فرخ منظور
لائبریرین
سعادت حسن منٹو کے مضمون سے اقتباس
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان ادیبوں کے اعصاب پر عورت سوار ہے سچ تو یہ ہے ہبوط آدم سے لے کر اب تک ہر مرد کے اعصاب پر عورت سوار رہی ہے۔ اور کیوں نہ رہے۔ مرد کے اعصاب پر کیا ہاتھی گھوڑوں کو سوار ہونا چاہئے۔
آج سے کچھ عرصہ پہلے شاعری میں عورت کو ایک خوبصورت لڑکا بنا دیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس زمانے کے شاعروں نے اس میں کوئی مصلحت دیکھی ہو گی۔ مگر آج کے شاعر اس مصلحت کے خلاف ہیں وہ عورت کے چہرے پر سبزے یا خط کے آغاز کو بہت ہی مکروہ اور خلاف فطرت سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی اس کو اصلی شکل میں دیکھیں …. خدا لگتی کہئے۔ کیا آپ اپنی محبوبہ کے گالوں پر داڑھی پسند کریں گے؟
میں عرض کر رہا تھا کہ زمانے کی کروٹوں کے ساتھ ادب بھی کروٹیں بدلتا رہا ہے…. آج اس نے جو کروٹ بدلی ہے۔ اس کے خلاف اخباروں میں مضمون لکھنا یا جلسوں میں زہر اگلنا بالکل بیکار ہے۔ وہ لوگ جو ادب جدید کا ترقی پسند ادب کا فحش ادب کا یا جو کچھ بھی یہ ہے خاتمہ کر دینا چاہتے ہیں۔ تو صحیح راستہ یہ ہے کہ ان حالات کا خاتمہ کر دیا جائے جو اس ادب کے محرک ہیں۔
میرے پڑوس میں اگر کوئی عورت ہر روز خاوند سے مار کھاتی ہے اور پھر اس کے جوتے صاف کرتی ہیں۔ تو میرے دل میں اس کے لئے ذرہ برابر ہمدردی پیدا نہیں ہوتی۔لیکن جب میرے پڑوس میں کوئی عورت اپنے خاوند سے لڑ کر اور خود کشی کی دھمکی دے کر سینما دیکھنے چلی جاتی ہے اور میں خاوند کو دو گھنٹے سخت پریشانی کی حالت میں دیکھتا ہوں تو مجھے دونوں میں سے ایک عجیب و غریب قسم کی ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔
کسی لڑکے کو لڑکی سے عشق ہو جائے تو میں اسے زکام کے برابر اہمیت نہیں دیتا۔ مگر وہ لڑکا میری توجہ اپنی طرف ضرور کھینچے گا جو ظاہر کرے کہ اس پر سینکڑوں لڑکیاں جان دیتی ہیں لیکن درحقیقت وہ محبت کا اتنا ہی بھوکا ہے جتنا بنگال کا فاقہ زدہ باشندہ۔
چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے۔ اور رات کو اطمینان سے سو جاتی ہے۔ میرے افسانوں کی ہیروئن نہیں ہو سکتی۔ میری ہیروئن چکلے کی ایک مکھیائی ہو سکتی ہے۔ جو رات کو جاگتی اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی یہ ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آ رہا ہے۔
زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں۔ اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھئے۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔ مجھ میں جو برائیاں ہیں وہ اس عہد کی برائیاں ہیں میری تحریر میں کوئی ایسا نقص نہیں جس کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ دراصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔ میں ہنگامہ پسند نہیں۔ میں لوگوں کے خیالات و جذبات میں ہیجان پیدا کرنا نہیں چاہتا۔ میں تہذیب و تمدن اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی میں اسے کپڑے پہنانے کی کوش بھی نہیں کرتا۔ اس لئے کہ یہ میرا کام نہیں درزیوں کا ہے۔ لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں۔ لیکن میں تختہ سیاہ پر کالی چاک سے نہیں لکھتا سفید چاک استعمال کرتا ہوں کہ تختہ سیاہ کی سیاہی اور نمایاں ہو جائے۔
جب میں نے لکھنا شروع کیا تھا تو گھر والے سب بیزار تھے باہر کے لوگوں کو بھی میرے ساتھ دل چسپی پیدا ہو گئی تھی۔ چنانچہ وہ کہا کرتے تھے۔’’ بھئی! کوئی نو کری تلاش کرو۔ کب تک بیکار پڑے افسانے لکھتے رہو گے۔‘‘ آٹھ دس برس پہلے افسانہ نگاری بیکاری کا دوسرا نام تھا۔ آج اسے ادب جدید کہا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے ذہن نے کافی ترقی کر لی ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان ادیبوں کے اعصاب پر عورت سوار ہے سچ تو یہ ہے ہبوط آدم سے لے کر اب تک ہر مرد کے اعصاب پر عورت سوار رہی ہے۔ اور کیوں نہ رہے۔ مرد کے اعصاب پر کیا ہاتھی گھوڑوں کو سوار ہونا چاہئے۔
آج سے کچھ عرصہ پہلے شاعری میں عورت کو ایک خوبصورت لڑکا بنا دیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس زمانے کے شاعروں نے اس میں کوئی مصلحت دیکھی ہو گی۔ مگر آج کے شاعر اس مصلحت کے خلاف ہیں وہ عورت کے چہرے پر سبزے یا خط کے آغاز کو بہت ہی مکروہ اور خلاف فطرت سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی اس کو اصلی شکل میں دیکھیں …. خدا لگتی کہئے۔ کیا آپ اپنی محبوبہ کے گالوں پر داڑھی پسند کریں گے؟
میں عرض کر رہا تھا کہ زمانے کی کروٹوں کے ساتھ ادب بھی کروٹیں بدلتا رہا ہے…. آج اس نے جو کروٹ بدلی ہے۔ اس کے خلاف اخباروں میں مضمون لکھنا یا جلسوں میں زہر اگلنا بالکل بیکار ہے۔ وہ لوگ جو ادب جدید کا ترقی پسند ادب کا فحش ادب کا یا جو کچھ بھی یہ ہے خاتمہ کر دینا چاہتے ہیں۔ تو صحیح راستہ یہ ہے کہ ان حالات کا خاتمہ کر دیا جائے جو اس ادب کے محرک ہیں۔
میرے پڑوس میں اگر کوئی عورت ہر روز خاوند سے مار کھاتی ہے اور پھر اس کے جوتے صاف کرتی ہیں۔ تو میرے دل میں اس کے لئے ذرہ برابر ہمدردی پیدا نہیں ہوتی۔لیکن جب میرے پڑوس میں کوئی عورت اپنے خاوند سے لڑ کر اور خود کشی کی دھمکی دے کر سینما دیکھنے چلی جاتی ہے اور میں خاوند کو دو گھنٹے سخت پریشانی کی حالت میں دیکھتا ہوں تو مجھے دونوں میں سے ایک عجیب و غریب قسم کی ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔
کسی لڑکے کو لڑکی سے عشق ہو جائے تو میں اسے زکام کے برابر اہمیت نہیں دیتا۔ مگر وہ لڑکا میری توجہ اپنی طرف ضرور کھینچے گا جو ظاہر کرے کہ اس پر سینکڑوں لڑکیاں جان دیتی ہیں لیکن درحقیقت وہ محبت کا اتنا ہی بھوکا ہے جتنا بنگال کا فاقہ زدہ باشندہ۔
چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے۔ اور رات کو اطمینان سے سو جاتی ہے۔ میرے افسانوں کی ہیروئن نہیں ہو سکتی۔ میری ہیروئن چکلے کی ایک مکھیائی ہو سکتی ہے۔ جو رات کو جاگتی اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی یہ ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آ رہا ہے۔
زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں۔ اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھئے۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔ مجھ میں جو برائیاں ہیں وہ اس عہد کی برائیاں ہیں میری تحریر میں کوئی ایسا نقص نہیں جس کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ دراصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔ میں ہنگامہ پسند نہیں۔ میں لوگوں کے خیالات و جذبات میں ہیجان پیدا کرنا نہیں چاہتا۔ میں تہذیب و تمدن اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی میں اسے کپڑے پہنانے کی کوش بھی نہیں کرتا۔ اس لئے کہ یہ میرا کام نہیں درزیوں کا ہے۔ لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں۔ لیکن میں تختہ سیاہ پر کالی چاک سے نہیں لکھتا سفید چاک استعمال کرتا ہوں کہ تختہ سیاہ کی سیاہی اور نمایاں ہو جائے۔
جب میں نے لکھنا شروع کیا تھا تو گھر والے سب بیزار تھے باہر کے لوگوں کو بھی میرے ساتھ دل چسپی پیدا ہو گئی تھی۔ چنانچہ وہ کہا کرتے تھے۔’’ بھئی! کوئی نو کری تلاش کرو۔ کب تک بیکار پڑے افسانے لکھتے رہو گے۔‘‘ آٹھ دس برس پہلے افسانہ نگاری بیکاری کا دوسرا نام تھا۔ آج اسے ادب جدید کہا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے ذہن نے کافی ترقی کر لی ہے۔