سنّت کیا ہے ؟

دوست

محفلین
یہ تو ٹھیک ہے کہ سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کا نام ہے۔
 

دوست

محفلین
قرآن کریم میں حکم کردہ اعمال بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال میں شامل تھے چناچہ وہ بھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذیل میں آجاتے ہیں میرے خیال میں تو۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میں اس بات کو کچھ یوں سمجھ رہا ہوں کہ سنت سے مراد کچھ یوں بھی لی جا سکتی ہے کہ وہ تمام اعمال جو نبی پاک ص نے ادا کئے۔ سنت سے مراد یہ بھی لی جا سکتی ہے کہ قرآنی احکامات پر عمل درآمد کا طریقہ جو نبی پاک ص نے بتایا وہ بھی سنت میں شامل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کی الجھن اس ضمن میں ہو کہ یہ تمام سنتیں وہ بھی ہیں جو براہ راست اللہ پاک کے قرآنی احکامات کی بجا آوری کے یا ان کی تشریح کے سلسلے میں نبی پاک ص سے ادا ہوئی ہیں جیسے زکواۃ، نماز، روزہ، حج اور عمرہ۔ ان کو چھوڑنا یا ان سے صرف نظر کرنا براہ راست احکام الٰہی کی خلاف ورزی ہوگی۔ اس کے علاوہ ان میں وہ سنتیں بھی شامل ہوں جو اگر کی جائیں تو بہت بہتر اور افضل ہیں۔ اگر نہ کی جائیں تو شاید ان کے چھوڑنے سے اتنا نقصان نہ ہو جو براہ راست احکام الٰہی کے چھوڑنے سے ہوگا۔ جیسے کہ دانت صاف نہ کرنا، بائیں ہاتھ سے کھانا کھانا، ناخن نہ کاٹنا وغیرہ۔ یہ نقصان دینی اور دنیاوی، دونوں اعتبار سے ہو سکتا ہے۔ اگر میرے جواب سے الجھن پیدا ہو یا مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہو تو اس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔ اگر مزید تفصیل کسی ضمن میں درکار ہو تو بھی میں حاضر ہوں
 

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم محترم اجمل صاحب، آپ نے واقعی ایک گھمبیر بحث چھیڑ دی ہے، جو کہ یقیناً آپکے بیان کردہ سوالوں پر قطعاً نہیں رکتی۔ آپ نے اپنے بلاگ میں بہت اچھے طریقے سے سنت کے بارے میں بیان کردیا ہے اور وارد ہونے والے ریمارکس بھی۔

محترم غامدی صاحب تو "طلوعِ میڈیا" کے ساتھ طلوع ہوئے ہیں، ورنہ آپ ہم سے بہتر جانتے ہیں کہ پچھلی صدی کے آخری نصف کے ابتدا میں یہ ابحاث بہت شد و مد کے ساتھ "طلوعِ اسلام" کے علامہ غلام احمد پرویز اور انکے ماننے والوں اور مولانا مودودی کے درمیان چل چکی ہے۔

در اصل، اگر ہم مسلمانوں کے "فکری محاذ" پر دیکھیں تو یہ سلسلہ "زلفِ جاناں" کی طرح بہت دراز ہے، بات صرف یہاں پر نہیں رکتی کہ سنت کیا ہے، بلکہ پھر بڑتی ہے کہ سنت کا مآخذ کیا ہے، کیا اسکا قرآن کی طرح کوئی ایسا متن ہے جس پر مسلمانوں کے سب فرقوں کا اتفاق ہو۔ حدیث اور اصول حدیث پر اعتراضات اور انکی حیثیت۔ بات اور آگے بڑھتی ہے اور حضور (ص) تک جا پہنچتی ہے کہ آپ کیا صرف اللہ کی طرف سے قرآن پہنچانے تک مامور تھے یا اس سے آگے بھی آپ کا کوئی "رول" تھا۔ انکی حیثیت بحیثیتِ پیغمبر اور بحیثیت انسان، انکا اجتہاد اور اس سے استدلال۔

اور اگر اسکے "عملی محاذ" کے طرف دیکھیں تو جب شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو کس چیز کو شریعت کہیں، جواب ہے "قرآن اور سنت"، لیکن اگر سنت کی حیثیت پر ہی اعتراض وارد کر دیا جائے تو جواب صرف قرآن رہ جاتا ہے۔ جب میعار ہی نہیں رہے گا تو پھر جیسے مرضی قرآن کی تشریح و توضیح کرلیں۔

اس دلیل سے انکارِ حدیث لازم آتا ہے، اور یہ ہوتا ہے، پرویز صاحب نے جتنی شدت کے ساتھ حدیث کا انکار کیا ہے موجودہ یا پچھلے دور میں شاید ہی کسی نے کیا ہو۔ مثلاً علامہ پرویز فرماتے تھے کہ قرآن مجید میں جو آیہ صحابہ کے حق میں آئی ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جنگِ جمل اور صفین کے بارے میں جو واقعات احادیث یا تواریخ میں بیان کیے جاتے ہیں وہ سراسر بہتانِ عظیم ہے۔ اور مودودی صاحب اسکے بالکل برعکس فرماتے ہیں کہ معصوم صرف نبی ہے سو صحابہ بھی "غلطیاں" کر سکتے ہیں۔ علامہ پرویز، حضرت عائشہ کی شادی کے وقت عمر پر آپ بخاری کو سراسر غلط کہتے ہیں۔ اور اسکا جواز قرآن سے لاتے ہیں۔ جب حدیث بطور ایک "سورس" کے نہیں رہے گی تو پھر سنت بھی نہیں رہے گی۔

اس سلسلے میں سرسید کا کردار بھی بہت اہم ہے، آپ تو یہاں تک گئے کہ صاف کہہ دیا کہ آدم و حوا، شیاطین وغیرہ سب تمثیلی کردار ہیں جو انسانوں کو سمجھانے کیلیے اللہ نے بیان کیے ہیں۔ (سنا ہے کہ انکی تفسیر بڑی دلچسپ ہے مگر افسوس مل نہیں سکی)۔

مسلمانوں میں یہ فکری تضاد دراصل بہت پہلے شروع ہوگیا تھا، جب مسلمان، شام کے نسطوریوں کے ذریعے فلسفہء یونان اور فارس کی فتح سے فکرِ عجم سے واقف ہوئے تو اسلام اور فلسفہ میں جو تضاد نظر آیا اسکی عقلی طریقے سے تطبیق کرنے کی کوشش کی جیسے معتزلہ کی تحریک، لیکن اشاعرہ اور انکے ماننے والوں کے ہاتھوں بری طرح کچلی گئی۔

اسلام میں کبھی بھی کوئی عقلی تحریک پنپ نہیں سکی، کہ اسکا بندوبست تو غزالی "فلسفہ کی موت" نامی لکھ کر گئے تھے، ابنِ رشد نے اسکا جواب دیا "موت کی موت" لیکن فلسفے کی کون سنتا ہے یا سنتا تھا۔ ابنِ رشد کا استدلال تھا کہ سچائیاں دو ہیں ایک اسلام اور قرآن کی سچائی اور دوسری فلسفے کی سچائی۔ اس خیال نے اسے مسلمانوں کا معتوب بنا دیا، اور بعینہ اسی خیال کو لے کر اسپین اور فرانس میں خرد افروزی کی تحریک شروع کرنے والے "ابنِ رشدیوں" کو کلیسا کا۔ گو یورپ کی نشاہ ثانیہ کے بہت سے محرک و عوامل تھے لیکن ابنِ رشد بارش کا پہلا قطرہ تھا۔

غامدی صاحب اسی سلسلہ فکر کی نمائندگی کرتے ہیں، لیکن دوسری طرف والے اسلام کو ایک مکمل نظریہء حیات ماننے ہیں کہ اگر آپ حدیث اور سنت کے اثبات سے حضور (ص) پاک کا کردار ایک "پیغام" پہنچانے والے کے علاوہ، بطور شارح قرآن، شارع، پیشوا، معلم، مربی، قاضی، سربراہ مملکت، اور حاکم و فرمانروا سبھی ماننا پڑے گا اور سوادِ اعظم اسکو مانتا بھی ہے۔

یہ سبھی باتیں صحیح ہیں اور انکو مانتے ہی بن پڑتی ہے کہ اس کے بعد ہمارے پاس تقلید کا کوئی معیار نہیں رہ جائے گا، لیکن یہ بات بھہ بہت ضروری ہے کہ اس موضوع پر سوچا جائے کہ کبھی "ڈھیلوں" والی بھی تو ایک عظیم ثواب کی سنت تھی اب وہ مسلمان کے عمل میں نہیں ہے۔ ہمارے علما کو خود بھی تو اجتہاد کرنا چاہئیے، مسلمانوں نے اغیار کے کہنے پر یہ مان لیا ہے کہ جنگوں میں کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں کرنا چاہئیے، کیا مسلمان خود حضور پاک (ص) کے اس قول سے اسننباط نہیں کرسکتے کہ جنگوں میں مثلہ مت کرو، کیا اس سے یہ ثابت نہیں آتا کہ جنگوں میں "سب" جائز نہیں ہے جیسے ابھی ایک بھائی صاحب نے جوشِ خطابت یا "جوشِ سیاست" میں فرما دیا کہ جنگوں میں سب جائز ہے، وہ شاید بھول گئے کہ حضرت حمزہ کا مثلہ ہوا تھا لیکن اسکے بعد کتنے غزوات ہیں حضور کے، کسی میں مثلہ کیا ہو۔

خیر یہ تو مقطع میں ایک سخن گسترانہ بات آپڑی، لیکن ہمارے علما کے علاوہ جدید علوم سے مستفید، پڑھے لکھے باشعور طبقے کو بھی اس طرف سوچنا چاہیے۔ آپ نے ماشاء اللہ بہت اچھا مباحثہ شروع کیا ہے، جزاک اللہ۔

۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اس ضمن میں مندرجہ ذیل کتب کا مطالعہ نافع ہوگا
سنت خیرالانام
از جسٹس پیر کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ
ناشر ضیاالقرآن پبلی کیشینز
سنت کی آئینی حیثت
از مولانا مودودی مرحوم
 

الف نظامی

لائبریرین
سنت کی آئینی حیثت کا ربط دینے کا شکریہ۔
کیا اس موضوع پر اور علما کی کتب بھی موجود ہیں؟

ایک اقتباس ملاحظہ ہو
از سنت کی آئینی حیثت
"یہاں (ہندوستان میں) اس (فتنہ انکار سنت) کی ابتدا کرنے والے سرسید احمد خاں اور مولوی چراغ علی تھے، پھر مولوی عبداللہ چکڑالوی اس کے علمبردار بنے۔اس کے بعد مولوی احمد الدین امرتسری نے اس کا بیڑا اٹھایا۔ پھر مولانا اسلم جیراج پوری اسے لیکر آگے بڑھے ، آخر کار اس کی ریاست چودھری غلام احمد پرویز کے حصے میں آئی جنہوں نے اس کو ضلالت کی انتہا تک پہنچا دیا ہے۔(صفحہ 16)"
 

محمد وارث

لائبریرین
ابو شامل صاحب، آپ نے مودودی صاحب کی بہت اچھی کتاب کی نشاندہی کی ہے، اگر اس موضع پر "دوسری طرف" کی بھی کچھ دلائل پڑھنا چاہیں، تو علامہ غلام احمد پرویز کے مقالات اور انکی مکمل کتب بھی ملاحظہ فرما سکتے ہیں:

احادیث کا صحیح ترین مجموعہ

مقامِ حدیث

پرویز صاحب کی کتب اور مقالات

چونکہ انکارِ حدیث اور انکارِ سنت لازم و ملزوم ہیں، اسلیئے "سنت" کے سلسلے میں ان کا مطالعہ بھی مفید ہے۔

اسکے علاوہ، پرویز صاحب کی حضرت عمر کی لکھی ہوئی سوانح "شاہکارِ رسالت" کا مقدمہ بھی کافی دلچسپ ہے۔

۔
 

ابوشامل

محفلین
وارث صاحب غلام احمد پرویز کے روابط دینے کا بہت شکریہ، آپ نے مطالعے کےلیے مجھے اچھا تحفہ دیا ہے، آج کل سید قطب کی "جادہ و منزل" پڑھ رہا ہوں، اس سے فارغ ہو کر غلام احمد پرویز کو پڑھوں گا انشاء اللہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ نے جو حوالہ طلوع اسلام کا دیا ھے میں جب اسے کھولتا یا ڈاؤن لوڈ کرتا ہوں اور پھر کھولتا ہوں تو سادہ کاغذ نظر آتا ھے ۔

السلام علیکم اجمل صاحب

میرا خیال ہے آپ کو DjVu Plug in انسٹال کرنا پڑے گا، نیچے دیے گئے لنک سے اسے ڈاؤن لوڈ کرکے انسٹال کرلیں، طلوع اسلام کی سائٹ پر بھی اس کا لنک موجود ہے۔

http://www.lizardtech.com/download/dl_options.php?page=plugins


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
محترم بات یہ ہے کہ کوئی درخت پر تنے کے راستہ چڑھے تو محفوظ رہتا ہے اور اگر شاخوں کو پکڑ کر درخت پر چڑھنے کی کوشش کرے تویہ طریقہ مشکل ہوتا ہے اور ہر لحظہ گرنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے ۔ ہماری قوم کو سکول ۔ کالج اور یونیورسٹی کے امتحانوں میں جو گیس پیپر اور شارٹ کٹ کی عادت پڑ چکی ہے وہی دین کو سمجھنے کیلئے استعمال کی جاتی ہے ۔ اسی وجہ سے کبھی غلام احمد پرویز اور کبھی غامد چھا جاتے ہیں ۔ آجکل ایک نئی قباحت ٹی چینلز نے پیدا کی ہوئی ہے کہ اپنی مرضی کا عالمِ دین بلا کر اس سے اپنی مرضی کے سوالات پوچھے جاتے ہیں اور اس طرح سے دین اسلام کو مذاق بنایا جا رہا ہے ۔

دین سیکھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے قرآن شریف کو سمجھ کر پڑھا جائے ۔ جب سمجھ آ جائے پھر دوسری دینی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے ۔

قبلہ محترم آپکی، دوسری باتوں سے اتفاق ہو یا نہ ہو، لیکن مندرجہ بالا باتوں سے مجھے مکمل اتفاق ہے، نہ صرف قرآن کو سمجھ کر پڑھنا چاہیئے بلکہ عربی زبان میں اتنی شدھ بدھ ہونی چاہیئے کہ کم از کم ضمائر اور ماضی، مضارع کا تو علم ہو، یہ تو معلوم ہو کہ خطاب کس سے ہے اور صیغہ کونسا ہے۔

اس بات کی اہمیت دو چند اس لیے بھی ہوجاتی ہے، کہ، معذرت کے ساتھ، ہمارے علماء کرام اس "کنفیوژن" میں برابر کے شریک ہیں، وہ قرآن کا ترجمہ اپنے "مسلکی عقائد" کے مطابق کرتے ہیں جیسے کنزالایمان اور مولانا اشرف علی تھانوی کا ترجمہ، بعض جگہ تو زمین آسمان کا فرق پیدا ہوجاتا ہے۔

یہی حال قرآن کی لغات کے ساتھ ہے، علامہ راغب اصفہانی کی "مفردات القرآن" کے بعد شاید ہی کسی قسم کی لغت کی ضرورت رہ جاتی ہو، لیکن ہر "بزعم خود علامہ" اپنا عین فرض سمجھتا ہے کہ اپنے عقیدے کے مطابق ایک قرآن کی لغت بھی مرتب کرے، جیسے کہ پرویز صاحب۔

۔
 

باذوق

محفلین
حدیث کی آئینی حیثیت

کچھ مزید انفارمیشن :
حدیث میں شامل کئے گئے قابل اعتراض‌مواد کی نشاندہی۔
http://www.beacon2005.com/criminals.pdf
کئی دوسری کتب:
http://www.ourbeacon.com/7101.html
واضح رہے کہ یہ صرف انفارمیشن ہے، نکتہ نظر نہیں۔
والسلام
السلام علیکم
حدیث و سنت کے موضوع پر یہاں کچھ اقباسات لگائے گئے ہیں۔ ملاحظہ فرما لیا جائے۔

محترم فاروق سرور خان صاحب
محترم اجمل صاحب نے بجا تبصرہ کیا ہے کہ : اگر آپ راسخ العقیدہ مسلمان ہیں تو کوئی حوالہ دینے سے قبل اس کی صداقت کی خود تحقیق کر لیا کریں ورنہ قاری کے غلط راہ پر چلنے کے گناہ میں آپ بھی حصہ دار ہوں گے ۔
علاوہ ازیں ۔۔۔
مجھے اس قسم کے جملے پر سخت اعتراض ہے
جو کہ آپ نے یوں لکھا ہے : حدیث میں شامل کئے گئے قابل اعتراض‌مواد کی نشاندہی۔
اس کو لکھنے کے اور بھی کئی مہذب طریقے ہو سکتے تھے۔
ایسی تراکیب عموماَ مستشرقین کے زیر استعمال ہوتی ہین جن سے ہمیں پرہیز کرنا ہی بہتر ہے ۔
اگر آپ نے یہ جملہ خود سے نہیں لکھا بلکہ کہیں اور سے کاپی کیا ہے تب بھی احتیاط ملحوظ رکھی جانی چاہئے تھی۔

کتاب کی شروعات کے چند صفحات ہی ۔۔۔ صحیح بخاری کے متعلق بغض و تعصب کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔
یہ امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ جس پر امت صدیوں سے قائم ہے اور انشاء اللہ قیامت تک رہے گی کہ بخاری و مسلم دو ایسی مستند کتابیں ہیں جن میں کوئی حدیث، کوئی ایک حدیث بھی ضعیف نہیں ہے ۔
مسئلہ روشن خیال مستشرقین کا یہ ہے کہ وہ شریعتِ اسلامی کو اپنی "عقل" کے سہارے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر اس کی چھوٹ دے دی جائے تو یقین مانئے ۔۔۔ سب سے پہلے قرآن سے ہاتھ دھو لینا پڑے گا۔ یار لوگوں نے تو قرآن میں پھیلے "تضاد" پر بھی اعتراض جڑ رکھا ہے۔ ذرا یہ مثال دیکھیں۔ کیا یہ ہمیں قبول ہے؟ کیا ہم یہاں عقلی تاویلات کر کے تطبیق نہیں دے لیتے ؟

کیا صرف اس لیے کہ دوسرے کہتے ہیں کہ قرآن میں "تضاد" ہے تو ہم بھی یہی بات دہراتے ہوئے مضمون کا رابطہ دے لیں گے؟ کیا اس کے دفاع میں دو جملے بھی نہیں لکھیں گے ؟ کیا ایک مسلمان کا کام صرف “انفارمیشن“ شئر کرنا ہے ، دین کا دفاع نہیں ہے ؟

اور ۔۔۔ ایسا معاملہ صرف قرآن کے لیے ہی کیوں ؟ کیا اللہ کی جانب سے صرف وحی جلی ہی نازل ہوئی ؟ وحی خفی کا کوئی وجود نہیں ؟
اگر وحی خفی یعنی حدیث ، کا کوئی وجود نہیں ہے تو ذرا بتائیے کہ قرآن کی ان آیات کا کیا کِیا جائے گا جن میں اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ ہمارا حکم ہے اور وہ حکم سارے قرآن میں کہیں درج نہیں۔
صرف ایک مثال سورہ البقرہ سے ، آیت نمبر 143۔
جس قبلے پر تم تھے ، اس کو ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں کہ کون پیغمبر کے تابع رہتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے ؟
یہ آیت قبلہ کی تبدیلی کے خدائی حکم کو بیان کرتی ہے اور اتنی واضح ہے کہ اس سے خود اللہ کا حکم ظاہر ہو رہا ہے کہ تبدیلی سے پہلے والا قبلہ بھی خود اللہ تعالیٰ ہی کا مقرر کردہ تھا ۔
اب کوئی آئے اور ذرا ہمیں قرآن سے وہ آیت نکال کر دکھا دے جس میں پہلے قبلہ کے مقرر ہونے کا حکم بیان ہوا ہو ؟

یہ تو صرف ایک مثال ہے ، ایسی سولہ عدد مثالیں ، یعنی خود قرآن ہی سے وحی خفی (حدیث) کا ثبوت ۔۔۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتاب (انگریزی اور اردو) ، حجیتِ حدیث میں بیان کی ہیں۔ اس کتاب کے دونوں زبانوں کے ورزن نیٹ پر مفت میں دستیاب بھی ہیں۔

تو کہنا یہ ہے کہ حدیث کا ثبوت ، قرآن سے بھی ثابت ہے۔ اب اگر کچھ احادیث خلافِ عقل نظر آتی ہیں تو یہ دراصل ہماری ہی ناقص عقل کا قصور ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل و تقریر کا نہیں !
اور یہ تو پہلے ہی کہا گیا ہے کہ اپنی عقل سے سمجھیں تو قرآن میں بھی بیشمار تضادات نظر آ جائیں گے۔
جب ہم قرآن کے تضادات کو ماننے سے انکاری ہیں تو حدیث کے "تضادات" پر ظلم کیوں ؟ حالانکہ دونوں بھی اللہ کی طرف سے ہیں۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے واضح طور پر فرمایا ہے :
الا اني اوتيت الكتاب و مثلہ
لوگو ، یاد رکھو !
قرآن ہی کی طرح ایک اور چیز (حدیث) مجھے اللہ کی طرف سے دی گئی ہے ۔
ابو داؤد ، كتاب السنة ، باب : في لزوم السنة ، حدیث : 4606
 
Top