سوچا ہے یہ ہم نے تمہیں سوچا نہ کریں گے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سوچا ہے یہ ہم نے تمہیں سوچا نہ کریں گے
ہم تم کو تصور میں بھی رُسوا نہ کریں گے

گر تم کو بچھڑنے پہ نہیں کوئی ندامت
مل جاؤ تو ہم بھی کوئی شکوہ نہ کریں گے

رستے میں اگرچہ ہیں ہواؤں کے نشیمن
ہم مشعلِ خود داری کو نیچا نہ کریں گے

ہاں ذوقِ سفر بڑھ کے ہے منزل کی ہوس سے
ہم کھو بھی گئے تو کوئی شکوہ نہ کریں گے

وہ حرفِ سخن جو تری نسبت سے ملا ہے
اس حرف کو بازار میں رسوا نہ کریں گے

اپنی ہی بغاوت سے نبٹنا نہیں ممکن
یہ دل نہیں چاہے گا تو وعدہ نہ کریں گے

تڑپیں گے نہ بیکار کسی فکرِ عبث میں
احساس کی دولت کو یوں ضایع نہ کریں گے

ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۲۰۰۰
فاتح سید عاطف علی محمد تابش صدیقی کاشف اختر
 

فاتح

لائبریرین
واہ واہ بہت خوب ظہیر بھائی۔۔۔ جون کی غزل یاد دلا دی۔
اخلاق نہ برتیں گے مدارا نہ کریں گے
اب ہم بھی کسی شخص کی پروا نہ کریں گے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ بہت خوب ظہیر بھائی۔۔۔ جون کی غزل یاد دلا دی۔
اخلاق نہ برتیں گے مدارا نہ کریں گے
اب ہم بھی کسی شخص کی پروا نہ کریں گے

بہت بہت شکریہ فاتح بھائی ۔ آپ ہمیشہ اس ہیچمدان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ خدا آپ کوخوش رکھے ۔
مزے کی بات یہ ہے کہ میں نے جون ایلیا کی یہ غزل دیکھی ہی نہیں ہے ۔میری یہ غزل تو فیض صاحب کے کچھ مصرعے دہراتے ہوئے پیدا ہوگئی تھی ۔ فیض نے حسرت موہانی کی ایک زمین میں غزل لکھی ہے جس میں ’’ جو خود نہیں کرتے وہ ہدایت نہ کریں گے ‘‘ اور " احرار کبھی ترکِ روایت نہ کریں گے ‘‘ وغیرہ قسم کے مصرع ہیں ۔ اسی میں طبع آزمائی کرتے ہوئے یہ "نئی" زمین پیدا ہوگئی تھی ۔ اب آپ نے جون کا شعر لکھا ہے تو یہ بات بہت دلچسپ لگ رہی ہے مجھے ۔ کوشش کرتا ہون کہ جون کی یہ غزل کہیں سے ڈھونڈ کر پڑھوں ۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ پہلے ایک اور غزل کے ساتھ بھی ہوچکا ہے ۔ میں نے تو اپنی طرف سے ایک نئی زمین میں لکھا لیکن کئی سالوں بعد اسی زمین میں بشیر بدر صاحب کی ایک غزل نظر آئی۔ اور مجھے تادمِ تحریر پورا پورا یقین ہے کہ میں نے ان کی وہ غزل نہ پہلے کبھی سنی تھی اور نہ پڑھی تھی کیونکہ بشیر بدر صاحب کی شاعری سے میرا تعارف انٹرنیٹ عام ہونے کے بعد ہوا ۔ اس سے پہلے میں ان کے نام سے بھی واقف نہ تھا ۔ اسی قسم کے توارد کی بات مین نے ایک دو اور شاعر حضرات سے بھی سنی ہے ۔ اس کی ایک توضیح یہ ممکن ہے کہ شاید ذہن کے کسی گوشہ مین کہیں کسی وقت کا سنا ہوا کوئی مصرع محفوظ رہ جاتا ہو اوریوں لاشعوری طور پر زمین کا "توارد" ہوجاتا ہو ۔ ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ ہماری اپنی زمین ہے لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ تو پرانی ہے ۔ یا پھر ممکن ہے کہ پہیہ دو نئے زمان و مکان میں ازسرِ نو ایجاد ہوا ہو۔:)
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
 

فاتح

لائبریرین
بہت بہت شکریہ فاتح بھائی ۔ آپ ہمیشہ اس ہیچمدان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ خدا آپ کوخوش رکھے ۔
مزے کی بات یہ ہے کہ میں نے جون ایلیا کی یہ غزل دیکھی ہی نہیں ہے ۔میری یہ غزل تو فیض صاحب کے کچھ مصرعے دہراتے ہوئے پیدا ہوگئی تھی ۔ فیض نے حسرت موہانی کی ایک زمین میں غزل لکھی ہے جس میں ’’ جو خود نہیں کرتے وہ ہدایت نہ کریں گے ‘‘ اور " احرار کبھی ترکِ روایت نہ کریں گے ‘‘ وغیرہ قسم کے مصرع ہیں ۔ اسی میں طبع آزمائی کرتے ہوئے یہ "نئی" زمین پیدا ہوگئی تھی ۔ اب آپ نے جون کا شعر لکھا ہے تو یہ بات بہت دلچسپ لگ رہی ہے مجھے ۔ کوشش کرتا ہون کہ جون کی یہ غزل کہیں سے ڈھونڈ کر پڑھوں ۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ پہلے ایک اور غزل کے ساتھ بھی ہوچکا ہے ۔ میں نے تو اپنی طرف سے ایک نئی زمین میں لکھا لیکن کئی سالوں بعد اسی زمین میں بشیر بدر صاحب کی ایک غزل نظر آئی۔ اور مجھے تادمِ تحریر پورا پورا یقین ہے کہ میں نے ان کی وہ غزل نہ پہلے کبھی سنی تھی اور نہ پڑھی تھی کیونکہ بشیر بدر صاحب کی شاعری سے میرا تعارف انٹرنیٹ عام ہونے کے بعد ہوا ۔ اس سے پہلے میں ان کے نام سے بھی واقف نہ تھا ۔ اسی قسم کے توارد کی بات مین نے ایک دو اور شاعر حضرات سے بھی سنی ہے ۔ اس کی ایک توضیح یہ ممکن ہے کہ شاید ذہن کے کسی گوشہ مین کہیں کسی وقت کا سنا ہوا کوئی مصرع محفوظ رہ جاتا ہو اوریوں لاشعوری طور پر زمین کا "توارد" ہوجاتا ہو ۔ ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ ہماری اپنی زمین ہے لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ تو پرانی ہے ۔ یا پھر ممکن ہے کہ پہیہ دو نئے زمان و مکان میں ازسرِ نو ایجاد ہوا ہو۔:)
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
ایک بھی نہیں دو دو غزلیں ہیں جون کی اس زمین میں:
اخلاق نہ برتیں گے، مدارا نہ کریں گے
اب ہم بھی کسی شخص کی پروا نہ کریں گے

کچھ لوگ کئی لفظ غلط بول رہے ہیں
اصلاح مگر ہم بھی اب اصلا نہ کریں گے

کم گوئی کہ اک وصف حماقت ہے بہر طور
کم گوئی کو اپنائیں گے، چہکا نہ کریں گے

اب سہل پسندی کو بنائیں گے وطیرہ
تا دیر کسی باب میں سوچا نہ کریں گے

غصہ بھی ہے تہذیبِ تعلق کا طلب گار
ہم چپ ہیں، بھرے بیٹھے ہیں، غصہ نہ کریں گے

کل رات بہت غور کیا ہے سو ہم اے جونؔ
طے کر کے اٹھے ہیں کہ تمنا نہ کریں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوچا ہے کہ اب کارِ مسیحا نہ کریں گے
وہ خون بھی تھوکے گا تو پروا نہ کریں گے

اس بار وہ تلخی ہے کہ روٹھے بھی نہیں ہم
اب کہ وہ لڑائی ہے کہ جھگڑا نہ کریں گے

یاں اس کے سلیقے کے ہیں آثار تو کیا ہم
اس پر بھی یہ کمرا تہ و بالا نہ کریں گے

اب نغمہ طرازانِ بر افروختہ اے شہر!
واسوخت کہیں گے غزل انشا نہ کریں گے

ایسا ہے کہ سینے میں سلگتی ہیں خراشیں
اب سانس بھی ہم لیں گے تو اچھا نہ کریں گے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ واہ
لاجواب غزل
مزے کی بات کہ ہم جون ہی کی غزل تلاش کر رہے تھے ۔ گوگل نے اس لڑی کی طرف رہنمائی کر دی :)

ہائیں ۔ عباداللہ آپ یہ گڑا مردہ کہاں سے نکال لائے؟! بھائی پسندآوری کا بہت بہت شکریہ! اللہ سلامت رکھے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایک بھی نہیں دو دو غزلیں ہیں جون کی اس زمین میں:
فاتح بھائی ، پہلے تو اتنی دیر سے جواب دینے کی معذرت! ان دنوں اپنی تک بندیاں جمع کرنے میں اتنا مصروف تھا کہ آپ کا یہ مراسلہ اتنی ساری غزلوں میں کہیں دب گیا ۔ عباداللہ کا شکریہ کہ ان کی وجہ سے پھر نظر میں آگیا ۔ دونوں غزلیں پڑھوانے کا بہت بہت شکریہ !! اللہ آپ کو سلامت رکھے !
 

سید علی اسد

محفلین
سوچا ہے یہ ہم نے تمہیں سوچا نہ کریں گے
ہم تم کو تصور میں بھی رُسوا نہ کریں گے

گر تم کو بچھڑنے پہ نہیں کوئی ندامت
مل جاؤ تو ہم بھی کوئی شکوہ نہ کریں گے

رستے میں اگرچہ ہیں ہواؤں کے نشیمن
ہم مشعلِ خود داری کو نیچا نہ کریں گے

ہاں ذوقِ سفر بڑھ کے ہے منزل کی ہوس سے
ہم کھو بھی گئے تو کوئی شکوہ نہ کریں گے

وہ حرفِ سخن جو تری نسبت سے ملا ہے
اس حرف کو بازار میں رسوا نہ کریں گے

اپنی ہی بغاوت سے نبٹنا نہیں ممکن
یہ دل نہیں چاہے گا تو وعدہ نہ کریں گے

تڑپیں گے نہ بیکار کسی فکرِ عبث میں
احساس کی دولت کو یوں ضایع نہ کریں گے

ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۲۰۰۰
فاتح سید عاطف علی محمد تابش صدیقی کاشف اختر
بہت خوب کہا ہے جناب۔
سطر سطر قابل داد۔ نادر خیالات اور سبک بندش۔
 

محمداحمد

لائبریرین
یا حیرت !

ایسی خوبصورت غزل ہماری نظروں سے کیسے بچی رہی!

ہر ہر شعر نگینہ ہے ظہیر بھائی!

ماشاءاللہ۔ ماشاءاللہ۔

اللہ شاد آباد رکھے آپ کو۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہر ہر شعر نگینہ ہے ظہیر بھائی!

ماشاءاللہ۔ ماشاءاللہ۔

اللہ شاد آباد رکھے آپ کو۔

احمد بھائی ، آپ کا بڑاپن ہے یہ ! بہت محبت ہے آپکی ! آپ کی طرف سے داد پاکر خوشی سے سرشار ہوگیا ہوں !! اللہ آپ کو شاد آباد رکھے ۔ آمین ۔
یا حیرت !

ایسی خوبصورت غزل ہماری نظروں سے کیسے بچی رہی!

دراصل میں اُن دنوں آٹھ دس غزلیں ایک ساتھ لگا لگا کر اس کام کو جلد از جلد نبٹانا چاہ رہا تھا ۔ سو ایسے میں غزلیات کا نیچے کہیں تہہ میں دب جانا کچھ عجب نہیں ۔آپ فکر مت کیجئے جیسے ہی مجموعہ مدون ہوتا ہے اور ای بک بنتی ہے فوراً آپ کی خدمت مین روانہ کردوں گا ۔ :):):) اسے پیشگی وارننگ سمجھ لیجئے ۔ استاذی اعجاز عبید صاحب سے رمضان سے پہلے وعدہ کیا تھا کہ انہیں جلد ہی مجموعہ بھیج دوں گا ای بک بنانے کے لئے ۔ اب تک شرمندہ ہوں ۔ اصل میں پندرہ بیس غزلیات اور نکل آئی ہیں انہیں اور لگادوں تو تمام غزلیں ایک ہی ای بک میں آجائیں گی ۔
 

عارضی کے

محفلین
ویسے رائے اپنی ہے لیکن بیان کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے تو جون ایلیا سے زیادہ آپ کی غزل اچھی لگی ہے۔
بہت اچھی غزلیں ہیں۔ای بُک بنا کر اطلاع دیجیے گا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ویسے رائے اپنی ہے لیکن بیان کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے تو جون ایلیا سے زیادہ آپ کی غزل اچھی لگی ہے۔
بہت اچھی غزلیں ہیں۔ای بُک بنا کر اطلاع دیجیے گا۔

بہت نوازش جناب ! بہت شکریہ
پسند اپنی اپنی ہوتی ہے سو اس پر تو کوئی کلام نہیں ۔ البتہ بذاتِ خود میں آپ کی رائے سے متفق نہین ہوں ۔ :)
 
Top