سوات ڈیل مبارک ہو

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آپ سمیت تمام اراکین کسی پر پابندی نہیں ہے ۔

آپ ایک بہت بنیادی نکتہ کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ بغیر علم کے کوئی خبر کسی ایک فرد تک پہنچانا اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے اور یہ تعمیر کی بجائے تخریب کا سبب بنتا ہے ۔ اگر اسلام ایک فرد تک خبر پہنچانے کو اہمیت دیتا ہے تو عوام اور اجتماع تک بغیر علم کی خبر پہنچانے کے نقصانات آپ پر واضح ہونے چاہییں ۔



 

ساجد

محفلین
اآپ کی بات پڑھ کر ہنسی آرہی ہے بہت

بھائی
امریکہ میں صدارتی نظام حکومت ہے اور ہمارے یہاں ہارلیمانی نظام حکومت ہے
بھائی جی ، قابل غور بات یہ ہے کہ ہمارا جمہوری نظام آدھا تیتر آدھا بٹیر ہے۔ آئین کے مطابق صدر غیر جانبدار ہوتا ہے لیکن ہمارے صدر صاحب ایوان صدر میں جئیے بھٹو کے نعرے لگاتے ہیں۔ اس بحث میں تو پڑنا ہی فضول ہے۔
ہاں نظام پارلیمانی ہو یا صدارتی عوامی مطاالبے کو تسلیم کرنا جمہوریت ہی ہے۔ اس بل کو پارلیمنٹ کی اکثریت نے پاس کیا ہے اور اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے کچھ پارٹیوں نے مخالفت بھی کی لیکن فیصلہ اکثریت کی بنیاد پہ ہی ہوا ہے جو خوش آئند ہے۔
 

فرخ

محفلین
میں پارلیمنٹ کی حالت دیکھ کر ابھی تک سکتے سے باہر نہیں آئی ہوں۔ یہ انگریزی رپورٹ بہت اہم ہے اور سب لوگوں سے درخواست ہے کہ اس ضرور سے پڑھیں۔
یہ چیز اس بات کی مظہر ہے کہ پوری قوم شکست خوردہ ہے۔
ہمارے لیڈر مکمل طور پر شکست خوردہ ہیں۔
پارلیمنٹ میں موجود ان خواتین پارلیمنٹیرینز کو علم ہے کہ طالبان طاقت میں آئے تو سب سے پہلے انہی کو کوڑے لگاتے ہوئے پارلیمنٹ کےباہر لیجا کر لٹا دیں گے۔ زرداری اور گیلانی کو علم ہے انکے ساتھ نجیب اللہ سے کم کا سلوک نہیں کریں گے، نواز لیگ کو یاد رکھنا چاہیے کہ انکا حشر اے این پی کے لیڈروں سے مختلف نہیں کریں گے۔۔۔۔ مگر اسکے باوجود بھی یہ سب رائیٹ ونگ میڈیا سے اتنے ڈرتے ہیں کہ ان میں اتنی ہمت تک نہ تھی کہ ایک فقرہ ہی اس ڈیل پر اعتراض کر پاتے۔
پوری قوم نے اپنے آپ کو اس ڈیل کی ذلالت میں یوں مبتلا کیا ہے کہ خود کو مکمل طور پر طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے کہ ان کی مہربانی ہو گی کہ وہ اپنے ہتھیار رکھ دیں اور ہمیں مزید نہ ماریں اور اپنی طاقت کو اپنے ہاتھ سے ختم کر دیں، مزید علاقوں میں قوت کے زور پر اپنی شریعت اور نظام عدل قائم نہ کریں۔۔۔۔۔

اس سے زیادہ جاہلیت پر مبنی بیان میں نے ابھی تک نہیں‌پڑھا:applause::applause::applause:
اب یہ بتائیں کہ جمہوریت کے نظام میں ، اکثریت ِ رائے کی بنیاد پر فیصلے کیئے جاتے ہیں نا، اور اب آپ کی بات سے صاف ظاہر ہے، کہ یہ اکیلے منحوس قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) کو ہی نا منظور تھا جس کی پارلیمنٹ میں تعداد کتنی ہے؟‌سب کو پتا ہے۔ اور آپ انہی کی زبان بول رہی ہیں، پھر آپ یہ کہتی ہیں کہ آپ کا اس جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔۔۔:rollingonthefloor:
اور اکثریتی لوگوں‌کو شکست خوردہ اور ذلیل کہنا اور ایک غدار جماعت کی سوچ ( جو آج تک محض لسانی گروہ پرستی کے سوا کچھ بھی نہیں) کو سپورٹ دینا، کھلی جاہلیت نہیں‌تو اور کیا ہے؟
بی بی، اپنے مطلب کی بات نہیں‌بنی توساری دنیا ذلیل، ورنہ مشرف صاحب، سبحان اللہ۔۔۔
واہ ۔۔۔۔۔:party:
 

مہوش علی

لائبریرین
یہ اسی نظامِ عدل کا احیاء ہے جو 1994 تک ریاست سوات میں نافذ تھا۔ اگر اس وقت تک وہاں سے یہ نظام پاکستان کے دیگر علاقوں میں نزور طاقت نافذ نہیں کیا گیا تو اب کیسے ہو سکتا ہے؟
میں نے سوات کے مقامی لوگوں اور بیرون ممالک مقیم سوات کے باشندوں سے جب بھی اس بارے تبادلہ خیال کیا تو بلا تفریق عقیدہ و سیاست ان کی غالب اکثریت اس نظام کے دوبارہ نفاذ کے حق میں پائی۔ ایک جمہوری و اسلامی ملک میں اگر عوام کی خواہش کے مطابق ایک فیصلہ لیا گیا ہے تو اچھی بات ہے۔

ساجد بھائی،
نظام عدل اور سوات ڈیل دو مختلف چیزیں ہیں۔
اگر ریاست کا نظام عدل قائم ہوتا تو کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔ مگر ادھر ریاست کا نہیں بلکہ صوفی محمد کے قاضی بمع طالبان کی شریعت کے نظام عدل کے نام پر رائج ہوئے ہیں۔
حکومت کو ہر صورت میں یہ یہ ڈیل کرتے ہوئے یہ بات یقینی بنانی چاہیے تھی کہ عدالنی نظام کے نام پر صوفی محمد کے قاضی نہیں بلکہ حکومت کے قاضی طاقت میں آئیں۔ جبکہ اب صورتحال یہ ہے کہ نہ صرف قاضی، بلکہ پورا عدالتی نظام حکومت کے ہاتھ سے نکل کر صوفی محمد اور طالبان کے ہاتھ میں ہے اور یوں پولیس اور انتظامیہ پر بھی طالبان نے عدالت کے نام پر قانونی قبضہ کرلیا ہے اور پورے علاقے کے وسائل پر قابض ہو گئے ہیں۔ اور یہیں سے یہ فتنہ منظم ہو کر اگلے مورچوں تک پھیلنے والا ہے۔
 
اسلام آباد: سابق وزیر اطلاعات و نشریات شیری رحمن نے سوات میں انسانی حقوق کے حوالے سے صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سوات میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں منظرعام پر آئی ہیں اور ان حالات مین معاہد ہ اور اس پر عملدرآمد کے حوالے سے بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہاں امن کا ضامن کون ہو گا اور کون انسانی حقوق کی حفاظت کرے گایہ ایک سوالیہ نشان ہے جبکہ اب نجی طرز پر فوجوں سے رکھی جائیں گی اور اس ھوالے سے صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کیا کرے گی۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
خبر فرد یا افراد تک پہنچانے والا راوی کہلاتا ہے ۔ کیا آپ راوی کی ذم داریوں سے آگاہ ہیں ؟

آپ کے علم میں یہ اہم نکتہ بھی ہونا چاہیے تھا کہ جب آپ کوئی بھی خبر کسی ایک فرد یا افراد و اجتماع تک پہنچاتے ہیں تو متعلقہ فرد اور افراد و اجتماع آپ سے مذکورہ خبر کی تصدیق یا ثبوت فراہم کرنے کا تقاضہ کر سکتا ہے ۔

اور ایسے کسی تقاضے کو پورا کرنا آپ کی ذمہ داری بن جاتا ہے مزید کسی نئی خبر کو پہنچانے سے پہلے اور گفتگو میں مزید حصہ لینے سے پہلے ۔

 
اسلام آباد: سابق وزیر اطلاعات و نشریات شیری رحمن نے سوات میں انسانی حقوق کے حوالے سے صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سوات میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں منظرعام پر آئی ہیں اور ان حالات مین معاہد ہ اور اس پر عملدرآمد کے حوالے سے بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہاں امن کا ضامن کون ہو گا اور کون انسانی حقوق کی حفاظت کرے گایہ ایک سوالیہ نشان ہے جبکہ اب نجی طرز پر فوجوں سے رکھی جائیں گی اور اس ھوالے سے صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کیا کرے گی۔


پاکستان میں طالبانستان نا منظور
 

فرخ

محفلین
آپ سمیت تمام اراکین کسی پر پابندی نہیں ہے ۔

آپ ایک بہت بنیادی نکتہ کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ بغیر علم کے کوئی خبر کسی ایک فرد تک پہنچانا اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے اور یہ تعمیر کی بجائے تخریب کا سبب بنتا ہے ۔ اگر اسلام ایک فرد تک خبر پہنچانے کو اہمیت دیتا ہے تو عوام اور اجتماع تک بغیر علم کی خبر پہنچانے کے نقصانات آپ پر واضح ہونے چاہییں ۔



لگتا ہے میری بہن کو کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔:sick:
محترمہ، آپ شائید یہ بھول گئی ہیں کہ اس فورم کا نام کیا ہے ؟ شائید "آج کی خبر" ہے نا؟ اور اسی فورم میں‌، آج کی اخبار سے نکال کر ایک خبر پوسٹ کی ہے میں نے اور اس اخبار کا حوالہ بھی دیا ہے۔ اب اس خبر سے متعلق جو بھی علم موجود ہے، وہ اس خبر میں موجود ہے۔اور یہ خبر بہت عوامی ہے اور دیگر اخبارات کا بھی حصہ ہے۔
جہاں‌تک نظامِ عدل کا تعلق ہے، تو یہ سوات کی ریاست کا پہلے بھی حصہ تھا اور وہاں‌کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ۔ یاد رہے، سوات شروع سے ایک ریاست رہی ہے اور بعد میں والئ سوات کے ساتھ مل کے اسے پاکستان میں‌ضم کیا گیا تھا، مگر جسے شائید وہاں کے لوگوں نے قبول نہیں کیا تھا۔
مجھے نظام عدل کے نکات ابھی تک نہیں پتا تھے، مگر آج جیو پر پیش کئے گئے ہیں۔ ابھی یہ لکھے ہوئے کسی بھی نیوز چینل پر نہیں ملےورنہ یہاں‌پوسٹ کر دیتا۔ اب ظاہر ہے خبر بھی میری بنائی ہوئی نہیں، نہ میں‌نے یہ ڈیل کرائی، اب میرا قصور۔۔۔۔:confused:

اب خوش :whistle:
 

مہوش علی

لائبریرین
غلط بیانی ہے
نظام عدل صدر پاکستان زرداری نے پارلیمنٹ اور وزیر اعظم کی مشاورت سے منظور کیا ہے۔ کوئی دو نظام نہیں۔ پاکستان کا ائین نظام عدل کے نافذ کی گارنٹی کرتا ہے۔
میں عموما ہمت برادر کے کسی مراسلے کا جواب دیے بغیر آگے بڑھ جاتی ہوں، مگر صرف ایک جملے کہنا چاہتی ہوں کہ شاید آپ اپنی تصحیح کر سکیں اور وہ یہ کہ نظام عدل طالبان نے بندوق کی نال رکھ کر اور اے این پی کے سینکڑوں ممبران کو قتل کر کے زبردستی نافذ کروایا ہے۔
کسی کو یرغمال بنا کر رقم حاصل چاہے مشاورت سے کی جائے، رہے گا یہ جرم ہی اور ہماری قوم کو ابھی تک یرغمال ہے اور زرداری اور پارلیمنٹ نے خوشی سے نہیں بلکہ اسی یرغمالی زبردستی کے تحت یہ ڈیل کی ہے۔ اگر آپ اس چیز کا ادراک نہیں کرنا چاہیں تو کوئی آپ کو یقینا مجبور نہیں کر سکتا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ اسی نظامِ عدل کا احیاء ہے جو 1994 تک ریاست سوات میں نافذ تھا۔ اگر اس وقت تک وہاں سے یہ نظام پاکستان کے دیگر علاقوں میں نزور طاقت نافذ نہیں کیا گیا تو اب کیسے ہو سکتا ہے؟
میں نے سوات کے مقامی لوگوں اور بیرون ممالک مقیم سوات کے باشندوں سے جب بھی اس بارے تبادلہ خیال کیا تو بلا تفریق عقیدہ و سیاست ان کی غالب اکثریت اس نظام کے دوبارہ نفاذ کے حق میں پائی۔ ایک جمہوری و اسلامی ملک میں اگر عوام کی خواہش کے مطابق ایک فیصلہ لیا گیا ہے تو اچھی بات ہے۔


ساجد بھائی ، نشان زدہ کی تفصیلات کے لیے آپ سے درخواست ہے ۔

علاوہ ازیں اگر آپ نے موجود نظام عدل کا متن دیکھ لیا ہے تو اراکین کی سہولت کے لیے اس کی بھی تفصیلی شکل فراہم کر دیجیے ۔

شکریہ
 

فرخ

محفلین
میں عموما ہمت برادر کے کسی مراسلے کا جواب دیے بغیر آگے بڑھ جاتی ہوں، مگر صرف ایک جملے کہنا چاہتی ہوں کہ شاید آپ اپنی تصحیح کر سکیں اور وہ یہ کہ نظام عدل طالبان نے بندوق کی نال رکھ کر اور اے این پی کے سینکڑوں ممبران کو قتل کر کے زبردستی نافذ کروایا ہے۔
کسی کو یرغمال بنا کر رقم حاصل چاہے مشاورت سے کی جائے، رہے گا یہ جرم ہی اور ہماری قوم کو ابھی تک یرغمال ہے اور زرداری اور پارلیمنٹ نے خوشی سے نہیں بلکہ اسی یرغمالی زبردستی کے تحت یہ ڈیل کی ہے۔ اگر آپ اس چیز کا ادراک نہیں کرنا چاہیں تو کوئی آپ کو یقینا مجبور نہیں کر سکتا۔

ًمحترمہ، یہ اے این پی کے سینکٹروں ممبران کے قتل والی بات آپ نے کہاں‌سے نکال لی ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں


شاید پاکستان اب زندہ نہیں رہا ۔

اب مجھے اس تھریڈ پر کچھ نہیں کہنا ۔ آپ کے ظالمان آپ کو مبارک ۔ ہماری بزدل فوج ، ہیجڑے سیاستدان ، اور جاہل ملاؤں کو پاکستان کی فتح مبارک ہو


پاکستان کا اب اللہ ہی حافظ (شاید پیجا صاحب نے کہا تھا)
 

ساجد

محفلین
ساجد بھائی،
نظام عدل اور سوات ڈیل دو مختلف چیزیں ہیں۔
اگر ریاست کا نظام عدل قائم ہوتا تو کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔ مگر ادھر ریاست کا نہیں بلکہ صوفی محمد کے قاضی بمع طالبان کی شریعت کے نظام عدل کے نام پر رائج ہوئے ہیں۔
حکومت کو ہر صورت میں یہ یہ ڈیل کرتے ہوئے یہ بات یقینی بنانی چاہیے تھی کہ عدالنی نظام کے نام پر صوفی محمد کے قاضی نہیں بلکہ حکومت کے قاضی طاقت میں آئیں۔ جبکہ اب صورتحال یہ ہے کہ نہ صرف قاضی، بلکہ پورا عدالتی نظام حکومت کے ہاتھ سے نکل کر صوفی محمد اور طالبان کے ہاتھ میں ہے اور یوں پولیس اور انتظامیہ پر بھی طالبان نے عدالت کے نام پر قانونی قبضہ کرلیا ہے اور پورے علاقے کے وسائل پر قابض ہو گئے ہیں۔ اور یہیں سے یہ فتنہ منظم ہو کر اگلے مورچوں تک پھیلنے والا ہے۔
مہوش ، آپ 1994 تک ریاست میں موجود عدالتی نظام کو تفصیل سے پڑھیں آپ کو بہت سی معلومات مل جائیں گی۔
اہم بات یہ ہے کہ ہر کام کرنے کا ایک وقت ہوتا ہے جب کہ ہماری حکومتوں نے اتنا وقت ضائع کر دیا تھا کہ ایک سیدھا سا عوامی مطالبہ شدت پسندوں کا ایک ہتھیار بن گیا تھا جس کو انہوں نے کمال ہوشیاری سے استعمال کیا۔۔ جو قتل و غارت گری جاری تھی اس کو روکنا بہر حال ضروری تھا ۔ خاص طور پہ فاٹا کی صورت حال کی وجہ سے معاملات مزید خراب ہو رہے تھے اور ملک دشمن طاقتوں کو ایک بہترین موقع مل رہا تھا کہ وہ اس صورت حال سے فائدہ اٹھائیں۔
طالبان اور شدت پسندوں کو اب اگر اس معاہدے کے نفاذ میں اپنی فتح دکھائی دے رہی ہے تو یہ ہماری حکومتوں کی نا سمجھی اور عوامی رائے کو ایک عرصے تک نظر انداز کئیے جانے کا نتیجہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ سوات کے اکثر باشندوں کو تقاضا تھا کہ پرانا عدالتی نظام نافذ ہو۔ آپ اگر کبھی سوات جائیں تو آپ کو اندازہ ہو گا وہاں کے باشندے طالبان کو ہرگز سپورٹ نہیں کرتے لیکن حکومتی غفلت کی وجہ سے طالبان کو ہیرو بننے کا موقع مل گیا۔ اب اگر حکومت اس معاملے پر پوری نظر رکھے اور خلوص دل سے سوات کا امن برقرار رکھنے کی کوشش کرے تو طالبان کو سوات کی عوام سے علیحدہ کرنا زیادہ مشکل نہیں۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
لگتا ہے میری بہن کو کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔:sick:
محترمہ، آپ شائید یہ بھول گئی ہیں کہ اس فورم کا نام کیا ہے ؟ شائید "آج کی خبر" ہے نا؟ اور اسی فورم میں‌، آج کی اخبار سے نکال کر ایک خبر پوسٹ کی ہے میں نے اور اس اخبار کا حوالہ بھی دیا ہے۔ اب اس خبر سے متعلق جو بھی علم موجود ہے، وہ اس خبر میں موجود ہے۔اور یہ خبر بہت عوامی ہے اور دیگر اخبارات کا بھی حصہ ہے۔
جہاں‌تک نظامِ عدل کا تعلق ہے، تو یہ سوات کی ریاست کا پہلے بھی حصہ تھا اور وہاں‌کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ۔ یاد رہے، سوات شروع سے ایک ریاست رہی ہے اور بعد میں والئ سوات کے ساتھ مل کے اسے پاکستان میں‌ضم کیا گیا تھا، مگر جسے شائید وہاں کے لوگوں نے قبول نہیں کیا تھا۔
مجھے نظام عدل کے نکات ابھی تک نہیں پتا تھے، مگر آج جیو پر پیش کئے گئے ہیں۔ ابھی یہ لکھے ہوئے کسی بھی نیوز چینل پر نہیں ملےورنہ یہاں‌پوسٹ کر دیتا۔ اب ظاہر ہے خبر بھی میری بنائی ہوئی نہیں، نہ میں‌نے یہ ڈیل کرائی، اب میرا قصور۔۔۔۔:confused:

اب خوش :whistle:

فرخ

آپ کی تحریر سے جو واضح ہو رہا ہے وہ یہ کہ آپ مذکورہ زمرہ میں خبر پوسٹ کرنے والے اراکین کی ذمہ داری کو محض‌ خبر پہنچانے تک محدود کر رہے ہیں حوالہ کے ساتھ ۔

اگر مذکورہ زمرہ میں صرف یہی کیا جانا ہے تو پھر صرف اسی ذمہ داری تک محدود رہا جائے اور خبر سے بڑھ کر اس زمرہ کو تجزیاتی و تنقیدی گفتگو تک ترقی نہیں دی جانی چاہیے ۔ کوئی بھی رکن یہاں آئیں خبر کا حوالہ دیں خبر پوسٹ کریں اور بس ۔ پھر آپ یا کوئی بھی دیگر رکن اس خبر کو لے کر " آج کی خبر " کے زمرہ کو تجزیاتی و تنقیدی زمرہ میں تبدیل نہیں کریں ۔

اگر ایسا نہیں کرنا تو پھر اس بات کا یقین رکھیں کہ خبر رساں رکن جو بھی ہوں آپ سے خبر کے حوالے سے سوالات کیے جا سکتے ہیں ۔





 

فرخ

محفلین

فرخ

آپ کی تحریر سے جو واضح ہو رہا ہے وہ یہ کہ آپ مذکورہ زمرہ میں خبر پوسٹ کرنے والے اراکین کی ذمہ داری کو محض‌ خبر پہنچانے تک محدود کر رہے ہیں حوالہ کے ساتھ ۔

اگر مذکورہ زمرہ میں صرف یہی کیا جانا ہے تو پھر صرف اسی ذمہ داری تک محدود رہا جائے اور خبر سے بڑھ کر اس زمرہ کو تجزیاتی و تنقیدی گفتگو تک ترقی نہیں دی جانی چاہیے ۔ کوئی بھی رکن یہاں آئیں خبر کا حوالہ دیں خبر پوسٹ کریں اور بس ۔ پھر آپ یا کوئی بھی دیگر رکن اس خبر کو لے کر " آج کی خبر " کے زمرہ کو تجزیاتی و تنقیدی زمرہ میں تبدیل نہیں کریں ۔

اگر ایسا نہیں کرنا تو پھر اس بات کا یقین رکھیں کہ خبر رساں رکن جو بھی ہوں آپ سے خبر کے حوالے سے سوالات کیے جا سکتے ہیں ۔


اب آپ بالکل صحیح سمجھی ہیں، :applause: مبارک ہو۔۔۔۔:blushing:
بھئی مجھ سے تو سوالات تب کرو جب خبر میں‌نے خود بنائی ہو یا میں‌خود لے کے آیا ہوں۔
اوپر اس اخبار کا نام اور Logoاسی لئے پوسٹ کیا تھا، کہ پتا چلے یہ حرکت میری اپنی نہیں ہے۔۔۔۔۔یہاں خبر رساں دراصل ایکسپریس نیوز والے ہیں، میں نہیں۔۔۔۔:chatterbox:
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
فرخ

آپ نے اپنا نکتہ نظر واضح کر دیا ہے کہ آپ محض خبررسانی تک محدود رہنا چاہتے ہیں بھلے آپ متعلقہ خبر کے حوالے سے صاحبِ علم نہ بھی ہوں ۔

نکتہ نظر کی وضاحت و صراحت کے لیے شکریہ

اب چونکہ آپ " آج کی خبر" کے زمرہ کو محض خبر رسانی تک محدود سمجھ چکے ہیں اور اس کا اقرار کر چکے ہیں تو اب آپ کیا مذکورہ فورم سے اپنے تمام ایسے پیغامات حذف کر دیں گے کیا جو خبر رسانی سے ہٹ کر ہوں اور خبر رسانی سے بڑھ کر سوال و جواب کے دائرے میں آ جاتے ہوں ؟

دوم یہ کہ کیا آپ نے اپنے نکتہ نظر کے مطابق کبھی اس ضرورت کو محسوس کیا کہ آپ کو خبر رسانی کے بعد گفتگو میں شرکت نہیں کرنا چاہیے ؟

سوم ، کیا آپ آئندہ بھی صرف خبر رسانی ہی کریں گے اور بس ؟

 
Top