"سلام"نازؔ خیالوی

سلام
انسانیت کا مرکز و محور حسین ہے
جملہ نوازشات کا پیکر حسین ہے

اوقات کیا فرات کی ، پانی کی ذات کیا
ایسے میں جب کہ وارثِ کوثر حسین ہے

منزل مری بہشت ہے، دوزح ترا مقام
ترا یزید ہے، میرا رہبر حسین ہے

اس اعتماد سے ہے انی پر بھی لب کُشا
گویا کہ اب بھی زینتِ منبر حسین ہے

شایانِ شان اس کی نہیں پانی مانگنا
اقلیم تشنگی کا گورنر حسین ہے

ساتوں سمندروں پہ محیط اس کی ایک بُوند
ہاں ایسا بے کنار سمندر حسین ہے

شاداب و فیض یاب ہے جس سے ہر ایک دَور
وُہ شاہ، وُہ غنی، وہ تونگر حسین ہے

کٹ جائے اس سے نازؔ نہ شاعر نہ شاعری
روحِ سُخن ہے جانِ سُخنور حسین ہے
نازؔ خیالوی
 
آخری تدوین:
Top