مکمل سعادت حسن منٹو ۔ تحریر معین الدین حزیں کاشمیری

فرخ منظور

لائبریرین
سعادت حسن منٹو (خاکہ)
تحریر: معین الدین حزیں کاشمیری

میں ایک مدت تک افسانے سے لاتعلق رہا۔ دراصل میرا میدان شاعری تھا۔ خدا بھلا کرے میرے دوست معراج الدین احمد (مرحوم) کا جنہوں نے مجھے افسانوی دنیا سے آشنا کیا اور افسانہ نگاری کی اس معروف شخصیت سے روشناس کرایا۔
ایک روز یہی دوست اپنا ایک افسانہ لے کر بغرضِ اصلاح میرے ساتھ منٹو کے ہاں پہنچے۔ منٹو مرحوم ان دنوں مال روڈ کی جانب سے بیڈن روڈ کو داخل ہوتے ہوئے اس کے عقب میں فلیٹوں کی طرز کی ایک خوبصورت سی کالونی کے ایک فلیٹ میں مقیم تھے۔ یہ کالونی چاروں طرف سے آبادی میں گھری ہوئی ہونے کے باوجود خوبصورت بھی ہے اور پُر سکون بھی۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ میری طرح میرے دوست کی بھی ان سے پہلی ملاقات تھی تاہم ہم دونوں نے انہیں کئی بار حلقہ اربابِ ذوق میں افسانہ پڑھتے سنا تھا۔ ہم ان کے فلیٹ میں داخل ہوئے اور تعارف کرانے کے بعد اپنا مقصد بیان کیا۔ پھر افسانہ اُن کے حوالے کر دیا۔ وہ چارپائی پر نیم دراز بیٹھے تھے مگر افسانے کو ہاتھ میں لیتے ہی پھرتی سے اُٹھ کر سیدھا بیٹھ گئے اور ہم سے مخاطب ہوئے بغیر اسے پڑھنا شروع کر دیا۔ بیچ بیچ میں’خوب‘ اور’ واہ واہ‘ کے الفاظ ادا کرتے رہے۔ ایک جگہ رُک گئے اور اپنے مخصوص انداز میں نظروں کو ذرا ترچھا کر کے سنجیدگی سے کہنے لگے: ’’معراج صاحب! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ افسانہ میں نے لکھا ہے۔‘‘ مجھے یاد پڑتا ہے انہوں نے اس افسانے میں بہت کم، یعنی نہ ہونے کے برابر اصلاح کی۔ پھر فرمایا: ’’آج کل کادور بھی عجب دور ہے۔ افسانے کی دنیا میں اندھیر مچا ہوا ہے۔ ہر کوئی دو چار افسانے لکھ کر کمالِ فن کا دعویٰ کرنے لگا ہے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اوّل اوّل جب میں نے افسانہ نگاری شروع کی تو زبان و بیان کے رموز سے آشنا نہ تھا چنانچہ میں نے بلا تکلف اپنے افسانے بغرضِ اصلاح نشتر جالندھری کے سپرد کر دےئے۔ ان کی اصلاح سے مجھ پر بہت جلد زبان و بیان کے رموز آشکار ہو گئے اور ایک اچھی تحریر قلمبند کرنے کا قرینہ ہاتھ لگ گیا اور میں خوب سے خوب ترکی تلاش میں سرگرداں ہو گیا۔‘‘ پھر افسانے کے حوالے سے فرمایا کہ ’’مجھے نشتر جالندھری کا یہ شعر بہت پسند ہے۔ دیکھئے افسانے کی تہہ داری کو کس قدر اچھے انداز میں بیان کیا ہے:
وہ مجھے ڈھونڈ رہے ہیں ، کوئی اُن سے کہہ دے
سال ہا سال اُسے ہو گئے افسانہ بنے
پھر انہوں نے غالب پر باتیں شروع کر دیں اور دو چار شعر سنا کر کہنے لگے وہ فنِ شاعری کے رموز سے خوفناک حد تک واقف ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ واقعی گنجینہِ معنی ہے۔ ’روزنِ دیوارِ زنداں‘ پر خوب خوب بات رہی۔ دراصل وہ غالب کے شیدائی تھے اور شاعری میں کسی دوسرے کو ان کا ہم پایہ نہ سمجھتے تھے۔ وہ ان کی میخواری ، بذلہ سنجی، انسان دوستی، لطیفہ گوئی، بازی بِد کر کھیلنے کی عادت سے لے کر ان کی پروازِ تخیل تک ایک ایک شے کے مداح تھے۔ راقم الحروف کی منٹو مرحوم سے اس کے دوست کے ہمراہ یہ ڈیڑھ گھنٹے کی پہلی ملاقات تھی۔ بعدازاں ہم دونوں اکثر و بیشتر ان کے فلیٹ میں ان سے ملتے رہے۔ وہ راقم الحروف کو ’’خواجہ‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ ایک روز ایسی ہی ایک نشست میں راقم الحروف سے دریافت کیا: افسانہ نگاری میں ان کا کیا مقام ہے؟ بندے نے ہر چند اس معاملے میں دامن چھڑانے کی کوشش کی مگر ان کی عقابی نظروں میں چھپی ہوئی زیر کی، تیزی اور قطعیت کے آگے دم نہ مار سکا۔ وہ بات کو جلد اور فیصلہ کن انداز میں کرتے تھے اور مخاطب کے پُر تکلف لبادہِ علم و دانش کو اپنی نشتر نگاہی اور اپنے سادہ پُر کار اندازِ گفتگو سے چاک کر دیتے تھے۔ آج تک اس بات پر حیران و ششدر ہوں کہ منٹو مرحوم نے آخر کن وجوہات کی بنا پر اس بے ہنر سے ایسا سوال کیا۔ میں صدقِ دل سے اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ ان دنوں افسانوی ادب سے آشنائی کے لحاظ سے میں بہت ہی کم مایہ شخص تھا۔ جب انہوں نے بہت اصرار کیا اور بندے پر واضح ہو گیا کہ اب اس آفتِ ناگہانی سے چھٹکارا ممکن نہیں تو کہا: ’’حضور! بندے نے حال ہی میں موپاساں کا مطالعہ کیا ہے اور اس کے افسانوی کمالات کے نقوش دل و دماغ پر مرتسم ہیں۔ اگر اس حقیر نے اس افسانہ نگار کا مطالعہ نہ کیا ہوتا تو حقیقتاً آپ کو دنیائے افسانہ نگاری کا سب سے بڑا افسانہ نگار تسلیم کرتا۔ اب اس کے لیے یہ ممکن نہیں رہا۔‘‘ اس پر وہ چند لمحوں تک خاموش رہے، پھر کہنے لگے: ’’خواجہ صاحب! آپ بجا فرماتے ہیں۔ میں بھی اس سے متاثر ہوں مگر اس کے اور میرے ماحول میں فرق ہے۔ اس کے معاشرے کے مسائل اور میرے معاشرے کے مسائل میں بُعدالمشرقین ہے، آپ سمجھے نا۔‘‘ اس پر میں نے خاموشی اختیار کی اور موضوع بدل دیا۔
دراصل موپاساں اور منٹو کے افسانوں میں موضوعات کے لحاظ سے بے شمار عناصر ایسے ہیں جن میں باہم اشتراک دکھائی دیتا ہے۔ ہر چند دونوں حضرات انسان کی جنسی نفسیات پر گہری نظر رکھتے ہیں مگر موپاساں اس معاملے میں منٹو سے بازی لے گئے ہیں۔ ان کا اندازِ بیاں بھی منٹو سے زیادہ دلآویز اور اندر ہی اندر گھر کرنے والا ہے۔ منٹو کے ہاں تندی ہے اور اپنے ہی قول کے مطابق جابجا چونکا دینے والی بات ہے۔ وہ اپنا مقصد بیان کرتے ہوئے ہر تکلف کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ وہ اپنے فن میں Realism کو بروئے کار لانے میں براہِ راست عمل کے حامی ہیں مگر موپاساں کے ہاں نرمی اور حلاوت ہے، وہ انسانی جذبات کو اُبھارنے کے ساتھ ساتھ اس کے فکر کو بھی وسیع سے وسیع تر کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ معاملہ بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ ان کا فکر نفسیات اور فلسفے کی حدوں کو چھونے لگتا ہے اور دل کے ساتھ ساتھ دماغ کے اُفق پر دھنک نمودار ہو جاتی ہے۔ کچھ عرصہ بعد میں نے میکسم گورکی، سمرسٹ ماہم اور چیخوف کا مطالعہ کیا تو اپنے اپنے ماحول میں یہ سب فنکار قد آور دکھائی دےئے مگر اپنے ماحول میں ان کی صف میں منٹو بھی کوتاہ قامت دکھائی نہ دیئے۔
منٹو مرحوم نے جب افسانہ نگاری شروع کی اور جنس پر لکھنے کا آغاز کیا تو معاشرے میں ایسا شدید ردِ عمل ہوا کہ انہیں عریاں نویسی اور فحاشی کے ارتکاب میں قانونی چارہ جوئی سے گزرنا پڑا۔ ہر چند انہوں نے کوشش کی کہ عوام الناس پر اپنا مافی الضمیر واضح کریں اور انہیں بتائیں کہ ان کے فن کا مطلوب و مقصد ہر گز عریاں نویسی نہیں ہے۔ وہ تو تختہِ سیاہ پر سفید چاک سے لکھتے ہیں یعنی معاشرے کی برائیوں کو من و عن بیان کر کے اپنے انداز میں لوگوں پر ان کے عیوب اس طرح واضح کرتے ہیں کہ وہ آئینے میں اپنا اصل چہرہ دیکھ لیں۔ انہوں نے معاشرے میں پھیلی ہوئی جنسی برائیوں پر سینکڑوں افسانے تحریر کیے ہیں مگر بقول ان کے اور سچ بھی یہی ہے کہ گہری نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد اس میں لذت پرستی ہرگز ہرگز نہیں ہے۔
ان کا ایک افسانہ ’’ننگی آوازیں‘‘ کیا ہمارے معاشرے کے ایک جیتے جاگتے ماحول کی تصویر کشی نہیں کرتا؟ ایک فنکار کو حقائق تک پہنچنے کے لیے جو ذرائع اختیار کرنا چاہئیں وہ اس افسانے میں اختیار کیے گئے ہیں۔ ان کے بغیر مفرنہ تھا۔ اگر آپ ایسے عناصر کو لذت پرستی کا نام دیتے ہیں تو فنکار کا نہیںآپ کی کوتاہ فہمی کا نقص ہے۔ ’’خوشیا‘‘، ’’کھول دو‘‘ اور ان جیسے بے شمار افسانہ ایسے ہیں جن پر یار لوگوں نے فحاشی کا الزام لگایا۔ خاص طور پر ’’کھول دو‘‘ پر تو بہت لے دے ہوئی اور انہیں عدالت کا منہ بھی دیکھنا پڑا۔
چوہدری محمد حسین (خان بہادر) جو ان دنوں Information میں Paper Controller تھے، منٹو کے اس افسانے سے سخت برہم ہوئے۔ ایک روز میری موجودگی میں شیخ مبارک علی تاجر کتب کی دکان پر سخت برہمی کے انداز میں کہنے لگے: ’’دیکھیے جناب! اب لوگوں نے ایسے ایسے گھٹیا اور مخرب الاخلاق افسانے بھی لکھنا شروع کر دےئے ہیں اور اس منٹو کی تو میں اچھی طرح خبر لوں گا۔‘‘ سچ یہ کہ چوہدری صاحب کی سوچ کا بھی ایک خاص انداز تھا۔ اُن کی بات بھی ردنہ کی جا سکتی تھی۔ وہ اپنی قوم کے بہی خواہ اور ’’چار عناصر سے بنے ہوئے‘‘ مومن تھے لیکن منٹو کا معاملہ اس وقت ان کی سمجھ میں نہ آسکا۔ اس افسانے کے طبع ہونے پر منٹو پر جب مقدمہ چلا تو انہوں نے اپنی طرف سے جن گواہوں کو اپنے دفاع کے سلسلے میں دعوت دی ان میں ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کا نام بطورِ خاص موجود تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ راقم الحروف نے ایک نشست میں ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم سے منٹو کی تعریف سنی تھی۔ وہ اسے افسانوی دنیا کا ایک بڑا فنکار سمجھتے تھے۔ منٹو پر افسانہ ’’بو‘‘ کے سلسلے میں مقدمہ چلا تو منٹو کے گواہان میں یہ حضرات شامل تھے: مولانا عبدالمجید سالک، عبدالرحمان چغتائی، دیو یندر سیتار تھی، راجندر سنگھ بیدی اور کنہیالال کپور۔
معاشرے کے اسی ردِ عمل نے بالآخر انہیں مجبور کر دیا تھا کہ وہ اپنے فن کے بارے میں براہِ راست عوام پر اپنا نقطہِ نظر واضح کریں۔ چنانچہ راگیشوری کالج میں انہوں نے جو گراں قدر اور بلیغ لیکچر دیا وہ ان کے فن کی کما حقہ وضاحت بھی کرتا ہے اور اپنے اوپر عائد کردہ الزامات کو رد بھی۔ ان کا یہ لیکچر ان کے فکر و فن کا ایک بیش بہا نمونہ ہے۔
ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کی طرح مولانا غلام رسول مہر بھی منٹو کے مدّاح تھے۔ اس بے ہنر کے مولانا مہر سے نیاز مندانہ مراسم تھے۔ وہ مسلم ٹاؤن میں اکثر و بیشتر ان کے ہاں حاضری دیا کرتا تھا۔ ایک روز یہ حقیر ان کے ہاں پہنچا تو دیکھا آپ منٹو کی کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ اس بے ہنر کے لیے یہ اچنبھے کی بات تھی۔ بندے نے جسارت کر کے ان سے دریافت کیا تو کہنے لگے : ’’معین! منٹو کوئی معمولی افسانہ نگار نہیں ہے۔ اس نے مجھے حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس کے جس قدر کتابیں مارکیٹ میں موجود ہیں مجھے جلد از جلد فراہم کرو۔‘‘
بندے نے اس پر عمل کیا۔ اُدھر انہوں نے نہایت قلیل مدت میں منٹو کی کئی کتابیں پڑھ ڈالیں۔ مولانا مہر جیسا کتابوں کا مطالعہ کرنے والا آدمی اس حقیر کی نظر سے کم ہی گزرا ہے۔ وہ کتاب کو ایک نظر میں بھانپ کر چند ہی گھنٹوں میں اسے ختم کر لیتے تھے۔
عابد علی عابد بھی منٹو کے قدر دان تھے۔ ایک روز فرمانے لگے: ’’منٹو افسانہ نگاری کے میدان میں ایک منہ زور گھوڑے کے مانند ہے۔ وہ بہ یک وقت انسان کی جنسی نفسیات کا عالم بھی ہے اور اسے دوسروں تک منتقل کرنے کا فن بھی جانتا ہے۔‘‘ فرمانے لگے: ’’اس کے ہاں ابلاغ کی جو صورت ہے وہ دوسرے افسانہ نگاروں میں نہیں پائی جاتی۔‘‘ پھر فرمانے لگے: ’’وہ جنس کی ٹوہ لگاتے لگاتے ’ٹھرکی‘ کے عنوان سے افسانہ تخلیق کرنے کی سوچ رہے تھے کہ میں نے انہیں اُسی قبیل کے دو تین عنوانات سے آگاہ کیا۔ اس پر فرمایا کہ دیکھئے جناب! آپ کے مجوّزہ عنوانات میری افسانہ نگاری کے زمرے میں نہیں آتے۔ اس پر میں خاموش ہو گیا۔‘‘
مہر صاحب ان کی تخلیق ’’گنجے فرشتے‘‘ اور ’’سیاہ حاشیے‘‘ پر سردھنتے تھے اور کہتے تھے یہ دو کتابیں ہی انہیں بلند پایہ ادیبوں کی صف میں لاکھڑا کرتی ہیں۔ ان پر الزام دھرنے سے پہلے ان کے افسانوں کو گہری نظر سے مطالعہ کرنا چاہیے۔ بات کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ ذکر ان کی لذت پرستی کا ہو رہا تھا جو ان کے ہاں واقعتا نہ تھی۔ ایک بار کہنے لگے: ’’کم بختو! یہ جو تم نے منٹو پر لذت پرستی اور فحاشی کا طومار باندھ دیا ہے تو تم لوگوں کو اتنی بھی خبر نہیں کی فحاشی کہتے کسے ہیں‘‘ کہنے لگے: ’’اگر آپ غصے میں کبھی کسی کو ماں بہن کی غلیظ گالیاں دیں تو کیا اسے فحاشی میں شمار کیا جائے گا۔ میں کہتا ہوں ہرگز ہرگز نہیں۔ کہنے والا تو اپنے غصے کا اظہار کر رہا ہے نہ کہ لذت پرستی کا شکار ہو رہا ہے۔ ہاں اگر کہنے والا غصے میں نہ ہو اور مزاج کے متعدل ہونے پر مزے لے لے کر ایسی مغلظات منہ سے نکالے تو یہ فحاشی کے زمرے میں ضرو ر شمار ہوں گی۔‘‘ پھر فرمایا: ’’خواجہ صاحب! آپ سچ کہتے ہیں کہ منٹو نے اپنے کسی بھی افسانے میں ایسے جنسی مزے نہیں لیے۔‘‘ اس پر مجھے ان کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک روز آپ اردو بازار میں ’انشا پریس‘ میں اس کے مالک جناب حمیداﷲ (مرحوم) اور ’آئینہِ ادب‘کے مالک شیخ عبدالسلام (مرحوم) کی موجودگی میں محوِ گفتگو تھے۔ یہ بے ہنر بھی اپنے ایک مرحوم دوست کے ہمراہ ان کے قریب ہی بیٹھا تھا۔ اتفاق سے لاہور کے ایک معروف تاجر کتب، جو صرف ناول ہی طبع کرتے تھے، آموجود ہوئے اور آتے ہی اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد منٹو پر برس پڑے کہ ان دنوں منٹو کی افسانہ نگاری ’’Talk of the Town‘‘ بنی ہوئی تھی۔ اتفاق سے منٹو صاحب اسی کمرے کی ایک آڑ میں چھپے بیٹھے تھے، انہوں نے دوستوں کو اشارے سے سمجھا دیا کہ وہ کہنے والے کے ارشادات میں مخل نہ ہوں۔ البتّہ جب وہ صاحب حد سے تجاوز کر گئے تو منٹوصاحب اپنی سیٹ سے اُچھل کر ان کے سامنے آموجود ہوئے اور جسم کا ایک خاص انداز (Posture) بناتے ہوئے قسم کھا کر کہنے لگے: ’’دیکھےئے صاحب! اب منٹو میں جنس نام کا ایک ذرّہ بھی باقی نہیں ہے، آپ فحاشی کی بات کرتے ہیں۔ خدارا منٹو کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔‘‘ منٹو مرحوم نے یہ بات اس انداز سے اور ایسے فیصلہ کُن لب و لہجے سے کی کہ وہ صاحب اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ منٹو مرحوم میں تکلف نام کی کوئی شے نہ تھی۔ وہ اعلیٰ پایہ کے افسانہ نگار ہونے کے باوجودکبھی رعونت کا شکار نہ ہوئے۔ لوگوں سے بہت جلد گُھل مِل جاتے تھے۔ شخصیات کا مطالعہ کرنا ان کا مشغلہ تھا۔ معاشرے پر گہری نظر رکھتے تھے۔ موضوعِ زیرِ بحث پر گفتگو کرتے ہوئے وہ اپنی طبعی زیر کی سے مدِمقابل کی محض حرکات و سکنات ہی سے اس کے دل کی بات معلوم کر لیتے تھے۔ انہیں کسی ادبی مسئلے میں کوئی اُلجھن محسوس ہوتی تو یہ نہ دیکھتے کہ اسے فلاں شخص ہی سے حل کرایا جا سکتا ہے۔ وہ تو پاس بیٹھے ہوئے دوست سے بھی کہہ دیتے تھے کہ اگر اس کے پاس اس کا کوئی حل ہے تو بتائے۔ وہ ہمہ وقت اپنے پاس اردو کی ایک ڈکشنری ضرور رکھتے تھے اور اس سے استفادہ کرتے رہتے تھے۔
اسی قسم کی ایک محفل میں کہنے لگے: ’’فن کار اپنی تخلیق کے دوران بعض اوقات عجیب و غریب قسم کے حالات سے دو چار ہو جاتا ہے۔ میں یہاں عام فنکار کی بات نہیں کر رہا، ایک حقیقی فنکار کی بات کر رہا ہوں۔‘‘ پھر گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے: ’’جب میں اپنا افسانہ ’’موذیل‘‘ لکھ رہا تھا تو یہ کردار Develop ہوتے ہوتے ایک ایسی صورت اختیار کر گیا کہ اس پر قابو پانا میرے بس کا روگ نہ رہا۔ یوں سمجھیے کہ بوتل سے جن نکل کر میرے سامنے آموجود ہوا اور میں خوف زدہ ہو گیا کہ اس پر کیسے قابو پاؤں۔ بالآخر انتہائی سوچ بچار کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اس کردار کو اسی کے طبعی خواص کے آئینے میں پایہ تکمیل تک پہنچانا ہی بہتر ہے، لہٰذا میں اس کردار کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ ایسی بات منٹو جیسا بڑا فنکار ہی کہہ سکتا ہے۔
ایک روز یہ بندہ کوئی آٹھ نو بجے صبح موری دروازہ سے باہر بڑی سڑک سے گزر رہا تھا کہ اچانک انہیں ’’سویرا‘‘ کے دفتر میں بیٹھے دیکھ لیا۔ ان سے نظریں چار ہوئیں تو اپنے مخصوص اندا زمیں، جس میں ہمیشہ سرعت اور ذہانت کے عناصر نمایاں ہوتے، فرمایا: ’’خواجہ، ذرا اِدھر آنا۔ انگریزی کے ایک لفظ کا ترجمہ ذہن میں نہیں آرہا۔ بھلا Abstraction کو اُردو میں کیا کہتے ہیں؟‘‘ میں نے فوراً جواب دیا: ’’تجرید‘‘ اس پر کرسی سے اُچھل کر فرمایا: ’’ہاں، بالکل درست۔‘‘ بعدازاں افسانہ لکھنے میں ہمہ تن مصروف ہو گئے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ان دنوں چوہدری نذیر احمد مرحوم نے اُن سے افسانے لکھوانے کا معاہدہ کیا ہوا تھا کیونکہ اکثر و بیشتر ان کے تحریری مشاغل وہیں دیکھنے میں آئے۔ ان کی زندگی کا ایک انداز، جو بعدازاں ان کی موت کا سبب بنا، ان کی میخواری تھی۔ وہ مدتوں اس ام الخبائث سے شغف فرماتے رہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اپنی ایک ہی نرینہ اولاد کے مرجانے پر شدت سے اس کی طرف راغب ہو گئے تھے۔ میں ان کی میخواری پر غور کرتا ہوں تو بہ یک نگاہ ادباو شعرا کی صف میں ایسے کئی دوسرے حضرات بھی سامنے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ یہ بندہ ایسے لوگوں کی زندگی کے اس پہلو پر غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ یہ لوگ اپنی طبع کے لحاظ سے ہم جیسے نہیں ہوتے۔ بعض اوقات ان حضرات کی قوتِ حاسہ، جذبات کی شدت اور تخیل کی زر خیزی عقل کی عناں گیری سے آزاد ہو کر مے نوشی ایسے افعال کے ارتکاب میں اپنے لیے بظاہر تسکین کا راستہ ڈھونڈ لیتی ہے۔ مجھے ان حضرات کی شخصیات کے مشاہدے سے معلوم ہوا ہے کہ یہ ہم اور آپ جیسے لوگوں کی طرح زندگی کو سنبھال سنبھال کر رکھنے کے قائل نہیں ہوتے۔ منٹو مرحوم کا بھی یہی حال تھا۔ وہ جب تک بمبئی میں رہے اور فلموں کے لیے کہانیاں تحریر کرتے رہے مالی طور پر اچھی زندگی گزارتے رہے اور اس علت کے ہاتھوں معاشی طور پر پریشان نہ ہوئے مگر قیامِ پاکستان کے بعد اول تو چار پانچ برس تک وہ اپنے معاشی Set up کی تگ و دو میں لگے رہے، بعدازاں افسانہ نگاری اور فلموں کی کہانیاں لکھ کر معاشی حالات کا رُخ بدلا تو اس علت پر اُٹھنے والے اخراجات نے ان کی زندگی کا دائرہ تنگ سے تنگ تر کر دیا۔ نوبت یہاں تک آپہنچی کہ انہوں نے طبقہِ ناشرین میں ہر کہ و مہ کو بہت کم داموں اپنے افسانے بیچنا شروع کر دیے۔ پھر کتابی دنیا میں وہ طوفانِ بدتمیزی برپا ہوا کہ ناشرین نے ان کے افسانوں سے مختلف کتابیں ترتیب دے کر مختلف ناموں سے شائع کیں اور خوب خوب نفع کمایا۔ اس کے بعد جب ان کے معاشی حالات مزید خراب ہو گئے تو انہوں نے اپنے جاننے والوں کے ہاں پہنچنا شروع کر دیا اور ان سے رقم طلب کر کے اپنی ضرورت پوری کرنے لگے۔ آپ قریب قریب ہر دوسرے تیسرے دن راقم الحروف کی دکان پر بھی تشریف لاتے۔ جتنی رقم کا مطالبہ کرتے اس کی فوری تعمیل کر دی جاتی۔ ایک روز حسبِ معمول جب آپ تشریف لائے تو بندے نے کاروباری مصروفیت کی بنا پر برابر والے دکاندار سے کہا کہ وہ انہیں اتنی رقم دے دے۔ اس پر بگڑ بیٹھے اور کہنے لگے: ’’دیکھیے خواجہ صاحب! یہ رقم میں صرف آپ کے ہاتھ سے لوں گا۔ اگر آپ مجھے اس طرح رقم دیں گے تو پھر کبھی دکان پر نہ آؤں گا۔ میں ان حالات میں بھی اپنی خودی سے کنارہ کش نہیں ہو سکتا۔‘‘ منٹو مرحوم کی اس ادا سے ایک طرف تو میں نادم ہوا اور دوسری طرف ان کی تمام تر معاشی بدحالی میں ایک بار پھر ان کی طبعِ غیور اور کج کلاہی والی آن کا مشاہدہ کر لیا۔ میں نے محسوس کیا کہ ایک بڑی شخصیت اپنے تمام تر منفی خارجی اثرات کا شکار ہوتے ہوئے بھی اپنی انا کی توقیر و عظمت قائم رکھتی ہے۔ اس واقعے کے بعد بھی کئی بار منٹو مرحوم میری دکان پر تشریف لائے مگر ان کا آنا آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا۔ انکی صحت اب کثرتِ شراب نوشی سے خاصی گر گئی تھی۔ وہ ڈاکٹروں کی مسلسل تنبیہہ کے باوجود شراب پیتے چلے گئے۔ آخر ایک دن وہی ہوا جو ہونا تھا۔
اکثر سوچتا ہوں اگر منٹو مغرب میں پیدا ہوتا تو لوگ اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے۔ اس کی کتابیں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوتیں اور ’’صرفِ بہائے مے ہوئے آلاتِ میکشی‘‘ کی نوبت نہ آتی، مگر افسوس وہ مشرق میں بھی اس ملک میں پیدا ہوا جہاں ادبی کتابیں ایک ہزار سے زیادہ شائع نہیں ہوتیں۔

تفو بر تو اے چشمِ گرداں تفو!
 
Top