کی پريشانی کا خيال کرتے ہوئے ميں نے خود اُس کے زخم کا مُعائنہ کيا تو زخم مندمل ہوا ديکھ کر ميں نے ايک ڈاکٹر سے مطلوبہ سامان لے کر خود اُس کے ٹانکے نِکال کر پٹی کر دی۔
ميں نے اسی اثناء ميں بزرگ سے پوچھا کہ "کيا اُسے کسی اور ڈاکٹر نے 9 بجے کا وقت ديا ہوا ہے کہ وہ اتنی جلدی ميں ہے۔۔؟؟
وہ بولا کہ اُس نے ايک نرسنگ ہوم جانا ہے جہاں اُس نے 9 بجے اپنی بيوی کے ساتھ ناشتہ کرنا ہے
اُس پر ميں نے بزرگ کی بيوی کی صحت کے بارے ميں پوچھا تو بزرگ نے بتايا کہ اس کی بيوی الزائمر بيماری کا شکار ہونے کے بعد کچھ عرصہ سے نرسنگ ہوم ميں ہے
ميں نے پوچھا کہ "اگر وہ وقت پر نہ پہنچے تو اس کی بيوی ناراض ہو گی۔۔؟؟
اُس بزرگ نے جواب ديا کہ "وہ تو پچھلے 5 سال سے مجھے پہچانتی بھی نہيں ہے"
ميں نے حيران ہو کر پوچھا "اور آپ اس کے باوجود ہر صبح اپنی بيوی کے ساتھ ناشتہ کرتے ہيں۔۔؟؟ حالانکہ وہ پہچانتی بھی نہيں کہ آپ کون ہيں۔۔؟؟
بزرگ نے مسکرا کر کہا "درست کہ وہ مجھے نہيں جانتی مگر ميں تو اُسے جانتا ہوں کہ وہ کون ہے"
يہ سُن کر ميں نے بڑی مُشکل سے اپنے آنسُو روکے گو ميرا کليجہ منہ کو آ رہا تھا۔
ميں نے سوچا "يہ ہے مُحبّت جو ہر انسان کو چاہيئے"
 

عبد الرحمن

لائبریرین
کہانی اچھی ہے۔ البتہ یہ ہے کہ ایسے لوگ نایا ب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔
اللہ ایسی بے لوث محبت ہم سب کو عطا فرمائے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
بہت عمدہ تحریر ہے۔ اسے پڑھ کر قدرت اللہ شہاب کا افسانہ 'چندراوتی' یاد آگیا جس کا پہلا جملہ کچھ یوں ہے: جب مجھے چندراوتی سے محبت شروع ہوئی، اسے مرے ہوئے تیسرا روز تھا۔
 

ساقی۔

محفلین
یہ تحریر جاوید چوہدری کے ایک کالم سے لی گئی ہے۔ کافی عرصہ پہلے میں نے کالم پڑھا تھا ۔ اب یاد نہیں کس نام سے شائع ہوا تھا
 
بہت عمدہ تحریر ہے۔ اسے پڑھ کر قدرت اللہ شہاب کا افسانہ 'چندراوتی' یاد آگیا جس کا پہلا جملہ کچھ یوں ہے: جب مجھے چندراوتی سے محبت شروع ہوئی، اسے مرے ہوئے تیسرا روز تھا۔
کیا یہ بس اتنا ہی ہے ؟ :

جب مجھے چندراوتی سے محبت شروع ہویء اسے مرے ہوےء تیسرا دن تھا ۔۔۔۔۔۔
جب میں یہ افسانہ لکھ رہا تھا تو پروفیسر ڈکنسن کلاس لے کر حسب معمول لان سے گزرے،مجھے دیکھ کر رک گیے اور بولے ؛
Hello, roosting alone? Where is your golden girl?
میری آواز مچھلی کے کانٹے کی طرح میرے گلے میں پھنس گیء اور میں نے سسکیاں لے کر کہا ؛
Sir! She has reverted to the gold mine.

قدرت اللہ شہاب
 
Top