ایک بین الاقوامی شاعرہ کا انٹرویو
محمد اسامہ سَرسَری:
عینی شاہ! اب ہم آپ سے جو سوالات کریں گے ان کے جوابات آپ شاعری میں دیں گی۔ ٹھیک ہے؟
مشکل ہے بڑا مشکل ہے
ایسا کرنا عینی کا مشکل ہے۔:p
محمد اسامہ سَرسَری:
آپ کو شاعری سے دل چسپی کیوں نہیں؟
رونی کھانی شاعری
کرنا میرے لیے مشکل ہے
جو مشکل ہے تو یہ
شعر سمجھ میں آنا مشکل ہے
محمد اسامہ سَرسَری:
شاعری کے علاوہ اور کیا آتا ہے آپ کو؟
آتا ہے میتھس مجھے
شعرکا آنا مشکل ہے
محمد اسامہ سَرسَری:
کوئی ایسا فن بتاؤ جو تم سیکھ رہی ہو ، ہمیں نہ آتا ہو؟
پڑھنی ہے فنانس مجھے
پر تم کو آنا مشکل ہے :p
محمد اسامہ سَرسَری:
چلو ہم آپ کو شاعری اس طرح سکھائیں گے کہ یہ آپ کی غذا ہی بن جائے گی۔
ہماری غذا بن نہ سکیں
شاعری سمجھنا ہی تو شکل ہے
کچھ اور سکھائیں تو بات بنے
شعر سننا سنانا ہی مشکل ہے :p
محمد اسامہ سَرسَری:
دیکھو عینی شاہ! گانا اور شاعری دونوں ملتی جلتی چیزیں ہیں، شاعری ہوتی ہے تو اسے گاکر گانا بنادیا جاتا ہے، جب تمھیں گانے سے دلچسپی ہے تو شاعری بھی سیکھ ہی جاؤ گی۔
گانا لکھنا مشکل ہوگا
گانا اسے کیا مشکل ہے
بس کر دین انکل اب
مشکل ہے بس مشکل ہے
کہا تو ہے کتنی بار
شعرکہلوانا مجھ سے مشکل ہے :p
محمد اسامہ سَرسَری:
تم سب کو انکل کیوں کہتی ہو؟
پڑتا ہے کہنا سبکو انکل
آپکو مگر کیا مشکل ہے ۔:p
محمد اسامہ سَرسَری:
مگر کیوں۔۔۔ ۔؟
انکل انکل کہنا ہے
کہنے میں کیا مشکل ہے
چھوڑیں انکل شاعری کو
شعرسنانا کیا مشکل ہے:p
محمد اسامہ سَرسَری:
یعنی آپ بھاگنا چاہ رہی ہیں؟
بھاگا کون ہے کس کو پتہ
منے کو بلانا مشکل ہے :p
محمد اسامہ سَرسَری:
ایک منٹ۔۔۔ ۔ایک منٹ۔۔ چلو اپنا پسندیدہ موضوع بتاؤ، ہم اسی پر بات کرلیں گے۔:)
دعوت کی کوئی بات کرو
کیا کھانا کھلانا مشکل ہے :p
محمد اسامہ سَرسَری:
خیریت تو ہے ، اتنی خوش نظر آرہی ہو۔۔۔ ![/quote]
اج تو ہم نے بھی شاعری کی ہے بھئی:laugh:
 

اسامہ سَرسَری: کاشف عمران صاحب! آپ ہیں کون؟
کاشف عمران:
محترم دوستو ،
اپنا ابتدائی تعارف
تو پہلے ہی دن کراو دیا تھا۔
اسامہ سَرسَری: وہ تو بہت سرسری سا تھا، کچھ تفصیلی تعارف عنایت ہوجائے۔
کاشف عمران:
تو پھر پوچھیے ، ہم حاضر ہیں۔
اسامہ سَرسَری: اپنے بچپن کے کچھ واقعات پر مختصر سی روشنی ڈالیے۔
کاشف عمران:
میری بے رنگ زندگی کا خلاصہ یہ ہے کہ اسکول کے زمانے میں اردو کی کتابوں میں دی گئی نظمیں اچھی لگتی تھیں۔ مگر اصل دلچسپی عمرو عیار، انسپکٹر جمشید، عمران + ایکس ٹُو، ٹارزن کی کہانیوںوغیرہ میں ہوتی تھی۔آس پاس کا ماحول بھی یہی تھا۔
اسامہ سَرسَری:یہ سب کہانیاں بشمول تاوان،دیوتا،بازی گر ہم نے بھی پڑھی ہیں ، اس میں کیا کمال کیا آپ نے، جس طرح کراچی شہر میں ہمیں یہ چیزیں بسہولت حاصل ہوگئیں یقینا آپ کو بھی اپنے علاقے میں ہوگئی ہوگی؟
کاشف عمران:
جی نہیں، جناب!
ہم بلوچستان کے ایک پس ماندہ علاقے میں رہتے تھے۔ ہم تو گھر میں اردو بولتے تھے۔ مگر وہاں کے اکثر لوگوں کی اردو سے کوئی خاص شناسائی نہ تھی۔اسکول کا حال بھی وہی تھا جو بلوچستان اور اندرونِ سندھ کےسرکاری اسکولوں کا ہوتا ہے۔ سارا بچپن گلی ڈنڈا، فٹبال، کرکٹ، کنچےوغیرہ کھیلنے میں گزرا۔
اسامہ سَرسَری: ارے ، تو پھر شاعری جیسا فن تمھارے اندر کیسے آگیا؟
کاشف عمران:
اصل میں
میٹرک کے امتحان کے بعد فراغت کے دنوں میں (کہ میٹرک کا رزلٹ پانچ چھ ماہ بعد آتا تھا) ایک دن ایک رشتے کی خالہ کے ہاں ردی کے سامان میں "دیوانِ غالب" ہاتھ لگا۔ پڑھا تو مزہ آیا۔ اُسی کو دن رات کا ساتھی بنا لیا۔ پھر گھر میں پڑی "ضربِ کلیم" پر ہاتھ صاف کیے۔ اس دوران رزلٹ بھی آ گیا۔کچھ نقل (رواج یہی تھا ، ٹیچر بھی نقل کرنے میں مدد دیتے تھے تا کہ بچے بورڈ کے امتحان میں پاس ہو کر ان کی جان چھوڑیں) اور کچھ "تیزیِ طبع" کی بدولت نمبر اچھے آ گئے۔
اسامہ سَرسَری: بہت خوب، پھر آپ نے کیا کیا؟
کاشف عمران:
میں ایف ایس سی (پری میڈیکل) کرنے کوئٹہ چلا آیا اور ایک اچھے سے کالج میں داخلہ لے لیا۔
اسامہ سَرسَری: ہمم ممم ۔۔۔ وہاں کا معیارِ تعلیم کیسا پایا؟
کاشف عمران:
وہاں کا معیارِ تعلیم بہت بلند اور ٹیچر کافی قابل اور محنتی تھے۔
اسامہ سَرسَری: پھر تو آپ نے وہاں بھی اپنے خوب جوہر دکھائے ہوں گے؟
کاشف عمران:
آپ کا گمان اپنی جگہ،
مگر تیز طرارمحنتی لڑکوں سے مقابلہ کرنا مجھ "شاعرالوجود" کے بس کی بات نہ تھی۔ان حالات میں اصل پڑھائی میں خاک دل لگنا تھا۔
اسامہ سَرسَری: یعنی آپ کا دل وہاں نہیں لگ رہا تھا، تو آپ نے اس کا حل نکالا؟
کاشف عمران:
میں نے کالج کی عظیم الشان لائبریری میں دستیاب کلاسیکل شعراء کے کلام کا مطالعہ شروع کر دیا۔کیا کلیاتِ میر اور کیا کلیاتِ سودا۔ سب پڑھ ڈالیں۔ اس دوران تُک بندی بھی شروع کر دی۔کچھ دن مزاحیہ شعر لکھنے کی کوشش کی پھر سنجیدہ موضوعات کی طرف مائل ہو گیا۔
اسامہ سَرسَری: مگر شاعری صرف دواوین کا مطالعہ کرنے سے تو نہیں آتی، عروض کی خاردار جھاڑیوں کو آپ نے کیسے پار کیا؟
کاشف عمران:
م​
بچوں کے ماہنامہ "نونہال" میں علمِ عروض پر ایک سلسلہ چھپتا تھا ۔ وہاں سے تقطیع کا ہنر سیکھا اور جلد ہی وزن میں شعر کہنے کے قابل ہو گیا۔
اسامہ سَرسَری: اور پڑھائی؟
کاشف عمران:
انٹر کا نتیجہ تو وہی نکلتا جو ان حالات میں نکلنا تھا۔ میں سائنس کے تمام مضامین میں "
امتیازی نمبروں سے فیل
" ہوا۔ حد یہ کے اردو تک میں بمشکل تمام پاس ہو کر یہ ثابت کیا کہ ممتحن حضرات کالج کے لڑکوں کی فی البدیہہ شاعری سے ہرگز متاثر نہیں ہوتے۔
اب ٹرین پوری طرح پٹری سے اتر چکی تھی۔
اسامہ سَرسَری: یعنی آپ ایک تعلیمی ادارے میں ہونے کے باوجود پڑھائی سے کورے تھے، کیا آپ کو اس کا بالکل دکھ نہیں ہورہا تھا؟
کاشف عمران:
مگر شاعری میں (اپنی نظر میں) "استاد" ہو چکا تھا۔ فارسی میں تو شروع سے ہی کچھ شُد بُد تھی کہ آس پاس 'دری' اور 'دہواری' (فارسی کے دو لہجے ہیں) بولنے والے موجود تھے۔ اسی بنا پر حافظ، سعدی اور عطار وغیرہ کا مطالعہ بھی شروع کر چکا تھا۔
اسامہ سَرسَری: صرف شاعری سے تو زندگی کی دکان نہیں چلتی نا دوست! اس کے علاوہ آپ نے کچھ نہیں سیکھا؟
کاشف عمران:
میں نے کچھ ماہ ویلڈنگ کا کام سیکھا اور خوب مہارت حاصل کرلی۔
اسامہ سَرسَری: پھر۔۔۔ ۔:)
کاشف عمران:
پھر آنکھوں میں شدید خارش کے سبب اسے چھوڑ کر ایک ترکھان کی شاگردی اختیار کی۔ اسی دوران گرتے پڑتے پرائیویٹ امیدوار کے طور پر ایف اے (اردو ایڈوانس، انڈین ہسٹری، اکنامکس) کا امتحان بمشکل پاس کیا۔ترکھانی میں دو تین ماہ میں ہی اچھا خاصا استاد ہو گیا تھا۔
اسامہ سَرسَری: بہت خوب۔۔۔ یعنی کہیں تو جمے۔
کاشف عمران:
مگر طبیعت کی تلوّن مزاجی نے وہاں بھی دم لینے نہ دیا۔ بارہ جماعتیں پاس کر لینے کی بعد جی میں سمائی کہ کچھ نیا کیا جائے۔
اسامہ سَرسَری: یعنی کچھ محبت وحبت۔۔۔ ۔۔
کاشف عمران:
نہیں۔۔
پولٹری فارم کھولنے کا خیال آیا (مرغیوں سے ازلی محبت ہے اور انھیں ساری زندگی اشرف المخلوقات کا درجہ دیتا رہا ہوں۔ ذبح کرنے سے پہلے معافی بھی مانگتا ہوں)۔
اسامہ سَرسَری: یعنی آپ شیخ چلی کے راستے پر چل پڑے۔
کاشف عمران:
مگر مطلوبہ رقم دستیاب نہ ہونے کے سبب یہ خیال، خیال ہی رہا۔
اسامہ سَرسَری: وہی تو کہہ رہا ہوں، شیخ چلی نے کونسا مرغیوں کا کاروبار شروع کردیا تھا۔
کاشف عمران:
پولٹری فارم تو نہ کھل سکا مگر "کچھ اور" کرنے کی لگن ختم نہ ہوئی۔ نتیجہ؟ ایک اور قلابازی ۔ یعنی ترکھانی چھوڑ، ایک مدرسے میں جا کر فارسی، عربی وغیرہ کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔
اسامہ سَرسَری: اوہ۔۔۔ تو اب ملا بننے چل دیے، یعنی شیخ چلی نہ بن سکے، ملادوپیازہ بننے ٹھان لی۔ واہ ، پھر کیا ہوا؟
کاشف عمران:
دنوں ہفتوں میں علمِ صَرف میں سارے مدرسے کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اساتذہ سوال کرنے سے قبل مجھے جواب دینے
سے
منع کر دیتے تھے کہ کچھ دوسرے شاگردوں کو بھی سیکھنے کا موقع ملے۔ غرض چند ماہ میں ہی تین چار سال کا کورس مکمل کر چکا تھا۔
اسامہ سَرسَری: اس عرصے میں اپنی عصری تعلیم کو کچھ بڑھایتے۔
کاشف عمران:
بالکل جناب!
اسی زمانے میں بی اے کا امتحان بھی پرائیویٹ پاس کیا۔
اسامہ سَرسَری: چلو شکر مدرسے میں تو جمے آپ۔
کاشف عمران:
ہاہاہاہا۔۔۔
بُرا ہو سرِ سودائے جنوں کا۔ مدرسے سے بھی تنگ آیا اور ایک دن چپ چاپ کتابوں کا بکس سر پر رکھے دوسروں کے جاگنے سے پہلے وہاں سے بھاگ لیا۔
"سبھی سوئے پڑے تھے کہ ترے کوچے سے ہم نکلے"
اسامہ سَرسَری: ارے۔۔۔ مدرسہ بھی ۔۔۔ ۔ اچھا۔۔۔ پھر۔۔۔ ؟
کاشف عمران:
ایک مرتبہ پھر نئی منزلوں کی تلاش تھی۔ اب آپ "گیس" کریں کہ میں نے کیا کیا ہو گا؟
اسامہ سَرسَری: اب آپ نے ہمارے خیال میں علمِ نجوم و قیافہ سیکھنا شروع کردیا ہوگا۔ کیونکہ کل آپ کے کلام میں لفظ قیافی بہت نظر آیا ہے اگرچہ اس کا مطلب کچھ اور تھا اور ٹائپنگ کی غلطی تھی، بہرحال یہ تو ہماری قیافے بازی ہے، آپ بتائیں کیا یہی کیا یا کچھ اور؟
کاشف عمران:
جی ، آپ کا جو بھی جواب ہے غلط ہی ہوگا۔ میں نے یہ کیا کہ سر سے صافہ اتارا اور بازار سے سن گلاسز اور جینز کی دو پتلونیں لے لایا۔ داڑھی پر مشین پھروائی۔ کرتہ شلوار اتار، پتلون میں گھسا۔
اسامہ سَرسَری: انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔ یعنی ملادوپیازہ سے آپ مسٹر بین بن گئے، اس سے آپ کو کیا حاصل ہونے والا تھا اب؟
کاشف عمران:
اب مدرسے کے سارے جاسوس مل کر بھی میرا سراغ نہ لگا پاتے۔
اسامہ سَرسَری: تو آپ کو ایسا کیا تیر مارنا تھا پھر جو آپ چھپتے پھر رہے تھے؟
کاشف عمران:
پھر میں نے یونیورسٹی جا کر "ایم اے انگریزی ادب" میں داخلہ لے لیا۔
اسامہ سَرسَری: زبردست۔۔ یعنی ۔۔۔
کاشف عمران:
ان دنوں طبیعت کی جولانی عروج پر تھی۔ شیکسپئر سے لے کر ملٹن، اور سپنسر سے لے کر کیٹس، سب کو پڑھا۔ چارلس ڈکنز، تھامس ہارڈی،جیمز جوائس، ڈی ایچ لارنس پر بھی ہاتھ صاف کیے۔ ساتھ میں مشقِ سخن بھی جاری تھی۔
اسامہ سَرسَری: آپ تو اب تک اچھے بھلے شاعر بن گئے ہوں گے؟
کاشف عمران:
اس وقت تک میں خود کو غالب اور میر سے کم کوئی رتبہ نہ دیتا تھا (بعد میں پتہ چلا سب شاعرتمام عمر اسی غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں! خرابی ہو دنیا والوں کی کہ مان کر نہیں دیتے)۔ لیکن یہاں پھر وقت نے میرے ساتھ وہی کیا جو اس کی عادت ہے۔ یعنی ایک سال گزر چکا تھا اور امتحان سر پر کھڑے تھے۔
اسامہ سَرسَری: تو کیا ہوا آپ تو بہت ذہین تھے، مدرسے میں سب کو پیچھے چھوڑدیتے تھے، یہاں بھی ٹینشن والی کیا بات تھی؟
کاشف عمران:
میں تو سارا سال "آؤٹ آف کورس" چیزیں پڑھتا رہا تھا۔ یا الٰہی، اب کیا کروں! پاس ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اسامہ سَرسَری: تو فیل آنے سے تمھاری زندگی میں کیا فرق پڑنے والا تھا؟
کاشف عمران:
اگر فیل ہوتا (جو کہ ہونا ہی تھا!) تو عزت خاک میں مل جاتی۔
میں سوچنے لگا کہ
وہ بھی جو میری شاعری کی وجہ سے مجھ سے دبتے تھے لہرا لہرا کر اپنا رزلٹ کارڈ مجھے دکھائیں گے اور میرا تماشا لگائیں گے۔
اسامہ سَرسَری: ارے لڑکوں کی ایسی کی تیسی۔۔۔ ایک مایہ ناز ادیب کسی جگہ ہو تو وہاں کی لڑکیاں تو اس پر ہر حال میں مرتی ہیں۔
کاشف عمران:
لڑکیوں کی نظر میں تو خاص طور پر کوئی عزت ہی نہ رہے گی۔ ویسے بھی وہ بیچاری سارا سال مجھ سے نوٹس مانگتی رہیں۔ سب سمجھتے تھے کہ میں کمینہ ہوں اور اپنے نوٹس چھپا کر رکھتا ہوں تاکہ "گولڈ میڈل" لے سکوں۔ میں نے بھی یہی ظاہر کیا ہوا تھا کہ میری سب تیاری مکمل ہے۔ مگر اب کیا ہو گا۔ روزِ حساب آ پہنچا تھا۔

"مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ"۔
اسامہ سَرسَری: مگر آپ نے کچھ تو کیا ہوگا؟
کاشف عمران:
مرتا کیا نہ کرتا۔ سو بار کی آزمائی ترکیب پھر آزمائی۔ کسی سے کچھ کہے سنے بغیر یونیورسٹی سے بھی بھاگ لیا۔
اسامہ سَرسَری: اوہ۔۔۔ بڑا انوکھا حل ہے آپ کے پاس ہر پریشانی کا۔۔۔ خیر۔۔۔ آپ کے دماغ پر تو بڑا بوجھ ہوگا اس وقت۔
کاشف عمران:
اب تک ناکامیوں اور بھاگنے کی اتنی عادت پڑ چکی تھی کہ طبعیت پر چنداں بوجھ نہ پڑتا تھا۔ "ایم اے انگریزی ادب" کا انجام تو خیر سے وہی ہوا جو اس سے پہلے ویلڈنگ، ترکھانی، فارسی و عربی اور کھِلنے سے پہلے اجڑنے والے باغ المعروف بہ "کاشف عمران اینڈ کمپنی پولٹری فارم" کا ہو چکا تھا۔
اسامہ سَرسَری: تو آپ کوئی اچھا سا روزگار تلاش کرکے شادی کرلیتے۔
کاشف عمران:
ہاہاہاہاہ۔۔۔ ۔
اس وقت کوائف نامہ کچھ یوں بنتا تھا:
عمر : 23 سال
تعلیم : بی اے سیکنڈ ڈویژن
تجربہ: ویلڈنگ 3 ماہ۔ ترکھانی 4 ماہ۔
اضافی کوائف: شاعری اور باتیں بنانے کا فن، فارسی، عربی سے سرسری واقفیت، علم تجوید و قرائت میں کچھ دسترس۔
کمزوریاں: 1: سوائے شاعری کے آج تک ہر کام ادھورا چھوڑاہے ۔ 2: جسمانی کمزوری کہ بچپن سے جوانی تک بیمار ہی رہا۔
سفارش: ندارد
رشوت کے لیے پیسہ: ندارد
اسامہ سَرسَری: یعنی آپ کو نوکری تلاش کے باوجود نہ ملی۔
کاشف عمران:
اب اس کوائف نامہ کے ساتھ کیا نوکری ملتی۔ مگر میں نےاٹھارہ سو ماہوار کی ایک نوکری ڈھونڈ ہی لی۔ قریب کے ایک پرائیویٹ انگلش اسکول میں ٹیچنگ کی اسامی نکلی۔ آپ پھر "گیس" کریں کہ اسامی کس پوسٹ کی ہو گی؟ چلیے میں ہی بتا دیتا ہوں۔ عربی ٹیچر! انٹرویو میں بھانت بھانت کے مولوی حضرات آئے تھے۔ سب ایک ہی کمرے میں بیٹھے انٹرویو دے رہے تھے۔ پوچھے سوالات کے سب نے تقریبًا ایک سے غلط جوابات دیے۔میچ ٹائی ہوتے دیکھ کر پرنسپل صاحب نے فیصلہ کیا کہ آخری معرکہ قرات کے میدان میں ہو گا۔ سب نےباری باری اپنی مرضی کی سورتیں سنائیں۔ میرا نمبر آخر میں آیا۔ باقیوں کے حالات میں دیکھ چکا تھا۔اب میں نے لحنِ داودی میں سورۃ فاتحہ کچھ اس انداز میں سنائی کہ باقی تمام امیدواروں کے منہ لٹک گئے۔ ادھر پرنسپل صاحب کا چہرہ کِھل سا گیا۔ مجھے سلیکٹ کر لیا گیا۔ یہ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اسکول کو عربی میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ عربی ٹیچر تو بس محکمہءِ تعلیم کو مطمئن کرنے کے لیے رکھا گیا تھی۔ اصل ضرورت تو قاری کی تھی کہ جس سے تلاوت کروا کر اور بچوں کوتلاوت سکھا کر آس پاس کی آبادی اور والدین کو بتایا جا سکے کہ:
"اسکول ہٰذا میں جدید انگلش تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی اسلامی تعلیم و تربیت کا خاطر خواہ انتظام ہے"۔
اسامہ سَرسَری: بہت خوب، یعنی ماضی کا شیخ چلی نمبر 2 اور ملادوپیازہ نمبر2 اب حال کا قاری کاشف عمران بن چکا تھا، پھر کیا ہوا قاری صاحب!
کاشف عمران:
سال سے کچھ کم عرصہ اس اسکول میں قرات سکھائی اور خانہ پری کے لیے عربی پڑھائی۔ بچوں میں اصل شہرت داستان گو کی حیثیت سے پائی کہ فری کلاسوں میں جا کر کہانیاں سناتا تھا۔ کئی بچے بلکہ استانیاں بھی ہاف ٹائم میں قرائت سیکھنے کے بہانے میری کلاس میں آ دھمکتیں اور میری چٹخارے دار باتوں کے مزے لیتیں۔
اسامہ سَرسَری: ہاہاہاہا۔۔۔ بچوں نے تو آپ کا نام قاری کہانی رکھ دیا ہوگا۔ لیکن ہم اس موقع پر آپ کو ”قاری استانیاں“ کے نام سے یاد کریں گے۔
کاشف عمران:
ایسا قاری سب نے پہلی بار دیکھا تھا جس کے تھیلے میں کہانیوں اور مزے مزے کی حکایتوں کا نہ ختم ہونے والا ذخیرہ تھا۔
اسامہ سَرسَری: اب میں یہ نہیں پوچھوں گا کہ یہاں جم گئے، بلکہ میرا سوال اب یوں ہے کہ یہاں سے آپ نے کب راہِ فرار اختیار کی؟
کاشف عمران:
سال کے اختتام پر اسکول چھوڑا اور ایک دو ماہ بعدصوبائی سول سروس کے مقابلے کا امتحان پاس کر کے سرکاری افسر بن گیا (یہ سب کیسے ہوا، ذکر پھر کبھی)۔ تین سال صوبائی حکومت میں نوکری کی۔ پھر وفاقی حکومت میں آ گیا۔
اسامہ سَرسَری: یہاں پھر وہی سوال۔۔۔ کب چھوڑا؟
کاشف عمران:
تقریبًا پانچ سال بعد حسبِ عادت، متعدد محکمے بدلنے کے باوجود، اس کام سے بھی سخت اکتا گیا۔
اسامہ سَرسَری: کمال ہے، یہاں کراچی میں بے روزگار بہت ہیں اور وہاں آپ کے پاس روزگار کی کوئی کمی نہیں، اب کونسی نوکری تلاش کی آپ نے؟
کاشف عمران:
نوکری ترک کی اور پروگرامنگ کر کے پیٹ کے دوزخ کا انتظام کرنے لگا۔
اسامہ سَرسَری: ارے یہ تمھاری زندگی میں پروگرامنگ کہاں سے آ ٹپکی؟
کاشف عمران:
یہ قصہ کہ پروگرامنگ کب اور کیسے سیکھی، اپنی ذات میں خود ایک داستان ہے۔ زندگی رہی اور آپ دوستوں نے چاہا تو اس کا ذکر پھر مستقبل پر چھوڑتے ہیں۔
اسامہ سَرسَری: واہ جی ۔۔۔ ۔ شیخ ، ملا ، شاعر ، قاری ، افسر ، پروگرامر صاحب۔ آگے فرمائیے۔
کاشف عمران:
اب پروگرامنگ کرتے ہوئے دو برس بیت چکے۔ابتدا میں فری لانسر کے طور پر کچھ چھوٹے موٹے پراجیکٹ کیے۔ آج کل اپنےہی ایک پراجیکٹ پر کام کر رہا ہوں۔
اسامہ سَرسَری: بہت خوب ، یعنی تاحال پروگرامر ہیں، اس کے بعد۔۔۔ ۔ چلے جانے دیجیے۔۔ یہ بتائیے یہاں کیسے بھول پڑے۔
کاشف عمران:
چند دن پہلے کچھ فراغت نصیب ہوئی تو اپنی پرانی شاعری نکال کر دیکھی۔ پڑھ کر مزہ آیا۔ سوچا اس کوچے سے پھر گزر کر دیکھتے ہیں۔
اسامہ سَرسَری: اب مزید سوال۔۔۔ ۔
کاشف عمران:
میں تو تھک گیا۔
اسامہ سَرسَری: اچھا ٹھیک ہے ، اللہ آپ کے ساتھ آسانی اور سہولت والا معاملہ فرمائے، آمین، خوش رہیے اور سب خوش رہنے دیجیے۔
 
اچھا جی۔ کھولتا ہوں دروازہ۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔:)
خدا کا شکر ہے کہ دروازہ تو کھلا ہم تو نا امید ہو کر پلٹنے ہی والے تھے۔​
ارے ایسے کیسے پلٹ جاتیں، یہ اردو محفل فورم ہے ، یہاں مہمانوں کا ریکارڈ توڑ اکرام کیا جاتا ہے۔:) بس میں ذرا ایک منٹ میں آتا ہوں، ایک بہت ضروری کام ہے۔
یہ کیا آپ تو پریشان ہی ہوگئے کہ یہ کون سی ہستی ہے جو بن بلائے مہمان کی طرح نازل ہوگئی!​
ارے کیسی باتیں کرتی ہیں، کون پریشان ہورہا ہے۔
تو آپ کہاں جا رہے ہیں خوش آمدید نہیں کہے گے؟​
وہ۔۔ اصل میں۔۔ میں اب کیا بتاؤں آپ کو۔۔۔ اصل میں آپ کے آنے سے پہلے میں کمپیوٹر پر بیٹھا اردو محفل کے مزے لوٹ رہا تھا، خرم شہزاد خرم صاحب نے ایک بات پوچھی تھی ، اس کا جواب دینے ہی لگا تھا کہ آپ آگئیں۔۔ آئیے آئیے۔۔ آپ کو بھی اس محفل میں خوش آمدید۔۔ مرحبا۔۔۔ اہلا وسہلا۔۔:welcome:
ہمیں یقین تھا کہ آپ ہمیں خوش آمدید ضرور کہیں گے۔​
یقین نہ بھی ہوتا تو اب تک ہوچکا ہوتا۔:)
آپ نے اپنا نام کیا بتایا؟ میں بھول گیا معذرت۔
مجھے بنت صغیر کہتے ہیں۔​
ہاں یاد آیا ، بنت صغیر ، مگر یہ تو کوئی نام نہ ہوا۔۔ خیر جانے دیں ۔۔۔ یہاں تو بنت آدم بنت شبیر بنت عائشہ بنت نوا ز بنت یاسین بنتِ آدم بنتِ حوا بنتِ سلیم حوا کی بیٹی جیسے بہت سے نام ہیں ، آج ایک اور کا اضافہ سہی۔
یہ بتائیے ، آپ کل کتنے بہن بھائی ہیں؟
ہم بے شمار بہن بھائی ہیں​
:p
:);):(:mad::confused::cool::p:D:eek::oops::rolleyes:o_O:barefoot::cautious::censored::cry::love::LOL::ROFLMAO::sick::sneaky:(y):X3::angry::-P:mrgreen::frustrated::biggrin::kiss:
اتنے یا اس سے بھی زیادہ؟
آپ کا ان میں سے کونسا نمبر ہے؟
میرا نمبر تیسرا ہے۔​
اوہ۔۔۔ ! تیسرا نمبر۔۔۔ یعنی ۔۔۔
چلیں چھوڑیں ، یہ بتائیں آپ کی تاریخ پیدائش کیا ہے؟۔۔ مگر ایک منٹ۔۔۔ دیکھیں آپ کا تعلق ادبی خاندان سے ہے، تاریخ پیدائش عام سے انداز میں نہ بتائیے گا، اچھے اور ادیبانہ انداز سے بتائیے۔
(تھوڑا کھانسنے کے بعد)ہم
سات جولائی کو اس دنیا میں رونق بکھرنے کے لیے اپنی پوری آب و تاب اور چمک دمک کے ساتھ جلوہ افروز ہوئے۔​
بہت خوب۔۔۔ :a6:
آپ کی تعلیم؟
میں نے بی ۔ اے بہت اچھے نمبروں سے پاس کیا ہے (لیکن نمبر بتا نہیں سکتی)​
نہ بتائیں جی۔۔ آپ کی مرضی۔۔۔ یہ بتائیں آپ کو کس چیز کا بہت شوق ہے؟
مجھے سلائی کا بہت شوق ہے۔​
سلائی کے علاوہ کوئی اور شوق؟
سلائی ، کٹائی اور کڑھائی کے علاوہ مختلف اور اعلیٰ قسم کے ڈیزائن خود تخلیق کرتی ہوں۔ ہاتھ یں نفاست اور صفائی بھی بہت ہے۔ایسی صفائی ہے کہ کچھ لوگوں کے کپڑے ہی نہیں ملتے۔ صاف ہو جاتے ہیں​
:D
مہندی لگانے کا بے حد شوق ہے۔ میک اپ نارمل سا پسند ہے۔​
بہت خوب۔۔۔ آپ نے تو ہمیں ہنسنے پر مجبور کردیا۔:haha:
آپ کا پسندیدہ کلر؟
کلر میں زیادہ بلیک کلر پسند ہے اس کے علاوہ ہر اچھا کلر پہن لیتی ہوں۔ بلکہ جب کلر پہنتی ہوں تو وہ اچھا ہو جاتا ہے۔​
جیسے جس دھاگے میں عینی شاہ آجاتی ہے وہ دھاگا اچھا ہوجاتا ہے۔
عینی شاہ سے یاد آیا آپ کو کھانے میں کیا پسند ہے؟
کھانے میں بریانی شوق سے کھاتی ہوں خود کوکنگ کا شوق ہے لیکن مصروفیت کی وجہ سے کوکنگ بہت کم کرتی ہوں۔​
بہت ہی اعلیٰ۔
یہ بتائیں کس چیز سے آپ کو نفرت ہے؟
دوغلےپن سے نفرت ہے اپنی غلطی جلد تسلیم کرلیتی ہوں۔​
اپنی مزید کچھ عادات بتائیں۔
باتونی ہوں تھوڑی سی لیکن دوسروں کی باتوں کو بھی غور سے سنتی ہوں۔ شرارتی بالکل نہیں ہوں۔ غصہ آتا ہے تو بہت زیادہ ورنہ کم ہی آتا ہے اور میں غصے پر کنڑول کر لیتی ہوں اور غصے میں اکثر چُپ ہو جاتی ہوں۔ مجھے گانے فل والیوم میں سننے کا بے حد شوق ہے۔ ایک خامی یہ بھی ہے کہ میں دوسروں پر بہت جلد اعتبار کر لیتی ہوں اور اکثر انجام بہت بُرا ہوتا ہے۔​
اچھا۔۔ یہ بتائیں موسم کونسا پسند ہے آپ کو؟
سردی کا موسم بہت پسند ہے جی چاہتا ہے کہ تمام عمر سردی ہی رہے کبھی گرمی نہ آئے۔​
ہمم۔۔ممم ۔۔۔ ۔ ویسے گرمی کا موسم بھی اچھا لگے اگر آپ اپنی سہیلیوں یا کزنوں کے ساتھ وقت گزارا کریں۔
ہماری ساری کزنز بہت ہی اچھی ہیں جب ہم اکھٹے بیٹھتے ہیں تو ماحول خوشگوار ہو جاتا ہے اور وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا​
بہت اچھے ۔۔۔ آپ کا یہ انٹرویو ہم نے محفوظ کرلیا ہے، کیا آپ فورم میں کسی سے کچھ کہنا چاہیں گی؟
ایڈمن سے درخواست ہے اس تعارف کو پہلے مراسلے میں پوسٹ کر دیں شکریہ!​
اوکے جی۔ ہمارے ایڈمن صاحبان بہت اچھے ہیں، جو بولو وہ کردیتے ہیں، یہ دیکھیں انھوں نے آپ کے کہنے کے مطابق اس مراسلے کو یہاں پہلے مراسلے میں پوسٹ کردیا ہے۔:)
 
Top