سوال

عثمان

محفلین
جیسے پیچھلے مراسلوں میں کہا گیا کہ بعض سوالات کے جوابات نہیں ہوتے، تو پھر ایسے سوالات کے جوابات تلاش کرنے میں زندگی لگا دینا؟ یہ عجیب سا نہیں لگتا؟
جواب ڈھونڈنے کی سعی کرنے سے بھی پہلے۔۔ سوال کو ترتیب دینے کی کوشش ہی آپ کے خیالات کی تطہیر کرتی ہے۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
جس جس بات کی سمجھ نہیں آئی اس پر سوال کیجیے اسے چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں گی تو دماغ سہل پسند ہو جائے گا ۔
اب آپ کا یہ سوال کہ کیا ہر سوال کا منطقی جواب اور دلیل موجود ہے ؟
بالکل موجود ہے مگر ہم سمجھتے نہیں یا جانتے نہیں ہم جوابات اپنی سمجھ اور علم کے مطابق دیتے ہیں اگر ہمارا علم محدود ہے تو اس میں قصور حقائق کا نہیں ہماری ناقص معلومات کا ہے یہی حال مذہبی سوالات کا بھی ہے جواب ہیں مگر وہ نہیں جو ہم چاہتے ہیں کیونکہ وہ عقائد کی نفی کرتے ہیں ۔ اسی لئے سوال کرنا اور بھی ضروری ہے ایک نسل سوال کرتی ہے تو اگلی کئی نسلیں جواب ڈھونڈتی ہیں جواب جو تحقیق اور جستجو مانگتے ہیں ۔
جی میں سمجھ گئی.
جواب ہیں مگر وہ نہیں جو ہم چاہتے ہیں کیونکہ وہ عقائد کی نفی کرتے ہیں ۔
اس نکتے کی تھوڑی وضاحت کریں گی پلیز!
 

صائمہ شاہ

محفلین
جی میں سمجھ گئی.

اس نکتے کی تھوڑی وضاحت کریں گی پلیز!
ہمارے ہاں ہزاروں سکول آف تھاٹس ہیں عقائد کو لے کر مگر میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ آپ کا عقیدہ وہی ہے جس میں آپ پیدا ہوئیں کیا کبھی آپ نے کسی اور عقیدے کو پڑھا ہے ؟ کیا کبھی آپ نے اپنے عقیدے کی تحقیق کی ہے ؟ یہی بیان کرنا چاہ رہی تھی کہ ہمارا صحیح وہ ہے جسے ہم جانتے ہیں اور یہ صحیح کا معیار نہیں ۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
کیا محض سوال اہم ہے یا طریقہ طرز سوال بھی؟؟ جس میدان میں آپ سوال کر رہے ہیں اس کا کچھ علم بھی؟؟
میں نے اسی تحریر میں توازن کا بھی ذکر کیا تھا سوال کی جارحیت یا جواب کا دفاع دونوں ہی توازن کھو دیں تو اپنی افادیت بھی کھو دیتے ہیں اور سوال ہی کیا زندگی کے کسی بھی معاملے میں توازن کھونا ناکامی ہے ۔ باقی رہا معاملہ علم کا تو سوال علم کی سیڑھی ہے اگر کسی کے سوال کا جواب دینے کے لیے سیڑھی کے سب سے نچلے حصے کی طرف دیکھنا پڑے تو کیا مضائقہ ہے ۔
 
آخری تدوین:
میں نے اسی تحریر میں توازن کا بھی ذکر کیا تھا سوال کی جارحیت یا جواب کا دفاع دونوں ہی توازن کھو دیں تو اپنی افادیت بھی کھو دیتے ہیں اور سوال ہی کیا زندگی کے کسی بھی معاملے میں توازن کھونا ناکامی ہے ۔ باقی رہا معاملہ علم کا تو سوال علم کی سیڑھی ہے اگر کسی کے سوال کا جواب دینے کے لیے سیڑھی کے سب سے نچلے حصے کی طرف دیکھنا پڑھے تو کیا مضائقہ ہے ۔
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ علم کے جس میدان میں آپ سوال کر رہے ہیں وہاں آپ کی علمی حیثیت کیا ہے؟؟ کیا بات اہمیت رکھتی ہے یا نہیں؟ سوال اور اعتراض میں فرق ہے یا نہیں؟؟
 

صائمہ شاہ

محفلین
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ علم کے جس میدان میں آپ سوال کر رہے ہیں وہاں آپ کی علمی حیثیت کیا ہے؟؟ کیا بات اہمیت رکھتی ہے یا نہیں؟ سوال اور اعتراض میں فرق ہے یا نہیں؟؟
اعتراض وہ شخص کرے گا جو اس معاملے میں علم نہیں رکھتا یا زیادہ علم رکھتا ہے اور سوال وہ کرے گا جو جاننا چاہتا ہے مگر جانتا نہیں اب ہر دو صورت میں انتہا ملے گی اور اس انتہا کو کس طریقے سے ڈیل کرنا ہے یہ عالم کا کام ہے ۔
اور توازن عالم کی بھی ضرورت ہے بہت سے صاحب علم اصحاب علم کا تکبر رکھتے ہیں جو علم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا الٹا جستجو کی موت واقع ہو جاتی ہے ۔
 

زیک

مسافر
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ علم کے جس میدان میں آپ سوال کر رہے ہیں وہاں آپ کی علمی حیثیت کیا ہے؟؟ کیا بات اہمیت رکھتی ہے یا نہیں؟ سوال اور اعتراض میں فرق ہے یا نہیں؟؟
کیا پرائمری کے بچوں کو critical thinking سکھانا غلط ہے؟ ہم تو اسے بہت اہم سمجھتے ہیں۔
 
اعتراض وہ شخص کرے گا جو اس معاملے میں علم نہیں رکھتا یا زیادہ علم رکھتا ہے اور سوال وہ کرے گا جو جاننا چاہتا ہے مگر جانتا نہیں اب ہر دو صورت میں انتہا ملے گی اور اس انتہا کو کس طریقے سے ڈیل کرنا ہے یہ عالم کا کام ہے ۔
اور توازن عالم کی بھی ضرورت ہے بہت سے صاحب علم اصحاب علم کا تکبر رکھتے ہیں جو علم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا الٹا جستجو کی موت واقع ہو جاتی ہے ۔
آپ کی تحریر، تحمل، طرز بیاں، انداز بیاں۔۔۔۔ اور نفسیات یا اعصاب پر گرفت۔۔!! بہت خوب اور مستحق داد ہیں۔۔!!
معذرت!! یہاں ایک ہی بار ریٹنگ دی جا سکتی ہے۔۔!! :):)
 

سید عمران

محفلین
ہمارے ہاں ہزاروں سکول آف تھاٹس ہیں عقائد کو لے کر مگر میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ آپ کا عقیدہ وہی ہے جس میں آپ پیدا ہوئیں کیا کبھی آپ نے کسی اور عقیدے کو پڑھا ہے ؟ کیا کبھی آپ نے اپنے عقیدے کی تحقیق کی ہے ؟ یہی بیان کرنا چاہ رہی تھی کہ ہمارا صحیح وہ ہے جسے ہم جانتے ہیں اور یہ صحیح کا معیار نہیں ۔
جی میں نے وسعت ذہنی سے سارے مشہور مذاہب اور ملکی مسالک کو پڑھا ہے... اس نیت سے کہ جو حق بات ہے وہ واضح ہوجائے...
 

نایاب

لائبریرین
زندگی کے سب سے بڑے سچ " سوال " بارے آگہی بکھیرتی اک اچھی تحریر
سوال ہی سچ ہے ۔ ایسا سچ جو کبھی فنا نہیں ہوتا ۔
ہر سوال کا جواب کتنی ہی محنت و مشقت و تحقیق سے کیوں نہ تلاشا جائے ۔
اور چاہے جواب تسلی بخش بھی ہو ۔ خود میں مزید کئی سوال سموئے ہوئے ہوتا ہے ۔
سوال سے مفر کسی کو بھی نہیں ۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ سوال کرو تاکہ جواب ملے ۔
اور جواب سے وہی مطمئن ہوتے ہیں جو پہلے سوال کے براہ راست جواب کے متمنی ہوں ۔
جواب ملنے پر اسے تسلیم کریں ۔ جواب پر اعتراض کی بجائے جواب سے مزید سوال سامنے لائیں ۔
سوال بظاہر مفرد دکھائی دیتے خود میں ہزارہا سوالوں کو سموئے ہوئے ہوتا ہے ۔
کیا ہر سوال کا منطقی جواب اور دلیل موجود ہے؟
یہ منطق ہی ہوتی ہے جو سوال سے ملے جواب کو مزید سوالوں کی جانب دھکیلتی ہے ۔
اور مزید سوالوں کا سامنے آنا ہی ہر " سوال کا منطقی جواب کے ہونے کی " دلیل ہوتا ہے ۔
سوال علم کا بنیادی اور اہم نقطہ ہے ۔ اور علم کے قافلے کا رہنما ۔۔۔۔۔
کج بحثی اور بے بنیاد اعتراضات اس قافلے کی راہ میں مزاحم ہوتے ہیں ۔
علم کے قافلے کو روک تو نہیں پاتے بھول بھلیوں کی جانب رخ موڑ دینے کا سبب بن جاتے ہیں ۔
بہت دعائیں
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
بہت اچھی تحریر ہے... پوری لڑی پڑھ ڈالی پر ایک بات سمجھ نہیں آئی.... کیا ہر سوال کا منطقی جواب اور دلیل موجود ہے؟
یقین رکھئے کہ ہر سوال کا منطقی جواب اور دلیل موجود ہے۔ ڈھونڈنا شرط ہے۔ کچھ باتوں کا جواب سائنس سے دیا جاسکتا ہے، کچھ کا کسی اور طریقے سے جس پر سائنس یقین نہیں رکھتی، مثلا مذہب یا دیگر ایسے علوم جن پر سائنس یقین نہیں رکھتی۔ یہ بات البتہ یاد رکھنے کی ہے کہ جواب تو ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر جواب آپ کی پسند کا ہو یا آپ کو سمجھ میں آسکے کیونکہ انسانی ذہن ہر بات کو سمجھ نہیں سکتا۔ اس کے علاوہ کچھ باتوں تک آپ کی رسائی نہیں ہے جیسے بلیک ہول۔ اس کے بارے میں جو کچھ بھی ہمیں پڑھنے ، سننے اور سمجھنے کو ملتا ہے، ابھی تک زیادہ تر محض مفروضے ہیں۔ حقیقت کیا ہے، یہ بلیک ہول میں جا کر ہی پتہ چل سکتا ہے اور جو وہاں جاسکتا ہے، واپس نہیں آسکتا کیونکہ اس کے لیے آ پ کو روشنی سے بھی زیادہ تیز رفتار ہونا پڑے گا جو آج تک ممکن نہ ہوسکا۔ اس کی کشش اتنی زیادہ ہے کہ آس پاس کے ستاروں کے مادے کھینچ کر اپنے اندر جذب کرتا اور خود بڑا ہوتا رہتا ہے۔ ستارہ آہستہ آہستہ غائب ہوجاتا ہے۔ آپ کو اس کے بارے میں جاننے کا شوق ہو تو سوچئے اس کے بارے میں پیدا ہونے والے سوالات کے جواب ڈھونڈنے میں آپ کی پوری زندگی گزر جائے گی، پھر بھی سوال ادھورے رہیں گے۔ جہاں تک ہمیں محسوس ہوتا ہے۔ پھر بھی تشنگی کسی نہ کسی حد تک تو ان تھیوریز سے دور ہوہی جائے گی جو آج تک اس کے بارے میں پیش کی گئی ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
یقین رکھئے کہ ہر سوال کا منطقی جواب اور دلیل موجود ہے۔ ڈھونڈنا شرط ہے۔ کچھ باتوں کا جواب سائنس سے دیا جاسکتا ہے، کچھ کا کسی اور طریقے سے جس پر سائنس یقین نہیں رکھتی، مثلا مذہب یا دیگر ایسے علوم جن پر سائنس یقین نہیں رکھتی۔ یہ بات البتہ یاد رکھنے کی ہے کہ جواب تو ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر جواب آپ کی پسند کا ہو یا آپ کو سمجھ میں آسکے کیونکہ انسانی ذہن ہر بات کو سمجھ نہیں سکتا۔ اس کے علاوہ کچھ باتوں تک آپ کی رسائی نہیں ہے جیسے بلیک ہول۔ اس کے بارے میں جو کچھ بھی ہمیں پڑھنے ، سننے اور سمجھنے کو ملتا ہے، ابھی تک زیادہ تر محض مفروضے ہیں۔ حقیقت کیا ہے، یہ بلیک ہول میں جا کر ہی پتہ چل سکتا ہے اور جو وہاں جاسکتا ہے، واپس نہیں آسکتا کیونکہ اس کے لیے آ پ کو روشنی سے بھی زیادہ تیز رفتار ہونا پڑے گا جو آج تک ممکن نہ ہوسکا۔ اس کی کشش اتنی زیادہ ہے کہ آس پاس کے ستاروں کے مادے کھینچ کر اپنے اندر جذب کرتا اور خود بڑا ہوتا رہتا ہے۔ ستارہ آہستہ آہستہ غائب ہوجاتا ہے۔ آپ کو اس کے بارے میں جاننے کا شوق ہو تو سوچئے اس کے بارے میں پیدا ہونے والے سوالات کے جواب ڈھونڈنے میں آپ کی پوری زندگی گزر جائے گی، پھر بھی سوال ادھورے رہیں گے۔ جہاں تک ہمیں محسوس ہوتا ہے۔ پھر بھی تشنگی کسی نہ کسی حد تک تو ان تھیوریز سے دور ہوہی جائے گی جو آج تک اس کے بارے میں پیش کی گئی ہیں۔
واقعی ہر سوال کا جواب موجود ہے۔۔۔
لیکن انسان کے پاس نہیں۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ علم کے جس میدان میں آپ سوال کر رہے ہیں وہاں آپ کی علمی حیثیت کیا ہے؟؟ کیا بات اہمیت رکھتی ہے یا نہیں؟ سوال اور اعتراض میں فرق ہے یا نہیں؟؟
علمی حیثیت سے قطع نظر سوال کرنا ہر شخص کا حق ہے۔ یہ بات اہمیت رکھتی ہے لیکن صرف اس حد تک کہ اگر آپ کا علم زیادہ ہے تو آپ اسی سطح پر سوال کریں گے اور اگر ناقص ہے تو سوال بھی سطحی ہوسکتا ہے۔ سوال اور اعتراض میں فرق بعض اوقات محض نیت کا ہوتا ہے اور بعض اوقات اس میں کوئی ایسا بیان داغ دیا جاتا ہے جس سے عزت نفس مجروح ہوسکتی ہے یا مذہبی اختلافات وغیرہ پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایسا بیان اگر اعتراض کے علاوہ سوال میں بھی کردیا جائے تو وہ بھی پریشان کن ہوگا۔ مثلا ہم سوال کرنے سے پہلے کوئی ایک جملہ تحریر کردیتے ہیں جو بظاہر سوال کا حصہ مگر حقیقت میں ایک بیان ہوتا ہے۔ اس پر فتویٰ بھی عائد ہوسکتا ہے اور اعتراض بھی کیا جاسکتا ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
انسان نے بہت لمبا سفر کیا ہے بہت سے جوابات کے لئے اور مجھے یقین ہے بہت سے جوابات منتظر ہیں انسانی کاوش کے :)

پچھلی پوسٹ میں عقائد پر مبنی بات نے آپ سے سوال کرنے پہ مجبور کردیا ۔ کیا آپ نے اپنے عقیدے کو پڑھا سمجھا ہے ؟ اپنے حوالے سے وضاحت دیتی چلوں ۔میری زندگی میں عقائد و کی پہ در پہ بوچھاڑ نے مجھے عیسائیت اختیار کرنے پر بھی اکسایا ۔ میں اگر آزاد ماحول کی پروردہ ہوتی تو یقینا اس کو اختیار بھی کرلیتی مگر مجھے یقین ہے اگر اختیار کرتی تو واپس اسی مذہب پر لوٹتی ۔ خدا کون ہے ، خدا کیا ہے ، خدا کون سے غیر مرئی قوت ۔۔۔۔ ان سب سوالات کے جواب نے مجھے بتایا کہ دین محمدی میرے لیے سب سے بہترین ہے ۔ایک سوال جس نے مجھے بہت بے چین کیا اور ابتدائی عمر یعنی 5 یا 6 سال کی عمر سے یہی سوچتی رہی کہ خدا کا وجود کہاں ، کیسے وجود میں آیا ، قرانی تعلیمات سے بالا تر عقلی بنیاد پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب کچھ حد تک میں اس سوال کے جواب کے قریب ہوں کہ عین ممکن ہے علم بھی ہوجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال بھی خود سے ، جواب بھی خود سے ۔۔۔۔۔۔کیونکہ جن کو سوال کرنے کی عادت ہوتی ہے ان کے سوالات سے دنیا تنگ ہوتے ان کو چپ کرادیتی ہے !!!
 
Top