سقوطِ ڈھاکہ

زیک

مسافر
آج 16 دسمبر ہے۔ آج سے 36 سال پہلے پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالے اور بنگلہ‌دیش دنیا میں نمودار ہوا۔ چلیں اس تاریخ کو کچھ کھنگالیں کہ شاید ہم کچھ سیکھ سکیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ بہت سارے پاکستانی اس واقعے اور تاریخ کو یا تو بالکل فراموش کر چکے ہیں یا بھولتے جا رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان کا سقوط اور بنگلہ دیش کا قیام ایک مخصوص پس منظر اور لمبی تاریخ رکھتا ہے لیکن 36 برس گزر جانے کے بعد بھی صحیح حقائق عوام کے سامنے نہیں آ سکے اور نہ ہی شاید مستقبل قریب میں آنے کی توقع ہے اور نہ ہی ہم اپنے بچوں کو "صحیح اور غیر جانب دار" تاریخ پڑھاتے ہیں۔

سقوطِ مشرقی پاکستان کے حوالے سے کئی سوال جواب طلب ہیں۔

- کیا مشرقی اور مغربی پاکستان کا اتحاد روزِ اول ہی سے غیر فطری تھا؟
- کیا ون یونٹ نے اس سقوط میں مہمیز کا کام کیا؟
- کیا مغربی پاکستان کے حکمرانوں، جاگیرداروں اور وڈیروں کا رویہ مشرقی پاکستان کے متعلق متعصبانہ اور نفرت کا تھا؟
- کیا مغربی پاکستان کے حکمران اور سیاستدان مشرقی پاکستان کی عددی برتری سے خائف تھے؟
- کیا مشرقی پاکستان کے زیادہ تر وسائل غیر منصفانہ طور پر مغربی پاکستان میں استعمال ہوتے تھے؟
- کیا بھارت نے سقوط مشرقی پاکستان میں مرکزی کردار ادا کیا؟
- کیا پاکستانی جرنیلوں اور فوج نے مشرقی پاکستان میں ظلم و زیادتیاں کیں؟
- کیا پاکستان کے حکمرانوں نے امریکی اور چینی "مدد" کا غلط اندازہ لگایا؟
- کیا جنرل یحییٰ خان اپنا اقتدار کو طویل سے طویل کرنا چاہتا تھا؟
- کیا بھٹو اقتدار کا بھوکا تھا اور اس کیلیئے کسی حد تک بھی جا سکتا تھا؟
- کیا مجیب الرحمٰن نے اپنے اقتدار کیلیئے مشرقی پاکستان میں آگ لگا دی؟
- کیا اندار گاندھی کا یہ کہنا کہ "آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیجِ بنگال میں ڈبو دیا"، درست تھا؟
- کیا حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کو جان بوجھ کر خفیہ رکھا گیا تاکہ پاکستانی فوج اور سیاستدانوں کے پول نہ کھل جائیں؟

وغیرہ وغیرہ۔

مجھے تو ان سوالوں میں تمام یا زیادہ تر جواب "ہاں" میں لگتے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے ان اور ان جیسے بے شمار سوالوں کا صحیح جواب شاید ہی کہیں سے مل سکے۔

تاریخ، مستقبل کا آئینہ ہوتی ہے اور مختار مسعود نے کیا خوب کہا ہے کہ جو قومیں اپنی تاریخ بھلا دیتی ہیں انکا جغرافیہ ان کو بھلا دیتا ہے۔

۔
 

خرم

محفلین
سقوطِ مشرقی پاکستان کا صرف ایک سبب تھا۔ اقتدار کے روایتی مراکز کو ملک میں جمہوریت کسی صورت بھی قبول نہیں‌تھی اور مشرقی پاکستان کیونکہ روایتی طور پر جمہوریت پسند خطہ تھا جس میں‌متوسط طبقہ کافی بااثر تھا اس لئے ان کی حکومت کا مطلب مغربی پاکستان کے متوسط طبقہ کی بیداری ہوتا جو کہ اسٹیبلشمنٹ اور ان کے حواریوں‌کو قطعاً قبول نہیں تھا۔ مکتی باہنی یا عوامی لیگ مسئلہ نہیں‌تھے، مغربی پاکستان کے جاگیردار، وڈیرے اور جرنیل یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ حکومت سازی کا اختیار عوام کو منتقل کر دیا جائے۔ اس لئے اس سے پہلے کہ یہ اثراتِ "بد"‌مغربی پاکستان میں پھیلتے، انہوں‌نے اس عضوِ "بیمار" کو ہی کاٹ دیا جہاں سے یہ مرض پھیل سکتا تھا۔
 

خرم

محفلین
جن فوجوں‌کے افسروں کو پلاٹ اور پرمٹ اور سویلین عہدوں‌کا چسکا پڑ جائے ان کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ فوج کا اکلوتا کام اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بڑھانا اور صرف اور صرف حکومتی احکامات کو بجا لانا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری فوج اس ایک کام کے علاوہ ہر کام کرتی ہے اور نتیجتاً آج تک اسے ایک بھی جنگ میں‌کامیابی نہیں‌ملی ہاں ہتھیار ڈالنے کا شرف ضرور حاصل ہوا۔
وائے حسرت کارواں‌کے دل سے احساسِ زیاں‌جاتا رہا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
کچھ کالم نویس اور بلاگر ابھی تک اسی جھوٹ کو رٹ رہیں کہ فوج تو بے قصور تھی اور اصل قصور وار بنگالی تھے۔ ایک عام پاکستانی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بارے میں بہت کم جانتا ہے۔ کچھ تو اس کا ذکر کرتے ہوئے بنگالیوں کو خاصی حقارت سے یاد کرتے ہیں۔ میں نے خود ایک صاحب کو خود یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ بہت اچھا ہوا جو مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوگیا کیونکہ یہ محض ہم پر بوجھ ہی تھا اور بلاوجہ ہر سال اس کے سیلاب زدہ عوام کی مدد کرنا پڑتی تھی۔ یہ صاحب کوئی خاص تعلیم یافتہ نہیں تھے اور تاریخ کا واجبی علم رکھتے تھے، لیکن کئی بزعم خود نظریہ پاکستان کے رکھوالے سرکاری تاریخ نویس بھی اس سے زیادہ مخلتف لہجے کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
میں یہ جاننے میں تجسس رکھتا ہوں کہ اب بنگلہ دیش کے محصور پاکستانی کس حال میں ہیں؟ اور کیا انہیں پاکستان لانے کا معاملہ ابھی تک زندہ ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
ان دنوں ایک فقرہ بہت مشہور ہوا تھا

لڑائی میں جو جان سے گیا، وہ شہید
جو بچ کر واپس آ گیا وہ غازی
جس نے ہتھیار ڈال دیئے وہ نیازی
 

خرم

محفلین
میں یہ جاننے میں تجسس رکھتا ہوں کہ اب بنگلہ دیش کے محصور پاکستانی کس حال میں ہیں؟ اور کیا انہیں پاکستان لانے کا معاملہ ابھی تک زندہ ہے؟
نبیل بھائی محصورین کے معاملے میں‌زبانی جمع خرچ تو کافی کیا جاتا ہے لیکن انہیں واپس لینے کو کوئی تیار نہیں۔ سندھ، سرحد اور بلوچستان تو انہیں اپنے یہاں جگہ دینے کے روادار نہیں باقی رہ گیا پنجاب تو مرحوم غلام حیدر وائیں نے ایک دفعہ یہ کام شروع کیا تھا اور چند خاندان پنجاب میں آباد بھی کئے تھے۔سندھ میں کافی لے دے ہوئی تھی اس پر لیکن ان کی وفات کے بعد یہ سلسلہ بھی ٹھپ ہو گیا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
فیض احمد فیض کی نظم

ڈھاکہ سے واپسی پر


ہم کہ ٹھرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

تھے بہت بے درد لمحے ختم دردِ عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد

دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کرلیتے مناجاتوں کہ بعد

ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کئیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد
 
Top