سُرُور بارہ بنکوی ::::: نہ کسی کو فکرِ منزِل، نہ کہیں سُراغِ جادہ ::::: Suroor Barahbankvi

طارق شاہ

محفلین

غزلِ


نہ کسی کو فکرِ منزِل، نہ کہیں سُراغِ جادہ
یہ عجیب کارواں ہے، جو رَواں ہے بے اِرادہ

یہی لوگ ہیں، ازل سے جو فریب دے رہے ہیں !
کبھی ڈال کر نقابیں، کبھی اَوڑھ کر لِبادہ

مِرے روز و شب یہی ہیں، کہ مجھی تک آ رہی ہیں !
تِرے حُسن کی ضیائیں کبھی کم، کبھی زیادہ

سرِ انجُمن تغافل کا صِلہ بھی دے گئی ہے
وہ نِگہ ! جو در حقیقت، تھی نِگاہ سے زیادہ

ہو برائے شامِ ہجراں، لبِ ناز سے فروزاں !
کوئی ایک شمعِ پَیماں، کوئی اِک چراغِ وعدہ

سُرُور بارہ بنکوی
 

کاشفی

محفلین
غزل
نہ کسی کو فکرِ منزِل، نہ کہیں سُراغِ جادہ
یہ عجیب کارواں ہے، جو رَواں ہے بے اِرادہ

 

کاشفی

محفلین
تعارفِ شاعر:
اردو کے ممتاز شاعر، فلم ساز اور ہدایت کار جناب سرور بارہ بنکوی کااصل نام سعید الرحمن تھا۔ وہ 30 جنوری 1919ء کو بارہ بنکی (یو پی۔بھارت) میں پیدا ہوئے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد پہلے کراچی اور پھر ڈھاکا میں سکونت اختیار کی۔جہاں انہوں نے فلم تنہا کے مکالمے لکھ کر اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا اور پھرچندا، تلاش، ناچ گھر، کاجل ، بہانہ، ملن، نواب سراج الدولہ، تم میرے ہو، آخری اسٹیشن،چاند اور چاندنی، احساس، سونے ندیا جاگے پانی اور کئی دیگر فلموں کے نغمات لکھے جو بہت مقبول ہوئے اسی دوران انہوں نے تین فلمیں آخری اسٹیشن، تم میرے ہو اور آشنا پروڈیوس اور ڈائریکٹ بھی کیں۔
آخری دنوں میں وہ بنگلہ دیش کے اشتراک سے ایک فلم ’’کیمپ 333‘‘ بنانا چاہتے تھے۔ وہ اسی سلسلے میں ڈھاکا گئے ہوئے تھے کہ دل کا دورہ پڑنے کے باعث 3 اپریل 1980ء کو ڈھاکا میں وفات پاگئے۔ ان کا جسد خاکی کراچی لایا گیا جہاں وہ سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
سروربارہ بنکوی کے دو شعری مجموعے سنگ آفتاب اور سوزگیتی کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔
 
Top