سوچا ہے یہ ہم نے تمہیں سوچا نہ کریں گے

سید علی اسد

محفلین
بہت بہت شکریہ فاتح بھائی ۔ آپ ہمیشہ اس ہیچمدان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ خدا آپ کوخوش رکھے ۔
مزے کی بات یہ ہے کہ میں نے جون ایلیا کی یہ غزل دیکھی ہی نہیں ہے ۔میری یہ غزل تو فیض صاحب کے کچھ مصرعے دہراتے ہوئے پیدا ہوگئی تھی ۔ فیض نے حسرت موہانی کی ایک زمین میں غزل لکھی ہے جس میں ’’ جو خود نہیں کرتے وہ ہدایت نہ کریں گے ‘‘ اور " احرار کبھی ترکِ روایت نہ کریں گے ‘‘ وغیرہ قسم کے مصرع ہیں ۔ اسی میں طبع آزمائی کرتے ہوئے یہ "نئی" زمین پیدا ہوگئی تھی ۔ اب آپ نے جون کا شعر لکھا ہے تو یہ بات بہت دلچسپ لگ رہی ہے مجھے ۔ کوشش کرتا ہون کہ جون کی یہ غزل کہیں سے ڈھونڈ کر پڑھوں ۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ پہلے ایک اور غزل کے ساتھ بھی ہوچکا ہے ۔ میں نے تو اپنی طرف سے ایک نئی زمین میں لکھا لیکن کئی سالوں بعد اسی زمین میں بشیر بدر صاحب کی ایک غزل نظر آئی۔ اور مجھے تادمِ تحریر پورا پورا یقین ہے کہ میں نے ان کی وہ غزل نہ پہلے کبھی سنی تھی اور نہ پڑھی تھی کیونکہ بشیر بدر صاحب کی شاعری سے میرا تعارف انٹرنیٹ عام ہونے کے بعد ہوا ۔ اس سے پہلے میں ان کے نام سے بھی واقف نہ تھا ۔ اسی قسم کے توارد کی بات مین نے ایک دو اور شاعر حضرات سے بھی سنی ہے ۔ اس کی ایک توضیح یہ ممکن ہے کہ شاید ذہن کے کسی گوشہ مین کہیں کسی وقت کا سنا ہوا کوئی مصرع محفوظ رہ جاتا ہو اوریوں لاشعوری طور پر زمین کا "توارد" ہوجاتا ہو ۔ ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ ہماری اپنی زمین ہے لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ تو پرانی ہے ۔ یا پھر ممکن ہے کہ پہیہ دو نئے زمان و مکان میں ازسرِ نو ایجاد ہوا ہو۔:)
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
توارد پہ سلیم کوثر کا شعر یاد آگیا۔

ہم جسے دریافت کرتے ہیں تگ ودو سے سلیم
سب کہیں موجود ہوتا ہے نیا کچھ بھی نہیں۔

طبع موزوں نئی زمینوں اور نئے زمانوں کی جستجو میں زہتی ہے۔ ایسے میں اس قسم کے اتفاقات نہ تو عجیب ہیں نا معیوب۔
اپ کی غزل بہت اچھی ہے۔ پڑہ کر لطف آیا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
طبع موزوں نئی زمینوں اور نئے زمانوں کی جستجو میں زہتی ہے۔ ایسے میں اس قسم کے اتفاقات نہ تو عجیب ہیں نا معیوب۔
کیا اچھی بات کی ہے آپ نے ! سلامت رہیں !!
اپ کی غزل بہت اچھی ہے۔ پڑہ کر لطف آیا۔
بہت شکریہ اسد صاحب !! نوازش!!
 
Top