ابن انشا سورج کا ڈبہ گول ہو گیا ابن انشاء

بنگش

محفلین
اخبار میں ایک برطانوي سائنسدان کا بیان آیا ہے کہ سورج کی میعاد ختم ہونے والی ہے۔ایک روز یک لخت اس کا چراغ گل ہو جائے گا۔اس کا جانا ٹہر گیا ہے صبح گیا یا شام گيا۔

یہ خبر پڑھ کر ہماری آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا ہےکیونکہ اس امر کے باوجود کہ ہمیں سورج پر بعض اعتراض ہیں، اس کی خوبیاں اظہر من الشمس ہیں۔ مثلا'' یہی کہ نہ اس میں تیل پڑتا ہے نہ بجلی کا خرچ ہے پھر بھی اچھی خاصی روشنی دیتا ہے۔ ہمارا اس پر اعتراض فقط یہ کہ یہ غلط وقت پر نکلتا ہے۔ یعنی صبح چھ سات بجے جبکہ ہماری بھر پور نیند کا وقت ہوتا ہے۔ اگر دوپہر کو یا شام کو نکلا کرے تو کتنی اچھی بات ہو۔ لیکن کوئ نہ کوئ نقص تو ہر چیز میں ہوتا ہے۔ حتی کہ کہتے ہیں کہ داغ تو سورج میں بھی ہوتا ہے۔

سورج اگر ختم ہو گیا تو اس کے عواقب بڑے سنگین اور دور رس ہوں کے۔ عام لوگ تو اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔سب سے زیادہ زد تو دھوبیوں کے کاروبار پر پڑے گی۔ کیونکہ ان بیچاروں کا تو روزگآر ہی کپڑے دھونا ہے، دھو تو خیر لیں گے سکھائیں گے کیسے ؟ دوسری ضرب ان کارخانوں اور دکانوں پر پڑے گی جو چھتریاں بناتے بیچتے ہیں۔ ٹھنڈی بوتلوں والوں کا کاروبار بھی ٹھنڈا ہو جائے گا۔ پھر اس کا اثر دنیا کے علاوہ دین پر بھی پڑنے کا اندیشہ ہے۔ رمضان شریف کے دنوں میں سورج بڑے کام آتا ہے روزہ رکھنے میں تو خیر کوئ ایسی مشکل نہیں کیونکہ تڑکے رکھا جاتا ہے۔ لیکن لوگ کھولا کیسے کریں گے؟ اس کے لیے تو غروب آفتاب شرط ہے۔ ہم اپنے دوست خواجہ عبدالغنی بیدل کے با رے میں بھی فکر مند ہیں۔ ان کا اصول ہے کہ صبح صبح ستاروں کی چھاؤں میں چرند پرند کے سا تھ اٹھ بیٹھتے ہیں اور سورج نکلنے تک سیر اور ورزش کرتے ہیں۔ نہ سورج ہو نہ نکلے ظاہر ہے قیامت تک سیر کرتے رہیں گے۔ یا ڈنٹر پیل پیل کر بے حال ہو جائیں گے۔ اب تو لوگ تاریکی سے گھبرا کر سویرا ہونے کی آرزو کرتے ہیں، آئندہ رات ہونے کی تمنا کرئیں کے کیونکہ رات میں کم از کم چآند تو ہوتا ہے ۔ دن میں تو تارے تک نہیں ہوتے،ہوتے ہیں تو ہر ایک کو نظر نہیں آتے۔ مو چيوں کو بھی مال کی کمی پڑ گئ تو پاپوش میں کس چیز کی کرن لگا یا کریئں کے۔ اور ہم اردو کے محاورہ دان آئندہ کس چیز کو چراغ دکھایا کریں گے۔
ہم ان سا ئنسدانوں کے ہاتوں بہت تنگ ہیں ۔ کبھی کہتے ہیں دنیا ختم ہو نے والی ہے ۔ سامان باندھ لو، تیار رہو ۔ کبھی فرماتے ہیں سورج کا آخری وقت آن پہنچاہے۔ اس کے سر ہانے یسین پڑھو کہ عزیزو اب اللہ ہی اللہ ہے ۔ ہمیں تو یہ ساری ان برطانوی سئنسدان کی کا رستانی معلوم ہو تی ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ برطانیہ کے اقبال کا سورج کبھی غروب نہ ہوتا تھا پھر غروب ہونا شروع ہوا تو ہوتا ہی چلا گیا ۔ اب انگریز کہتے ہیں ہم تو ڈوبے ہیں میاں تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ یہ تو خیر ہمارا نظریہ ہے ۔ یقین ہے کہ آگے چل کر اس سلسلے میں اور بھی نظریے سامنے آئیں گے ۔ امریکہ کو بین الاقوامی کمیونزم کی شازش نظر آے گی کہ اندھیرا کر کے یہ لوگ ہم پہ میزائل پھینکنا چاہتے ہیں۔ روس امریکی سامراج کی سازش کا سراغ لگائے گا کہ اب امریکہ کے تیل کے اجارہ داروں کی بن آیئگی مٹی کا تیل غریب ملکوں میں جس بھاؤ چاہیں گے بیچیں گے۔ پیکنگ ڈیلی کا وقائع نگآر سیاسی یوں بھانڈا پھوڑے گاکہ یہ امریکی امپیرلسٹوں اور روسی ترمیم پسندوں کی ملی بھگت ہے کیونکہ چین مشرق کی طرف ہے اور سورج مشرق ہی سے نکلا کرتا ہے۔ کچھ لوگ ریڈ گارڈز کی جلد بازی اور بے تمیزی کو بھی اس کا ذمہ دار ٹہرائیں گے ۔ جن سنگھ والے فورا'' بھانپ جا ئيں گئے کہ اس واردات کے پیچھے ہندوستانی مسلمانوں اور پاکستان کا ہاتھ ہے، یہ لوگ گائے کاٹ کر تو ہم بنیوں کی چھاتیوں پر مونگ دلا ہی کرتے تھےاب سورج کی بھی جڑ کاٹ رہے ہیں تاکہ ہمارے دھرم میں کھنڈت پڑے کیونکہ کسے معلوم نہیں کہ ہم لوگ پراچین زمانے سے ہی چڑھتے سورج کی پوجا کرتے آ ئے ہیں۔
اتنا بڑا واقعہ ہونے پر ہر طرف ہلچل مچ جاے گی۔ اخبارات سورج نمبر نکالیں گے۔ ہاکر آواز لگآتے پھریں گے۔'' ہو گیا ۔۔۔ہو گیا ،، سورج کا ڈبہ گول ہو گيا؛؛''بیانوں میں ہر چیز کا خیر مقدم کرنے والے اب کے بھی یہی بیان دیں گے۔ کہ ہم سورج کے ختم ہو نے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔اب سب کو مل کر صدر ایوب کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہییں۔ اپوزیشن والے کہیں گے۔''بالغ حق رائے دہی کو نظر انداز کرنے کا یہی نتیجہ ہونا تھا'' ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی فرمائیں گے'' علامہ اقبال نے مجھے اور ملک برکت علی مرحوم کو ہدایت کی تھی کہ سورج کا خیال رکھنا اسے کوی نقصان نہ پہنچے۔'' چودھری خلیق الزماں بیان دیں گے '' میں نے لارڈزٹ کو 1921 میں ہی بتا دیا تھا کہ ایسا ہونے والا ہے'' لیکن رئیس امروہی اپنے ہفتہ وار کالم میں بتائیں گے کہ سورج کے نہ ہونے کا خوابوں کی نفسیاتی تحلیل پر کیا اثّر پڑے گا۔ جمیل الدین عالی عالمی انسائیکلو پیڈ یا اور تاریخ طبری کے حوالے سے بتائیں گے کہ سورج بڑی پرانی چیز ہے۔ آشوریوں اور قدیم رومنوں کے دور میں بھی اس کا وجود تھا۔ وہ اس کے سارے نام بھی گنا جائیں گے کہ اسے اشتر، مجشوش، مقہار،بد لوک، مشتہاری، شقلون، سقلاوہ اور قرقراف کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ایک بیان حضرت اسلام سلمانی بی اے کا بھی آنا ضروری ہے کہ اس واقعئے کے بعد حجامتوں کے ریٹ میں اضافہ ناگزیر ہو گيا ہے اور میں ہیر ڈریسر برادری سے سورج کے متبادل انتظامات پر تبادلہ ء خیالات کرنے کے لیے عنقریب مغربی پاکستان کا طوفانی دورہ کروں گا۔

ہم نے اس خبر کا صرف ضروری حصہ کالم کے شروع میں دیا ہے ورنہ تو خبر لمبی ہے۔ اور اس میں بہت سی فروعی تفصیلات ہیں۔ جن سے ہمیں یا قارئین کو کوئ دلچسپی نہیں ہو سکتی۔ مثلا'' یہی کہ یہ حادثہ آج سے تین کروڑ سال بعد پیش آئے گا۔ اگر آیا تو !
 

شمشاد

لائبریرین
خاصا پرانا کالم ڈھونڈ نکالا ہے آپ نے کہیں سے۔ خیر

اردو محفل میں خوش آمدید

اپنا تعارف تو دیں۔
 

بنگش

محفلین
ابھی اس محفل میں نیا آیا ہوں، مجھے یہ علم نہیں ہے کہ تعارف کہاں دینا ہے، بہر حال کالم پسند کرنے کا شکریہ، ابھی ذرا گھوم پھر کر دیکھتا ہوں۔ اگر تعارف کا مقام ملا تو وہ بھی ہو جاےگا۔
 

محسن حجازی

محفلین
انشا جی کی کیا ہی بات ہے بہت نکتہ رس و نکتہ چیں طبیعت پائی۔ ہماری طرح ہر بات میں کچھ نہ کچھ ڈھونڈ لاتے ہیں۔ اب اسی کو لیجئے کہ کسے نہیں معلوم ہم پراجیں کے زمانے سے چڑھتے سورج کی پوجا کرتے آئے ہیں۔ :grin:
 
Top