سوختنی

آئیں گے بار بار آئیں گے
وہ پسِ انتظار آئیں گے

غم کے عادی ہیں، اے صنم ترے پاس
ہم خوشی سے دوچار آئیں گے

تیری محفل میں ساقیا لے کر
ہوش کا اک خمار آئیں گے

معبدِ فکر میں ترے عباد
بے حد و بے شمار آئیں گے

اے نشاطِ وجود تجھ پر ہم
یہ دل و جان وار آئیں گے

میرے جیسے گزر گئے لاکھوں
تیرے جیسے ہزار آئیں گے
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ریحان میاں ! اچھی غزل ہے ! آخری دو اشعار پسند آئے!
ایک دو اشعار پر البتہ چو نکنا پڑا ۔
غم کے عادی ہیں، اے صنم ترے پاس
ہم خوشی سے دوچار آئیں گے
ریحان بھائی ، یہاں دو چار کا واؤ آپ نے کس خوشی میں گرادیا ۔ :):):)

تیری محفل میں ساقیا لے کر
ہوش کا اک خمار آئیں گے
ہوش کا ایک خمار سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہوتا ہے ۔ یہاں شعر کو وضاحت درکار ہے ۔ عام اصول یہ ہے کہ جس شعر کے ساتھ وضاحتی نوٹ لگانا پڑے وہاں سمجھ لیجئے کہ ابلاغ کا مسئلہ ہے ۔

معبدِ فکر میں ترے عباد
بے حد و بے شمار آئیں گے
ایک تو یہاں یہ واضح نہیں کہ خطاب کس سے ہے ۔ اگر خدا سے خطاب ہے تو شعر کا مطلب کیا ہے ؟! اگر محبوب سے خطاب ہے تو معبدِ فکر کا کیا محل اور کیا معنی؟!
دوسرے یہ کہ اس طرح کی ترکیب میں حد کے دال پر تشدید ہوتی ہے ۔ دوسرا مصرع وزن میں نہیں ہے ۔

آخری دو شعر اچھے ہیں ! واہ!
 
بہت شکریہ جناب کہ آپ نے اس تکبندی پر بھی اپنی قیمتی رائے سے نوازا.
ریحان بھائی ، یہاں دو چار کا واؤ آپ نے کس خوشی میں گرادیا
میرے ناقص علم کے مطابق تو یہی فصیح ہے

جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دوچار ہوتا
( غالب)
به خنجرش ملک‌الموت اگر دوچار شود
کند سجودکه این خواجه است و من چاکر
( قاآنی)
دوسرے یہ کہ اس طرح کی ترکیب میں حد کے دال پر تشدید ہوتی ہے ۔ دوسرا مصرع وزن میں نہیں ہے ۔
میرے خیال سے تو حد "د" مشدد و غیر مشدد ہر دو صورت میں درست ہے.
فلک، ای دوست، ز بس بیحد و بیمر گردد
بد و نیک و غم و شادی همه آخر گردد
( پروین اعتصامی)
آواز تو بشنوم خوش آوازه شوم
چون لطف خدا بیحد و اندازه شوم
صد بار خریده‌ای و من ملک توام
یکبار دگر بخر که تا تازه شوم
( مولوی رومی)

جن اشعار میں ابلاع نہیں ہو پا رہا انھیں درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں. ایک بار پھر آپ کا بے حد شکرگزار ہوں.
 
بہت اچھی غزل ہے ۔۔ ایک بات سیکھنے کے حوالے عرض کرتا ہوں ۔۔ ترے پاس کس وزن پر ہو گا ۔۔ مفاعیل یا فعلات ۔ ۔۔ یہ اس بحر میں فعلن کی جگہ آ سکتا پے
 
بہت اچھی غزل ہے ۔۔ ایک بات سیکھنے کے حوالے عرض کرتا ہوں ۔۔ ترے پاس کس وزن پر ہو گا ۔۔ مفاعیل یا فعلات ۔ ۔۔ یہ اس بحر میں فعلن کی جگہ آ سکتا پے
فعِلات. جی فعِلن، فعلن، مفعول اور فعِلات سب بطور آخری رکن قابلِ قبول ہیں.
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میرے ناقص علم کے مطابق تو یہی فصیح ہے

جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دوچار ہوتا
( غالب)
به خنجرش ملک‌الموت اگر دوچار شود
کند سجودکه این خواجه است و من چاکر
( قاآنی)

ہا ہا ہا ! یہ تو لطیفہ ہوگیا ریحان میاں !:):):)
میں اس شعر میں دو چار بمعنی چند پڑھ رہا ہوں ۔ یعنی ہم غم کے مارے صرف دو چار لوگ ہی بخوشی تیرے پاس آئیں گے ۔ اسی لئے پوچھنا پڑا کہ یہ دو چار کی واؤ کیوں گرائی ہے ۔ اگر اس میں آپ نے فارسی لفظ دُوچار استعمال کیا ہے تو پھر آپ نے ٹھیک استعمال نہیں کیا ۔ دوچار آنا محاورہ نہیں ہے بلکہ دوچار ہونا محاورہ ہے ۔

میرے خیال سے تو حد "د" مشدد و غیر مشدد ہر دو صورت میں درست ہے.
فلک، ای دوست، ز بس بیحد و بیمر گردد
بد و نیک و غم و شادی همه آخر گردد
( پروین اعتصامی)
آواز تو بشنوم خوش آوازه شوم
چون لطف خدا بیحد و اندازه شوم
صد بار خریده‌ای و من ملک توام
یکبار دگر بخر که تا تازه شوم
( مولوی رومی)

ریحان بھائی ، اردو میں مستعمل الفاظ کے تلفظ ، تجنیس اور محلِ استعمال وغیرہ کی بابت اردو کی نظیر ہی قبول کی جائے گی ۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ بہت سارے عربی اور فارسی الفاظ اردو میں مختلف تلفظ اور معنی وغیرہ رکھتے ہیں ۔ جہاں تک میرا ناقص علم ہے اردو میں جب بیحد کو واؤ عطف کے ساتھ کسی ترکیب میں استعمال کیا جاتا ہے تو دال مشدد ہی بولا اور لکھا جاتا ہے ۔ ذہن پر زور دالنے کے باوجود اردو شعر میں ایسی کوئی مثال یاد نہیں آرہی کہ جہاں دال غیر مشدد استعمال ہوا ہو ۔ اگر ایسی کوئی مثال سامنے آئے تو مجھے بھی شریک کیجئے گا ۔ تب تک کے لئے میں تو دال مشدد ہی استعمال کرتا رہوں گا ۔
 
Top