سوال

سید عمران

محفلین
سوال کرنا غلط نہیں ہے۔ ا س کا انداز درست یا غلط ہوسکتا ہے۔ پھر بھی سوال کرنے پر فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ سوال غلط یا درست نہیں ہوتا، وہ محض سوال ہوتا ہے۔ جیسے یہ سوال کہ خدا کتنے ہیں ؟ ایک یا ایک سے زائد؟ اور اگر ایک ہے تو اس کی دلیل کیا ہے؟ نہ غلط سوال ہے نہ درست۔ نہ اس سے بے ادبی جھلکتی ہے نہ کفر ظاہر ہوتا ہے۔ یہ سوال کافر بھی پوچھ سکتا ہے اور مومن بھی۔ جسے یقین ہے کہ اللہ ایک ہے وہ بھی پوچھ سکتا ہے اور جسے خدا کے ہونے سے بھی انکار ہے، وہ بھی پوچھ سکتا ہے۔ اسلام اس سے نہیں روکتا۔ اللہ اس کا برا نہیں مانتا، بلکہ قدم قدم پر جواب دیتا ہے کہ غور کرو، فکرو کرو۔ کائنات میں، زمین میں، آسمان میں۔ اپنی ذات میں۔ تمہیں ایک خدا ہر جگہ نظر آئے گا۔ رہی یہ بات کہ آج کل سوال پوچھنا جرم بنا دیا گیا ہے، تو جس معاشرے میں تعلیم پر خرچ نہیں کیا جاتا، تعلیمی نظا م کو بے مصرف ، عمل سے عاری اور حالات سے مطابقت نہ رکھنے والے افراد پیدا کرنے کی مشین اور کتابوں کی اشاعت کو کاروبار سمجھا جاتا ہے،وہاں سوال پوچھنا بھی جرم ہے اور اس کا جواب دینا بھی۔ جسے جواب خود معلوم نہیں وہ اسے بدتمیزی اور کفر ہی قرار دے گا۔ مجھے میرے والدین نے بتا دیا کہ اللہ ایک ہے۔ اس کی دلیل نہیں دی۔ دلیل میرے پاس ہے ہی نہیں۔ میں آپ کو کیسے سمجھاؤں کہ وہ ایک ہے؟ اس پر میرا فرض یہ بنتا ہے جب مجھ سے ایسا سوال پوچھا جائے جس کا جواب میرے پاس نہیں تو میں یہ تسلیم کرلوں کہ جواب میرے پاس نہیں ہے۔ لیکن میری انا یہ گوارا نہیں کرے گی۔ میں اپنی جہالت کی وجہ سے یہ یقین کرنے پر بھی مجبور رہوں گا کہ اگر میں نے جواب نہیں دیا تو سمجھا جائے گا کہ جواب ہے ہی نہیں۔ اللہ ایک ہے اگر میں ثابت نہیں کرسکا تو مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ ایک سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ حالانکہ یہ محض میرا وہم ہے۔ اگر جواب میرے پاس نہیں ہے تو تلاش کرنا مجھ پر فرض ہے۔ یا پھر یہ کرنا چاہئے کہ جو منصب مجھے عطا کیا گیا ہے، میں اس سے مستعفی ہوجاؤں۔ اگر میں عالم کہلاتا ہوں تو علم میرے پاس ہونا چاہئے۔ نہیں ہے تو عالم کہلانا بھی غلط ہے۔ سوال غلط نہیں بلکہ ضروری ہے اور اس کا جواب بھی، تاکہ علم جو آپ کے پاس ہے، وہ دلیل کی بنیاد پر مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے۔ اور اگر کوئی جہالت یا غلط فہمی ہے تو اسے دور کیا جائے۔
علم غیب اسی کا نام۔۔۔
اور ایمان بالغیب بھی یہی ہے۔۔۔
فرشتے اور جن بھی کسی نے نہیں دیکھے۔۔۔
ان کے وجود کی دلیل کہاں سے لائی جائے گی؟؟؟
انسان کی ہر علم تک رسائی نہیں ہے۔۔۔
انسان کی کم علمی کی تصدیق اللہ تعالی کررہے ہیں۔۔۔
و ما اوتیت من العلم الا قلیلا۔۔۔
ہم نے اپنے لامحدود علم سے تمہیں بہت بہت بہت قلیل علم دیا ہے۔۔۔
بات اس علم کی ہورہی ہے جس تک انسان کی رسائی ہے۔۔۔​
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
علم غیب اسی کا نام۔۔۔
اور ایمان بالغیب بھی یہی ہے۔۔۔
فرشتے اور جن بھی کسی نے نہیں دیکھے۔۔۔
ان کے وجود کی دلیل کہاں سے لائی جائے گی؟؟؟
انسان کی ہر علم تک رسائی نہیں ہے۔۔۔
انسان کی کم علمی کی تصدیق اللہ تعالی کررہے ہیں۔۔۔
و ما اوتیت من العلم الا قلیلا۔۔۔
ہم نے اپنے لامحدود علم سے تمہیں بہت بہت بہت قلیل علم دیا ہے۔۔۔
بات اس علم کی ہورہی ہے جس تک انسان کی رسائی ہے۔۔۔​
آپ کی رسائی جہاں تک ہے، وہاں تک تو سوچنا آپ کا فرض بنتا ہے۔ اللہ ایک ہے، اس کی دلیل تو آپ کو بچوں کو پڑھائی جانے والی اسلامیات کی کتابوں میں بھی مل جائے گی۔ جنات، فرشتے اور علم غیب تو بعد کی بات ہے۔ ہماری تو بنیاد ہی یہی ہے : کہو کہ اللہ ایک ہے۔ کافر آپ سے پوچھے گا اللہ ایک ہے، میں کیسے مانوں؟ کوئی تو دلیل ہونی چاہئے۔ یہ ہم بالکل بنیادی بات کر رہے ہیں۔ جنات ، فرشتے، علم غیب ۔۔۔ بہت آگے کی باتیں ہیں اور ان کے دلائل بھی حقائق اور لوگوں سے ملنے والی شہادتوں کے ذریعے مل جاتے ہیں۔ فرشتے تو آپ ثابت نہیں کرسکتے کہ ہیں کیونکہ وہ صرف اور صرف اللہ کا حکم مانتے ہیں۔ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرتے۔ یہ اس کی دلیل ہوئی کہ ثابت نہیں کرسکتے تو اس کی وجہ کیا ہے۔ اب رہے جنات ، تو وہ دکھائی نہ دینے والی مخلوق ہے لیکن جنات کو قابو کرنے والے، علم رکھنے والے بہت سے لوگوں کے واقعات آپ کو کتابوں سے دستیاب ہوجائیں گے۔ آپ جنات کو حاضر کرنے والے لوگوں کو دیکھیں گے۔ ان سے ملیں گے تو اندازہ ہوجائے گا لیکن یہ سب کوئی ضروری نہیں ہے کہ ثابت کیا جائے۔ ایمان بالغیب ضروری ہے لیکن وہ بعد کی بات ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اللہ ایک ہے، یہ مان لیا جائے۔ اگر یہ مان لیں گے تو بعد کے جھگڑے تو ویسے ہی ختم ہوجائیں گے۔ جس نے مان لیا کہ اللہ ایک ہے وہ اللہ کی ہر بات کو مان لے گا اور جس نے نہ مانا وہ کسی بھی بات پر اعتراض کرسکتا ہے۔ سوال کی حوصلہ شکنی مت کیجئے۔ یہ علم کے خلاف بات ہے۔ علم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی تو قرآن اور حدیث دونوں کرتے ہیں۔ اس سے کیسے انکار ممکن ہوسکتا ہےِ؟
 

سید عمران

محفلین
دلائل زبانی بھی ہوسکتے ہیں اور
ٹھوس مادی بھی۔۔۔
علمی بھی ہوسکتے ہیں اور عملی بھی۔۔۔
خدا کی وحدانیت کی علمی و زبانی دلیل یہ آیت ہے ۔۔۔
لو كان فيهما آلهة إلا الله لفسدتا
اگر ایک سے زیادہ خدا ہوتے تو کائنات میں فساد ہوجاتا۔۔۔
مادی اور عملی دلیل کائنات کے نظام کا بغیر افراتفری جاری نظم و نسق ہے۔۔۔
اب رہی بات کسی کو منوانا ۔۔۔
تو خدا نے یہ کسی کے ذمے نہیں لگایا۔۔۔
انبیاء سے بھی کہہ دیا کہ یہ کہو۔۔۔
و ما علینا الا البلاغ المبین۔۔۔
ہمارے ذمے اچھی طرح سمجھانے کے سوا اور کچھ نہیں۔۔۔
اور خدا کی وحدانیت کی بات تو دور کی ہے۔۔۔
لوگ تو خدا کے وجود کو بھی نہیں مانتے۔۔۔
ہمارا کام سمجھانا ہے۔۔۔
ایسے لوگوں سے نمٹنا خدا کا کام ہے۔۔۔
جس کو جو کام ہے اس کو کرنے دیں!!!
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
دلائل زبانی بھی ہوسکتے ہیں اور
ٹھوس مادی بھی۔۔۔
علمی بھی ہوسکتے ہیں اور عملی بھی۔۔۔
خدا کی وحدانیت کی علمی و زبانی دلیل یہ آیت ہے ۔۔۔
لو كان فيهما آلهة إلا الله لفسدتا
اگر ایک سے زیادہ خدا ہوتے تو کائنات میں فساد ہوجاتا۔۔۔
مادی اور عملی دلیل کائنات کے نظام کا بغیر افراتفری جاری نظم و نسق ہے۔۔۔
اب رہی بات کسی کو منوانا ۔۔۔
تو خدا نے یہ کسی کے ذمے نہیں لگایا۔۔۔
انبیاء سے بھی کہہ دیا کہ یہ کہو۔۔۔
و ما علینا الا البلاغ المبین۔۔۔
ہمارے ذمے اچھی طرح سمجھانے کے سوا اور کچھ نہیں۔۔۔
اور خدا کی وحدانیت کی بات تو دور کی ہے۔۔۔
لوگ تو خدا کے وجود کو بھی نہیں مانتے۔۔۔
ہمارا کام سمجھانا ہے۔۔۔
ایسے لوگوں سے نمٹنا خدا کا کام ہے۔۔۔
جس کو جو کام ہے اس کو کرنے دیں!!!
امر بالمعروف و نہی عن المنکر پوری امت کا فریضہ ہے۔ اچھی طرح سمجھانا کیسے ممکن ہوگا جب آپ کے پاس دلیل ہی نہیں۔ دلیل سوال کے جواب میں دی جاتی ہے۔ ایک بچے کو سمجھانا ہو تو اس کی ذہنی سطح کے مطابق جواب دینا ضروری ہے۔ اسی طرح ایک کافر کو جواب دے رہے ہیں تو اسی کی طرح بعض مرتبہ یہ فرض کرنا پڑتا ہے کہ خدا نہیں ہے۔ پھر آہستہ آہستہ آپ اس نتیجے کی طرف آتے ہیں کہ خدا ہے۔ پھر وہ ایک ہے، یہ ثابت کیا جاتا ہے۔ علمی طریقہ یہی ہے۔ اب رہی لوگوں سے نمٹنے کی بات، تو خدا کی سنت کبھی نہیں بدلتی۔ وہ کسی کا رزق اس وجہ سے نہیں روکتا کہ وہ اس کو مانتا نہیں۔ کافر اور مومن دونوں کو رزق دیتا ہے۔ دونوں کے لیے سہولیات، وسائل اور اسباب پیدا کرتا ہے۔ ہاں آپ یہ کہیے کہ سمجھانا تو آپ کا فرض ہے، ہدایت دینا یا نہ دینا اللہ کا کام ہے۔ وہ جسے چاہے ہدایت دے، جسے چاہے گمراہ کرے۔ آپ کا فرض سمجھانا نہیں ہے۔ اچھی طرح سمجھانا ہے۔ ایسے سمجھانا کہ سمجھانے کا حق ادا ہوجائے۔ منوانا بے شک کسی کے ذمے نہیں لیکن سمجھانا اور دلیل سے سمجھانا ضروری ہے۔ ایسے میں ہر عالم دین پر فرض ہے کہ وہ سائنس کا علم بھی حاصل کرے۔ جب اس سے یہ پوچھا جائے کہ خدا کے وجود کی دلیل کیا ہے؟ سائنس سے ثابت کرو۔ وہ یہ مثال دے سکے کہ دیکھو تم جس کہکشاں میں رہتے ہو، اس کا نام ملکی وے ہے۔ اس میں صرف ایک نظام شمسی نہیں ہے۔ اور بھی بہت سے نظام ہائے شمسی موجود ہیں۔ بہت سے سورج ہیں اور بہت سے سیارے ان کے اردگرد گھوم رہے ہیں۔ کہکشائیں بھی حرکت کرتی ہیں اور بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک کہکشاں دوسری کہکشاں کے اندر سے اس طرح گزر جاتی ہے کہ ایک بھی سیارہ دوسرے سیارے کو اور کوئی ایک بھی ستارہ یا سورج دوسری کہکشاں کے کسی ایک بھی سورج کو چھوتا تک نہیں ۔ یہ اس نظام کی کاملیت ہےجسے تم نے نہیں بنایا۔ اللہ نے بنایا ہے۔ یہ محض ایک دلیل ہے۔ ایسی کروڑوں دلیلیں سائنس کے مطالعے سے علمائے دین کو مل سکتی ہیں۔ اگر غور کیا جائے اور سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے لیے تحقیق کی جائے۔ سوال کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
۱) امر اور نہی۔۔۔ افعال امر ہیں۔۔۔ یعنی کام کرنے کا حکم دینا اور کام نہ کرنے کا حکم دینا۔۔۔
حکم دینا صرف حکومت کے ذمے ہے۔۔۔ اور امر و نہی بھی سرکاری شعبہ ہے۔۔۔ عام لوگوں کا کام ترغیب و ترہیب سے صرف اچھی طرح سمجھانا ہے۔۔۔
۲) خدا کے وجود کو تسلیم نہ کرنے سے آہستہ آہستہ عدم ۔۔۔وجود میں کیسے آجاتا ہے؟؟؟
یہ طریقہ تو کبھی کسی نے نہیں سکھایا۔۔۔
۳) نمٹنے سے مراد صرف دنیا ہی نہیں ہے۔۔۔ دنیا اور آخرت دونوں ہیں۔۔۔ اس کی حکمت کب کس سے کیسے نمٹے۔۔۔
۴) اپنے پچھلے مراسلے میں اچھی طرح سمجھانے کا ہی لکھا ہے جو المبین کا ترجمہ ہے۔۔۔
۵) سائنس سے خدا تو کیا اپنی روح تک ثابت نہیں کرسکتے۔۔۔
۶) ہر کام علماء کے ذمے نہیں ہوسکتا۔۔۔۔ جیسے کوئی بیک وقت وکیل، ڈاکٹر اور انجینئر نہیں بن سکتا۔۔۔
دین کا علم اچھی طرح حاصل کرنا فل ٹائم جاب ہے۔۔۔ اس کے لیے ایک طویل عمر چاہیے۔۔۔
اور ہمیں یہ چاہیے کہ جس کا جو کام ہے اسے کرنے دیں۔۔۔
انجینئر سے عالم اور عالم سے سائنس داں بننے کی فرمائش نہ کریں۔۔۔
بلکہ ہر ایک دوسرے سے علم سمیت ہر معاملے میں تعاون کرنے والا بنے۔۔۔
یہ ہر ایک کے لیے ایک قابل عمل طریقہ ہے۔۔۔
 
آخری تدوین:
تم جس کہکشاں میں رہتے ہو، اس کا نام ملکی وے ہے۔ اس میں صرف ایک نظام شمسی نہیں ہے۔ اور بھی بہت سے نظام ہائے شمسی موجود ہیں۔ بہت سے سورج ہیں اور بہت سے سیارے ان کے اردگرد گھوم رہے ہیں۔ کہکشائیں بھی حرکت کرتی ہیں اور بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک کہکشاں دوسرے کہکشاں کے اندر سے اس طرح گزر جاتی ہے کہ ایک بھی سیارہ دوسرے سیارے کو اور کوئی ایک بھی ستارہ یا سورج دوسری کہکشاں کے کسی ایک بھی سورج کو چھوتا تک نہیں ۔
دلچسب۔
کوئی حوالہ دے سکتے ہیں آپ تسلی کے لیے؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
۱) امر اور نہی۔۔۔ افعال امر ہیں۔۔۔ یعنی کام کرنے کا حکم دینا اور کام نہ کرنے کا حکم دینا۔۔۔
حکم دینا صرف حکومت کے ذمے ہے۔۔۔ اور امر و نہی بھی سرکاری شعبہ ہے۔۔۔ عام لوگوں کا کام ترغیب و ترہیب سے صرف اچھی طرح سمجھانا ہے۔۔۔
قرآن کی آیات ہی دیکھ لیجئے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے متعلق ہیں۔ میں عالم دین تو نہیں، لیکن یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مفہوم کچھ اس طرح نکلتا ہے کہ تم بہترین امت ہو جو نیکی کا حکم دیتی اور برائی سے روکتی ہے۔ امت اورحکومت میں تو زمین آسمان کا فرق ہے۔

۲) خدا کے وجود کو تسلیم نہ کرنے سے آہستہ آہستہ عدم ۔۔۔وجود میں کیسے آجاتا ہے؟؟؟
۔۔۔یہ سوال آپ نے کہاں سے اخذ کر لیا، سمجھ میں نہیں آیا۔

یہ طریقہ تو کبھی کسی نے نہیں سکھایا۔۔۔
۳) نمٹنے سے مراد صرف دنیا ہی نہیں ہے۔۔۔ دنیا اور آخرت دونوں ہیں۔۔۔ اس کی حکمت کب کس سے کیسے نمٹے۔۔۔
÷÷÷نمٹنے سے مراد دنیا اور آخرت دونوں ہی ہیں، لیکن اس سے یہ کیسے مراد لے لیا آپ نے کہ جو نہ مانے ا س کا انجام سزا اور صرف سزا ہوگا؟ ہم تو اتنا یقین رکھتے ہیں کہ یہ خدا کی رضا پر منحصر ہے کہ چاہے تو غیر مسلم کو بھی چھوڑ دے اور چاہے تو مسلمان کو بھی دوزخ میں ڈال دے۔۔۔ اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی ۔۔۔ نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق

۴) اپنے پچھلے مراسلے میں اچھی طرح سمجھانے کا ہی لکھا ہے جو المبین کا ترجمہ ہے۔۔۔
متفق ۔۔۔
۵) سائنس سے خدا تو کیا اپنی روح تک ثابت نہیں کرسکتے۔۔۔
بے شک۔ آپ ثابت مت کیجئے۔ لیکن جو دلائل ملتے ہیں جنہیں قرآن "آیت " کہتا ہے، ان کی اہمیت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سائنس ان آیات کو سمجھنے میں مدد کرتی ہے۔ اس سے انکار کیوں؟

۶) ہر کام علماء کے ذمے نہیں ہوسکتا۔۔۔۔ جیسے کوئی بیک وقت وکیل، ڈاکٹر اور انجینئر نہیں بن سکتا۔۔۔
۔۔۔یہ آج کے دور کا المیہ ہے۔ علم کو شعبوں میں آسانی کے لیے تقسیم کیا گیا تھا، نہ کہ آرام طلبی کے لیے۔ سائنس سیکھنے میں کیا قباحت ہے؟ آج کے دور میں بہت سے علماء اس پر کام کر بھی رہے ہیں۔ یقین نہ ہو تو قرآن اور سائنس کے عنوان سے انٹرنیٹ پر ڈھونڈ کر دیکھ لیجئے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
دلچسب۔
کوئی حوالہ دے سکتے ہیں آپ تسلی کے لیے؟
اب درست حوالہ تو یاد نہیں، البتہ قرآن اور سائنس کے موضوع پر ویڈیوز کی ایک سیریز یو ٹیوب پر موجود ہے۔ اس کا ایک ربط یہ ہے:
اگر آپ اس ایک ربط کو کھول لیں تو اس کے بعد آپ کو دائیں سمت میں مزید ویڈیوز اسی سلسلے کی دستیاب ہوتی رہیں گی اور یوں یہ پورا سلسلہ آپ دیکھ سکتے ہیں۔
اس میں بہت مختصر سی ویڈیوز دی گئی ہیں جنہیں ہر شخص بہت آسانی کے ساتھ دیکھ سکتا ہے۔ انہی ویڈیوز میں سے کسی ایک میں یہ بات بیان کی گئی تھی۔
 

سید عمران

محفلین
۱) آپ کی بات کافی حد تک درست ہے۔۔۔حقیقی امر اور نہی تو حکومت ہی کا کام ہے۔۔۔ عوام ایک دوسرے پر حکم نہیں چلا سکتے۔۔۔ انفرادی طور پر بڑے چھوٹے کو حکم دے سکتا ہے۔ ورنہ عمومی طور ترغیب اور ترہیب ہی ہے۔
۲) آپ کی بات کہ پہلے خدا کے عدم کو تسلیم کریں پھر وجود کے قائل ہوں۔۔۔
۳) اللہ تو جو چاہے کرسکتا ہے لیکن اصول بتادئیے کہ مشرک اور کافر کی کسی صورت مغفرت نہیں ہوگی۔۔۔
۵) خدا کی نشانیاں سمجھنا الگ ہے اور خدا کے وجود کو ثابت کرنا الگ۔۔۔
۶) علماء جزوی طور پر تو سائنس کا علم حاصل کرسکتے ہیں۔۔۔ اور کر بھی رہے ہیں۔۔۔لیکن بات کامل مہارت حاصل کرنے کی ہورہی ہے۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
۔۱) آپ کی بات کافی حد تک درست ہے۔۔۔حقیقی امر اور نہی تو حکومت ہی کا کام ہے۔۔۔ عوام ایک دوسرے پر حکم نہیں چلا سکتے۔۔۔ انفرادی طور پر بڑے چھوٹے کو حکم دے سکتا ہے۔ ورنہ عمومی طور ترغیب اور ترہیب ہی ہے۔
۔۔ متفق ہوں۔۔۔لیکن عمومی طور پر اسے امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہی کہا جاتا ہے۔ اصطلاح ہے۔ اس کا من و عن وہی مطلب ہو، ضروری بھی نہیں۔
۲) آپ کی بات کہ پہلے خدا کے عدم کو تسلیم کریں پھر وجود کے قائل ہوں۔۔۔
۔۔۔وہ اس طرح تھا کہ فرض کیجئے خدا نہیں ہے۔ اب کائنات کی طرف توجہ کیجئے۔ اس کے اسرار کو سمجھئے۔ سائنس کا علم سامنے رکھئے۔ فلکیات ہے، حیاتیات ہے، کیمیا ہے۔ علم کے بے شمار شعبہ جات ہیں۔ جو خدا کو نہیں مانتے، ان میں سے ایک شخص نے پانی کے مالیکیول کو دیکھا کہ اس کی ساخت کیا ہے۔ پتہ چلا کہ وہ گھڑی کی مشین سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ چلا اٹھا کہ یہ بغیر کسی خدا کے ممکن نہیں ہوسکتا۔ کائنات کے نظام کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی پرفیکشن ہے۔ یہاں حادثے بھی ہوتے ہیں لیکن نظام منہدم ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ سمجھ میں بھی نہیں آتا کہ اتنے سارے سیارے، ستارے، کہکشائیں ہیں، ان کو تو بار بار آپس میں ٹکرانا چاہئے ۔ بار بار لڑنا جھگڑنا چاہئے، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ ایسے ہی بے شمار دلائل ہیں، شاید میں ٹھیک طرح نہ سمجھا سکوں، لیکن علم والے کچھ دیر کے لیے فرض کرلیتے ہیں کہ انہیں علم نہیں ہے اور پھر ثابت کرنا شروع کرتے ہیں ۔ ۔لیکن یہ محض ایک طریقہ ہے جو میں نے دیکھا، ثابت کرنے ، بلکہ محض دلائل دینے کے بے شمار طریقے ہیں۔ کسی نے ائمہ اربعہ میں سے کسی سے پوچھا۔ اللہ سے پہلے کون تھا؟ فرمایا کوئی نہیں۔ اس نے کہا : ایسا کیسے ہوسکتا ہےِ؟ فرمایا چار سے پہلے کیا تھا؟ اس نے کہا تین۔ فرمایا: اس سے پہلے کیا تھا: کہا دو۔ اس سے پہلے کیا تھا؟ کہا ایک۔ فرمایا: ایک سے پہلے کیا تھا؟ جواب آیا: کچھ بھی نہیں۔ فرمایا: یہی تو میں کہہ رہا ہوں۔ اس سے پہلے کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ ہوسکتا ہے۔ اسی لیے وہ ایک ہے۔ یہاں ثبوت ملا ہے یا نہیں، آپ فیصلہ کر لیجئے۔ اگر امام کو ریاضی کے اس سادہ سے کلیے کا پتہ نہ ہوتا تو کیا وہ دلیل دے سکتے تھے؟
۳) اللہ تو جو چاہے کرسکتا ہے لیکن اصول بتادئیے کہ مشرک اور کافر کی کسی صورت مغفرت نہیں ہوگی۔۔۔
۔۔اس پر بہت طویل بحث ہوسکتی ہے۔۔۔ روایات بھی ہیں اور احادیث بھی ۔۔۔ لیکن حوالہ دینا مجھے آتا نہیں۔۔۔ بات متنازعہ ہوجائے گی۔۔۔
۵) خدا کی نشانیاں سمجھنا الگ ہے اور خدا کے وجود کو ثابت کرنا الگ۔۔۔
۔۔۔ ثابت نہیں کیا جاسکتا، وہ توتسلیم شدہ بات ہے۔ لیکن نشانیاں بتاتی ہیں کہ وہ ہے۔کوئی مانے یا نہ مانے، یہ اس کا نصیب ۔۔۔
۶) علماء جزوی طور پر تو سائنس کا علم حاصل کرسکتے ہیں۔۔۔ اور کر بھی رہے ہیں۔۔۔لیکن بات کامل مہارت حاصل کرنے کی ہورہی ہے۔۔۔
۔۔۔ صرف سیکھنے کی بات تھی، جس سے جتنا ممکن ہو سکے ۔۔۔ مہارت تو دور کی بات ہے ۔۔۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
فکر انگیز تحریر ہے۔

سوال کی حوصلہ شکنی تو ہم اپنے گھر ہی سے شروع کر دیتے ہیں، بچوں کے سوال کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اکثر تسلی بخش جواب نہیں دیا جاتا، اگر جواب دیا بھی جاتا ہے تو بچوں کی ذہنی سطح پر جا کر نہیں بلکہ اسرار کے دبیز پردے میں، جس سے یا تو بچے ڈر جاتے ہیں یا ہمیشہ کے لیے زبان بند کر لیتے ہیں۔
بجا فرمایا ایک بچے کا ذہن سارا مواد جمع کرتا ہے اسرار اور گمان کی شکل میں اور ساری زندگی اسی اسرار اور گمان کی پرورش بھی اسے ہی کرنی ہوتی ہے کہ اس کے پُرکھوں سے یہی بھید بھرے راز وراثت میں ملے تھے ۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
'سوال' پر ایک فکر انگیز تحریر ہے ۔ میں ،میری ذات سوالی رہی مگر جواب نہیں ملا۔ جب اساتذہ ، دوست ، رشتہ دار سوالات کے جواب دینے سے قاصر رہیں تو سمجھ لیجئے جوابی اکتساب بھی اپنی ذات سے خود ہوتا ہے ۔ آئنے میں روبرو ہونا آسان ہے مگر خود سے ہونے کے لیے اضطراب و حوصلہ چاہیے ۔
سوال ہونا ضروری ہے سوالی خود کفیل ہوجاتا ہے جوابات کے معاملے میں جب جواب نہ ملے تو :)
 

صائمہ شاہ

محفلین
زبردست تحریر ۔۔ انسانی ذہن ہروقت سوال جواب، کیا کیوں اور کیسے میں الجھا رہتا ہے
المیہ یہ ہے کہ وہ سوال تو اپنی مرضی کا کرتا ہی ہے لیکن بگاڑ تب پیدا ہوتا ہے جب جواب بھی اپنی مرضی کا چاہے جو کہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے
مرضی کا جواب نا ملے تو جس سے سوال کیا گیا وہ جاہل ٹھہرا ۔۔ مطلب اس سوال کا جواب آپ کے ذہن میں پہلے ہی موجود ہوتا ہے بس دوسرے کے جواب
سے اپنے جواب کی تائید مقصود ہوتی ہے ۔۔ اور یہاں المیوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے اس حوالے سے کہ سوال کرنا کبھی بد تمیزی کہلاتا ہے تو سوال اٹھانا بغاوت ۔۔۔
ویسے ایک سوال ہے آپ سے کہ سوال کے حوالے سے اس تحریر کا خیال کیسے آیا آپ کے ذہن میں ؟
فیس بک پر کسی کے سٹیٹس کے جواب میں یہ کمنٹ لکھا تھا :)
اپنی مرضی کا جواب جہالت کی پرورش ہے اور جو جواب نہیں رکھتے سوال نہیں کرتے اور نتیجہ جہالت ۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
سوال کرنا غلط نہیں ہے۔ ا س کا انداز درست یا غلط ہوسکتا ہے۔ پھر بھی سوال کرنے پر فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ سوال غلط یا درست نہیں ہوتا، وہ محض سوال ہوتا ہے۔ جیسے یہ سوال کہ خدا کتنے ہیں ؟ ایک یا ایک سے زائد؟ اور اگر ایک ہے تو اس کی دلیل کیا ہے؟ نہ غلط سوال ہے نہ درست۔ نہ اس سے بے ادبی جھلکتی ہے نہ کفر ظاہر ہوتا ہے۔ یہ سوال کافر بھی پوچھ سکتا ہے اور مومن بھی۔ جسے یقین ہے کہ اللہ ایک ہے وہ بھی پوچھ سکتا ہے اور جسے خدا کے ہونے سے بھی انکار ہے، وہ بھی پوچھ سکتا ہے۔ اسلام اس سے نہیں روکتا۔ اللہ اس کا برا نہیں مانتا، بلکہ قدم قدم پر جواب دیتا ہے کہ غور کرو، فکرو کرو۔ کائنات میں، زمین میں، آسمان میں۔ اپنی ذات میں۔ تمہیں ایک خدا ہر جگہ نظر آئے گا۔ رہی یہ بات کہ آج کل سوال پوچھنا جرم بنا دیا گیا ہے، تو جس معاشرے میں تعلیم پر خرچ نہیں کیا جاتا، تعلیمی نظا م کو بے مصرف ، عمل سے عاری اور حالات سے مطابقت نہ رکھنے والے افراد پیدا کرنے کی مشین اور کتابوں کی اشاعت کو کاروبار سمجھا جاتا ہے،وہاں سوال پوچھنا بھی جرم ہے اور اس کا جواب دینا بھی۔ جسے جواب خود معلوم نہیں وہ اسے بدتمیزی اور کفر ہی قرار دے گا۔ مجھے میرے والدین نے بتا دیا کہ اللہ ایک ہے۔ اس کی دلیل نہیں دی۔ دلیل میرے پاس ہے ہی نہیں۔ میں آپ کو کیسے سمجھاؤں کہ وہ ایک ہے؟ اس پر میرا فرض یہ بنتا ہے جب مجھ سے ایسا سوال پوچھا جائے جس کا جواب میرے پاس نہیں تو میں یہ تسلیم کرلوں کہ جواب میرے پاس نہیں ہے۔ لیکن میری انا یہ گوارا نہیں کرے گی۔ میں اپنی جہالت کی وجہ سے یہ یقین کرنے پر بھی مجبور رہوں گا کہ اگر میں نے جواب نہیں دیا تو سمجھا جائے گا کہ جواب ہے ہی نہیں۔ اللہ ایک ہے اگر میں ثابت نہیں کرسکا تو مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ ایک سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ حالانکہ یہ محض میرا وہم ہے۔ اگر جواب میرے پاس نہیں ہے تو تلاش کرنا مجھ پر فرض ہے۔ یا پھر یہ کرنا چاہئے کہ جو منصب مجھے عطا کیا گیا ہے، میں اس سے مستعفی ہوجاؤں۔ اگر میں عالم کہلاتا ہوں تو علم میرے پاس ہونا چاہئے۔ نہیں ہے تو عالم کہلانا بھی غلط ہے۔ سوال غلط نہیں بلکہ ضروری ہے اور اس کا جواب بھی، تاکہ علم جو آپ کے پاس ہے، وہ دلیل کی بنیاد پر مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے۔ اور اگر کوئی جہالت یا غلط فہمی ہے تو اسے دور کیا جائے۔
اب سوال یہ ہے کہ جو ہمیں سکھا دیا گیا کیا اس پر سوال نہیں اٹھتا ؟؟
 

صائمہ شاہ

محفلین
۱) آپ کی بات کافی حد تک درست ہے۔۔۔حقیقی امر اور نہی تو حکومت ہی کا کام ہے۔۔۔ عوام ایک دوسرے پر حکم نہیں چلا سکتے۔۔۔ انفرادی طور پر بڑے چھوٹے کو حکم دے سکتا ہے۔ ورنہ عمومی طور ترغیب اور ترہیب ہی ہے۔
۲) آپ کی بات کہ پہلے خدا کے عدم کو تسلیم کریں پھر وجود کے قائل ہوں۔۔۔
۳) اللہ تو جو چاہے کرسکتا ہے لیکن اصول بتادئیے کہ مشرک اور کافر کی کسی صورت مغفرت نہیں ہوگی۔۔۔
۵) خدا کی نشانیاں سمجھنا الگ ہے اور خدا کے وجود کو ثابت کرنا الگ۔۔۔
۶) علماء جزوی طور پر تو سائنس کا علم حاصل کرسکتے ہیں۔۔۔ اور کر بھی رہے ہیں۔۔۔لیکن بات کامل مہارت حاصل کرنے کی ہورہی ہے۔۔۔
جتنے سوال مذہب کو لے کر اٹھے اتنے ہی عجیب و غریب جواب بھی ملے :)
 

صائمہ شاہ

محفلین
آپ کی رسائی جہاں تک ہے، وہاں تک تو سوچنا آپ کا فرض بنتا ہے۔ اللہ ایک ہے، اس کی دلیل تو آپ کو بچوں کو پڑھائی جانے والی اسلامیات کی کتابوں میں بھی مل جائے گی۔ جنات، فرشتے اور علم غیب تو بعد کی بات ہے۔ ہماری تو بنیاد ہی یہی ہے : کہو کہ اللہ ایک ہے۔ کافر آپ سے پوچھے گا اللہ ایک ہے، میں کیسے مانوں؟ کوئی تو دلیل ہونی چاہئے۔ یہ ہم بالکل بنیادی بات کر رہے ہیں۔ جنات ، فرشتے، علم غیب ۔۔۔ بہت آگے کی باتیں ہیں اور ان کے دلائل بھی حقائق اور لوگوں سے ملنے والی شہادتوں کے ذریعے مل جاتے ہیں۔ فرشتے تو آپ ثابت نہیں کرسکتے کہ ہیں کیونکہ وہ صرف اور صرف اللہ کا حکم مانتے ہیں۔ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرتے۔ یہ اس کی دلیل ہوئی کہ ثابت نہیں کرسکتے تو اس کی وجہ کیا ہے۔ اب رہے جنات ، تو وہ دکھائی نہ دینے والی مخلوق ہے لیکن جنات کو قابو کرنے والے، علم رکھنے والے بہت سے لوگوں کے واقعات آپ کو کتابوں سے دستیاب ہوجائیں گے۔ آپ جنات کو حاضر کرنے والے لوگوں کو دیکھیں گے۔ ان سے ملیں گے تو اندازہ ہوجائے گا لیکن یہ سب کوئی ضروری نہیں ہے کہ ثابت کیا جائے۔ ایمان بالغیب ضروری ہے لیکن وہ بعد کی بات ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اللہ ایک ہے، یہ مان لیا جائے۔ اگر یہ مان لیں گے تو بعد کے جھگڑے تو ویسے ہی ختم ہوجائیں گے۔ جس نے مان لیا کہ اللہ ایک ہے وہ اللہ کی ہر بات کو مان لے گا اور جس نے نہ مانا وہ کسی بھی بات پر اعتراض کرسکتا ہے۔ سوال کی حوصلہ شکنی مت کیجئے۔ یہ علم کے خلاف بات ہے۔ علم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی تو قرآن اور حدیث دونوں کرتے ہیں۔ اس سے کیسے انکار ممکن ہوسکتا ہےِ؟
متفق جہاں تک رسائی ہے وہاں تک تو سوال کیجیے مگر پھر رسائی پر بھی حدود مقرر ہیں ان کے لیے جو پابند رہنا چاہیں :)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اب سوال یہ ہے کہ جو ہمیں سکھا دیا گیا کیا اس پر سوال نہیں اٹھتا ؟؟
علم سوال کرنا سکھاتا ہے۔ سوال سے سوال پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ کو جو بھی سکھایا گیا ہے یا سکھایا جائے گا، اس پر سوال تو اُٹھے گا۔ ہر سوال کا جواب تلاش کیجئے، حصول علم اسی کو کہتے ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
۔۱) آپ کی بات کافی حد تک درست ہے۔۔۔حقیقی امر اور نہی تو حکومت ہی کا کام ہے۔۔۔ عوام ایک دوسرے پر حکم نہیں چلا سکتے۔۔۔ انفرادی طور پر بڑے چھوٹے کو حکم دے سکتا ہے۔ ورنہ عمومی طور ترغیب اور ترہیب ہی ہے۔
۔۔ متفق ہوں۔۔۔لیکن عمومی طور پر اسے امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہی کہا جاتا ہے۔ اصطلاح ہے۔ اس کا من و عن وہی مطلب ہو، ضروری بھی نہیں۔
۲) آپ کی بات کہ پہلے خدا کے عدم کو تسلیم کریں پھر وجود کے قائل ہوں۔۔۔
۔۔۔وہ اس طرح تھا کہ فرض کیجئے خدا نہیں ہے۔ اب کائنات کی طرف توجہ کیجئے۔ اس کے اسرار کو سمجھئے۔ سائنس کا علم سامنے رکھئے۔ فلکیات ہے، حیاتیات ہے، کیمیا ہے۔ علم کے بے شمار شعبہ جات ہیں۔ جو خدا کو نہیں مانتے، ان میں سے ایک شخص نے پانی کے مالیکیول کو دیکھا کہ اس کی ساخت کیا ہے۔ پتہ چلا کہ وہ گھڑی کی مشین سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ چلا اٹھا کہ یہ بغیر کسی خدا کے ممکن نہیں ہوسکتا۔ کائنات کے نظام کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی پرفیکشن ہے۔ یہاں حادثے بھی ہوتے ہیں لیکن نظام منہدم ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ سمجھ میں بھی نہیں آتا کہ اتنے سارے سیارے، ستارے، کہکشائیں ہیں، ان کو تو بار بار آپس میں ٹکرانا چاہئے ۔ بار بار لڑنا جھگڑنا چاہئے، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ ایسے ہی بے شمار دلائل ہیں، شاید میں ٹھیک طرح نہ سمجھا سکوں، لیکن علم والے کچھ دیر کے لیے فرض کرلیتے ہیں کہ انہیں علم نہیں ہے اور پھر ثابت کرنا شروع کرتے ہیں ۔ ۔لیکن یہ محض ایک طریقہ ہے جو میں نے دیکھا، ثابت کرنے ، بلکہ محض دلائل دینے کے بے شمار طریقے ہیں۔ کسی نے ائمہ اربعہ میں سے کسی سے پوچھا۔ اللہ سے پہلے کون تھا؟ فرمایا کوئی نہیں۔ اس نے کہا : ایسا کیسے ہوسکتا ہےِ؟ فرمایا چار سے پہلے کیا تھا؟ اس نے کہا تین۔ فرمایا: اس سے پہلے کیا تھا: کہا دو۔ اس سے پہلے کیا تھا؟ کہا ایک۔ فرمایا: ایک سے پہلے کیا تھا؟ جواب آیا: کچھ بھی نہیں۔ فرمایا: یہی تو میں کہہ رہا ہوں۔ اس سے پہلے کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ ہوسکتا ہے۔ اسی لیے وہ ایک ہے۔ یہاں ثبوت ملا ہے یا نہیں، آپ فیصلہ کر لیجئے۔ اگر امام کو ریاضی کے اس سادہ سے کلیے کا پتہ نہ ہوتا تو کیا وہ دلیل دے سکتے تھے؟
۳) اللہ تو جو چاہے کرسکتا ہے لیکن اصول بتادئیے کہ مشرک اور کافر کی کسی صورت مغفرت نہیں ہوگی۔۔۔
۔۔اس پر بہت طویل بحث ہوسکتی ہے۔۔۔ روایات بھی ہیں اور احادیث بھی ۔۔۔ لیکن حوالہ دینا مجھے آتا نہیں۔۔۔ بات متنازعہ ہوجائے گی۔۔۔
۵) خدا کی نشانیاں سمجھنا الگ ہے اور خدا کے وجود کو ثابت کرنا الگ۔۔۔
۔۔۔ ثابت نہیں کیا جاسکتا، وہ توتسلیم شدہ بات ہے۔ لیکن نشانیاں بتاتی ہیں کہ وہ ہے۔کوئی مانے یا نہ مانے، یہ اس کا نصیب ۔۔۔
۶) علماء جزوی طور پر تو سائنس کا علم حاصل کرسکتے ہیں۔۔۔ اور کر بھی رہے ہیں۔۔۔لیکن بات کامل مہارت حاصل کرنے کی ہورہی ہے۔۔۔
۔۔۔ صرف سیکھنے کی بات تھی، جس سے جتنا ممکن ہو سکے ۔۔۔ مہارت تو دور کی بات ہے ۔۔۔

باقی باتوں میں تو کوئی خاص ابہام نہ رہا البتہ...
4) قرآن پاک کی واضح اور محکم آیت ہے...
وَمَن یَبْتَغِ غَیْرَ الإِسْلاَمِ دِینًا فَلَن یُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِی الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِین
جو اسلام کے سوا کوئی اور دین لایا وہ غیر مقبول ہے اور آخرت میں خسارہ پانے والا ہے...
اور
ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذلک لمن یشاء
مشرک کے سوا اللہ جس کو چاہے گا معاف کردے گا..
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
متفق جہاں تک رسائی ہے وہاں تک تو سوال کیجیے مگر پھر رسائی پر بھی حدود مقرر ہیں ان کے لیے جو پابند رہنا چاہیں۔
نہیں ۔ ان کے لیے نہیں جو پابند رہنا چاہیں،بلکہ وہ جو ان حدود سے آگے نہیں جاسکتے۔ اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیے کہ جس کہکشاں (ملکی وے) میں ہم رہتے ہیں، اس کا مرکز ہم سے کوئی تیس ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے (ڈاکٹر سلمان حمید کے مطابق)۔ اب ہم اس کے مرکز تک پہنچ تو نہیں سکتے، محض تحقیق ہی کرسکتے ہیں کہ وہاں تیس ہزار سال پہلے کیا ہوا تھا؟ ۔۔۔ کیونکہ تیس ہزار نوری سال کے فاصلے کا مطلب یہ ہے کہ وہاں سے اس کے جو عکس ہم تک پہنچتے ہیں وہ بھی تیس ہزار سال پرانے ہی ہوئے ۔۔۔ تو ہم جو اس پر تحقیق اور سوال و جواب کریں گے ، وہ تیس ہزار سال پہلے کے اعتبار سے درست مانے جائیں گے، نہ کہ آج کے عہد کے حساب سے۔ اور اگر آج کے دور میں وہاں کیا ہو رہا ہے، یہ جاننا ہو تو ہمیں اس کے لیے کوئی نئے آلات ایجاد کرنا پڑیں گے۔ ۔۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
باقی باتوں میں تو کوئی خاص ابہام نہ رہا البتہ...
4) قرآن پاک کی واضح اور محکم آیت ہے...
وَمَن یَبْتَغِ غَیْرَ الإِسْلاَمِ دِینًا فَلَن یُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِی الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِین
جو اسلام کے سوا کوئی اور دین لایا وہ غیر مقبول ہے اور آخرت میں خسارہ پانے والا ہے...
اور
ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذلک لمن یشاء
مشرک کے سوا اللہ جس کو چاہے گا معاف کردے گا..
قرآن کو کون جھٹلا سکتا ہے۔ دُنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب۔ ہم محض روایات اور احادیث کی بات کر رہے تھے جن کا حوالہ اس وقت ہمارے پاس دستیاب بھی نہیں، اور اس پر بحث ضروری بھی نہیں۔ اللہ جسے چاہے معاف کرے۔ مشرک کو نہ کرےتو بھی ہم سوال نہیں کرسکتے اور اگر معاف کردے تب بھی ہمارے پاس سوال کا اختیار نہیں کہ اے اللہ ! تو نے ایسا کیوں نہ کیا؟ وہ جو چاہے کرسکتا ہے، یہ بھی اللہ نے ہی فرمایا ہے۔ جسے چاہے عزت دے، جسے چاہے ذلت دے۔ یہ بھی قرآن کا فرمان ہے۔ اس لیے انکار یا سوال کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہاں یقین اور ایمان کی بات آجاتی ہے۔ اس لیے بحث یہیں ختم۔۔۔۔
 
Top