سوات‘ طالبان اور فوج ایک ہی سکے کے دو رخ

زین

لائبریرین
"طالبان اور فوج دونوں‌پر غصہ"

بی بی سی اردو، عبدالحئی کاکڑ‌

وادی سوات کے مکین کرفیو میں نرمی کا فائدہ اٹھا کر وہاں سے جان بچا کر بے سرو سامانی کی حالت میں نکلے تو ضرور لیکن ان میں سے بعض سے سوال کیا گیا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں تو کہتے ’ہمیں اپنی منزل کے بارے میں معلوم نہیں کہ کہاں ہے۔‘

جمعہ کو سوات سے مردان آنے والی سڑک مسلسل جام رہی۔ سینکڑوں گاڑیوں، رکشے، موٹر سائیکل اور بسیں بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو لیکر محفوظ مقامات کی طرف لے جارہی تھیں۔ بسوں کی چھتیں لوگوں سے کچھا کچ بھری ہوئی تھیں مگر ہزاروں لوگوں کے اس قافلے میں ایک آدھ بستروں اور ضروری اشیاء کےعلاوہ انکی زندگی بھر کی جمع پونجی نہیں تھی۔

طالبان اور فوج پر لوگوں کو اتنا غصہ تھا کہ صحافیوں کو دیکھ کر خواتین کے ہمراہ ہونے کے باوجود گاڑی روک دیتے اور دونوں کے خلاف بولنا شروع کردیتے۔ کئی ایسے مواقع بھی آئے کہ لوگ چلتی گاڑیوں سے میڈیا سے گفتگو کرنے والے افراد کو آواز دیتے کہ ’سچ سچ بتا دو کہ طالبان اور فوج ایک سکے کے دو رخ ہیں۔‘

زیادہ تر لوگوں سے جب بات ہوئی تو فوج اور طالبان کی جانب سے فراہم کردہ تصویر سے کافی مختلف تصویر سامنے آئی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ فوج آبادی میں ایک طالب کی موجودگی پر بھی پوری شہر آبادی کو جیٹ اور گن شپ ہیلی کاپٹروں سے نشانہ بناتی ہے۔ ان میں سے صرف چار لوگوں کی بتائی ہوئی اعداد و شمار کو جب میں نے ملایا تو صرف جمعرات کے روز مختلف علاقوں میں ستر عام شہری مارے گئے تھے۔

فضل مولی انگیر ڈیرئی کے علاقے سے آرہے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ جمعرات کو ان کے علاقے پر دو میزائل داغے گئے جس میں بقول ان کے پینتالیس لوگ مارے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے خود لوگوں سے مل کر ملبے سے لاشیں نکالیں اور ان میں سے گیارہ کو جب وہ ایک اجتماعی قبر میں دفنا رہے تھے تو اس دوران سکیورٹی فورسز نے ایک اور مارٹر گولہ پھینکا تاہم وہ محفوظ رہے۔

ایسے ہی ایک دوسرے واقعے کے بارے میں تختہ بند کے ایک نوجوان نے بتایا کہ جمعرات کی سہ پہر تین بجے گن شپ ہیلی کاپٹر نے ایک گھر کو نشانہ بنایا جس میں بقول ان کے بیس افراد مارے گئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

نقل مکانی کرنے والے زیادہ تر لوگوں کا کہنا تھا کہ فوج اور طالبان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔اوڈی گرامہ کے آفتاب خان نے بتایا کہ ’حکومت اور طالبان ایک ہیں کیونکہ جب طالب چلا جاتا ہے تو فوج آبادی پر حملہ کردیتی ہے اور نتیجے میں بچے اورخواتین مرجاتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں آرہا تو جاکر اوڈی گرامہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ہمارا پورا کا پورا محلہ تباہ کردیا گیا ہے صرف ہمارا ہی گھر سلامت رہ گیا ہے۔‘

ملک دوران کا پھر کہنا تھا کہ پچھلی اور حالیہ فوجی کارروائی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ان کی دلیل یہ ہے کہ ہر بار شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ اس بار کارروائی کے بارے میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ ٹارگیٹڈ ہے تو ان کا کہنا تھا ’ٹارگیٹڈ کیسا ہے اس بار طالبان کے ان پرانے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو وہ کئی ماہ پہلے خالی کرچکے ہیں۔‘

نقل مکانی کرنے والے ایک نوجوان نیاز احمد جو موٹر سائیکل پر آ رہے تھے نے بتایا کہ انہوں نے راستے میں ہر جگہ طالبان کا کنٹرول دیکھا اور سکیورٹی فورسز تو پولیس سٹیشن اور سرکٹ ہاؤس تک محدود ہو کر رہ گئی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ راستےمیں انہوں نے ہزاروں لوگوں کو پیدل سوات سے نکلتے دیکھا کیونکہ بقول ان کے حکومت کی طرف سے فراہم کردہ بسیں لنڈاکی چیک پوسٹ پر کھڑی کردی گئی تھیں جس کا فاصلہ مینگورہ سے تقریباً پندرہ کلومیٹر ہے۔

نیاز احمد نے کہا کہ انہوں نے ایک خاتون اور دو بچوں کو دیکھا جن کا پورا خاندان مکان پر مارٹر گولہ گرنے میں ہلاک ہوگیا تھا۔ ان کے بقول راستے میں انہوں نے بعض مقامات پر لاشیں اور انسانی جسم کے اعضاء دیکھے۔

سوات سے نکلے ہوئے ان لوگوں میں سے بعض اپنے عزیز و اقارب کے ہاں جا رہے تھے، بعض کیمپوں کی طرف اور بعض کو یہ معلوم نہیں تھا کہ انکی اگلی مزل کہاں ہے۔
 
Top