سعادت حسن منٹو منتخب افسانے

شمشاد

لائبریرین
مس مالا

گانے لکھنے والا عظیم گوبند پوری جب اے بی سی پروڈکشنز میں ملازم ہوا تو اس نے فوراّ اپنے دوست میوزک ڈائریکٹر بھٹساوے کے متعلق سوچا جو مرہٹہ تھا اور عظیم کے ساتھ کئی فلموں میں کام کر چکا تھا۔ عظیم اس کی اہلیتوں کو جانتا تھا۔ سٹنٹ فلموں میں آدمی اپنے جوہر کیا دکھا سکتا ہے، بے چارہ گمنامی کے گوشے میں پڑا تھا۔

عظیم نے چنانچہ اپنے سیٹھ سے بات کی اور کچھ اس انداز میں کی کہ اس نے بھٹساوے کو بلایا اور اس کے ساتھ ایک فلم کا کنٹریکٹ تین ہزار روپوں میں کر لیا۔ کنٹریکیٹ پر دستخط کرتے ہی اسے پانچ سو روپے ملے جو اس نے اپنے قرض خواہوں کو ادا کر دیئے۔ عظیم گوبندپوری کا وہ بڑا شکر گزار تھا۔ چاہتا تھا کہ اس کی کوئی خدمت کرئے، مگر اس نے سوچا آدمی بے حد شریف ہے اور بے غرض ------ کوئی بات نہیں، آئندہ مہینے سہی۔ کیونکہ ہر ماہ اسے پانچ سو روپے کنٹریکٹ کی رُو سے ملنے تھے۔ اس نے عظیم سے کچھ نہ کہا۔ دونوں اپنے اپنے کام میں مشغول تھے۔

عظیم نے دس گانے لکھے جن میں سے سیٹھ نے چار پسند کیے۔ بھٹساوے نے موسیقی کے لحاظ سے صرف دو۔ ان کی اس نے عظیم کے اشتراک سے دُھنیں تیار کیں جو بہت پسند کی گئیں۔

پندرہ بیس روز ریہرسلیں ہوتی رہیں۔ فلم کا پہلا گانا کورس تھا۔ اس کے لیے کم از کم دو گویا لڑکیاں درکار تھیں۔ پروڈکشن منیجر سے کہا گیا۔ مگر جب وہ انتظام نہ کر سکا تو بھٹساوے نے مس مالا کو بلایا جس کی اچھی آواز تھی۔ اس کے علاوہ وہ پانچ چھ اور لڑکیوں کو جانتی تھی جو سُر میں گا لیتی تھیں۔ مس مالا کھانڈیکر جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے کولہاپور کی مرہٹہ تھی۔ دوسروں کے مقابلے میں اس کا اُردو تلفظ زیادہ صاف تھا۔ اس کو یہ زبان بولنے کا شوق تھا۔ عمر کی زیادہ بڑی نہیں تھی۔ لیکن اس کے چہرے کا ہر خدوخال اپنی جگہ پر پختہ، باتیں بھی اس انداز میں کرتی کہ معلوم ہوتا اچھی خاصی عمر کی ہے۔ زندگی کے اتار چڑھاؤ سے باخبر ہے۔ اسٹودیو کے ہر کارکن کو بھائی جان کہتی اور ہر آنے جانے والے سے بہت جلد گھل مل جاتی تھی۔

اس کو جب بھٹساوے نے بلایا تو وہ بہت خوش ہوئی۔ اس کے ذمے یہ کام سپرد کیا گیا کہ وہ فوراّ کورس کے لیے دس گانے والی لڑکیاں مہیا کر دے۔ وہ دوسرے روز ہی بارہ لڑکیاں لے آئی۔ بھٹساوے نے ان کا ٹسٹ لیا۔ سات کام کی نکلیں۔ باقی رخصت کر دی گئیں۔ اس نے سوچا کہ چلو ٹھیک ہے، سات ہی کافی ہیں۔ جگتاپ ساونڈ ریکارڈسٹ سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا میں سب ٹھیک کر لوں گا۔ ایسی ریکارڈنگ کروں گا کہ لوگوں کو ایسا معلوم ہو گا کہ بیس لڑکیاں گا رہی ہیں۔

جگتاب اپنے فن کو سمجھتا تھا۔ چنانچہ اس نے ریکارڈنگ کے لئے ساونڈ پروف کمرے کے بجائے سازندوں اور گانے والیوں کو ایک ایسے کمرے میں بٹھایا جس کی دیواریں سخت تھیں۔ جن پر ایسا کوئی غلاف نہیں چڑھا ہوا تھا کہ آواز دب جائے۔ فلم “ بے وفا “ کا مہورت اسی کورس سے ہوا۔ سینکڑوں آدمی آئے۔ ان میں بڑے بڑے فلمی سیٹھ اور ڈسٹری بیوٹر تھے۔ اے بی سی پروڈکشنز کے مالک نے بڑا اہتمام کیا ہوا تھا۔

پہلے گانے کی دو چار ریہرسلیں ہوئیں۔ مس مالاکھانڈیکر نے بھٹساوے کے ساتھ پورا تعاون کیا۔

سات لڑکیوں کو فرداّ فرداّ آگاہ کیا کہ خبردار رہیں اور کوئی نقص پیدا نہ ہونے دیں۔ بھٹساوے پہلی ہی ریہرسل سے مطمئن تھا لیکن اس نے مزید اطمینان کی خاطر چند اور ریہرسلیں کرائیں۔ اس کے بعد جگتاپ سے کہا کہ وہ اپنا اطمینان کر لے۔ اس نے جب ساؤنڈ ٹریک میں یہ کورس پہلی مرتبہ ہیڈفون لگا کر سنا تو اس نے خوش ہو کے بہت اونچا “ اوکے “ کہہ دیا۔ ہر ساز اور ہر آواز اپنے صحیح مقام پر تھی۔

مہمانوں کے لیے مائکروفون کا انتظام کر دیا تھا۔ ریکارڈنگ شروع ہوئی تو اسے اون کر دیا گیا۔ بھٹساوے کی آواز بھونپو سے نکلی “ سونگ نمبر ایک، ٹیک فرسٹ، ریڈی ون ٹو۔“ اور کورس شروع ہو گیا۔

بہت اچھی کمپوزیشن تھی۔ سات لڑکیوں میں سے کسی ایک نے بھی کہیں غلط سُر نہ لگایا۔ مہمان بہت محظوظ ہوئے۔ سیٹھ، جو موسیقی کیا ہوتی ہے اس سے بھی قطعاّ ناآشنا تھا، بہت خوش ہوا۔ اس لیے کہ سارے مہمان اس کورس کو تعریف کر رہے تھے۔ بھٹساوے نے سازندوں اور گانے والیوں کو شاباشیاں دیں۔ خاص طور پر اس نے مس مالا کا شکریہ ادا کیا جس نے اس کو اتنی جلدی گانے والیاں فراہم کر دیں۔ اس کے بعد وہ جگتاپ ساؤنڈ ریکارڈسٹ کے گلے مل رہا تھا۔ کہ اے بی سی پروڈکشنز کے مالک سیٹھ رنچھوڑ داس کا آدمی آیا کہ وہ اسے بلا رہے ہیں۔ عظیم گوبندپوری کو بھی۔

دونوں بھاگے، اسٹوڈیو کے اس سرے پر گئے جہاں محفل جمی تھی۔ سیٹھ صاحب نے سب مہمانوں کے سامنے ایک سو روپے کا سبز نوٹ انعام کے طور پر پہلے بھٹساوے کو دیا۔ پھر دوسرا عظیم گوبندپوری کو۔ وہ مختصر سا باغیچہ جس میں مہمان بیٹھے تھے، تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا۔

جب مہورت کی یہ محفل برخواست ہوئی تو بھٹساوے نے عظیم سے کہا، “ مال پانی ہے، چلو آؤٹ‌ ڈور چلیں۔“

عظیم اس کا مطلب نہ سمجھا، “ آؤٹ‌ ڈور کہاں؟“

بھٹساوے مسکرایا، “ مازے ملگے (میرے لڑکے) موز شوک (موج شوق) کرنے جائیں گے۔ سو روپیہ تمہارے پاس ہے، سو ہمارے پاس ------ چلو۔“

عظیم سمجھ گیا۔ لیکن وہ اس کے موز شوک (موج شوق) سے ڈرتا تھا، اس کی بیوی تھی، دو چھوٹے بچے بھی۔ اس نے کبھی عیاشی نہیں کی تھی۔ مگر اس وقت وہ خوش تھا۔ اس نے اپنے دل سے کہا “ چلو رے ------ دیکھیں گے کیا ہوتا ہے۔“

بھٹساوے نے فوراّ ٹیکسی منگوائی۔ دونوں اس میں بیٹھے اور گرانٹ روڈ پہنچے۔ عظیم نے پوچھا، “ ہم کہاں جا رہے ہیں، بھٹساوے؟“ وہ مسکرایا، “ اپنی موسی کے گھر۔“

اور جب وہ اپنی موسی کے گھر پہنچے تو مس مالاکھانڈیکر کا گھر تھا۔ وہ ان دونوں سے بڑے تپاک کے ساتھ ملی۔ انہیں اندر اپنے کمرے میں لے گئی۔ ہوٹل سے چائے منگوا کر پلائی۔ بھٹساوے نے اس سے چائے پینے کے بعد کہا، “ ہم موز شوک کے لیے نکلے ہیں۔ تمہارے پاس ------ تم ہمارا کوئی بندوبست کرو۔“

مالا سمجھ گئی۔ وہ بھٹساوے کی احسان مند تھی۔ اس لیے اس نے فوراّ مرہٹی زبان میں کہا جس کا یہ مطلب تھا کہ میں ہر خدمت کے لیے تیار ہوں۔ دراصل بھٹساوے، عظیم کو خوش کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے کہ اس نے اس کو ملازمت دلوائی تھی۔ چنانچہ بھٹساوے نے مالا سے کہا کہ وہ ایک لڑکی مہیا کر دے۔

مس مالا نے اپنا میک اپ جلدی جلدی ٹھیک کیا اور تیار ہو گئی۔ سب ٹیکسی میں بیٹھے۔ پہلے مس مالا پلے بیک سنگر شانتا کرنا کرن کے گھر گئی۔ مگر وہ کسی اور کے ساتھ باہر جا چکی تھی۔ پھر وہ انسویا کے ہاں گئی مگر وہ اس قابل نہیں تھی کہ ان کے ساتھ مہم پر جا سکے۔

مس مالا کو بہت افسوس ہوا کہ اسے دو جگہ ناامیدی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کو امید تھی کہ معاملہ ہو جائے گا۔ چنانچہ ٹیکسی گول پیٹھا کی طرف لپکی۔ وہاں کرشنا تھی۔ پندرہ سولہ برس کی گجراتی لڑکی۔ بڑی نرم و نازک، سُر میں‌ گاتی تھی۔ مالا اس کے گھر داخل ہوئی اور چند لمحات کے بعد اس کو ساتھ لیے باہر نکل آئی۔ بھٹساوے کو اس نے ہاتھ جوڑ کے نمسکار کیا اور عظیم کو تھی۔ مالا نے ٹھیٹ دلالوں کے انداز میں عظیم کو آنکھ ماری اور گویا خاموش زبان میں اس سے کہا، “ یہ آپ کے لیے ہے۔“

بھٹساوے نے اس پر نگاہوں ہی نگاہوں میں صاد کر دیا۔ کرشنا عظیم گوبندپوری کے پاس بیٹھ گئی۔ چونکہ اس کو مالا نے سب کچھ بتا دیا تھا، اس لیے وہ اس سے چہلیں کرنے لگی۔ عظیم لڑکیوں کا سا حجاب محسوس کر رہا تھا۔ بھٹساوے کو اس کی طبیعت کا علم تھا۔ اس لیے اس نے ٹیکسی ایک بار کے سامنے ٹھہرائی۔ صرف عظیم کو اپنے ساتھ اندر لے گیا۔

نغمہ نگار نے صرف ایک دو مرتبہ پی تھی۔ وہ بھی کاروباری سلسلے میں۔ یہ بھی کاروباری سلسلہ تھا۔ چنانچہ اس نے بھٹساوے کے اصرار پر دو پیگ رم کے پیئے اور اس کو نشہ ہو گیا۔ بھٹساوے نے ایک بوتل خرید کر اپنے ساتھ رکھ لی۔ اب وہ پھر ٹیکسی میں تھے۔

عظیم کو اس بات کا قطعاّ علم نہیں تھا کہ اس کا دوست بھٹساوے دو گلاس اور سوڈے کی بوتلیں ساتھ لے آیا ہے۔

عظیم کو بعد میں معلوم ہوا کہ بھٹساوے پلے بیک سنگر کرشنا کی ماں سے یہ کہہ آیا تھا کہ جو کورس دن میں لیا گیا تھا، اس کے جتنے ٹیک تھے، سب خراب نکلے ہیں اس لیے رات کو پھر ریکارڈنگ ہو گی۔ اس کی ماں ویسے کرشنا کو باہر جانے کی اجازت کبھی نہ دیتی مگر جب بھٹساوے نے کہا کہ اسے اور روپے ملیں گے تو اس نے اپنی بیٹی سے کہا کہ جلدی جاؤ اور فارغ ہو کر سیدھی یہاں آؤ، وہاں اسٹوڈیو میں نہ بیٹھی رہنا۔

ٹیکسی ورلی پہنچی یعنی ساحل سمندر کے پاس۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں عیش پرست کسی نہ کسی عورت کو بغل میں دبائے آیا کرتے۔ ایک پہاڑی سی تھی، معلوم نہیں مصنوعی یا قدرتی ------ اس پر چڑھتے ------ کافی وسیع مرتفع قسم کی جگہ تھی۔

اس میں لمبے فاصلوں پر بنچیں رکھی ہوئی تھیں جن پر صرف ایک ایک جوڑا بیٹھتا۔ سب کے درمیان ان لکھا سمجھوتہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کے معاملے میں مخل نہ ہوں۔ بھٹساوے نے جو عظیم کی دعوت کرنا چاہتا تھا، ورلی کی پہاڑی پر کرشنا کو اس کے سپرد کر دیا اور خود مالا کے ساتھ ٹہلتا ٹہلتا ایک جانب چلا گیا۔

عظیم اور بھٹساوے میں ڈیرھ سو گز کا فاصلہ ہو گا۔ عظیم، جس نے غیر عورت کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ محسوس کیا تھا، جب کرشنا کو اپنے ساتھ لگے دیکھا تو اس کا ایمان متزلزل ہو گیا۔ کرشنا ٹھیٹ مرہٹی لڑکی تھی، سانولی سلونی، بڑی مضبوط، شدید طور پر جوان اور اس میں وہ تمام دعوتیں تھیں جو پُرکشش کُھل کھیلنے والی میں ہو سکتی ہیں۔ عظیم چونکہ نشے میں تھا اس لیے وہ اپنی بیوی کو بھول گیا اور اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کرشنا کو تھوڑے عرصے کے لیے بیوی بنا لے۔

اس کے دماغ میں مختلف شرارتیں پیدا ہو رہی تھیں۔ کچھ رم کے باعث اور کچھ کرشنا کی قربت کی وجہ سے۔ عام طور پر وہ بہت سنجیدہ رہتا تھا۔ بڑا کم گو۔ لیکن اس وقت اس نے کرشنا کے گدگدی کی۔ اس کو کئی لطیفے اپنی ٹوٹی پھوٹی گجراتی میں سنائے۔ پھر جانے اسے کیا خیال آیا کہ زور سے بھٹساوے کو آواز دی اور کہا، “ پولیس آ رہی ہے۔ پولیس آ رہی ہے۔“

بھٹساوے مالا کے ساتھ آیا۔ عظیم کو موٹی سے گالی دی اور ہنسنے لگا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ عظیم نے اس سے مذاق کیا ہے۔ لیکن اس نے سوچا بہتر یہی ہے کسی ہوٹل میں چلیں جہاں پولیس کا خطرہ نہ ہو۔ چاروں اٹھ رہے تھے کہ پیلی پگڑی والا نمودار ہوا۔ اس نے ٹھیٹ سپاہیانہ انداز میں پوچھا، “ تم لوگ رات کے گیارہ بجے یہاں کیا کر رہے ہو؟ مالوم نہیں دس بجے کے پیچھو یہاں بیٹھنا ٹھیک نہیں ہے؟ کانون ہے۔“

عظیم نے سنتری سے کہا، “ جناب اپن فلم کا آدمی ہے۔“

“ یہ چھوکری؟“ اس نے کرشنا کی طرف دیکھا۔

“ یہ بھی فلم میں کام کرتی ہے۔ ہم لوگ کسی بُرے خیال سے یہاں نہیں آئے۔ یہاں پاس ہی اسٹوڈیو ہے، اس میں کام کرتے ہیں۔ تھک جاتے ہیں تو یہاں چلے آتے ہیں کہ تھوڑی سی تفریح ہو گی۔ بارہ بجے ہماری شوٹنگ پھر شروع ہونے والی ہے۔“

پیلی پگڑی والا مطمئن ہو گیا۔ پھر وہ بھٹساوے سے مخاطب ہوا، “ تم ادھر کیوں بیٹھا ہے؟“

بھٹساوے پہلے گھبرایا لیکن سنمبھل کر اس نے مالا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں‌ لیا اور سنتری سے کہا، “ یہ ہمارا وائف ہے۔ ہمارے ٹیکسی نیچے کھڑی ہے۔“

تھوڑی سی اور گفتگو ہوئی اور چاروں کی خلاصی ہو گئی۔ اس کے بعد انہوں نے ٹیکسی میں بیٹھ کر سوچا کہ کسی ہوٹل میں چلیں۔ عظیم کو ایسے ہوٹلوں کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا جہاں آدمی چند گھنٹوں کے لیے کسی غیر عورت کے ساتھ خلوت اختیار کر سکے۔ بھٹساوے نے بیکار اس سے مشورہ کیا۔ چنانچہ اس کو فوراّ ڈیوک یارڈ کا “سی ویو ہوٹل“ یاد آیا اور اس نے ٹیکسی والے سے کہا کہ وہاں چلو۔ سی ویو ہوٹل میں بھٹساوے نے دو کمرے لیے۔ ایک میں عظیم اور کرشنا چلے گئے۔ دوسرے میں بھٹساوے اور مس کھانڈیکر۔ کرشنا بدستور مجسم دعوت تھی۔ لیکن عظیم جس نے دو پیگ اور پی لیے تھے، فلسفی رنگ اختیار کر چکا تھا۔ اس نے کرشنا کو غور سے دیکھا اور سوچا کہ اتنی کم عمر لڑکی نے گناہ کا یہ بھیانک رستہ کیوں اختیار کیا۔ خون کی کمی کے باوجود اس میں جنس کی اتنی تپش کیوں ہے؟ کب تک یہ نرم و نازک لڑکی جو گوشت نہیں کھاتی، کب تک اپنا گوشت پوست بیچتی رہے گی۔ عظیم کو اس پر بڑا ترس آیا۔ چنانچہ اس نے واعظ بن کر اس سے کہنا شروع کیا، “ کرشنا معصیت کی زندگی سے کنارہ کش ہو جاؤ۔ خدا کے لیے اس راستے سے جس پر تم گامزن ہو، اپنے قدم ہٹا لو۔ یہ تمہیں ایسے مہیب غار میں لے جائے گا جہاں سے تم نکل نہ سکو گی۔ عصمت فروشی انسان کا بدترین فعل ہے۔ یہ رات اپنی زندگی کی روشن رات سمجھو۔ اس لیے کہ میں نے تمہیں نیک و بد سمجھا دیا ہے۔“ کرشنا نے اس کا جو مطلب سمجھا وہ یہ تھا کہ عظیم اس سے محبت کر رہا ہے۔ چنانچہ وہ اس کے ساتھ چمٹ گئی۔ اور عظیم اپنا گناہ و ثواب کا مسئلہ بھول گیا۔

بعد میں وہ بڑا نادم ہوا۔ کمرے سے باہر نکلا تو بھٹساوے برآمدے میں ٹہل رہا تھا۔ کچھ اس انداز سے جیسے بھڑوں کے پورے چھتے کے ڈنک اس کے جسم میں کُھبے ہوئے ہیں۔ عظیم کو دیکھ کر وہ رک گیا۔ مطمئن کرشنا کی طرف نگاہ ڈالی اور پیچ و تاب کھا کر عظیم سے کہا، “ وہ سالی چلی گئی۔“

عظیم جو اپنی ندامت میں ڈوبا ہوا تھا، چونکا، “ کون؟“

“ وہی - مالا۔“

“ کیوں؟“

بھٹساوے کے لہجے میں عجیب و غریب احتجاج تھا، “ ہم اس کو اتنا وقت چومتے رہے۔ جب بولا آؤ تو سالی کہنے لگی تم ہمارا بھائی ہے۔ ہم نے کسی سے شادی کر لی ہے۔“ اور باہر نکل گئی۔ کہ وہ سالا گھر میں آ گیا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔ ختم شد ۔۔۔۔۔۔​
--------------------------------------------------------------------------------------------------------
تبصرے اور تجاویز کے لیے مندرجہ ذیل ربط استعمال کیجیئے :
http://www.urduweb.org/mehfil/viewtopic.php?t=6734
 

شمشاد

لائبریرین
سعادت حسن منٹو

دھواں

وہ جب اسکول روانہ ہوا تو اس نے راستے میں ایک قصائی دیکھا جس کے سر پر ایک بہت بڑا ٹوکرا تھا۔ اس میں دو تازہ ذبح کیئے ہوئے بکرے تھے۔ کھالیں اتری ہوئی تھیں اور ان کے گوشت میں سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔ جگہ جگہ پر یہ گوشت جس کو دیکھ کر مسعود کے ٹھنڈے گالوں پر گرمی کی لہریں سی دوڑ جاتی تھیں، پھڑک رہا تھا جیسے کبھی کبھی اس کی آنکھ پھڑکا کرتی تھی۔

سوا نو بجے ہوں گے، مگر جھکے ہوئے خاکستری بادلوں کے باعث ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بہت سویرا ہے۔ سردی میں شدت نہیں تھی، لیکن راہ چلتے آدمیوں کے منہ سے گرم گرم سماوار کی ٹونٹیوں کی طرح گاڑھا سفید دھواں نکل رہا تھا۔ ہر شئے بوجھل دکھائی دیتی تھی جیسے بادلوں کے وزن کے نیچے دبی ہوئی ہے۔، موسم کچھ ویسی ہی کیفیت کا حامل تھا جو ربڑ کے جوتے پہن کر چلنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے باوجود کہ بازار میں لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی اور دکانوں میں زندگی کے آثار پیدا ہو چکے تھے، آوازیں مدھم تھیں، جیسے سرگوشیاں ہو رہی ہیں، چپکے چپکے، دھیرے دھیرے باتیں ہو رہی ہیں۔ ہولے ہولے لوگ قدم اٹھا رہے ہیں کہ اونچی آواز پیدا نہ ہو۔

مسعود بغل میں بستہ دبائے اسکول جا رہا تھا۔ آج اس کی چال سُست تھی۔ جب اس نے بے کھال کے تازہ ذبح کئے ہوئے بکروں کے گوشت سے سفید سفید دھواں اٹھتا دیکھا تو اسے راحت محسوس ہوئی۔ اس دھویں نے اس کے ٹھنڈے گالوں پر گرم گرم لکیروں کا ایک جال سا بُن دیا۔ اس گرمی نے اسے راحت پہنچائی اور وہ سوچنے لگا کہ سردیوں میں ٹھنڈے یخ ہاتھوں پر بید کھانے کے بعد اگر یہ دھواں مل جایا کرئے تو کتنا اچھا ہو۔

فضا میں اجلا پن نہیں تھا۔ روشنی تھی مگر دھندلی۔ کہر کی ایک پتلی سے تہہ ہر شے پر چڑھی ہوئی تھی جس سے فضا میں گدلا پن پیدا ہو گیا تھا۔ یہ گدلا پن آنکھوں کو اچھا معلوم ہوتا تھا، اس لئے کہ نظر آنے والی چیزوں کی نوک پلک کچھ مدھم پر گئی تھی۔

مسعود جب اسکول پہنچا تو اسے اپنے ساتھیوں سے یہ معلوم کر کے قطعی طور پر خوشی نہ ہوئی کہ اسکول سکتر صاحب کی موت کے باعث بند کر دیا گیا ہے۔ سب لڑکے خوش تھے، جس کا ثبوت یہ تھا کہ وہ اپنے بستے ایک جگہ پر رکھ کر اسکول کے صحن میں اوٹ پٹانگ کھیلوں میں مشغول تھے۔ کچھ چھٹی کا پتہ معلوم کرتے ہی گھر چلے گئے تھے، کچھ آ رہے تھے اور کچھ نوٹس بورڈ کے پاس جمع تھے، اور بار بار ایک ہی عبارت پڑھ رہے تھے۔

مسعود نے جب سنا کہ سکتر صاحب مر گئے ہیں تو اسے بالکل افسوس نہ ہوا۔ اس کا دل جذبات سے خالی تھا۔ البتہ اس نے یہ ضرور سوچا کہ پچھلے برس جب اس کے دادا جان کا انتقال انہی دنوں میں ہوا تھا تو ان کا جنازہ لے جانے میں بڑی دقت ہوئی تھی۔ اس لیے کہ بارش شروع ہو گئی تھی۔ وہ بھی جنازے کے ساتھ گیا تھا اور قبرستان میں چکنی کیچڑ کے باعث ایسا پھسلا تھا کہ کُھدی ہوئی قبر میں گرتے گرتے بچا تھا۔ یہ سب باتیں اس کو اچھی طرح یاد تھیں۔ سردی کی شدت، اس کے کیچڑ سے لت پت کپڑے، سرخی مائل نیلے ہاتھ جن کو دبانے سے سفید سفید دھبے پڑ جاتے تھے۔ ناک جو کہ برف کی ڈلی معلوم ہوتی تھی اور پھر آ کر ہاتھ پاؤں دھونے اور کپڑے بدلنے کا مرحلہ ------ یہ سب کچھ اس کو اچھی طرح یاد تھا۔ چنانچہ جب اس نے سکتر صاحب کی موت کی خبر سنی تو اسے یہ سب بیتی ہوئی باتیں یاد آ گئیں۔ اور اس نے سوچا جب سکتر صاحب کا جنازہ اٹھے گا تو بارش شروع ہو جائے گی اور قبرستان میں اتنی کیچڑ ہو جائے گی کہ کئی لوگ پھسلیں گے اور ان کو ایسی چوٹیں آئیں گی کہ بلبلا اٹھیں گے۔

مسعود نے یہ خبر سن کر سیدھا اپنی کلاس کا رخ کیا۔ کمرے میں پہنچ کر اس نے اپنے ڈیسک کا تالا کھولا۔ دو تین کتابیں جو اسے دوسرے روز پھر لانا تھیں، اس میں رکھیں اور باقی بستہ اٹھا کر گھر کی جانب چل پڑا۔

راستے میں اس نے پھر وہی دو تازہ ذبح کیئے ہوئے بکرے دیکھے۔ ان میں سے ایک کو اب قصائی نے لٹکا دیا تھا۔ دوسرا تختے پر پڑا تھا۔ جب مسعود دکان سے گزرا تو اس کے دل میں‌ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ گوشت کو جس میں سے دھواں اٹھ رہا تھا، چھو کر دیکھے۔ چنانچہ اس نے آگے بڑھ کر انگلی سے بکرے کے اس حصے کو چھو کر دیکھا جو ابھی تک پھڑک رہا تھا۔ گوشت گرم تھا۔ مسعود کی ٹھنڈی انگلی کو یہ حرارت بھلی معلوم ہوئی۔ قصائی دکان کے اندر چھریاں تیز کرنے میں مصروف تھا۔ چنانچہ مسعود نے ایک بار پھر گوشت کو چھو کر دیکھا اور وہاں سے چل پڑا۔

گھر پہنچ کر اس نے جب اپنی ماں کو سکتر صاحب کی موت کی خبر سنائی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے ابا جی انہی کے جنازے کے ساتھ گئے ہوئے ہیں۔ اب گھر میں صرف دو آدمی تھے۔ ماں اور بڑی بہن۔ ماں باورچی خانے میں بیٹھی سالن پکا رہی تھی اور بڑی بہن کلثوم پاس ہی ایک کانگڑی لیے درباری کی سرگم یاد کر رہی تھی۔

چونکہ گلی کے دوسرے لڑکے گورنمنٹ اسکول میں پڑھتے تھے جس پر اسلامیہ اسکول کے سکتر کی موت کا کچھ اثر نہیں ہوا تھا، اس لیے مسعود نے خود کو بالکل بیکار محسوس کیا۔ اسکول کا کوئی کام بھی نہیں تھا۔ چھٹی جماعت میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ گھر میں اپنے ابا جی سے پڑھ چکا تھا۔ کھیلنے کے لیے بھی اس کے پاس کوئی چیز نہ تھی۔ ایک میلا کچیلا تاش طاق میں پڑا تھا مگر اس سے مسعود کو کوئی دلچسپی نہ تھی۔ لوڈو اور اس قسم کے دوسرے کھیل جو اس کی بڑی بہن اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہر روز کھیلتی تھی، اس کی سمجھ سے بالاتر تھے۔ سمجھ سے بالاتر یوں تھے کہ مسعود نے کبھی ان کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ اس کو فطرتاّ ایسے کھیلوں سے لگاؤ نہیں تھا۔

بستہ اپنی جگہ پر رکھنے اور کوٹ اتارنے کے بعد وہ باورچی خانے میں اپنی ماں کے پاس بیٹھ گیا اور درباری کی سرگم سنتا رہا جس میں کئی دفعہ سارے گاما آتا تھا۔ اس کی ماں پالک کاٹ رہی تھی۔ پالک کاٹنے کے بعد اس نے سبز سبز پتوں کا گیلا گیلا ڈھیر اٹھا کر ہنڈیا میں ڈال دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب پالک کو آنچ لگی تو اس میں سے سفید سفید دھواں اٹھنے لگا۔

اس دھویں کو دیکھ کر مسعود کو بکرے کا گوست یاد آ گیا۔ چنانچہ اس نے اپنی ماں سے کہا “ امی جان آج میں نے قصائی کی دکان پر دو بکرے دیکھے کھال اتری ہوئی تھی اور ان میں دھواں نکل رہا تھا۔ بالکل ایسے ہی جیسا کہ صبح سویرے میرے منہ سے نکلا کرتا ہے۔“

“ اچھا ------ “ یہ کہہ کر اس کی ماں چولہے میں لکڑیوں کے کوئلے جھاڑنے لگی۔

“ ہاں، اور میں نے گوشت کو اپنی انگلی سے چُھو کر دیکھا تو وہ گرم تھا۔“

“ اچھا ------ “ یہ کہہ کر اس کی ماں نے وہ برتن اٹھایا جس میں اس نے پالک کا ساگ دھویا تھا اور باورچی خانے سے باہر چلی گئی۔

“ اور یہ گوشت کئی جگہ پر پھڑکتا تھا۔“

“ اچھا ------“ مسعود کی بڑی بہن نے درباری سرگم یاد کرنا چھوڑ دی اور اس کی طرف متوجہ ہوئی، “ کیسے پھڑکتا تھا؟“

“ یوں ------ یوں۔“ مسعود نے انگلیوں سے پھڑکن پیدا کر کے اپنی بہن کو دکھائی۔

“ پھر کیا ہوا؟“

یہ سوال کلثوم نے اپنے سرگم بھرے دماغ سے کچھ اس طور پر نکالا کہ مسعود ایک لحظے کے لیے بالکل خالی الذہن ہو گیا۔ “ پھر کیا ہونا تھا۔ میں نے ایسے ہی آپ سے بات کی تھی کہ قصائی کی دکان پر گوشت پھڑک رہا تھا۔ میں نے انگلی سے چُھو کر بھی دیکھا تھا۔ گرم تھا۔“

“ گرم تھا ۔۔۔۔ اچھا مسعود، یہ بتاؤ تم میرا ایک کام کرو گے؟“

“ بتائیے۔“

“ آؤ، میرے ساتھ آؤ۔“

“ نہیں آپ پہلے بتائیے۔ کام کیا ہے؟“

“ تم آؤ تو سہی، میرے ساتھ۔“

“ جی نہیں ------ آپ پہلے کام بتائیے۔“

“ دیکھو، میری کمر میں بڑا درد ہو رہا ہے ------ میں پلنگ پر لیٹتی ہوں۔ تم ذرا پاؤں سے دبا دینا ------ اچھے بھائی جو ہوئے۔ اللہ کی قسم بڑا درد ہو رہا ہے۔“ یہ کہہ کر مسعود کی بہن نے اپنی کمر پر مکیاں مارنا شروع کر دیں۔

“ یہ آپ کی کمر کو کیا ہو جاتا ہے؟ جب دیکھو درد ہو رہا ہے۔ اور پھر آپ دبواتی بھی مجھی سے ہیں۔ کیوں نہیں اپنی سہلیوں سے کہتیں۔“ مسعود اٹھ کھڑا ہوا اور راضی ہو گیا۔

“ چلیئے، لیکن آپ سے یہ کہے دیتا ہوں کہ دس منٹ سے زیادہ میں بالکل نہیں دباؤں گا۔“

“ شاباش، شاباش۔“ اس کی بہن اٹھ کھڑی ہوئی اور سرگموں کی کاپی سامنے طاق میں رکھ کر اس کمرے کی طرف روانہ ہوئی جہاں وہ اور مسعود دونوں سوتے تھے۔

صحن میں پہنچ کر اس اپنی دکھتی ہوئی کمر سیدھی کی اور اوپر آسمان کی طرف دیکھا۔ مٹیالے بادل جھکے ہوئے تھے “ مسعود آج ضرور بارش ہو گی۔“ یہ کہہ کر اس نے مسعود کی طرف دیکھا مگر وہ اندر اپنی چارپائی پر لیٹا تھا۔

جب کلثوم اپنے پلنگ پر اوندھے منہ لیٹ گئی تو مسعود نے اٹھ کر گھڑی میں وقت دیکھا۔ “ دیکھیئے باجی، گیارہ بجنے میں دس منٹ باقی ہیں۔ میں پورے گیارہ بجے آپ کی کمر دابنا چھوڑ دوں گا۔

“ بہت اچھا، لیکن تم اب خدا کے لیے زیادہ نخرے نہ بگھارو۔ ادھر میرے پلنگ پر آ کر جلدی کمر دباؤ۔ ورنہ یاد رکھو، بڑے زور سے کان اینٹھوں گی۔“ کلثوم نے مسعود کو ڈانٹ پلائی۔ مسعود نے اپنی بڑی بہن کے حکم کی تعمیل کی اور دیوار کا سہارا لے کر پاؤں سے اس کی کمر دبانا شروع کر دی۔ مسعود کے وزن کے نیچے کلثوم کی چوڑی چکلی کمر میں خفیف سا جھکاؤ پیدا ہو گیا۔ جب اس نے پیروں سے دبانا شروع کیا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح مزدور مٹی گوندھتے ہیں، تو کلثوم نے مزا لینے کی خاطر ہولے ہولے، ہائے ہائے کرنا شروع کیا۔

کلثوم کے کولھوں پر گوشت زیادہ تھا۔ جب مسعود کا پاؤں اس حصے پر پڑا تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ وہ اس بکرے کے گوشت کو دبا رہا ہے جو اس نے قصائی کی دکان میں اپنی انگلی سے چھو کر دیکھا تھا۔ اس احساس نے چند لمحات کے لیے اس کے دل و دماغ میں ایسے خیالات پیدا کر دیئے جن کا کوئی سر تھا نہ پیر۔ وہ ان کا مطلب نہ سمجھ سکا اور سمجھتا بھی کیسے جبکہ کوئی خیال مکمل ہی نہ تھا۔

ایک دو بار مسعود نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس کے پیروں کے نیچے گوشت کے لوتھڑوں میں حرکت پیدا ہوئی ہے۔ اس قسم کی حرکت جو اس نے بکرے کے گرم گرم گوشت میں دیکھی تھی۔ اس نے بڑی بد دلی سے کمر دبانا شروع کی تھی، مگر اس اسے اس کام میں لذت محسوس ہونے لگی۔ اس کے وزن کے نیچے کلثوم ہولے ہولے کراہ رہی تھی۔ یہ بھینچی بھینچی آواز جو مسعود کے پیروں کی حرکت کا ساتھ دے رہی تھی، اس گمنام سی لذت میں اضافہ کر رہی تھی۔

ٹائم پیس میں گیارہ بج گئے، مگر مسعود اپنی بہن کلثوم کی کمر دباتا رہا۔ جب کمر اچھی طرح دبائی جا چکی تو کلثوم سیدھی لیٹ گئی اور کہنے لگی، “ شاباش مسعود، شاباش، لو اب لگے ہاتھوں ٹانگیں بھی دبا دو۔ بالکل اسی طرح ------ شاباش میرے بھائی۔“

مسعود نے دیوار کا سہارا لے کر کلثوم کی رانوں پر جب اپنا پورا وزن ڈالا تو اس کے پاؤں کے نیچے مچھلیاں تڑپ گئیں۔ بے اختیار وہ ہنس پڑی اور دہری ہو گئی۔ مسعود گرتے گرتے بچا۔ لیکن اس کے تلووں میں مچھلیوں کی تڑپ منجمند سی ہو گئی۔ اس کے دل میں زبردست خواہش پیدا ہوئی کہ وہ پھر اسی طرح دیوار کا سہارا لے کر اپنی بہن کی رانیں دبائے۔ چنانچہ اس نے کہا، “ یہ آپ نے ہنسنا کیوں شروع کر دیا۔ سیدھی لیٹ جائیے، میں آپ کی ٹانگیں دبا دوں۔“

کلثوم سیدھی لیٹ گئی۔ رانوں کی مچھلیاں ادھر ادھر ہونے کے باعث جو گُدگُدی ہوئی تھی، اس کا اثر ابھی اس کے جسم میں باقی تھا۔ “ نا بھائی، میرے گُدگُدی ہوتی ہے۔ تم وحشیوں کی طرح دباتے ہو۔“

مسعود نے خیال کیا کہ شاید اس نے غلط طریقہ استعمال کیا ہے۔ “ نہیں، اب کی دفعہ میں پورا بوجھ آپ پر نہیں ڈالوں ------ آپ اطمینان رکھیے۔ اب ایسی اچھی طرح دباؤں گا کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔“

دیوار کا سہارا لے کر مسعود نے اپنے جسم کو تولا اور اس انداز سے آہستہ آہستہ کلثوم کی رانوں پر اپنے پیر جمائے کہ اس کا آدھا بوجھ غائب ہو گیا۔ ہولے ہولے بڑی ہوشیاری سے اس نے پیر چلانے شروع کیئے۔ کلثوم کی رانوں میں اکڑی ہوئی مچھلیاں اس کے پیروں کے نیچے دب دب کر ادھر ادھر پھسلنے لگیں۔ مسعود نے ایک بار اسکول میں تنے ہوئے رسے پر ایک بازیگر کر چلتے دیکھا تھا۔ اس نے سوچا کہ بازی گر کے پیروں کے نیچے تنا ہوا رسا اسی طرح پھسلتا ہو گا۔

اس سے پہلے کئی بار اس نے اپنی بہن کلثوم کی ٹانگیں دبائی تھیں۔ مگر وہ لذت جو اسے اب محسوس ہو رہی تھی، پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ بکرے کے گرم گرم گوشت کا اسے بار بار خیال آتا تھا۔ ایک دو مرتبہ اس نے سوچا کلثوم کو اگر ذبح کیا جائے تو کھال اتر جانے پر کیا اس کے گوشت میں سے بھی دھواں نکلے گا؟ لیکن ایسی بیہودہ باتیں سوچنے پر اس نے اپنے آپ کو مجرم محسوس کیا اور دماغ کو اس طرح صاف کر دیا جیسے وہ سلیٹ کو اسفنج سے صاف کیا کرتا تھا۔

“ بس، بس “ کلثوم تھک گئی “ چلیں بس۔“

مسعود کو شرارت سوجی۔ وہ پلنگ سے نیچے اترنے لگا تو اس نے کلثوم کی دونوں بغلوں میں گُدگُدی شروع کر دی۔ ہنسی کے مارے وہ لوٹ پوٹ ہو گئی۔ اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ مسعود کے ہاتھوں کو پرے جھٹک دے لیکن جب اس ارادہ کر کے اس کے لات جمانی چاہی تو مسعود اچھل کر زد سے باہر ہو گیا اور سلیپر پہن کر کمرے سے نکل گیا۔

جب وہ صحن میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی ہے۔ بادل اور بھی جھک آئے تھے۔ پانی کے ننھے ننھے قطرے آواز پیدا کیے بغیر صحن کی اینٹوں میں آہستہ آہستہ جذب ہو رہے تھے۔ مسعود کا جسم ایک دلنواز حرارت محسوس کر رہا تھا۔ جب ہوا کا ٹھنڈا ٹھنڈا جھونکا اس کے گالوں کے ساتھ مس ہوا اور دو تین ننھی ننھی بوندیں اس کے ناک پر پڑیں تو ایک جُھرجُھری سی اس کے بدن میں لہرا اٹھی۔ سامنے، کوٹھے کی دیورا پر ایک کبوتر اور ایک کبوتری پاس پاس پر پُھلائے بیٹھے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دونوں دم پخت کی ہوئی ہنڈیا کی طرح گرم ہیں۔ گلِ داؤدی اور نازبُو کے ہرے ہرے پتے اوپر لال لال گملوں میں نہا رہے تھے۔ فضا میں نیندیں کھلی ہوئی تھیں۔ ایسی نیندیں جن میں بیداری زیادہ ہوتی ہے اور انسان کے ارد گرد نرم نرم خواب یوں لپٹ جاتے ہیں جیسے اُونی کپڑے۔

مسعود ایسی باتیں سوچنے لگا جن کا مطلب اس کی سمجھ میں‌ نہیں آتا تھا۔ وہ ان باتوں کو چُھو کر دیکھ سکتا تھا مگر ان کا مطلب اس کی گرفت سے باہر تھا۔ پھر بھی ایک گمنام سا مزا اس سوچ بچار میں اسے آ رہا تھا۔

بارش میں کچھ دیر کھڑے رہنے کے باعث جب مسعود کے ہاتھ بالکل یخ ہو گئے اور دبانے سے ان پر سفید دھبے پڑنے لگے تو اس نے مٹھیاں کس لیں اور ان کو منہ کی بھاپ سے گرم کرنا شروع کیا۔ ہاتھوں کو اس عمل سے کچھ گرمی پہنچی مگر وہ تم آلود ہو گئے۔ چنانچہ آگ تاپنے کے لیے وہ باورچی خانے میں چلا گیا۔ کھانا تیار تھا۔ ابھی اس پہلا لقمہ ہی اٹھایا تھا کہ اس کا باپ قبرستان سے واپس آ گیا۔ باپ بیٹے میں کوئی بات نہ ہوئی۔ مسعود کی ماں اٹھ کر فوراّ دوسرے کمرے میں چلی گئی اور وہاں دیر تک اپنے خاوند کے ساتھ باتیں کرتی رہی۔

کھانے سے فارغ ہو کر مسعود بیٹھک میں چلا گیا اور کھڑکی کھول کر فرش پر لیٹ گیا۔ بارش کی وجہ سے سردی کی شدت بڑھ گئی تھی۔ کیونکہ اب ہوا بھی چل رہی تھی۔ مگر یہ سردی ناخوشگوار معلوم نہیں ہوتی تھی۔ تالاب کے پانی کی طرح یہ اوپر ٹھنڈی اور اندر گرم تھی۔ مسعود جب فرش پر لیٹا تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اس سردی کے اندر دھنس جائے جہاں اس کے جسم کو راحت انگیز گرمی پہنچے۔ دیر تک وہ ایسی شیر گرم باتوں کے متعلق سوچتا رہا جس کے باعث اس کے پٹھوں میں ہلکی ہلکی دکھن پیدا ہو گئی۔ ایک دو بار اس نے انگڑائی لی تو اسے مزا آیا۔ اس کے جسم کے کسی حصے میں، یہ اس کو معلوم نہیں تھا کہ کہاں کوئی چیز اٹک سی گئی تھی، یہ چیز کیا تھی۔ اس کے متعلق بھی مسعود کو علم نہیں تھا۔ البتہ اس اٹکاؤ نے اس کے سارے جسم میں اضطراب، ایک دبے ہوئے اضطراب کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ اس کا سارا جسم کھینچ کر لمبا ہو جانے کا ارادہ بن گیا تھا۔

دیر تک گدگدے قالین پر کروٹیں بدلنے کے بعد وہ اٹھا اور باورچی خانے سے ہوتا ہوا صحن میں آ نکلا۔ کوئی باورچی خانے میں تھا نہ صحن میں۔ ادھر ادھر جتنے کمرے تھے، سب کے سب بند تھے۔ بارش اب رکھ گئی تھی۔ مسعود نے ہاکی اور گیند نکالی اور صحن میں کھیلنا شروع کر دیا۔ ایک بار جب اس نے زور کی ہٹ لگائی تو گیند صحن کے دائیں ہاتھ والے کمرے کے دروازے پر لگی۔ اندر سے مسعود کے باپ کی آواز آئی “ کون؟“

“ جی میں ہوں، مسعود۔“

اندر سے آواز آئی “‌کیا کر رہے ہو؟“

“ جی کھیل رہا ہوں۔“

“ کھیلو ۔۔۔۔۔۔“ پھر تھوڑے سے توقف کے بعد اس کے باپ نے کہا، “‌ تماری ماں میرا سر دبا رہی ہے ------ زیادہ شور نہ مچانا۔“

یہ سن کر مسعود نے گیند وہیں پڑی رہنے دی اور ہاکی ہاتھ میں‌ لیے سامنے والے کمرے کا رخ کیا۔ اس کا ایک دروازہ بند تھا اور دوسرا نیم باز ------ مسعود کو شرارت سوجھی۔ دبے پاؤں وہ نیم باز دروازے کی طرف بڑھا اور دھماکے کے ساتھ دونوں پٹ کھول دیئے۔ دو چیخیں بلند ہوئیں اور کلثوم اور اس کی سہیلی بملا نے جو پاس پاس لیٹی تھیں خوفزدہ ہو کر جھٹ سے لحاف اوڑھ لیا۔

بملا کے بلاؤز کے بٹن کھلے ہوئے تھے اور کلثوم اس کے عریاں سینے کو گھور رہی تھی۔

مسعود کچھ سمجھ نہ سکا۔ اس کے دماغ پر دھواں سے چھا گیا۔ وہاں سے الٹے قدم لوٹ کر وہ جب بیٹھک کی طرف روانہ ہوا تو اسے معاّ اپنے اندر ایک اتھاہ طاقت کا احساس ہوا جس نے کچھ دیر کے لیے اس کی سوچنے سمجھنے کی قوت بالکل کمزور کر دی۔

بیٹھک میں کھڑکی کے پاس بیٹھ کر جب مسعود نے ہاکی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر گھٹنے پر رکھا تو یہ سوچا کہ ہلکا سا دباؤ ڈالنے پر بھی ہاکی میں خم پیدا ہو جائے گا اور زیادہ زور لگانے پر تو ہینڈل چٹاخ سے ٹوٹ جائے گا۔ اس نے گھٹنے پر ہاکی کے ہینڈل میں خم تو پیدا کر لیا مگر زیادہ سے زیادہ زور لگانے پر بھی وہ ٹوٹ نہ سکا۔ دیر تک وہ ہاکی کے ساتھ کشتی لڑتا رہا۔ جب تھک کر ہار گیا تو جھنجھلا کر اس نے ہاکی پرے پھینک دی۔
۔۔۔۔۔۔ ختم شد ۔۔۔۔۔۔​
------------------------------------------------------------------------------------------
تبصرے اور تجاویز کے لیے مندرجہ ذیل ربط استعمال کیجیئے :
http://www.urduweb.org/mehfil/viewtopic.php?t=6734
 

شمشاد

لائبریرین
سعادت حسن منٹو

جاؤ، حنیف جاؤ

چودھری غلام عباس کی تازہ ترین تقریر پر تبادلہ خیالات ہو رہا تھا۔ ٹی ہاوس کی فضا وہاں کی چائے کی طرح گرم تھی۔ سب اس بات پر متفق تھے کہ ہم کشمیر لے کر رہیں گے اور یہ کہ ڈوگرہ راج کا فی الفور خاتمہ ہو جانا چاہیے۔

سب کے سب مجاہد تھے۔ لڑائی کے فن سے نابلد تھے، مگر میدان جنگ میں جانے کے لیے سربکف تھے۔ اس کا خیال تھا کہ اگر ایک دم ہلہ بول دیا جائے تو یوں چٹکیوں میں کشمیر سر ہو جائے گا۔ پھر ڈاکٹر گراہموں کی کوئی ضرورت نہ رہے گی، نہ یو این او میں ہر چھٹے مہینے گڑگڑانا پڑے گا۔

ان مجاہدوں میں میں بھی تھا۔ مصیبت یہ ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو کی طرح میں تھی کشمیری ہوں۔ اس لیے کشمیر میری زبردست کمزوری ہے۔ چنانچہ میں نے باقی مجاہدوں کی ہاں میں ہاں ملائی۔ اور آخر میں طے یہ ہوا کہ جب لڑائی شروع ہو تو ہم سب اس میں شامل ہوں اور صفِ اول میں نظر آئیں۔

حنیف نے یوں تو کافی گرم جوشی کا اظہار کیا، مگر میں نے محسوس کیا کہ وہ افسردہ سا ہے۔ میں نے بہت سوچا مگر مجھے اس افسردگی کی کوئی وجہ معلوم نہ ہو سکی۔

چائے پی کر باقی سب چلے گئے، لیکن میں اور حنیف بیٹھے رہے۔ اب ٹی ہاؤس قریب قریب خالی تھا۔ ہم سے بہت دور ایک کونے میں دو لڑکے ناشتہ کر رہے تھے۔

حنیف کو میں ایک عرصے سے جانتا تھا۔ مجھ سے قریب قریب دس برس چھوٹا تھا۔ بی-اے پاس کرنے کے بعد سوچ رہا تھا کہ اردو کا ایم-اے کروں یا انگریزی کا۔ کبھی کبھی اس کے دماغ پر یہ سنک بھی سوار ہو جاتی کہ ہٹاؤ پڑھائی کو، سیاحی کرنی چاہیے۔

میں نے حنیف کو غور سے دیکھا۔ وہ ایش ٹرے میں سے ماچس کی جلی ہوئی تیلیاں اٹھا اٹھا کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہا تھا۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں، وہ افسردہ تھا۔ اس وقت بھی اس کے چہرے پر وہی افسردگی چھائی ہوئی تھی۔ میں نے سوچا موقع اچھا ہے، اس سے دریافت کرنا چاہیے۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا، “ تم خاموش کیوں ہو؟“

حنیف نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا۔ ماچس کی تیلی کے ٹکڑے کر کے ایک طرف پھینکے اور جواب دیا، “ ایسے ہی۔“

میں نے سگریٹ سلگایا، “ ایسے ہی، تو ٹھیک جواب نہیں۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے ------ تم غالباً کسی بیتے ہوئے واقعے کے متعلق سوچ رہے ہو۔“

حنیف نے اثبات میں سر ہلایا، “ ہاں۔“

“ اور وہ واقعہ کشمیر کی سرزمین سے تعلق رکھتا ہے۔“

حنیف چونکا، “ اپ نے کیسے جانا؟“

میں نے مسکرا کر کہا، “ شرلک ہومز ہوں میں بھی ------ ارے بھئی کشمیر کی باتیں جو ہو رہی تھیں ------ جب تم نے مال لیا کہ سوچ رہے ہو ------ کسی بیتے ہوئے واقعے کے متعلق سوچ رہے ہو تو میں فوراً اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ اس بیٹے ہوئے واقعے کا تعلق کشمیر کے سوا اور کسی سرزمین سے نہیں ہو سکتا ------ کیا وہاں کوئی رومان لڑا تھا تمہارا؟“

“ رومان ------ معلوم نہیں ------ جانے کیا تھا۔ بہرحال، کچھ نہ کچھ ہوا ضرور تھا۔ جس کی یاد اب تک باقی ہے۔“

میری خواہش تھی کہ میں حنیف سے اس کی داستان سنوں۔ “ اگر کوئی امر مانع نہ ہو تو کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ وہ کچھ نہ کچھ کیا تھا؟“

حنیف نے مجھ سے سگریٹ مانگ کر سلگایا اور کہا، “ منٹو صاحب، کوئی خاص دلچسپ نہیں ------ لیکن اگر آپ خاموشی سے سنتے رہیں گے اور مجھے ٹوکیں گے نہیں تو میں آج سے تین برس پہلے جو کچھ ہوا، آپ کو من و عن بتا دوں گا ------ میں افسانہ گو نہیں ------ پھر بھی میں کوشش کروں گا۔“

میں نے وعدہ کیا کہ میں اس کے تسلسل کو نہیں توڑوں گا۔ اصل میں وہ اب دل و دماغ کی گہرائیوں میں ڈوب کر اپنی داستان بیان کرنا چاہتا تھا۔

حنیف نے تھوڑے توقف کے بعد کہنا شروع کیا، “ منٹو صاحب، آج سے دو برس پہلے کی بات ہے جب کہ بٹوارہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ میری طبیعت اداس تھی۔ معلوم نہیں کیوں ------ میرا خیال ہے کہ ہر کنوارہ نوجوان اس قسم کے موسم میں ضرور اداسی محسوس کرتا ہے۔ خیر، میں نے ایک روز کشمیر جانے کا ارادہ کر لیا۔ مختصر سا سامان لیا اور لاریوں کے اڈے پر جا پہنچا۔ ٹکٹ لیا۔ لاری جب کد پہنچی تو میرا ارادہ بدل گیا۔ میں نے سوچا سری نگر میں کیا دھرا ہے، بیسوں مرتبہ دیکھ چکا ہوں ------ اگلے اسٹیشن بٹوت پر اتر جاؤں گا۔ سنا ہے بڑا صحت افزا مقام ہے۔ تپ دق کے مریض یہیں آتے ہیں اور صحت یاب ہو کر جاتے ہیں۔ چنانچہ میں بٹوت اتر گیا اور وہاں ایک ہوٹل میں ٹھہر گیا۔ ہوٹل بس ایسے ہی واجبی سا تھا۔ بہرحال ٹھیک تھا۔ مجھے بٹوت پسند آ گیا۔ صبح چڑھائی کی طرف سیر کو نکل جاتا، واپس آ کر خالص مکھن اور ڈبل روٹی کا ناشتہ کرتا اور لیٹ کر کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف ہو جاتا۔

دن اس صحت افزا فضا میں بڑی اچھی طرح گزر رہے تھے۔ آس پاس جتنے دوکاندار تھے سب میرے دوست بن گئے تھے، خاص طور پر سردار لہنا سنگھ جو درزیوں کا کام کرتا تھا۔ میں اس کی دکان پر گھنٹوں بیٹھا رہتا تھا۔ عشق و محبت کے افسانے سننے اور سنانے کا اسے قریب قریب خبط تھا۔ مشین چلتی رہتی تھی اور وہ یا تو کوئی داستان عشق سنتا رہتا تھا یا سناتا رہتا تھا۔

اس کو بٹوت سے متعلق ہر چیز کا علم تھا۔ کون کس سے عشق لڑا رہا ہے، کس کس کی آپس میں‌کھٹ پٹ ہوئی۔ کون کون سے لونڈیا پر پرزے نکال رہی ہے۔ ایسی تمام باتیں اس کی جیب میں ٹھنسی رہتی تھیں۔

شام کو میں اور وہ اترائی کی طرف سیر کو جاتے تھے اور بانہال کے درے تک پہنچ کر پھر آہستہ آہستہ واپس چلے آتے تھے۔ ہوٹل سے اترائی کی طرف پہلے موڑ پر سٹرک کے داہنے ہاتھ مٹی کے بنے ہوئے کوارٹر تھے۔ میں نے ایک دن سردار جی سے پوچھا کہ یہ کوارٹر کیا رہائش کے لیے ہیں؟ یہ میں نے اس لیے دریافت کیا تھا کہ مجھے وہ پسند آ گئے تھے۔ سردار جی نے مجھے بتایا کہ ہاں، رہائش ہی کے لیے ہیں۔ آج کل اس میں سرگودھے کے ایک ریلوے بابو ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ان کی دھرم پتنی بیمار ہے۔ میں سمجھ گیا کہ دق ہو گی۔ خدا معلوم میں دق سے اتنا کیوں ڈرتا ہوں۔ اس دن کے بعد جب کبھی میں ادھر سے گزرا، ناک اور منہ پر رومال رکھ کے گزرا۔ میں داستان کو طویل نہیں کرنا چاہتا۔

قصہ مختصر یہ کہ ریلوے بابو، جن کا نام کندن لال تھا، سے میری دوستی ہو گئی اور میں نے محسوس کیا کہ اسے اپنی بیمار بیوی کی کوئی پرواہ نہیں۔ وہ اس فرض کو محض ایک فرض سمجھ کر ادا کر رہا ہے۔ وہ اس کے پاس بہت کم جاتا تھا اور دوسرے کوارٹر میں رہتا تھا جس میں وہ دن میں تین مرتبہ فنائل چھڑکتا تھا۔ مریضہ کی دیکھ بھال اس کی چھوٹی بہن سمتری کرتی تھی۔ دن رات یہ لڑکی جس کی عمر بمشکل چودہ برس کی ہو گی، اپنی بہن کی خدمت میں مصروف رہتی تھی۔

میں نے سمتری کو پہلی مرتبہ مگو نالے پر دیکھا۔ میلے کپڑوں کا بڑا انبار پاس رکھے وہ نالے کے پانی سے غالباً شلوار دھو رہی تھی کہ میں پاس سے گزرا۔ آہٹ سن کر وہ چونکی۔ مجھے دیکھ کر اس نے ہاتھ جوڑ کر نمستے کہا۔ میں نے اس کا جواب دیا اور اس سے پوچھا، تم مجھے جانتی ہو؟ سمتری نے باریک آواز میں کہا، جی ہاں۔ آپ بابو جی کے دوست ہیں۔ میں نے ایسا محسوس کیا کہ مظلومیت ہے جو سکڑ کر سمتری کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ میرا جی چاہتا تھا کہ اس سے باتیں کروں اور کچھ کپڑے دھو ڈالوں تاکہ اس کچھ بوجھ ہلکا ہو جائے۔ مگر پہلی ملاقات میں میں ایسی بے تکلفی نامناسب تھی۔

دوسری ملاقات بھی اسی نالے پر ہوئی۔ وہ کپڑوں پر صابن لگا رہی تھی تو میں نے اس کو نمستے کہا اور چھوٹی چھوٹی بٹیوں کے بستر پر اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ وہ کسی قدر گھبرائی لیکن جب باتیں شروع ہوئیں تو اس کی یہ گھبراہٹ دور ہو گئی اور وہ اتنی بے تکلف ہو گئی کہ اس نے مجھے اپنے گھر کے تمام معاملات بتانے شروع کر دیئے۔

بابو جی یعنی کندن لال سے اس کی بڑی بہن کی شادی ہوئے پانچ برس ہو چلے تھے۔ پہلے برس تو بابو جی کا سلوک اپنی بیوی سے ٹھیک رہا، لیکن جب رشوت کے الزام میں وہ نوکری سے معطل ہوا تو اس نے اپنی بیوی کا زیور بیچنا چاہا۔ زیور بیچ کر وہ جوا کھیلنا چاہتا تھا کہ دُگنے روپے ہو جائیں گے۔ بیوی نہ مانی۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس نے اس کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ سارا دن ایک تنگ و تاریک کوٹھری میں رکھتا اور کھانے کو کچھ نہ دیتا۔ اس نے مہینوں ایسا کیا۔ آخر ایک دن عاجز آ کر اس کی بیوی نے اپنے زیور اس کے حوالے کر دیئے۔ لیکن زیور لے کر وہ ایسا غائب ہو کہ چھ مہینے تک اس کی شکل نظر نہ آئی۔ اس دوران میں سمتری کی بہن فاقہ کشی کرتی رہی۔ وہ اگر چاہتی تو اپنے میکے جا سکتی تھی۔ اس کا باپ مالدار تھا اور اس سے بہت پیار کرتا تھا۔ مگر اس نے مناسب نہ سمجھا۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس کو دق ہو گئی۔ کندن لال چھ مہینے کے بعد اچانک گھر آیا تو اس کی بیوی بستر پر پڑی تھی۔ کندن لال اب نوکری پر بحال ہو چکا تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ اتنی دیر کہاں رہا تو وہ گول کر گیا۔

سمتری کی بہن نے اس سے زیوروں کے بارے میں نہیں پوچھا۔ اس کا پتی گھر واپس آ گیا تھا۔ وہ بہت خوش تھی کہ بھگوان نے اس کی سن لی۔ اس کی صحت کسی قدر بہتر ہو گئی مگر “ ان کے آنے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق“ والا معاملہ تھا۔ ایک مہینے کے بعد اس کی حالت اور بھی زیادہ خراب ہو گئی۔ اس اثناء میں سمتری کے ماں باپ کو پتہ چل گیا۔ وہ فوراً وہاں پہنچے اور کندن لال کو مجبور کیا کہ وہ اپنی بیوی کو فوراً کسی پہاڑ پر لے جائے۔ خرچ وغیرہ کا ذمہ انہوں نے کہا، ہمارا ہے۔ کندن لال نے کہا چلو سیر ہی سہی، سمتری کو دل بھلاوے کے لیے ساتھ لیا اور بٹوت پہنچ گیا۔

یہاں وہ اپنی بیوی کی قطعاً دیکھ بھال نہیں کرتا تھا۔ سارا دن باہر تاش کھیلتا رہتا۔ سمتری پرہیزی کھانا پکاتی تھی۔ اس لیے وہ صبح شام ہوٹل سے کھانا کھاتا۔ ہر مہینے سسرال لکھ دیتا کہ خرچ زیادہ ہو رہا ہے، چنانچہ وہاں سے رقم میں اضافہ کر دیا جاتا۔

میں داستان لمبی نہیں کرنا چاہتا۔ سمتری سے میری ملاقات اب ہر روز ہونے لگی۔

نالے پر وہ جگہ جہاں وہ کپڑے دھوتی تھی، بڑی ٹھنڈی تھی۔ نالے کا پانی بھی ٹھنڈا تھا۔ سیب کی درخت کی چھاؤں بہت پیاری تھی اور گول گول بٹیاں، جی چاہتا تھا کہ سارا دن انہیں اٹھا اٹھا کر نالے کے شفاف پانی میں پھینکتا رہوں۔ یہ تھوڑی سی بھونڈی شاعری میں نے اس لیے کی ہے کہ مجھے سمتری سے محبت ہو گئی تھی اور مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ اس اسے قبول کر لیا ہے۔ چنانچہ ایک دن جذبات سے مغلوب ہو کر میں نے اسے اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا۔ اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ ریکھ دیئے اور آنکھیں بند کر لیں۔ سیب کے درخت میں چڑیاں چہچہا رہی تھیں اور مگو نالے کا پانی گنگناتا ہوا بہہ رہا تھا۔

وہ خوبصورت تھی۔ گو دُبلی تھی مگر اس طور پر کہ غور کرنے پر آدمی اس نتیجے پر پہنچتا تھا کہ اسے دُبلی ہی ہونا چاہیے تھا۔ اگر وہ ذرا موٹی ہوتی تو اتنے نازک طور پر خوبصورت نہ ہوتی۔ اس کی آنکھیں غزالی تھیں۔ جن میں قدرتی سرمہ لگا رہتا تھا۔ ٹھمکا سا قد، گھنے سیاہ بال جو اس کی کمر تک آتے تھے۔ چھوٹا سا کنوارا جوبن۔ منٹو صاحب میں اس کی محبت میں سرتاپا غرق ہو گیا۔

ایک دن جب وہ اپنی محبت کا اظہار کر رہی تھی، میں نے وہ بات جو بڑے دنوں سے میرے دل میں کانٹے کی طرح چبھ رہی تھی، اس سے کہی کہ دیکھو سمتری، میں مسلمان ہوں، تم ہندو، بتاؤ انجام کیا ہو گا۔ میں کوئی اوباش نہیں کہ تمہیں خراب کر کے چلتا بنوں۔ میں تمہیں اپنا جیون ساتھی بنانا چاہتا ہوں۔ سمتری نے میرے گلے میں بانہیں ڈالیں اور بڑے مضبوط لہجے میں کہا، حنیف میں مسلمان ہو جاؤں گی۔

میرے سینے کا بوجھ اتر گیا۔ طے ہوا کہ جونہی اس کی بہن اچھی ہو گی، وہ میرے ساتھ چل دے گی۔ اس کی بہن کوکہاں اچھا ہونا تھا۔ کندن لال نے مجھے بتایا تھا کہ وہ اس کی موت کا منتظر ہے۔ یہ بات ٹھیک بھی تھی۔ گو اس طرح سوچنا اور اس کا علاج کرنا کچھ مناسب نہیں تھا، بہرحال حقیقت سامنے تھی۔ کم بخت مرض ہی ایسا تھا کہ بچنا محال تھا۔

سمتری کی بہن کی طبیعت دن بدن گرتی گئی۔ کندن لال کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔ چونکہ اب سسرال سے روپے زیادہ آنے لگے تھے اور خرچ کم ہو گیا تھا یا خود کم کر دیا گیا تھا، اس نے ڈاک بنگلے جا کر شراب پینا شروع کر دی اور سمتری سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگا۔

منٹو صاحب، جب میں نے یہ سنا تو میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اتنی جرات نہیں تھی ورنہ میں بیچ سڑک کے اس کی مرمت جوتوں سے کرتا۔ میں نے سمتری کو اپنے سینے سے لگایا، اس کے آنسو پونچھے اور دوسری باتیں شروع کر دیں جو پیار محبت کی تھیں۔

ایک دن میں صبح سویرے سیر کو نکلا۔ جب ان کوراٹروں کے پاس پہنچا تو میں نے محسوس کیا کہ سمتری کی بہن اللہ کو پیاری ہو چکی ہے۔ چنانچہ میں نے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کندن لال کو آواز دی۔ میرا خیال درست تھا۔ بے چاری نے رات گیارہ بجے آخری سانس لیا تھا۔

کندن لال نے مجھے سے کہا کہ میں تھوڑی دیر وہاں کھڑا رہوں تاکہ وہ کریا کرم کے لیے بندوبست کر آئے۔ وہ چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھے سمتری کا خیال آیا۔ وہ کہاں تھی۔ جس کمرے میں اس کی بہن کی لاش تھی، بالکل خاموش تھا۔ میں ساتھ والے کوارٹر کی طرف بڑھا۔ اندر جھانک کر دیکھا، سمتری چارپائی پر گٹھری سی بنی لیٹی تھی۔ میں اندر چلا گیا۔ اس کا کندھا ہلا کر میں نے کہا، سمتری، سمتری۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے دیکھا کہ اس کی شلوار بڑے بڑے دھبوں سے بھری ہوئی ہے۔ میں نے پھر اس کا کندھا ہلایا مگر وہ خاموش رہی۔ میں نے بڑے پیار سے پوچھا، کیا بات ہے سمتری؟ سمتری نے رونا شروع کر دیا۔ میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔ کیا بات ہے سمتری۔ سمتری سسکیوں بھری آواز میں بولی۔ جاؤ، حنیف جاؤ۔ میں نے کہا کیوں۔ افسوس ہے کہ تمہاری بہن کا انتقال ہو گیا، مگر تم تو اپنی جان ہلکان نہ کرو۔ اس نے اٹک اٹک کر کہا، اس کی آواز نہیں نکلتی تھی، وہ مر گئی ہے، پر میں اس کا غم نہیں کر سکتی۔ میں خود مر چکی ہوں۔ میں اس کا مطلب نہ سمجھا۔ تم کیوں مرو۔ تمہیں تو میرا جیون ساتھی بننا ہے۔ یہ سن کر وہ دھاڑیں مار کر رونے لگی۔ جاؤ حنیف جاؤ۔ میں اب کسی کام کی نہیں رہی۔ کل رات، کل رات باجو جی نے میرا خاتمہ کر دیا۔ میں چیخی، ادھر دوسرے کوارٹر سے جیجی چیخی اور مر گئی۔ وہ سمجھ گئی تھی۔ ہائے، کاش میں نہ چیخی ہوتی۔ وہ مجھے کیا بچا سکتی تھی۔ جاؤ، حنیف جاؤ۔ یہ کہہ کر وہ اٹھی، دیوانہ وار میرا بازو پکڑا اور گھسیٹتی باہر لے گئی۔ پھر دوڑ کر کوارٹر میں داخل ہوئی اور دروازہ بند کر دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ حرامزادہ کندن لال آیا۔ اس کے ساتھ چار پانچ آدمی تھے۔ خدا کی قسم اکیلا ہوتا تو میں پتھر مار مار کر اسے جہنم واصل کر دیتا۔ بس یہ ہے میری کہانی۔ سمتری کی کہانی جس کے یہ الفاظ ہر وقت میرے کانوں میں گونجتے رہتے ہیں۔ جاؤ، حنیف جاؤ۔ کس قدر دکھ ہے ان تین لفظوں میں۔

حنیف کے آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا، “ جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا تھا۔ تم نے سمتری کو قبول کیوں نہ کیا؟“

حنیف نے آنکھیں جھکا لیں ------ خود کو ایک موٹی گالی دے کر اس نے کہا، “ کمزوری ------ مرد عموماً ایسے معاملوں میں بڑا کمزور ہوتا ہے ------ لعنت ہے اس پر ------“

۔۔۔۔۔۔ ختم شد ۔۔۔۔۔۔
------------------------------------------------------------------------------------------
تبصرے اور تجاویز کے لیے مندرجہ ذیل ربط استعمال کیجیئے :
http://www.urduweb.org/mehfil/viewtopic.php?t=6734
 

شمشاد

لائبریرین
سعادت حسن منٹو

شادی

جمیل کو اپنا شیفر لائف ٹائم قلم مرمت کے لیے دینا تھا۔ اس نے ٹیلی فون ڈائریکٹری میں شیفر کمپنی کا نمبر تلاش کیا۔ فون کرنے سے معلوم ہوا کہ ان کے ایجنٹ میسرز ڈی جے سمتوئر ہیں۔ جن کا دفتر گرین ہوٹل کے پاس واقعہ ہے۔

جمیل نے ٹیکسی لے اور فورٹ کی طرف چل دیا۔ گرین ہوٹل پہنچ کر اسے میسرز ڈی جے سمتوئر کا دفتر تلاش کرنے میں دقت نہ ہوئی۔ بالکل پاس تھا مگر تیسری منزل پر۔

لفٹ کے ذریعے جمیل وہاں پہنچا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی چوبی دیوار کی چھوٹی سی کھڑکی کے پیچھے اسے ایک خوش شکل اینگلوانڈین لڑکی نظر آئی جس کی چھاتیاں غیر معمولی طور پر نمایاں تھیں۔ جمیل نے قلم اس کھڑکی کے اندر داخل کر دیا اور منہ سے کچھ نہ بولا۔ لڑکی نے قلم اس کے ہاتھ سے لے لیا۔کھول کر ایک نظر دیکھا اور ایک چٹ پر کچھ لکھ کر جمیل کے حوالے کر دی۔ منہ سے وہ بھی کچھ نہ بولی۔

جمیل نے چٹ دیکھی۔ قلم کی رسید تھی۔ چلنے ہی والا تھا کہ پلٹ کر اس نے لڑکی سے پوچھا۔ “ دس بارہ روز تک تیار ہو جائے گا۔ میرا خیال ہے۔“

لڑکی بڑے زور سے ہنسی۔ جمیل کچھ کھسیانا سا ہو گیا۔ “ میں آپ کی اس ہنسی کا مطلب نہیں سمجھا۔“

لڑکی نے کھڑکی کے ساتھ منہ لگا کر کہا، “ مسٹر ------ آج کل وار ہے وار ------ یہ قلم امریکہ جائے گا ------ تم نو مہینے کے بعد پتہ کرنا۔“

جمیل بوکھلا گیا، “ نو مہینے۔“

لڑکی نے اپنے بریدہ بالوں والا سر ہلایا ------ جمیل نے لفٹ کا رخ کیا۔

یہ نو مہینے کا سلسلہ خوب تھا ------ نو مہینے ------ اتنی مدت بعد تو عورت گل گوتھنا بچہ پیدا کر کے ایک طرف رکھ دیتی ہے۔ ------ نو مہینے ------ نو مہینے تک اس چھوٹی سی چٹ کو سنبھالے رکھو۔ اور یہ بھی کون وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ نو مہینے تک آدمی یاد رکھ سکتا ہے کہ اس نے ایک قلم مرمت کے لیے دیا تھا۔ ہو سکتا ہے اس دوران میں وہ کم بخت مر کھپ ہی جائے۔

جمیل نے سوچا، یہ سب ڈھکوسلا ہے۔ قلم میں معمولی سی خرابی تھی۔ اس کا فیڈر ضرورت سے زیادہ روشنائی سپلائی کرتا تھا۔ اس کے لیے اسے امریکہ کے ہسپتال میں بھیجنا صریحاً چالبازی تھی۔ مگر پھر اس نے سوچا، لعنت بھیجو جی اس قلم پر۔ امریکہ جائے یا افریقہ۔ اس میں شک نہیں کہ اس نے یہ بلیک مارکیٹ سے ایک سو پچھتر روپے میں خریدا تھا۔ مگر اس نے ایک برس اسے خوب استعمال بھی تو کیا تھا۔ ہزاروں صفحے کالے کر ڈالے تھے۔ چنانچہ وہ قنوطی سے ایک دم رجائی بن گیا۔ اور رجائی بنتے ہی اسے خیال آیا کہ وہ فورٹ میں ہے اور فورٹ میں شراب کی بے شمار دکانیں۔ وسکی تو ظاہر ہے نہیں ملے گی لیکن فرانس کی بہترین کونک برانڈی تو مل جائے گی، چنانچہ اس نے قریب والی دکان کا رخ کیا۔

برانڈی کی ایک بوتل خرید کر وہ لوٹ رہا تھا کہ گرین ہوٹل کے پاس آ کے رک گیا۔ ہوٹل کے نیچے قد آدم شیشوں کا بنا ہوا قالینوں کا شو روم تھا۔ یہ جمیل کے دوست پیر صاحب کا تھا۔

اس نے سوچا چلو اندر چلیں۔ چنانچہ چند لمحات کے بعد ہی وہ شو روم میں تھا اور اپنے دوست پیر سے، جو عمر میں اس سے کافی بڑا تھا، ہنسی مذاق کی گفتگو کر رہا تھا۔

برانڈی کی بوتل باریک کاغذ میں لپٹی دبیر ایرانی قالین پر لیٹی ہوئی تھی۔ پیر صاحب نے اس کر طرف اشارہ کرتے ہوئے جمیل سے کہا، “ یار اس دلہن کا گھونگٹ تو کھولو۔ ذرا اس سے چھیڑ خانی تو کرو۔“

جمیل مطلب سمجھ گیا، “ تو پیر صاحب، گلاس اور سوڈے منگوائیے۔ پھر دیکھئیے کیا رنگ جمتا ہے۔“

فوراً گلاس اور یخ بستہ سوڈے آ گئے۔ پہلا دور ہوا۔ دوسرا دور شروع ہونے ہی والا تھا کہ پیر صاحب کے ایک گجراتی دوست اندر چلے ائے اور بڑی بے تکلفی سے قالین پر بیٹھ گئے۔ اتفاق سے ہوٹل کا چھوکرا دو کے بجائے تین گلاس اٹھا لایا تھا۔ پیر صاحب کے گجراتی دوست نے بڑی صاف اردو میں چند ادھر ادھر کی باتیں کیں اور گلاس میں یہ بڑا پیگ ڈال کر اس کو سوڈے سے لبا لب بھر دیا۔ تین چار لمبے لمبے گھونٹ لے کر انہوں نے رومال سے اپنا منہ صاف کیا۔ “ سگریٹ نکالو یار۔“

پیر صاحب میں ساتوں عیب شرعی تھے۔ مگر وہ سگریٹ نہیں پیتے تھے۔ جمیل نے جیب سے اپنا سگریٹ کیس نکالا اور قالین پر رکھ دیا۔ ساتھ ہی لائٹر ------

اس پر پیر صاحب نے جمیل سے اس گجراتی کا تعارف کرایا۔ “ مسٹر نٹور لال ------ آپ موتیوں کی دلالی کرتے ہیں۔“

جمیل نے ایک لحظے کے لیے سوچا، کوئلوں کی دلالی میں تو انسان کا منہ کالا ہوتا ہے۔ موتیوں کی دلالی میں ------ “

پیر صاحب نے جمیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، “ مسٹر جمیل، مشہور سونگ رائٹر۔“

دونوں نے ہاتھ ملایا اور برانڈی کا نیا دور شروع ہوا۔ اور ایسا شروع ہوا کہ بوتل خالی ہو گئی۔

جمیل نے دل میں سوچا کہ کم بخت موتیوں کا دلال بلا کا پینے والا ہے۔ میری پیاس اور سرور کی ساری برانڈی چڑھا گیا۔ خدا کرے اسے موتیا بند ہو۔

مگر جونہی آخری دور کے پیگ نے جمیل کے پیٹ میں اپنے قدم جمائے، اس نے نٹور لال کو معاف کر دیا۔ اور آخر میں اس سے کہا “ مسٹر نٹور، اٹھئے ایک بوتل اور ہو جائے۔“

نٹور لال فوراً اٹھا۔ اپنے سفید دگلے کی شکنیں درست کیں۔ دھوتی کی لانگ ٹھیک کی اور کہا، چلئے۔“

جمیل پیر صاحب سے مخاطب ہوا، “ ہم ابھی حاضر ہوتے ہیں۔“

جمیل اور نٹور نے باہر نکل کر ٹیکسی لی اور شراب کی دکان پر پہنچے۔ جمیل نے ٹیکسی روکی مگر نٹور نے کہا، “ مسٹر جمیل ------ یہ دکان ٹھیک نہیں۔ ساری چیزیں مہنگی بیچتا ہے۔“ یہ کہہ کر وہ ٹیکسی ڈرائیور سے مخاطب ہوا، “ دیکھو کولابہ چلو۔“

کولابہ پہنچ کر نٹور، جمیل کو شراب کی ایک چھوٹی سی دکان میں لے گیا۔ جو برانڈ جمیل نے فورٹ سے لیا تھا، وہ تو نہ مل سکا، ایک دوسرا مل گیا جس کی نٹور نے بہت تعریف کی کہ نمبر ون ہے۔

یہ نمبر ون چیز خرید کر دونوں باہر نکلے، ساتھ ہی بار تھی۔ نٹور رک گیا، “ مسٹر جمیل، کیا خیال ہے آپ کا، ایک دو پیگ یہیں پی کر چلتے ہیں۔“

جمیل کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس کا نشہ حالتِ نزاع میں تھا۔ چنانچہ دونوں بار کے اندر داخل ہوئے۔ معاً جمیل کو خیال آیا کہ بار والے تو کبھی باہر کی شراب پینے کی اجازت نہیں دیا کرتے۔ “ مسٹر نٹور آپ یہاں کیسے پی سکتے ہیں۔ یہ لوگ اجازت نہیں دیں گے۔

نٹور نے زور سے آنکھ ماری۔ “ سب چلتا ہے۔“

اور یہ کہہ کر ایک کیبن کے اندر گھس گیا۔ جمیل بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔ نٹور نے بوتل سنگین تپائی پر رکھی اور بیرے کو آواز دی۔ جب وہ آیا تو اس کو بھی آنکھ ماری، “ دیکھو دو سوڈے روجرز ------ تھنڈے ------ اور دو گلاس، ایک دم صاف۔“

بیرا یہ حکم سن کر چلا گیا اور فوراً سوڈے اور گلاس حاضر کر دیئے۔ اس پر نٹور نے اسے دوسرا حکم دیا، “ فسٹ کلاس چپس اور ٹومیٹو سوس ------ اور فسٹ کلاس کٹلس۔“

بیرا چلا گیا۔ نٹور جمیل کی طرف دیکھ کر ایسے ہی مسکرایا۔ بوتل کا کارک نکالا اور جمیل کے گلاس میں اس سے پوچھے بغیر ایک ڈبل ڈال دیا۔ خود اس سے کچھ زیادہ۔ سوڈا حل ہو گیا تو دونوں نے اپنے گلاس ٹکرائے۔

جمیل پیاسا تھا۔ ایک ہی جرعے میں اس نے آدھا گلاس ختم کر دیا۔ سوڈا چونکہ بہت ٹھنڈا اور تیز تھا اس لیے پھوں پھوں کرنے لگا۔

دس پندرہ منٹ کے بعد چپس اور کٹلس آ گئے۔ جمیل صبح گھر سے ناشتہ کر کے نکلا تھا لیکن برانڈی نے اسے بھوک لگا دی۔ چپس گرم گرم تھے، کٹلس بھی۔ وہ پل پڑا۔ نٹور نے اس کا ساتھ دیا۔ چنانچہ دو منٹ میں دونوں پلیٹیں صاف۔

دو پلیٹیں اور منگوائی گئیں۔ جمیل نے اپنے لیے چپس بھی منگوائے۔ دو گھنٹے اسی طرح گزر گئے۔ بوتل کی تین چوتھائی غائب ہو چکی تھی۔ جمیل نے سوچا کہ اب پیر صاحب کے پاس جانا بیکار ہے۔

نشے خوب جم رہے تھے، سرور خوب گھٹ رہے تھے۔ نٹور اور جمیل دونوں ہوا کے گھوڑوں پر سوار تھے۔ ایسے سواروں کو عام طور پر ایسی وادیوں میں جانے کی بڑی خواہش ہوتی ہے جہاں انہیں عریاں بدن حسین عورتیں ملیں۔ وہ ان کی کمر میں ہاتھ ڈال کر گھوڑے پر بٹھا لیں اور یہ جا وہ جا۔

جمیل کا دل و دماغ اس وقت کسی ایسی ہی وادی کے متعلق سوچ رہا تھا جہاں اس کی کسی ایسی خوبصورت عورت سے مڈبھیڑ ہو جائے جس کو وہ اپنے تپتے ہوئے سینے کے ساتھ بھینچ لے اس زور سے کہ اس کی ہڈیاں تک چٹخ جائیں۔

جمیل کو اتنا تو معلوم تھا کہ وہ ایسی جگہ پر ہے ------ مطلب ہے ایسے علاقے میں ہے جو اپنے بروتھلز (قحبہ خانے) کی وجہ سے ساری بمبئی میں مشہور ہے۔ جنہیں عیاشی کرنا ہوتی ہے وہ ادھر کا رخ کرتے ہیں۔ شہر سے بھی جس لڑکی کو لُک چھپ کر پیشہ کرنا ہوتا ہے، یہیں آتی ہے۔ ان معلومات کی بنا پر اس نے نٹور سے کہا، “ میں نے کہا ------ وہ ------ وہ ------ میرا مطلب ہے، ادھر کوئی چھوکری وکری نہیں ملتی؟“

نٹور نے اپنے گلاس میں ایک بڑا پیگ انڈیلا اور ہنسا، “ مسٹر جمیل، ایک نہیں ہزاروں ------ ہزاروں ------ ہزاروں ------“

یہ ہزاروں کی گردان جاری رہتی اگر جمیل نے اس کی بات کاٹی نہ ہوتی، “ ان ہزاروں میں سے آج ایک ہی مل جائے تو ہم سمجھیں گے کہ نٹور بھائی نے کمال کر دیا۔“

نٹور بھائی مزے میں تھے۔ جھوم کر کہا، “ جمیل بھائی ------ ایک نہیں ہزاروں ------ چلو اس کو ختم کرو۔“

دونوں نے بوتل میں جو کچھ بچا تھا آدھ گھنٹے کے اندر اندر ختم کر دیا۔ بل ادا کرنے اور بیرے کو تکٹری ٹپ دینے کے بعد دونوں باہر نکلے۔ اندر اندھیرا تھا۔ باہر دھوپ چمک رہی تھی۔ جمیل کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ ایک لحظے کے لیے اسے کچھ نظر نہ آیا۔ آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں تیز روشنی کی عادی ہوئیں تو اس نے نٹور سے کہا، “ چلو بھئی۔“

نٹور نے تلاشی لینے والی نگاہوں سے جمیل کی طرف دیکھا، “ مال پانی ہے نا؟“

جمیل کے ہونٹوں پر نشیلی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ نٹور کی پسلیوں میں کہنی سے ٹھوکا دے کر اس نے کہا، “ بہت۔ نٹور بھائی بہت۔“ اور اس نے جیب سے پانچ نوٹ سو سو کے نکالے، “ کیا اتنے کافی نہیں؟“

نٹور کی باچھیں کھل گئیں۔ “ کافی ------؟ بہت زیادہ ہیں ------ چلو آؤ، پہلے ایک بوتل خرید لیں، وہاں ضرورت پڑے گی۔“

جمیل نے سوچا بات بالکل ٹھیک ہے، وہاں ضرورت نہیں پڑے گی تو کیا کسی مسجد میں پڑے گی۔ چنانچہ فوراً ایک بوتل خرید لی گئی۔ ٹیکسی کھڑی تھی۔ دونوں اس میں بیٹھ گئے اور اس وادی کی سیاحی کرنے لگے۔

سینکڑوں بروتھلز تھے۔ ان میں سے بیش پچیس کا جائزہ لیا گیا، مگر جمیل کو کوئی عورت پسند نہ آئی۔ سب میک اپ کی موٹی اور شوخ تہوں کے اندر چھپی ہوئی تھیں۔ جمیل چاہتا تھا کہ ایسی لڑکی ملے جو مرمت شدہ مکان معلوم نہ ہو۔ جس کو دیکھ کر یہ احساس نہ ہو کہ جگہ جگہ اکھڑے پلستر کے ٹکڑوں پر بڑے اناڑی پن سے سرخی اور چونا لگایا گیا ہے۔

نٹور تنگ آ گیا۔ اس کے سامنے جو بھی عورت آتی تھی، وہ جمیل کا کندھا پکڑ کر کہتا، “ جمیل بھائی یہ چلے گی۔“

مگر جمیل اٹھ کھڑا ہوتا، “ ہاں چلے گی ------ اور ہم بھی چلیں گے۔“

دو جگہیں اور دیکھی گئیں مگر جمیل کو مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا۔ وہ سوچتا تھا کہ ان عورتوں کے پاس کون آتا ہے جو سؤر کے سوکھے گوشت کے ٹکڑوں کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔ ان کی ادائیں کتنی مکروہ ہیں۔ اٹھنے بیٹھنے کا انداز کتنا فحش ہے، اور کہنے کو یہ پرائیویٹ ہیں، یعنی ایسی عورتیں جو درپردہ پیشہ کراتی ہیں۔ جمیل کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ پردہ ہے کہاں جس کے پیچھے یہ دھندا کرتی ہیں۔

جمیل سوچ ہی رہا تھا کہ اب پروگرام کیا ہونا چاہیے، کہ نٹور نے ٹیکسی رکوائی اور اتر کر چلا گیا کہ ایک دم اسے ایک ضروری کام یاد آ گیا تھا۔

اب جمیل اکیلا تھا۔ ٹیکسی تیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی تھی۔ اس وقت ساڑھے چار بج چکے تھے۔ اس نے ڈرائیور سے پوچھا، “ یہاں کوئی بھڑوا ملے گا؟“

ڈرائیور نے جواب دیا، “ ملے گا جناب۔“

“ تو چلو اس کے پاس۔“

ڈرائیور نے دو تین موڑ گھومے اور ایک پہاڑی نما بلڈنگ کے پاس گاڑی کھڑی کر دی۔ دو تین مرتبہ ہارن بجایا۔

جمیل کا سر نشے کے باعث سخت بوجھل ہو رہا تھا۔ آنکھوں کے سامنے دھند سی چھائی ہوئی تھی۔ اسے معلوم نہیں کیسے اور کس طرح، مگر جب اس نے ذرا دماغ کو جھٹکا تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک پلنگ پر بیٹھا ہے اور اس کے پاس ہی ایک جوان لڑکی، جس کی ناک پر پھننگ چھوٹی سی پھنسی تھی، اپنے بریدہ بالوں میں کنگھی کر رہی ہے۔

جمیل نے غور سے دیکھا۔ سوچنے ہی والا تھا کہ وہ یہاں کیسے پہنچا مگر اس کے شعور نے اس کو مشورہ دیا کہ دیکھو یہ سب عبث ہے۔ جمیل نے سوچا یہ ٹھیک ہے لیکن پھر بھی اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر اندر ہی اندر نوٹ گن کر اور پاس پڑی ہوئی تپائی پر برانڈی کی سالم بوتل دیکھ کر اپنی تشفی کر لی کہ سب خیریت ہے۔ اس کا نشہ کسی قدر نیچے اتر گیا۔

اٹھ کر وہ اس گیسو بریدہ لڑکی کے پاس گیا اور، اور کچھ سمجھ میں نہ آیا، مسکرا کر اس سے کہا، “ کہیے مزاج کیسا ہے؟‘

اس لڑکی نے کنگھی میز پر رکھی اور کہا، کہیے آپ کا کیسا ہے؟“

“ ٹھیک ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے لڑکی کی کمر میں ہاتھ ڈالا ------ “ آپ کا نام؟“

“ بتا تو چکی ہوں ایک دفعہ ------ آپ کو میرا خیال ہے یہ بھی یاد نہ ہو گا کہ آپ ٹیکسی میں یہاں آئے ------ جانے کہاں کہاں گھومتے رہے ہوں گے کہ بل اڑتیس روپے بنا جو آپ نے ادا کیا اور ایک شخص جس کا نام شاید نٹور تھا، آپ نے اس کو بےشمار گالیاں دیں۔“

جمیل اپنے اندر ڈوب کر سارے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرنے ہی والا تھا کہ اس نے سوچا کہ فی الحال اس کی ضرورت نہیں۔ میں بھول جایا کرتا ہوں ------ یا یوں سمجھئے کہ مجھے بار بار پوچھنے میں‌ مزہ آتا ہے۔ وہ صرف اتنا یاد کر سکا کہ اس نے ٹیکسی والے کا بل جو کہ اڑتیس روپے بنتا تھا ادا کیا تھا۔

لڑکی پلنگ پر بیٹھی گئی۔ “ میرا نام تارا ہے۔“

جمیل نے اس کو لٹا دیا اور اس سے مصنوعی قسم کا پیار کرنے لگا۔

تھوڑی دیر کے بعد اس کو پیاس محسوس ہوئی تو اس نے تارہ سے کہا، “ دو یخ بستہ سوڈے اور گلاس۔

تارہ نے یہ دونوں چیزیں فوراً حاضر کر دیں۔ جمیل نے بوتل کھولی۔ اپنے لیے ایک پیگ ڈال کر اس نے دوسرا تارہ کے لیے ڈالا ------ پھر دونوں پینے لگے۔

تین پیگ پینے کے بعد جمیل نے محسوس کیا کہ اس کی حالت بہتر ہو گئی ہے۔ تارہ کو چومنے چاٹنے کے بعد اس نے سوچا کہ اب قصہ مختصر ہو جانا چاہیے۔ “ کپڑے اتار دو۔“

“ سارے “

“ ہاں سارے۔“

تارہ نے کپڑے اتار دیئے اور لیٹ گئی۔ جمیل نے اس کے ننگے جسم کو ایک نظر دیکھا اور یہ رائے قائم کی کہ اچھا ہے۔ اس کے ساتھ ہی خیالات کا ایک تانتا بندھ گیا۔ جمیل کا نکاح ہو چکا تھا۔ اس نے اپنی بیوی کو دو تین مرتبہ دیکھا تھا۔

اس کا بدن کیسا ہو گا ------ کیا وہ تارہ کی طرح اس کے ایک مرتبہ کہنے پر اپنے سارے کپڑے اتار کر اس کے ساتھ لیٹ جائے گی؟

کیا وہ اس کے ساتھ برانڈی پیئے گی؟“

کیا اس کے بال کٹے ہوئے ہیں؟“

پھر فوراً اس کا ضمیر جاگا جس نے اس کو لعنت ملامت شروع کر دی۔ نکاح کا یہ مطلب تھا کہ اس کی شادی ہو چکی تھی۔ صرف ایک مرحلہ باقی تھا کہ وہ اپنی سسرال جائے اور لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر لے ائے۔ کیا اسکے لیے یہ واجب تھا کہ ایک بازاری عورت کو اپنی آغوش کی زینت بنائے۔ خم کے خم لنڈھاتا پھرے۔

جمیل بہت خفیف ہوا اور اسی خفت میں اس کی آنکھیں مندنا شروع ہو گئیں اور وہ سو گیا۔ تارہ بھی تھوڑی دیر کے بعد خوابِ غفلت کے مزے لینے لگی۔

جمیل نے کئی بے ربط، اوٹ پٹانگ خواب دیکھے۔ کوئی دو گھنٹے کے بعد جب کہ ایک بہت ہی ڈراؤنا خواب دیکھ رہا تھا، وہ ہڑبڑا کے اٹھا۔ جب اچھی طرح آنکھیں کھلیں تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک اجنبی کمرے میں ہے اور اس کے ساتھ الف ننگی لڑکی لیٹی ہوئی ہے۔ لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد واقعات آہستہ آہستہ اس کے دماغ کی دھند چیر کر نمودار ہونے لگے۔

وہ خود بھی الف ننگا تھا۔ بوکھلاہٹ میں اس نے الٹا پاجامہ پہن لیا، مگر اس کو احساس نہ ہوا۔ کُرتا پہن کر اس نے اپنی جیبیں ٹٹولیں۔ نوٹ سب کے سب موجود تھے۔ اس نے سوڈا کھولا اور ایک پیگ بنا کر پیا۔ پھر اس نے تارہ کو ہولے سے جھنجوڑا۔ “ اٹھو۔“

تارہ آنکھیں ملتی اٹھی۔ جمیل نے اس سے کہا “ کپڑے پہن لو۔“

تارہ نے کپڑے پہن لیے۔ باہر گہری شام رات بننے کی تیاریاں کر رہی تھی۔ جمیل نے سوچا، اب کوچ کرنا چاہیے۔ لیکن وہ تارہ سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا، کیونکہ بہت سی باتیں اس کے ذہن سے نکل گئی تھیں، “ کیوں تارہ جب ہم لیٹے، میرا مطلب ہے جب میں نے تم سے کپڑے اتارنے کو کہا تو اس کے بعد کیا ہوا؟“

تارہ نے جواب دیا، “ کچھ نہیں ------ آپ نے اپنے کپڑے اتارے اور میرے بازو پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے سو گئے۔“

“ بس؟“

“ ہاں ------ لیکن سونے سے پہلے آپ دو تین مرتبہ بڑبڑائے اور کہا ‘ میں گنہگار ہوں ------ میں گنہگار ہوں۔“ یہ کہہ کر تارہ اٹھی اور اپنے بال سنوارنے لگی۔

جمیل بھی اٹھا۔ گناہ کا احساس دبانے کے لیے اس نے ڈبل پیگ اپنے حلق میں جلدی جلدی انڈیلا۔ بوتل کو کاغذ میں لپیٹا اور دروازے کی طرف بڑھا۔

تارہ نے پوچھا، “ چلے۔“

“ ہاں، پھر کبھی آؤں گا۔“ یہ کہہ کر وہ لوہے کی پیچ دار سیڑھیوں سے نیچے اتر گیا۔ بڑے بازار کی طرف اس کے قدم اٹھنے ہی والے تھے کہ ہارن بجا، اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک ٹیکسی کھڑی تھی۔ اس نے کہا چلو اچھا ہوا، یہیں مل گئی۔ پیدل چلنے کی زحمت سے بچ گئے۔

اس نے ڈرئیور سے پوچھا، “ کیوں بھائی خالی ہے؟“

ڈرائیور نے جواب دیا، “ خالی ہے کا کیا مطلب ------ لگی ہوئی ہے۔“

“ تو پھر۔۔۔۔۔۔“ یہ کہہ کر جمیل مڑا، لیکن ڈرائیور نے اس کو پکارا، “ کدھر جاتا ہے سیٹھ؟“

جمیل نے جواب دیا، “ کوئی اور ٹیکسی دیکھتا ہوں۔“

ڈرائیور باہر نکل آیا، “ مستک تو نہیں پھرے لا ------ یہ ٹیکسی تمہیں نے تو لے رکھی ہے۔“

جمیل بوکھلا گیا، “ میں نے؟“

ڈرائیور نے بڑے گنوار لہجے میں اس سے کہا، “ ہاں تو نے ------ سالا دارو پی کر سب کچھ بھول گیا۔“

اس پر تُوتُو میں میں شروع ہو گئی۔ ادھر ادھر سے لوگ اکٹھے ہو گئے۔ جمیل نے ٹیکسی کا دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ گیا، “ چلو “

ڈرائیور نے ٹیکسی چلائی، “ کدھر؟“

جمیل نے کہا، “ پولیس سٹیشن۔“

ڈرائیور نے اس پر جانے کیا واہی تباہی بکی ------ جمیل سوچ میں پڑ گیا۔ جو ٹیکسی اس نے لی تھی، اس کا بل جو اڑتیس روپے کا تھا، اس نے ادا کر دیا تھا۔ اب یہ نئی ٹیکسی کہاں سے آن ٹپکی۔ گو وہ نشے کی حالت میں تھا مگر وہ یقینی طور پر کہہ سکتا تھا کہ یہ وہ ٹیکسی نہیں تھی اور نہ وہ ڈرائیور جو اسے یہاں لایا تھا۔

پولیس سٹیشن پہنچے۔ جمیل کے قدم بری طرح لڑکڑا رہے تھے۔ سب انسپکٹر جو اس وقت ڈیوٹی پر تھا، فوراً بھانپ گیا کہ معاملہ کیا ہے۔ اس نے جمیل کو کرسی پر بیٹھنے کے لیے کہا۔

ڈرائیور نے اپنی داستان شروع کر دی جو سرتاپا غلط تھی۔ جمیل یقیناً اس کی تردید کرتا مگر اس میں زیادہ بولنے کی ہمت نہیں تھی۔ سب انسپکٹر سے مخاطب ہو کر اس نے کہا، “ جناب میرے سمجھ میں نہیں آتا یہ کیا قصہ ہے جو ٹیکسی میں نے لی تھی، اس کا کرایہ میں نے اڑتیس روپے ادا کر دیا تھا۔ اب معلوم نہیں یہ کون ہے اور مجھ سے کیسا کرایہ مانگتا ہے۔“

ڈرائیور نے کہا، “ حضور انسپکٹر بہادر، یہ دارو پئے ہے۔“ اور ثبوت کے طور پر اس نے جمیل کی برانڈی کی بوتل میز پر رکھ دی۔

جمیل جھنجھلا گیا، “ ارے بھئی کون سؤر کہتا ہے کہ اس نے نہیں پی ------ سوال تو یہ ہے کہ آپ کہاں سے تشریف لے آئے۔“

سب انسپکٹر شریف آدمی تھا۔ کرایہ ڈرائیور کے حساب سے بیالیس روپے بنتا تھا۔ اس نے بارہ روپے میں فیصلہ کر دیا۔ ڈرائیور بہت چیخا چلایا مگر سب انسپکٹر نے اس کو ڈانٹ ڈپٹ کر تھانے سے نکلوا دیا۔ پھر اس نے ایک سپاہی سے کہا کہ وہ دوسری ٹیکسی لائے۔ ٹیکسی آئی تو اس نے ایک سپاہی جمیل کے ساتھ کر دیا کہ وہ اسے گھر چھوڑ آئے۔ جمیل نے لکنت بھرے لہجے میں اس کا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور پوچھا، “ جناب کیا یہ گرانٹ روڈ پولیس سٹیشن ہے؟“

سب انسپکٹر نے زور سے قہقہہ لگایا اور پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، “ مسٹر اب ثابت ہو گیا کہ تم نے خوب پی رکھی ہے ------ یہ کولابہ پولیس سٹیشن ہے۔ جاؤ اب گھر جا کر سو جاؤ۔“

جمیل گھر جا کے کھانا کھائے اور کپڑے اتارے بغیر سو گیا ------ برانڈی کی بوتل بھی اس کے ساتھ سوتی رہی۔

دوسرے روز وہ دس بجے کے قریب اٹھا۔ جوڑ جوڑ میں درد تھا۔سر میں جیسے بڑے بڑے وزنی پتھر تھے۔ منہ کا ذائقہ خراب۔ اس نے اٹھ کر دو تین گلاس فروٹ سالٹ کے پیئے۔ چار پانچ پیالے چائے کے، کہیں شام کو جا کر طبیعت کسی قدر بحال ہوئی اور اس نے خود کو گزشتہ واقعات کے متعلق سوچنے کے قابل محسوس کیا۔

بہت لمبی زنجیر تھی۔ ان میں سے بعض کڑیاں تو سلامت تھیں، مگر بعض غائب۔ واقعات کا تسلسل شروع سے لیکر گرین ہوٹل اور وہاں سے لے کر کولابہ تک بالکل صاف تھا۔ اس کے بعد جب نٹور کے ساتھ خاص وادی کی سیاحی شروع ہوتی تھی، معاملہ گڈمڈ ہو جاتا تھا۔ چند جھلکیاں دکھائی دیتی تھیں۔ بڑی واضح، مگر فوراً مبہم پرچھائیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔

وہ کیسے اس لڑکی کے گھر پہنچا ------ اس کا نام جمیل کے حافظے سے پھسل کر جانے کس کھڈ میں جا گرا تھا۔ اس کی شکل و صورت اسے البتہ بڑی اچھی طرح یاد تھی۔ وہ اس کے گھر کیسے پہنچا تھا۔ یہ جاننا بہت اہم تھا۔ اگر جمیل کا حافظہ اس کی مدد کرتا تو بہت سی چیزیں صاف ہو جاتیں۔ مگر بصد کوشش وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔

اور یہ ٹیکسیوں کا کیا سلسلہ تھا۔ اس نے پہلی کو تو چھوڑ دیا تھا، مگر دوسری کہاں سے ٹپک پڑی تھی؟

سوچ سوچ کے جمیل کا دماغ پاش پاش ہو گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ جتنے وزنی پتھر تھے سب آپس میں ٹکرا ٹکرا کر چُور چُور ہو گئے ہیں۔

رات کو اس نے برانڈی کے تین پیگ پئے، تھوڑا سا ہلکا کھانا کھایا اور گزشتہ واقعات کے متعلق سوچتا شوچتا سو گیا۔

وہ ٹکڑے جو گم ہو گئے تھے، ان کو تلاش کرنا اب جمیل کا شغل ہو گیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ جو کچھ اس روز ہوا، من و عن اس کی آنکھوں کے سامنے آ جائے اور یہ روز روز کی مغز پاشی دور ہو۔ اس کے علاوہ اس بات کا بھی بڑا قلق تھا کہ اس کا گناہ نامکمل رہ گیا۔ وہ سوچتا تھا کہ یہ ادھورا گناہ جائے گا کس کھاتے میں۔ وہ چاہتا تھا کہ بس ایک دفعہ اس کی بھی تکمیل ہو جائے۔ مگر تلاشِ بسیار کے باوجود وہ پہاڑی بنگلوں جیسا مکان جمیل کی آنکھوں سے اوجھل رہا۔ جب تھک ہار گیا تو اس نے ایک دن سوچا کیا یہ سب خواب ہی تو نہیں تھا۔

مگر خواب کیسے ہو سکتا تھا۔ خواب میں آدمی اتنے روپے تو خرچ نہیں کرتا۔ اس دن اس کے کم از کم ڈھائی سو روپے خرچ ہوئے تھے۔

پیر صاحب سے اس نے نٹور کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ اس روز کے دوسرے دن ہی سمندر پار کہیں چلا گیا ہے۔ غالباً موتیوں کے سلسلے میں۔ جمیل نے اس پر ہزار لعنتیں بھیجیں اور اپنی تلاش شروع کر دی۔

اس نے جب اپنے حافظے پر بہت زور دیا تو اسے بنگلے کی دیوار کے ساتھ پیتل کی ایک پلیٹ نظر آئی۔ اس پر کچھ لکھا تھا۔ غالباً ------ ڈاکٹر ------ ڈاکٹر بیرام جی ------ آگے جانے کیا۔

ایک دن کولابہ کی گلیوں میں چلتے چلتے آخر وہ ایک ایسی گلی میں پہنچا جو اس کو جانی پہچانی محسوس ہوئی۔ دو رویہ اسی قسم کی بنگلہ نما عمارتیں تھیں۔ ہر عمارت کے باہر چھوٹے چھوٹے پیتل کے بورڈ لگے ہوئے تھے۔ کسی پر چار کسی پر پانچ ------ کسی پر تین۔

وہ ادھر ادھر غور سے دیکھتا چلا جا رہا تھا، مگر اس کے دماغ میں وہ خط گھوم رہا تھا جو صبح اس کی ساس کی طرف سے موصول ہوا تھا کہ اب انتظار کی حد ہو گئی ہے۔ میں نے تاریخ مقرر کر دی ہے۔ آؤ اور اپنی دلہن کو لے جاؤ۔

اور وہ ادھر ایک نامکمل گناہ کو مکمل بنانے کی کوشش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ جمیل نے کہا، ہٹاؤ اس وقت ------ پھرنے دو مارا مارا ------ ایک دم اس نے اپنے داہنے ہاتھ پیتل کا ایک چھوٹا سے بورڈ دیکھا۔ اس پر لکھا تھا ------ ڈاکٹر ایم بیرام جی - ایم ڈی۔

جمیل کانپنے لگا۔ یہ وہی بلڈنگ، بلکل وہی، وہی رنگ، وہی بل کھاتی ہوئی سیڑھیاں، جمیل بےدھڑک اوپر چلا گیا۔ اس کے لیے اب ہر چیز جانی پہچانی تھی۔

کوریڈور سے نکل کر اس نے سامنے والے دروازے پر دستک دی۔

ایک لڑکے نے دروازہ کھولا۔ اسی لڑکے نے جو اس روز سوڈا اور برف لایا تھا۔ جمیل نے ہونٹوں پر مصنوعی مسکراہٹ پیدا کرتے ہوئے اس سے پوچھا، “ بیٹا، بائی جی ہیں؟“

لڑکے نے اثبات میں سر ہلایا، “ جی ہاں“

“ جاؤ، ان سے کہو، صاحب ملنے آئے ہیں۔“ جمیل کے لہجے میں بے تکلفی تھی۔

لڑکا دروازہ بھیڑ کر اندر چلا گیا۔

تھوڑی دیر کے بعد دروازہ کھلا اور تارہ نمودار ہوئی۔ اس کو دیکھتے ہی جمیل نے پہچان لیا کہ وہی لڑکی ہے مگر اب اس کے ناک پر پھنسی نہیں تھی۔ “ نمستے۔“

“ نمستے، کہیے مزاج کیسے ہیں؟“ یہ کہہ کر اس نے اپنے کٹے ہوئے بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دیا۔

جمیل نے جواب دیا۔ “ اچھے ہیں۔ میں پچھلے دنوں بہت مصروف رہا۔ اس لیے آ نہ سکا۔کہو پھر کیا ارادہ ہے؟“

تارہ نے بڑی سنجیدگی سے کہا، “ معاف کیجیئے، میری شادی ہو چکی ہے۔“

جمیل بوکھلا گیا۔ “ شادی ------ کب؟“

تارہ نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا۔ “ جی، آج صبح ------ آئیے، میں آپ کو اپنے پتی سے ملاؤں۔“

جمیل چکرا گیا اور کچھ کہے سنے بغیر کھٹا کھٹ نیچے اتر گیا۔ سامنے ٹیکسی کھڑی تھی۔ جمیل کا دل ایک لحظہ کے لیے ساکت سا ہو گیا۔ تیز قدم اٹھاتا وہ بڑے بازار کی طرف نکل گیا۔

معاً جمیل کو جاتے دیکھ کر ڈرائیور نے زور سے کہا، “ سیٹھ صاحب ٹیکسی۔“

جمیل نے جھنجھلا کر کہا ------ “ نہیں کم بخت شادی۔“

۔۔۔۔۔۔ ختم شد ۔۔۔۔۔۔
------------------------------------------------------------------------------------------
تبصرے اور تجاویز کے لیے مندرجہ ذیل ربط استعمال کیجیئے :
http://www.urduweb.org/mehfil/viewtopic.php?t=6734
 

شمشاد

لائبریرین
سعادت حسن منٹو

ٹھنڈا گوشت

ایشر سنگھ جونہی ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوا، کلونت کور پلنگ سے اٹھی۔ اپنی تیز تیز آنکھوں سے اس کر طرف گھور کے دیکھا اور دروازے کی چٹخنی بند کر دی۔ رات کے بارہ بج چکے تھے، شہر کا مضافات ایک عجیب پراسرار خاموشی میں غرق تھا۔

کلونت کور پلنگ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔ ایشر سنگھ جو غالباّ اپنے پراگندہ خیالات کے الجھے ہوئے دھاگے کھول رہا تھا، ہاتھ میں‌ کرپان لیے ایک کونے میں کھڑا تھا۔ چند لمحات اسی طرح خاموشی میں گزر گئے۔ کلونت کور کو تھوڑی دیر کے بعد اپنا آسن پسند نہ آیا اور دونوں ٹانگیں پلنگ سے نیچے لٹکا کر ہلانے لگی۔ ایشر سنگھ پھر بھی کچھ نہ بولا۔

کلونت کور بھرے بھرے ہاتھ پیروں والی عورت تھی۔ چوڑے چکلے کولہے، تھل تھل کرنے والے گوشت سے بھرپور کچھ زیادہ ہی اوپر کو اٹھا ہوا سینہ، تیز آنکھیں، بالائی ہونٹ پر بالوں کا سرمئی غبار، ٹھوڑی کی ساخت سے پتہ چلتا تھا کہ بڑے دھڑلے کی عورت ہے۔

ایشر سنگھ سر نیوڑھائے ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا تھا، سر پر اس کی کس کر باندھی ہوئی پگڑی ڈھیلی ہو رہی تھی، اس کے ہاتھ جو کرپان کو تھامے ہوئے تھے، تھوڑے تھوڑے لرزاں تھے، مگر اس کے قد و قامت اور خد و خال سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کلونت کور جیسی عورت کے لیے موزوں ترین مرد ہے۔

چند اور لمحات جب اسی طرح خاموشی میں گزر گئے تو کلونت کور چھلک پڑی۔ لیکن تیز تیز آنکھوں کو نچا کر وہ صرف اس قدر کہہ سکی “ ایشر سیاں“

ایشر سنگھ نے گردن اٹھا کر کلونت کور کی طرف دیکھا، مگر اس کی نگاہوں کی تاب نہ لا کر منہ دوسری طرف موڑ لیا۔

کلونت کور چلائی “ ایشر سیاں “ لیکن فوراّ ہی آواز بھینچ لی اور پلنگ سے اٹھ کر اس کی جانب جاتے ہوئے بولی “ کہاں رہے تم اتنے دن؟“

ایشر سنگھ نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری “ مجھے معلوم نہیں۔“

کلونت کور بھنا گئی “ یہ بھی کوئی ماں یا جواب ہے۔“

ایشر سنگھ نے کرپان ایک طرف پھینک دی اور پلنگ پر لیٹ گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا یہ وہ کئی دنوں کا بیمار ہے۔ کلونت کور نے پلنگ کی طرف دیکھا جو اب ایشر سنگھ سے لبالب بھرا تھا۔ اس کے دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ چنانچہ اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اس نے بڑے پیار سے پوچھا “ جانی، کیا ہوا ہے تمہیں؟“

ایشر سنگھ چھت کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس سے نگاہیں ہٹا کر اس نے کلونت کور کے مانوس چہرے کو ٹٹولنا شروع کیا۔ “ کلونت “

آواز میں درد تھا، کلونت ساری کی ساری سمٹ کر اپنے بالائی ہونٹ میں آ گئی۔ “ ہاں جانی۔“ کہہ کر وہ اس کو دانتوں سے کاٹنے لگی۔

ایشر سنگھ نے پگڑی اتار دی۔ کلونت کور کو سہارا لینے والے نگاہوں سے دیکھا۔ اس کے گوشت بھرے کولہے پر زور سے دھپا مارا اور سر کو جھٹکا دے کر اپنے آپ سے کہا “ یہ کڑی یا دماغ خراب ہے۔“

جھٹکا دینے سے اس کے کیس کھل گئے۔ کلونت کور انگلیوں سے ان میں کنگھی کرنے لگی۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے بڑے پیار سے پوچھا “ ایشر سیاں کہاں رہے تم اتنے دن؟“

“ بُرے کی ماں کے گھر۔“ ایشر سنگھ نے کلونت کور کو گھور کے دیکھا اور دفعتہّ دونوں ہاتھوں سے اس کے ابھرے ہوئے سینے کو مسلنے لگا۔ “ قسم واہگورو کی، بڑی جاندار عورت ہو۔“

کلونت کور نے ایک ادا کے ساتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ ایک طرف جھٹک دیئے اور پوچھا “ تمہیں میری قسم، بتاؤ کہاں رہے ------ شہر گئے تھے؟“

ایشر سنگھ نے ایک ہی لپیٹ میں اپنے بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے جواب دیا۔ “ نہیں “

کلونت کور چڑ گئی، “ نہیں تم ضرور شہر گئے تھے ------ اور تم نے بہت سا روپیہ لوٹا ہے جو مجھ سے چھپا رہے ہو۔“

“ وہ اپنے باپ کا تخم نہ ہو جو تم سے جھوٹ بولے۔“

کلونت کور تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئی، لیکن فوراّ ہی بھڑک اٹھی۔

“ لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا، اس رات تمہیں ہوا کیا ------ اچھے بھلے میرے ساتھ لیٹے تھے، مجھے تم نے وہ سارے گہنے پہنا رکھے تھے جو تم شہر سے لوٹ کر لائے تھے۔ میری بھپیاں لے رہے تھے، پر جانے ایک دم تمہیں کیا ہوا، اٹھے کپڑے پہن کر باہر نکل گئے۔“

ایشر سنگھ کا رنگ زرد ہو گیا۔ کلونت کور نے یہ تبدیلی دیکھتے ہی کہا، “ دیکھا کیسے رنگ نیلا پڑ گیا ------ ایشر سیاں، قسم واہگورو کی، ضرور کچھ دال میں کالا ہے۔“

“ تیری جان کی قسم، کچھ بھی نہیں۔“

ایشر سنگھ کی آواز بے جان تھی۔ کلونت کور کا شبہ اور زیادہ مضبوط ہو گیا۔ بالائی ہونٹ بھینچ کر اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا، “ ایشر سیاں، کیا بات ہے، تم وہ نہیں ہو جو آج سے آٹھ روز پہلے تھے؟“

ایشر سنگھ ایک دم اٹھ بیٹھا جیسے کسی نے اس پر حملہ کیو تھا۔ کلونت کور کو اپنے تنومند بازوؤں میں سمیٹ کر اس نے پوری قوت کے تھا بھنبھوڑنا شروع کر دیا۔ “ جانی میں وہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ گُھٹ گُھٹ پا جپھیاں، تیری نکلے ہڈاں دی گرمی۔۔۔۔۔۔۔۔“

کلونت کور نے کوئی مزاحمت نہ کی، لیکن وہ شکایت کرتی رہی، “ تمہیں اس رات ہو کیا گیا تھا؟“

“ بُرے کی ماں کا وہ ہو گیا تھا۔“

“ بتاؤ گے نہیں؟“

“کوئی بات ہو تو بتاؤں۔“

“ مجھے اپنے ہاتھوں سے جلاؤ اگر جھوٹ بولو۔“

ایشر سنگھ نے اپنے بازو اس کی گردن میں ڈال دیئے اور ہونٹ اس کے ہونٹوں میں گاڑ دیئے۔ مونچھوں کے بال کلونت کور کے نتھنوں میں گھسے تو اسے چھینک آ گئی۔ دونوں ہنسنے لگے۔

ایشر سنگھ نے اپنی صدری اتار دی اور کلونت کور کو شہوانی نظروں سے دیکھ کر کہا، “ آ جاؤ ایک بازی تاش کی ہو جائے۔“

کلونت کور کے بالائی ہونٹ پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں پھوٹ آئیں۔ ایک ادا کے ساتھ اس نے اپنی آنکھوں کی پتلیاں گھمائیں اور کہا، “ چل دفعان ہو۔“

ایشر سنگھنے اس کے بھرے ہوئے کولہے پر زور سے چٹکی بھری۔ کلونت کور تڑپ کر ایک طرف ہٹ گئی۔ “ نہ کر ایشر سیاں، میرے درد ہوتا ہے۔“

ایشر سنگھ نے آگے بڑھ کر کلونت کور کا بالائی ہونٹ اپنے دانتوں تلے دبا لیا اور کچکچانے لگا۔ کلونت کور بالکل پگھل گئی۔ ایشر سنگھ نے اپنا کرتہ اتار کے پھینک دیا اور کہا “ لو پھر ہو جائے ترپ کی چال۔۔۔۔۔۔۔۔“

کلونت کور کا بالائی ہونٹ کپکپانے لگا۔ ایشر سنگھ نے دونوں ہاتھوں سے کلونت کور کی قمیص کا گھیرا پکڑا اور جس طرح بکرے کی کھال اتارتے ہیں، اسی طرح اس کو اتار کر ایک طرف رکھ دیا۔ پھر اس نے گھور کے اس کے ننگے بدن کو دیکھا اور زور سے بازو پر چٹکی لیتے ہوئے کہا۔ “ کلونت، قسم واہگورو کی بڑی کراری عورت ہے تو۔“

کلونت کور اپنے بازو پر اُبھرتے ہوئے لال دھبے کو دیکھنے لگی، “ بڑا ظالم ہے تو ایشر سیاں۔“

ایشر سنگھ اپنی گھنی مونچھوں میں مسکرایا، “ ہونے دے آج ظلم۔“ اور یہ کہہ کر اس نے مزید ظلم ڈھانے شروع کر کئے۔ کلونت کور کا بالائی ہونٹ دانتوں تلے کچکچایا۔ کان کی لوؤں کو کاٹا۔ اُبھرے ہوئے سینے کو بھنبھوڑا۔ بھرے ہوئے کولہوں پر آواز پیدا کرنے والے چانٹے مارے۔ گالوں کے منہ بھر بھر کے بوسے لیے۔ چوس چوس کر اس کا سارا سینہ تھوکوں سے لتیھڑ دیا۔ کلونت کور تیز آنچ پر چڑھی ہوئی ہانڈی کے طرح اُبلنے لگی۔ لیکن ایشر سنگھ ان تمام حیلوں کے باوجود خود میں حرارت پیدا نہ کر سکا۔ جتنے گُر اور جتنے داؤ اسے یاد تھے سب کے سب اس نے پٹ جانے والے پہلوان کی طرح استعمال کر دیئے پر کوئی کارگر نہ ہوا۔ کلونت کور نے جس کے بدن کے سارے تار تن کر خودبخود بج رہے تھے غیر ضروری چھیڑ چھاڑ سے تنگ آ کر کہا، “ ایشر سیاں، کافی پھینٹ چکا، اب پتا پھینک۔“

یہ سنتے ہی ایشر سنگھ کے ہاتھ سے جیسے تاش کی ساری گڈی نیچے پھسل گئی۔ ہانپتا ہوا وہ کلونت کور کے پہلو میں لیٹ گیا اور اس کے ماتھے پر سرد پسینے کے لیپ ہونے لگے۔ کلونت کور نے اسے گرمانے کی بہت کوشش کی، مگر ناکام رہی۔ اب تک سب کچھ منہ سے کہے بغیر ہی ہوتا رہا تھا، لیکن جب کلونت کور کے منتظر بہ عمل اعضا کو سخت ناامیدی ہوئی تو وہ جھلا کر پلنگ سے نیچے اتر گئی۔ سامنے کھونٹی پر چادر پڑی تھی۔ اس کو اتار کر اس نے جلدی جلدی اوڑھ کر اور نتھنے پھلا کر بپھرے ہوئے لہجے میں کہا، “ ایشر سیاں، وہ کون حرامزادی ہے جس کے پاس تو اتنے دن رہ کر آیا ہے اور جس نے تجھ کو نچوڑ ڈالا ہے؟“

ایشر سنگھ پلنگ پر لیٹا ہانپتا رہا اور اس نے کوئی جواب نہ دیا۔

کلونت کور غصے سے اُبلنے لگی، “ میں پوچھتی ہوں، کون ہے وہ چڈو ------ کون ہے وہ الفتی ------ کون ہے وہ چور پتہ ؟“

ایشر سنگھ نے تھکے ہوئے لہجے میں جواب دیا “ کوئی بھی نہیں کلونت، کوئی بھی نہیں۔“

کلونت کور نے اپنے بھرے ہئے کولہوں پر ہاتھ رکھ کر ایک عزم کے ساتھ کہا “ ایشر سیاں، میں آج جھوٹ سچ جان کے رہوں گی ------ واہگور جی کی قسم ------ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں؟“

ایشر سنگھ نے کچھ کہنا چاہا، مگر کلونت کور نے اس کی اجازت نہ دی، “ قسم کھانے سے پہلے سوچ لے کہ میں بھی سردار نہال سنگھ کی بیٹی ہوں ------ تکا بوٹی کر دوں گی اگر تو نے جھوٹ بولا ------ لے اب کھا واہگورو کی قسم ------ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں ؟“

ایشر سنگھ نے بڑے دکھ کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا۔ کلونت کور بالکل دیوانی ہو گئی۔ لپک کر کونے میں سے کرپان اٹھائی، میان کو کیلے کے چھلکے کی طرح اتار کر ایک طرف پھینکا اور ایشر سنگھ پر وار کر دیا۔

آن کی آن میں لہو کے فوارے چھوٹ پڑے۔ کلونت کور کی اس سے بھی تسلی نہ ہوئی تو اس نے وحشی بلیوں کی طرح ایشر سنگھ کے کیس نوچنے شروع کر دیئے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی نامعلوم سوت کو موٹی موٹی گالیاں دیتی رہی۔ ایشر سنگھ نے تھوڑی دیر کے بعد نقاہت بھری التجا کی “ جانے دے اب کلونت، جانے دے۔“

آواز میں بلا کا درد تھا، کلونت کور پیچھے ہٹ گئی۔

خون ایشر سنگھ کے گلے سے اڑ اڑ کر اس کی مونچھوں پر گر رہا تھا۔ اس نے اپنے لرزاں ہونٹ کھولے اور کلونت کور کی طرف شکریے اور گِلے کی ملی جلی نگاہوں سے دیکھا۔

“ میری جان، تم نے بہت جلدی کی ------ لیکن جو ہوا ٹھیک ہے۔“

کلونت کور کا حسد پھر بھڑکا، “ مگر وہ کون ہے؟ تمہاری ماں۔“

لہو ایشر سنگھ کی زبان تک پہنچ گیا۔ جب اس نے اس کا ذائقہ چکھا تو اس کے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔

“ اور میں ۔۔۔۔۔۔ اس میں ۔۔۔۔۔۔ بھینی یا چھ آدمیوں کو قتل کر چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔ اس کرپان سے۔۔۔۔۔۔“

کلونت کور کے دماغ میں صرف دوسری عورت تھی۔ “ میں پوچھتی ہوں، کون ہے وہ حرامزادی؟“

ایشر سنگھ کی آنکھیں دھندلا رہی تھیں۔ ایک ہلکی سی چمک ان میں پیدا ہوئی اور اس نے کلونت کور سے کہا، “ گالی نہ دے اس بھڑوی کو۔“

کلونت چلائی، “ میں پوچھتی ہوں، وہ ہے کون؟“

ایشر سنگھ کے گلے میں آواز رندھ گئی، “ بتاتا ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا اور اس پر اپنا جیتا خون دیکھ کر مسکرایا، “ انسان ماں یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔“

کلونت کور اس کے جواب کی منتظر تھی، “ ایشر سیاں تو مطلب کی بات کر۔“

ایشر سنگھ کی مسکراہٹ اس کی لہو بھری مونچھوں میں اور زیادہ پھیل گئی ------ “ مطلب ہی کی بات کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔ گلا چِرا ہے ماں یا میرا ۔۔۔۔۔۔ اب دھیرے دھیرے ہی ساری بات بتاؤں گا۔“

اور جب وہ بات بتانے لگا تو اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کے لیپ ہونے لگے۔ “ کلونت، میری جان ۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں نہیں بتا سکتا، میرے ساتھ کیا ہوا۔۔۔۔۔۔ انسان کڑی یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔۔۔۔۔۔ شہر میں لوٹ مچی تو سب کی طرح میں نے بھی اس میں حصہ لیا لیکن ایک بات تمہیں نہ بتائی۔

ایشر سنگھ نے گھاؤ میں درد محسوس کیا اور کراہنے لگا۔ کلونت کور نے اس کی طرف توجہ نہ دی اور بڑی بے رحمی سے پوچھا “ کون سی بات؟“

ایشر سنگھ نے مونچھوں پر جمتے ہوئے لہو کو پھونک کے ذریعے سے اڑاتے ہوئے کہا “ جس مکان پر ۔۔۔۔۔۔ میں نے دھاوا بولا تھا ۔۔۔۔۔۔ اس میں سات ۔۔۔۔۔۔ اس میں سات آدمی تھے ۔۔۔۔۔۔۔ چھ میں نے قتل کر دیئے ۔۔۔۔۔۔ اسی کرپان سے جس سے تو نے مجھے ۔۔۔۔۔۔ چھوڑ اسے ۔۔۔۔۔۔ سن ۔۔۔۔۔۔ ایک لڑکی تھی بہت سندر ۔۔۔۔۔۔ اس کو اٹھا کر میں اپنے ساتھ لے آیا۔“

کلونت کور خاموش سنتی رہی۔ ایشر سنگھ نے ایک بار پھر پھونک مار کے مونچھوں پر سے لہو اڑایا۔ “ کلونت جانی میں تم سے کیا کہوں کتنی سندر تھی ۔۔۔۔۔۔ میں اسے بھی مار ڈالتا، پر میں نے کہا، “ نہیں ایشر سیاں، کلونت کور کے تو ہر روز مزے لیتا ہے، یہ میوہ بھی چکھ دیکھ۔“

کلونت کور نے صرف اس قدر کہا “ ہوں ۔۔۔۔۔۔ “

اسے میں کندھے پر ڈال کر چل دیا ۔۔۔۔۔۔ راستے میں ۔۔۔۔۔۔ کیا کہہ رہا تھا میں ۔۔۔۔۔۔ ہاں راستے میں ۔۔۔۔۔۔ نہر کی پٹری کے پاس، تھوہر کی جھاڑیوں تلے میں نے اسے لٹا دیا ۔۔۔۔۔۔ پہلے سوچا کہ پھینٹوں، لیکن پھر خیال آیا کہ نہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ کہتے کہتے ایشر کی زبان سوکھ گئی۔

کلونت کور نے تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا اور پوچھا۔ “ پھر کیا ہوا؟“

ایشر سنگھ کے حلق سے بمشکل یہ الفاظ نکلے، “ میں نے ۔۔۔۔۔۔ پتا پھینکا ۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔ لیکن “

اس کی آواز ڈوب گئی۔

کلونت کور نے اسے جھنجھوڑا، “ پھر کیا ہوا؟“

ایشر سنگھ نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھیں کھولیں اور کلونت کور کے جسم کی طرف دیکھا جس کی بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی “ وہ مری ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔ لاش تھی ۔۔۔۔۔۔ بالکل ٹھنڈا گوشت ۔۔۔۔۔۔ جانی مجھے اپنا ہاتھ دے ۔۔۔۔۔۔ “

کلونت کور نے اپنا ہاتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ پر رکھا جو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا تھا۔

۔۔۔۔۔۔ ختم شد ۔۔۔۔۔۔
--------------------------------------------------------​
تبصرے اور تجاویز کے لیے مندرجہ ذیل ربط استعمال کیجیئے :
http://www.urduweb.org/mehfil/viewtopic.php?t=6734
 

شمشاد

لائبریرین
سعادت حس منٹو

جھوٹی کہانی

کچھ عرصے سے اقلیتیں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے بیدار ہو رہی تھیں۔ ان کو خوابِ گراں سے جگانے والی اکثریتیں جو ایک مدت سے اپنے ذاتی فائدے کے لیے ان پر دباؤ ڈالتی رہی تھیں۔ اس بیداری کی لہر نے کئی انجمنیں پیدا کر دیں تھیں۔ ہوٹل کے بیروں کی انجمن، حجاموں کی انجمن، کلرکوں کی انجمن، اخبار والوں میں کام کرنے والے صحافیوں کی انجمن، اقلیت اپنی انجمن یا تو بنا چکی تھی یا بنا رہی تھی تاکہ اپنے حقوق کی حفاظت کر سکے۔

ایسی ہر انجمن کے قیام پر اخباروں میں تبصرے ہوتے تھے۔ اکثریت کے حمایتی ان کی مخالفت کرتے تھے اور اقلیت کے طرفدار موافقت۔ غرض کہ کچھ عرصے سے ایک اچھا خاصا ہنگامہ برپا تھا جس سے رونق لگی رہتی تھی۔ مگر ایک روز اخباروں میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ملک کے دس نمبریے غنڈوں نے اپنی انجمن قائم کی ہے تو اکثریتیں اور اقلیتیں دونوں سنسنی زدہ ہو گئیں۔ شروع شروع میں تو لوگوں نے خیال کیا کہ بے پر کی اڑا دی ہے کسی نے، پر جب اس انجمن نے اپنے اغراض و مقاصد شائع کیے اور ایک باقائدہ منشور ترتیب دیا تو پتا چلا کہ یہ کوئی مذاق نہیں۔ غنڈے اور بدمعاش واقعی خود کو اس انجمن کے سائے تلے منظم کرنے کا پورا پورا تہیہ کر چکے ہیں۔

اس انجمن کی ایک دو میٹنگیں ہو چکی تھیں۔ ان کی روداد اخباروں میں شائع ہو چکی تھی۔ لوگ پڑھتے اور دم بخود رہ جاتے۔ بعض کہتے کہ بس اب قیامت آنے میں زیادہ دیر باقی نہیں۔

اغراض و مقاصد کی ایک لمبی چوڑی فہرست تھی۔ جس میں‌ یہ کہا گیا تھا کہ غنڈوں اور بدمعاشوں کی یہ انجمن سب سے پہلے تو اس بات پر صدائے احتجاج بلند کرئے گی کہ معاشرے میں ان کو نفرت و حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ بھی دوسروں کی طرح بلکہ ان کے مقابلے میں کچھ زیادہ امن پسند شہری ہیں۔ ان کو غنڈے اور بدمعاش نہ کہا جائے، اس لیے کہ اس سے ان کی تذلیل و توہین ہوتی ہے۔ وہ خود اپنے لیے کوئی مناسب اور معزز نام تجویز کر لیتے مگر اس خیال سے کہ اپنے منہ میاں مٹھو کی کہاوت ان پر چسپاں نہ ہو، وہ اس کا فیصلہ عوام و خواص پر چھوڑتے ہیں۔ چوری چکاری ڈکیتی اور رہزنی، جیب تراشی اور جعل سازی، پتے بازی اور بلیک مارکیٹنگ وغیرہ افعال قبیحہ کے بجائے فنون لطیفہ میں شمار ہونے چاہیں۔ ان لطیف فنون کے ساتھ اب تک جو بُرا سلوک روا رکھا گیا ہے، اس کی مکمل تلافی اس یونین کا نصب العین ہے۔

ایسے ہی کئی اور اغراض و مقاصد تھے جو سننے اور پڑھنے والوں کو بڑے عجیب و غریب معلوم ہوتے تھے۔ بظاہر ایسا تھا کہ چند بے فکرے ظریفوں نے لوگوں کی تفریح کے لیے یہ سب باتیں گھڑی ہیں۔ یہ چٹکلہ ہی تو معلوم ہوتا تھا کہ یونین اپنے ممبروں کی قانونی حفاظت کا ذمہ لے گی اور ان کی سرگرمیوں کے لیے سازگار اور خوشگوار فضا پیدا کرنے کے لیے پوری پوری جدوجہد کرئے گی۔ وہ حکام وقت پر زور دے گی کہ یونین کے ہر رکن پر اس کے مقام اور رتبے کے لحاظ سے مقدمہ چلایا جائے اور سزا دیتے وقت بھی اس کی پیشِ نظر رکھا جائے۔ حکومت لوگوں کو اپنے گھروں میں چوری کا برقی الارم نہ لگانے دے۔ اس لیے کہ بعض اوقات یہ ہلاکت ثابت ہوتا ہے۔ جس طرح سیاسی قیدیوں کو جیل میں اے اور بی کلاس کی مراعات دی جاتی ہیں۔ اسی طرح اس یونین کے ممبروں کو دی جائیں۔ یونین اس بات کا ذمہ لیتی تھی کہ وہ اپنے ممبروں کو ضعیف اور ناکارہ یا کسی حادثے کا شکار ہو جانے کی صورت میں ہر ماہ گزارے کے لیے معقول رقم دے گی۔ جو ممبر کسی خاص شعبے میں مہارت حاصل کرنے کے لیے باہر کے ممالک میں جانا چاہے گا اسے وظیفہ دے وغیرہ وغیرہ۔

ظاہر ہے کہ اخباروں میں اس یونین کے قیام پر خوب تبصرہ بازی ہوئی۔ قریب قریب سب اس کے خلاف تھے۔ بعض رجعت پسند کہتے تھے کہ یہ کمیونزم کی انتہائی شکل ہے، اور اس کے بانیوں کے ڈانڈے کرملین سے ملاتے تھے۔ حکومت سے چنانچہ بار بار دوخواست کی جاتی کہ وہ اس فتنے کو فوراّ کچل دے، کیونکہ اگر اس کو ذرا بھی پنپنے کا موقع دیا گیا تو معاشرے میں ایسا زہر پھیلے گا کہ اس کا تریاق ملنا مشکل ہو جائے گا۔

خیال تھا کہ ترقی پسند اس یونین کی طرف داری کریں گے کہ اس میں ایک جدت تھی اور پرانی قدروں سے ہٹ کر اس نے اپنے لیے ایک بالکل نیا راستہ تلاش کیا تھا۔ اور پھر یہ کہ رجعت پسند اسے کمیونسٹوں کی اختراع سمجھتے تھے۔ مگر حیرت ہے کہ اقلیتوں کے یہ سب سے بڑے طرفدار پہلے تو اس معاملے میں خاموش رہے اور بعد میں دوسروں کے ہم نوا ہو گئے اور اس یونین کی بیخ کنی پر زور دینے لگے۔

اخباروں میں ہنگامہ برپا ہوا تو ملک کے گوشے گوشے میں اس یونین کے قیام کے خلاف جلسے ہونے لگے۔ قریب قریب ہر پارٹی کے نامی و گرامی لیڈروں نے پلیٹ فارم پر آ کر اس ننگ تہذیب و تمدن جماعت کو ملعون قرار دیا اور کہا یہی وقت ہے جب تمام لوگوں کو آپس کے جھگڑے چھوڑ کر اس فتنہ عظیم کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد، نظم اور یقین محکم کو اپنا موڑ بنا کر ڈٹ جانا چاہیے۔

اس سارے ہنگامے کا جواب یونین کی طرف سے ایک پوسٹر کے ذریعے دیا گیا جس میں بڑے اختصار کے ساتھ یہ کہا گیا کہ پریس اکثریت کے ہاتھ میں ہے، قانون اس کی پشت ہے۔ مگر انجمن کے حوصلے اور ارادے پست نہیں ہوئے۔ وہ کوشش کر رہی ہے کہ بہت سی رقم دے کر کچھ اخبار خرید لے اور ان کو اپنے حق میں کر لے۔

یہ پوسٹر ملک کے درودیوار پر نمودار ہوا تو فوراّ ہی بعد کئی شہروں سے بڑی بڑی چوریوں اور ڈکیتیوں کی اطلاعیں وصول ہوئیں۔ اور اس کے چند روز بعد جب ایکا ایکی دو اخباروں نے دبی زبان میں غنڈوں اور بدکاروں کی یونین کے اغراض و مقاصد میں‌ اصلاحی پہلو کریدنا شروع کیا تو لوگ سمجھ گئے کہ پس پردہ کیا ہوا ہے۔

پہلے ان دو اخباروں کے اشاعت نہ ہونے کے برابر تھی۔ نہایت ہی گھٹیا کاغذ پر چھپتے تھے۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ایسی کایا کلپ ہوئی کہ لوگ دنگ رہ گئے۔ سب سے اچھا ایڈیٹوریل اسٹاف ان دو پرچوں کے پاس تھا۔ دفتر میں ایک کی بجائے دو دو ٹیلی پرنٹر تھے۔ تنخواہ مقررہ وقت سے پہلے مل جاتی تھی۔ بونس الگ ملتا تھا۔ گھر کا الاؤنس، تانگے کا الاؤنس، سگرٹوں کا الاؤنس، چائے کا الاؤنس، مہنگائی کا الاؤنس۔ یہ سب الاؤنس مل کر تنخواہ سے دُگنے ہو جاتے تھے۔ جو دخت رز کے رسیا تھے، ان کو مفت پرمٹ ملتا تھا اور بہترین سکاچ وسکی کنٹرولڈ قیمت پر دستیاب ہوتی تھی۔ عملے کے ہر آدمی سے باقاعدہ کنٹریکٹ کیا گیا تھا جس میں مالک کی طرف سے یہ اقرار تھا کہ اگر اس کے گھر میں کبھی چوری ہوئی یا اس کی جیب کاٹ لی گئی تو اسے نقصان کے علاوہ ہرجانہ بھی ادا کیا جائے گا۔

ان دو اخباروں کی اشاعت دیکھتے دیکھتے ہزاروں تک پہنچ گئی۔ تعجب ہے کہ پہلے جب ان کی اشاعت کچھ بھی نہیں تھی تو یہ ہر روز کثیر الاشاعت ہونے کے بلند و بالا دعوے کرتے تھے، مگر جب ان کی کایا کلپ ہوئی تو اس معاملے میں بالکل خاموش ہو گئے۔ بیک وقت البتہ ان دونوں اخباروں نے کچھ عرصے کے بعد یہ اعلان چھاپا کہ ہماری اشاعت اس حد تک جا پہنچی ہے کہ اگر ہم نے اس سے تجاوز کیا تو تجارتی نقطہ نظر سے نقصان ہی نقصان ہے۔

ان کے علمی و ادبی ایڈیشنوں میں عجیب و غریب موضوعات پر مضمون شائع ہوتے تھے۔ یہ چار پانچ تو بڑے ہی سنسنی خیز تھے :

1) بلیک مارکیٹنگ کے فوائد ------ معاشیات کی روشنی میں
2) معاشرتی اور مجلسی دائرے میں قحبہ خانوں کی اہمیت
3) دروغ گو را حافظ باشد ------ جدید سائنٹفک تحقیق
4) بچوں میں قتل و غارت گری کے فطری رحجانات
5) سادیت پر سیر حاصل تبصرہ
6) دنیا کے خوفناک ڈاکو اور تقدیس مذہب

اشتہار بھی کچھ عجیب و غریب نہیں تھے۔ ان میں مشتہر کا نام اور پتا نہیں ہوتا تھا۔ سرخیاں دے کر مطلب کی بات مختصر لفظوں میں ادا کر دی جاتی تھی۔ چند سرخیاں ملاحظہ ہوں :

چوری کے زیورات خریدنے سے پہلے ہمارا نشان ضرور دیکھ لیا کریں۔ جو کھرے مال کی ضمانت ہے۔

بلیک مارکیٹ میں صرف اسی فلم کے ٹکٹ فروخت کئے جاتے ہیں جو تفریح کا سامان پیش کرتا ہے۔

دودھ میں کن طریقوں سے ملاوٹ کی جاتی ہے۔ رسالہ “ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی “ مطالعہ فرمائیے۔

ٹونے ٹوٹکے، گنڈے اور تعویذ، عمل ہمزاد اور تسخیر محبوب کے جنتر منتر سب جھوٹے ہیں۔ خود کو دھوکہ دینے کی بجائے معشوق کو دھوکہ دیجیئے۔

کھانے پینے کی صرف وہ چیزیں خریدیئے جن میں ضررساں چیزوں کی ملاوٹ نہ ہو۔

ایک الگ کالم میں “ بلیک مارکیٹ کے آج کے بھاؤ “ کے عنوان تلے ان تمام چیزوں کی کنٹرولڈ قیمت درج ہوتی تھی جو صرف بلیک مارکیٹ سے دستیاب ہوتی تھیں۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ان قیمتوں میں ایک پائی کی بھی کمی بیشی نہیں ہوتی۔ جو چوری چھپے چوری کا خاص نشان لگایا ہوا مال خریدتے تھے انہیں ارزاں قیمت پر سولہ آنے کھرا مال ملتا تھا۔

غنڈوں، چوروں اور بدکاروں کی انجمن جب آہستہ آہستہ نیک نامی حاصل کرنے لگی تو ارباب بست و کشاد کو تشویش دو چند ہو گئی۔ حکومت نے اپنی طرف سے خفیہ طور پر بہت کوشش کی کہ اس کے اڈے کا سراغ لگائے مگر کچھ پتہ نہ چلا۔ یونین کی تمام سرگرمیاں زیرِ زمین یعنی انڈر گراؤنڈ تھیں۔ اونچی سوسائٹی کے چند اراکین کا خیال تھا کہ پولیس کے بعض بدقماش افسر اس یونین سے ملے ہوئے ہیں بلکہ اس کے باقاعدہ ممبر ہیں اور ہر ماہ اپنی ناجائز ذرائع سے پیدا کی ہوئی آمدن کا بیشتر حصہ بطور جزیے کے دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قانون کا نشتر معاشرے کے اس نہایت ہی مہلک پھوڑے تک نہیں پہنچ سکا۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ مگر یہ بات قابلِ غور تھی کہ عوام میں جو اس یونین کے قیام سے بے چینی پھیلی تھی، اب بالکل مفقود تھی۔ متوسط طبقہ اسکی سرگرمیوں میں بڑی دلچسپی لے رہا تھا۔ صرف اونچی سوسائٹی تھی جو دن بدن خائف ہوتی جا رہی تھی۔

اس یونین کے خلاف یوں تو آئے دن تقریریں ہوتی تھیں اور جگہ جگہ جلسے منعقد ہوتے تھے، مگر اب وہ پہلا سا جوش و خروش نہیں تھا۔ چنانچہ اس کو ازسرِ نو شدید بنانے کے لیے ٹاؤن ہال میں ایک بہت عظیم الشان جلسے کے انعقاد کا اعلان کیا گیا۔ قریب قریب ہر شہر کی ہستیوں کو نمائندگی کے لیے مدعو کیا گیا۔ مقصد اس جلسے کا یہ تھا یہ اتفاق رائے سے غنڈوں، شُہدوں اور بدکاروں کی اس یونین کے خلاف مذمت کا ووٹ پاس کیا جائے اور عوام الناس کو ان خوفناک جراثیم سے کماحقہ آگاہ کیا جائے جو اس کے وجود سے معاشرتی و مجلسی دائرے میں پھیل چکے ہیں اور بڑی سرعت سے پھیل رہے ہیں۔

جلسے کی تیاری پر ہزاروں روپے خرچ کیے گئے۔ مجلس انتظامیہ اور مجلس استقبالیہ نے مندوبین کے آرام و آسائش کے لیے ہر ممکن سہولت مہیا کی۔ کئی اجلاس ہوئے اور بڑے کامیاب رہے۔ ان کی رپورٹ یونین کے پرچوں میں من و عن شائع ہوتی رہی۔ مذمت کے جتنے ووٹ پاس ہوئے، بلا تبصرہ چھپتے رہے۔ دونوں اخباروں میں ان کو نمایاں جگہ دی جاتی تھی۔

آخری اجلاس بہت اہم تھا۔ ملک کی تمام مکرم و محترم ہستیاں جمع تھیں۔ امرا و وزراء سب موجود تھے۔ حکومت کے اعلٰی افسر بھی مدعو تھے۔ بڑے زور دار الفاظ میں تقریریں ہوئیں اور مذہبی، مجلسی، معاشی، جمالیاتی اور نفسیاتی، غرض کہ ہر ممکن نقطہ نظر سے غنڈوں اور بدمعاشوں کی تنظیم کے خلاف دلائل و براہین پیش کیے گئے اور ثابت کر دیا گیا کہ اس طبقہ اسفل کا وجود حیاتِ انسانی کے حق میں زہرِ قاتل ہے۔ مذمت کا آخری ریزولیشن جو بڑے بااثر الفاظ پر مشتمل تھا اتفاقِ رائے سے پاس ہوا تو ہال تالیوں کے شور سے گونج گونج اٹھا۔ جب تھوڑا سکون ہوا تو پچھلے بنچوں سے ایک شخص کھڑا ہوا۔ اس نے صدر سے مخاطب ہو کر کہا، “ صاحب صدر، اجازت ہو تو میں‌ کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔“

سارے ہال کی نگاہیں اس آدمی پر جم گئیں۔ صدر نے بڑی تمکنت سے پوچھا، “ میں پوچھ سکتا ہوں آپ کون ہیں؟“

اس شخص نے جو بڑے سادہ مگر خوش وضع کپڑوں میں ملبوس تھا، تعظیم کے ساتھ کہا “ ملک و ملت کا ایک ادنٰی ترین خادم،“ اور کورنش بجا لایا۔

صدر نے چشمہ لگا کر اسے غور سے دیکھا اور پوچھا، “ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟“

اس معما نما مرد نے مسکرا کر کہا، “ کہ ------ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔“

اس پر سارے ہال میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ ڈائس پر، خصوصاّ سب کے سب معززین اور قائدین سوالیہ نشان بن کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔

صدر نے اپنی تمکنت کو ذرا اور تمکین بنا کر پوچھا، “ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟“

“ میں ابھی عرض کرتا ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے جیب سے ایک بے داغ سفید رومال نکالا۔ اپنا منہ صاف کیا اور اسے واپس جیب میں رکھ کر بڑی پارلیمانی انداز میں گویا ہوا، “ صاحب صدر اور معزز حضرات۔“ ڈائس کے ایک طرف دیکھ کر وہ رک گیا، “ معافی کا طلبگار ہوں ------ محترمہ بیگم مرزبان خلاف معمول آج پچھلے صوفے پر تشریف فرما ہیں ------ صاحب صدر، خاتون مکرم اور معزز حضرات۔“

بیگم مرزبان نے وینیٹی بیگ میں سے آئینہ نکال کر اپنا میک اپ دیکھا اور غور سے سننے لگی۔ باقی بھی ہمہ تن گوش تھے۔

اس شخص نے بڑی شائستگی سے کہنا شروع کیا :

حریف مطلب مشکل نہیں فسوں نیاز
دعا قبول ہو یا رب کہ عمر خضر دراز​

کچھ دیر رکھ کر وہ ایک ادا سے مسکرایا، “ حضرت غالب ------ اس اجلاس میں اور اس سے پہلے مجلسی دائرے کے ایک مفروضہ طبقہ اسفل کے بارے میں جو زہر افشانی کی گئی ہے، آپ کے اس خاکسار نے بڑے غور سے سنی ہے۔“

سارے ہال میں کھسر پھسر ہونے لگی۔ صدر کی ناک کے بانسے پر چشمہ پھسل گیا۔ “ آپ ہیں کون؟“

سر کے ایک ہلکے سے خم کے ساتھ اس شخص نے جواب دیا، “ ملک و ملت کا ایک ادنٰی خادم ------ مجلسی دائرے کے مفروضہ طبقہ اسفل کی جماعت کا ایک رکن جسے اس کی نمائندگی کا فخر حاصل ہے۔“

ہال میں کسی نے زور سے “ واہ “ کہا اور تالی بجائی۔ چوروں، اچکوں اور غنڈوں کی یونین کے نمائندے نے سر کو پھر ہلکی سی جنبش دی اور کہنا شروع کیا، “ کیا عرض کروں، کچھ کہا نہیں جاتا :

واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب
یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہو گئیں​

اس اجلاس میں اس جماعت کے خلاف جس کا یہ خاکسار نمائندہ ہے، اس قدر گالیاں دی گئی ہیں، اس قدر لعنت ملامت کی گئی ہے کہ صرف اتنا کہنے کو جی چاہتا ہے :

لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہیں​

صاحب صدر، محترم بیگم مرزبان اور معزز حضرات۔“

بیگم مرزبان کی لپ اسٹک مسکرائی، بولنے والے نے آنکھیں اور سر جھکا کر تسلیم عرض کیا۔

“ محترم بیگم مرزبان اور معزز حضرات ۔۔۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ یہاں میری جماعت کا کوئی ہمدرد موجود نہیں۔ آپ میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو ہمارا طرفدار ہو۔

دوست گر کوئی نہیں ہے جو کرئے چارہ گری
نہ سہی ایک تمنائے دوا ہے تو سہی“​

ڈائس پر ایک اچکن پوش رئیس کلے میں پان دبا کر بولے، “ مکرر “

صدر نے جب ان کی طرف سرزش بھری نظروں سے دیکھا تو وہ خاموش ہو گئے۔

چوروں اور بدکاروں کی یونین کے نمائندے کے پتلے پتلے ہونٹوں پر شفاف مسکراہٹ نمودار ہوئی، “ میں اپنی تقریر میں جو شعر بھی استعمال کروں گا ------ حضرت غالب کا ہو گا۔“

بیگم مرزبان نے بڑے بھولپن سے کہا، “ آپ تو بڑے لائق معلوم ہوتے ہیں۔“

بولنے والا کورنش بجا لایا اور مسکرا کر کہنے لگا،

سیکھے ہیں مہ رُخوں کے لیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے​

سارا ہال قہقوں اور تالیوں سے گونج اٹھا۔ بیگم مرزبان نے اٹھ کر صدر کے کان میں کچھ کہا جس نے حاضرین کو چپ رہنے کا حکم دیا۔ خاموشی ہوئی تو چوروں اور لفنگوں کی یونین کے نمائندے نے پھر بولنا شروع کیا، “ صاحب صدر، محترم مرزبان اور معزز حضرات،

گرچہ ہے کس کس برائی سے شلے با ایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے​

۔۔۔۔۔۔۔ لیکن سچ پوچھئے تو اس سے تسلی نہیں ہوتی۔ میں تاسف کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس طبقے کے ساتھ جس کی نمائندگی میری جماعت کرتی ہے، نہایت بے انصافی ہوئی ہے۔ اس کو اب تک بالکل غلط رنگ میں دیکھا جاتا رہا ہے اور یہی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ اسے ملعون و مطعون قرار دے کر خارج اس سماج کر دیا جائے۔ میں ان مطہر ہستیوں کو کہا کہوں جنہوں نے اس شریف اور معزز طبقے کو سنگسار کرنے کے لیے پتھر اٹھائے ہیں :

آتش کدہ ہے سینہ مرا راز نہاں سے
اے وائے اگر معرض اظہار میں آوے​

صدر نے دفعتہّ گرج کر کہا، “ خاموش ------ بس اب آپ کو مزید بولنے کی اجازت نہیں ہے۔“

مقرر نے مسکرا کر کہا : “ حضرت غالب کی اسی غزل کا ایک شعر ہے :

دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستمگر
کچھ تجھ کو مزا بھی مرے آزار میں آوے​

ہال تالیوں کے شور سے گونج اٹھا۔ صدر نے اجلاس برخواست کرنا چاہا مگر لوگوں نے کہا کہ نہیں چوروں اور غنڈوں کی یونین کے نمائندے کو تقریر ختم ہو جائے تو کاروائی بند کی جائے۔ صدر اور دوسرے اراکین اجلاش نے پہلے آمادگی ظاہر نہ کی لیکن بعد میں رائے عامہ کے سامنے انہیں جھکنا پڑا۔ مقرر کو بولنے کی اجازت مل گئی۔

اس نے صاحب صدر کا مناسب و موزوں الفاظ میں شکریہ ادا کیا اور کہنا شروع کیا، “ ہماری یونین کو صرف اس لیے نفرت و تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ یہ چوروں، اٹھائی گیروں، راہزنوں اور ڈاکوؤں کی انجمن ہے جو ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم کی گئی ہے۔ میں آپ لوگوں کے جذبات بخوبی سمجھتا ہوں۔ آپ کا فوری ردِ عمل کس قسم کا تھا، میں اس کا بھی تصور کر سکتا ہوں، مگر چوروں، ڈاکوؤں اور رہزنوں کے حقوق کیا نہیں ہوتے؟ یا نہیں ہو سکتے؟ میں سمجھتا ہوں کوئی سلیم الدماغ آدمی ایسا نہیں سوچ سکتا ------ جس طرح سب سے پہلے آپ انسان ہیں، بعد میں سیٹھ صاحب ہیں، رئیس اعظم ہیں، میونسپل کمشنر ہیں، وزیر داخلہ ہیں یا خارجہ، اسی طرح وہ بھی سب سے پہلے آپ ہی کی طرح انسان ہیں۔ چور، ڈاکو، اٹھائی گیرا، جیب کترا اور بلیک مارکیٹر بعد میں ہے۔ جو حقوق دوسرے انسانوں کو اس سقف نیلوفری کے نیچے مہیا ہیں، وہ اسے بھی مہیا ہیں اور ہونے چاہیں۔ جن نعمتوں کے دوسرے انسان متمتع ہوتے ہیں، ان سے وہ بھی مستفیذ ہونے کا حق رکھتا ہے۔ ------ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک چور یا ڈاکو کیوں شئے لطیف سے خالی سمجھا جاتا ہے۔ کیوں اسے ایک ایسا شخص متصور کیا جاتا ہے جو معمولی حسیات سے بھی عاری ہے ------ معاف فرمائیے وہ اچھا شعر سن کر اسی طرح پھڑک اٹھتا ہے جس طرح کوئی دوسرا سخن فہم۔ صبح بنارس اور شام اودھ سے صرف آپ ہی لطف اندوز نہیں ہوتے، وہ بھی ہوتا ہے۔ سُرتال کی اس کو بھی خبر ہے۔ وہ پولیس کے ہاتھوں ہی گرفتار ہونا نہیں جانتا، کسی حسینہ کے دامِ اُلفت میں گرفتار ہونے کا سلیقہ بھی جانتا ہے۔ شادی کرتا ہے، بچے پیدا کرتا ہے۔ ان کو چوری سے منع کرتا ہے، جھوٹ بولنے سے روکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ خدانخواستہ اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کے دل کو صدمہ بھی پہنچتا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اس کی آواز کسی قدر گلوگیر ہو گئی لیکن فوراّ ہی اس نے رخ بدلا اور مسکراتے ہوئے کہا، “ حضرت غالب کے اس شعر کا جو مزا وہ لے سکتا ہے، معاف کیجیئے، آپ میں سے کوئی بھی نہیں لے سکتا :

نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا
رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو​

سارا ہال شگفتہ ہو کر ہنسنے لگا۔ بیگم مرزبان بھی جو تقریر کے آخری حصے پر کچھ افسردہ سی ہو گئی تھیں، مسکرائیں۔ مقرر نے اسی طرح پتلی پتلی شفاف مسکراہٹ کے ساتھ کہنا شروع کیا، “ مگر اب ایسے دعا دینے والے کہاں؟“

بیگم مرزبان نے بڑے بھولپن کے ساتھ آہ بھر کر کہا، “ اور وہ رہزن بھی کہاں؟“

مقرر نے تسلیم کیا، “ آپ نے بجا ارشاد فرمایا بیگم مرزبان۔ ہمیں اس افسوس ناک حقیقت کا کامل احساس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے مل کر اپنی انجمن کی بِنا ڈالی ہے۔ مرور زمانہ کے ساتھ رہزن، چور اور جیب کترے، قریب قریب سب، اپنی پرانی روش اور وضعداری بھول گئے ہیں۔ لیکن مقام مسرت ہے کہ وہ اب بہت تیزی سے اپنے اصل مقام کی طرف لوٹ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن میں ان حضرات سے جو ان غریبوں کی بیخ کنی میں مصروف ہیں یہ گستاخانہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی اصلاح کے لیے اب تک انہوں نے کیا کیا ہے؟ مجھے کہنا تو نہیں چاہیے مگر تقابل کے لیے کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں نہایت ذلیل، چور اور سفاک ڈاکو کہا جاتا ہے، مگر وہ لوگ کیا ہیں ۔۔۔۔۔۔ کچھ اس عالی مرتبت ڈائس پر بھی بیٹھے ہیں، جو عوام کا مال و متاع دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے ہیں۔

ہال میں “ شیم شیم “ کے نعرے بلند ہوئے۔

مقرر نے کچھ توقف کے بعد کہنا شروع کیا، “ ہم چوری کرتے ہیں، ڈاکے ڈالتے ہیں، مگر اسے کوئی نام نہیں دیتے۔ یہ معزز ہستیاں بدترین قسم کی ڈاکہ زنی کرتی ہیں مگر یہ جائز سمجھی جاتی ہیں۔ اپنی آنکھ کے اس طویل و عریض شہتیر کو کوئی نہیں دیکھتا اور نہ دیکھنا چاہتا ہے ------ کیوں ------ یہ بڑا گستاخانہ سوال ہے۔ میں اس کا جواب سننا چاہتا ہوں، چاہے وہ اس سے بھی زیادہ گستاخ ہو ۔۔۔۔۔۔ “ تھوڑے وقفے کے بعد وہ مسکرایا، “ وزیر صاحبان اپنی مسند وزارت کی سان پر استرا تیز کر کے ملک کی ہر روز حجامت کرتے رہیں۔ یہ کوئی جرم نہیں۔ لیکن کسی کی جیب سے بڑی صفائی کے ساتھ بٹوا چرانے والا قابلِ تعزیر ہے ۔۔۔۔۔۔ تعزیر کر چھوڑیئے مجھے اس پر کوئی زیادہ اعتراض نہیں ------ وہ آپ کی نظروں میں گردن زدنی ہے۔“

ڈائس پر بہت سے حضرات بے چینی اور اضطراب محسوس کرنے لگے ------ بیگم مرزبان مسرور تھیں۔

مقرر نے اپنا گلا صاف کیا، پھرکہنا شروع کیا، “ تمام محکموں میں، اوپر سے لے کر نیچے تک رشوت ستانی کا سلسلہ قائم ہے۔ یہ کسے معلوم نہیں۔ کیا یہ بھی کوئی راز ہے جس کے انکشاف کی ضرورت ہے کو خویش پروری اور کنبہ نوازی کی بدولت سخت نااہل، خر دماغ اور بدقماش بڑے بڑے عہدے سنمبھالے بیٹھے ہیں۔ معاف فرمائیے گا، ادھر ہمارے طبقے میں ایسے افسوس ناک حالات موجود نہیں ہیں۔ کوئی چور اپنے کسی عزیز کو بڑی چوری کے لیے منتخب نہیں کرئے گا۔ ہمارے ہاں لوگ اس قسم کی رعایتوں سے فائدہ اٹھانا بھی چاہیں تو نہیں اٹھا سکتے۔ اس لیے کہ چوری کرنے، جیب کاٹنے یا ڈاکہ ڈالنے کے لیے دل گردے اور مہارت و قابلیت کی ضرورت ہے۔ یہاں کوئی سفارش کام نہیں آتی۔ ہر شخص کا کام ہی خود اس کا امتحان ہوتا ہے۔ جو اس کو فوراّ نتیجے سے باخبر کر دیتا ہے۔“

ہال میں سب خاموش تھے اور بڑے غور سے سن رہے تھے۔ تھوڑے سے وقفے کے بعد مقرر کی آواز پھر بلند ہوئی، “ میں بدکاری معاف کر سکتا ہوں لیک خامکاری ہرگز ہرگز معاف نہیں کر سکتا ------ وہ لوگ یقینا قابلِ مواخذہ ہیں جو نہایت ہی بھونڈے طریقے پر ملک کی دولت لوٹتے ہیں۔ ایسے بھونڈے طریقے پر کہ ان کے کرتوتوں کے بھانڈے ہر دوسرے روز چوراہوں میں پھوٹتے ہیں۔ وہ پکڑے جاتے ہیں مگر بچ نکلتے ہیں کہ ان کے نام دس نمبر کے بستہ الف میں درج ہیں نہ بستہ ب میں ۔۔۔۔۔۔ یہ کس قدر ناانصافی ہے ۔۔۔۔۔۔ میں تو سمجھتا ہوں بیچارے انصاف کا ۔۔۔۔۔۔ اندھے انصاف کا خون یہیں پر ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ نہیں ایسے اور بھی کئی مقتل ہیں جہاں انصاف، انسانیت، شرافت و نجابت، تقدس و طہارت، دین و دنیا، سب کو ایک ہی پھندے میں ڈال کر ہر روز پھانسی دی جاتی ہے ------ میں پوچھتا ہوں انسانوں کی خام کھالوں کی تجارت کرنے والے ہم ہیں یا آپ ۔۔۔۔۔۔ میں سوال کرتا ہوں ازمنہ عتیق کی بربریت کی طرف امن پسند انسانوں کی کشاں کشاں کھینچ کر لے جانے والے ہم ہیں یا آپ ۔۔۔۔۔۔ اور استفسار کرتا ہوں کہ دوسرے اجناس کی طرح ملاوٹ کر کے اپنے ایمان کو آپ بیچتے ہیں یا ہم؟“

ہال پر قبر کی سی خاموشی طاری تھی۔ مقرر نے جیب سے اپنا سفید رومال نکال کر منہ صاف کیا اور اسے ہوا میں لہرا کر کہا، “ صاحب صدر، خاتونِ مکرم اور معزز حضرات، مجھے معاف فرمایئے کہ میں ذرا جذبات کی رو میں بہہ گیا ۔۔۔۔۔۔ عرض ہے کہ جدھر نظر اٹھائی جائے، ایمان فروش ہوتا ہے یا ضمیر فروش، وطن فروش ہوتا ہے یا ملت فروش۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ بھی کوئی فروخت کرنے کی چیزیں ہیں۔ انسان تو انہیں نہایت مشکل وقت میں بھی ایک لمحے کے لیے گروی نہیں رکھ سکتا، مگر میں انسانوں کی بات کر رہا ہوں ۔ معاف کیجیئے، میرے لہجے میں پھر تلخی پیدا ہو گئ :

رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے​

یہ کہتا ہوا وہ ڈائس کی طرف بڑھا، “ صاحب صدر، محترم خاتون مرزبان اور معزز حضرات، میں اپنی یونین کی طرف سے آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے لب کشائی کا موقع دیا۔“

ڈائس کے پاس پہنچ کر اس نے صدر کی طرف ہاتھ بڑھایا، “ میں اب ایک دوست کی حثیت سے رخصت چاہتا ہوں۔“

صدر نے ہچکچاتے ہوئے اٹھ کر اس سے ہاتھ ملایا۔ اس کے بعد اس نے بیگم مرزبان کی طرف ہاتھ بڑھایا، “ اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو ۔۔۔۔“

بیگم مرزبان نے بڑے بھول پن سے اپنا ہاتھ پیش کر دیا۔ باقی معززین اور رؤسا سے ہاتھ ملا کر جب فارغ ہوا تو خدا حافظ کہہ کر چلنے لگا، لیکن فورا ہی رک گیا۔ اپنی دونوں جیبوں سے اس نے بہت سی چیزیں نکالیں اور صدر کی میز پر ایک ایک کر کے رکھ دیں۔ پھر وہ مسکرایا، “ ایک عرصے سے جیب تراشی چھوڑ چکا ہوں، آج کل سیف توڑنا میرا پیشہ ہے۔۔۔۔۔۔ آج صرف ازراہ تفریح آپ لوگوں کی جیبوں پر ہاتھ صاف کر دیا۔“ یہ کہہ کر وہ بیگم مرزبان سے مخاطب ہوا، “ خاتون مکرم معاف کیجیئے، آپ کے وینیٹی بیگ سے بھی میں نے ایک چیز نکالی تھی، مگر وہ ایسی ہے کہ سب کے سامنے آپ کو واپس نہیں کر سکتا۔“

اور وہ تیزی کے ساتھ ہال سے باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔ ختم شد ۔۔۔۔۔۔
------------------------------------------------------------------------------------------------------
8 اکتوبر 1951ء
 

شمشاد

لائبریرین
سعادت حسن منٹو

اللہ دتا​

دو بھائی تھے۔ اللہ رکھا اور اللہ دتا۔ دونوں ریاست پٹیالہ کے باشندے تھے۔ ان کے آباواجداد البتہ لاہور کے تھے۔ مگر جب اس دو بھائیوں کا دادا ملازمت کی تلاش میں پٹیالہ آیا تو وہیں کا ہو رہا۔

اللہ رکھا اور اللہ دتا دونوں سرکاری ملازم تھے۔ ایک چیف سیکرٹری صاحب بہادر کا اردلی تھا۔ دوسرا کنٹرولر آف اسٹورز کے دفتر کا چپراسی۔

دونوں بھائی ایک ساتھ رہتے تھے تاکہ خرچ کم ہو۔ بڑی اچھی گزر رہی تھی۔ ایک صرف اللہ رکھا کو جو بڑا تھا، اپنے چھوٹے بھائی کے چال چلن کے متعلق شکایت تھی۔ وہ شراب پیتا تھا۔ رشوت لیتا تھا اور کبھی کبھار کسی غریب اور نادار عورت کو پھانس بھی لیا کرتا تھا۔ مگر اللہ رکھا نے ہمیشہ چشم پوشی سے کام لیا تھا کہ گھر کا امن و سکون درہم برہم نہ ہو۔

دونوں شادی شدہ تھے۔ اللہ رکھا کی دو لڑکیاں تھیں۔ ایک بیاہی جا چکی تھی اور اپنے گھر میں خوش تھی۔ دوسری جس کا نام صغریٰ تھا، تیرہ برس کی تھی اور پرائمری سکول میں‌پڑھتی تھی۔

اللہ دتا کی ایک لڑکی تھی ------ زینب ------ اس کی شادی ہو چکی تھی مگر اپنے گھر میں‌کوئی اتنی خوش نہیں تھی۔ اس لیے کہ اس کا خاوند اوباش تھا۔ پھر بھی وہ جوں توں نبھائے جا رہی تھی۔

زینب اپنے بھائی طفیل سے تین سال بڑی تھی۔ اس حساب سے طفیل کی عمر اٹھارہ انیس برس کے قریب ہوتی تھی۔ وہ لوہے کے ایک چھوٹے سے کارخانے میں‌ کام سیکھ رہا تھا۔ لڑکا ذہین تھا، چنانچہ کام سیکھنے کے دوران میں بھی پندرہ روپے ماہوار اسے مل جاتے تھے۔

دونوں بھائیوں کی بیویاں بڑی اطاعت شعار، محنتی اور عبادت گزار عورتیں تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہروں کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا تھا۔

زندگی بڑی ہموار گزر رہی تھی کہ ایکا ایکی ہندو مسلم فساد شروع ہو گئے۔ دونوں بھائیوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کے مال و جان اور عزت و آبرو پر حملہ ہو گا اور انہیں افراتفری اور کسمپرسی کے عالم میں ریاست پٹیالہ چھوڑنا پڑے گی ------ مگر ایسا ہوا۔

دونوں بھائیوں کو قطعاً معلوم نہیں کہ اس خونیں طوفان میں کون سا درخت گرا، کون سے درخت سے کون سی ٹہنی ٹوٹی ------ جب ہوش و حواس کسی قدر درست ہوئے تو چند حقیقتیں سامنے آئیں اور وہ لرز گئے۔

اللہ رکھا کی لڑکی کا شوہر شہید کر دیا گیا تھا اور اس کی بیوی کو بلوائیوں نے بڑی بے دردی سے ہلاک کر دیا تھا۔

اللہ دتا کی بیوی کو بھی سکھوں نے کرپانوں سے کاٹ ڈالا تھا۔ اس کی لڑکی زینب ------ کا بدچلن شوہر بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔

رونا دھونا بیکار تھا۔ صبر شکر کر کے بیٹھ رہے۔ پہلے تو کیمپوں گلتے سٹرتے رہے۔ پھر گلی کوچوں میں بھیک مانگا کیئے۔ آخر خدا نے سنی، اللہ دتا کو گوجرانوالہ میں ایک چھوٹا سا شکستہ مکان سر چھپانے کو مل گیا۔ طفیل نے دوڑ دھوپ کی تو اسے کام مل گیا۔

اللہ رکھا لاہور ہی میں دیر تک دربدر پھرتا رہا۔ جوان لڑکی ساتھ تھی۔ گویا ایک پہاڑ کا پہاڑ اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ اس غریب نے کس طرح ڈیرھ برس گزارا۔ بیوی اور بڑی لڑکی کا غم وہ بالکل بھول چکا تھا۔ قریب تھا کہ وہ کوئی خطرناک قدم اٹھائے کہ اسے ریاست پٹیالہ کے ایک بڑے افسر مل گئے جو اس کے بڑے مہربان تھے۔ اس نے ان کو اپنی حالتِ زار الف سے لے کر ے تک کہہ سنائی۔ آدمی رحم دل تھا۔ اس کو بڑی دقتوں کے بعد لاہور کے ایک عارضی دفتر میں اچھی ملازمت مل گئی تھی۔ چنانچہ انہوں نے دوسرے روز ہی اس کو چالیس روپے ماہوار پر ملازم رکھ لیا۔ اور ایک چھوٹا سا کوارٹر بھی رہائش کے لیے دلوا دیا۔

اللہ رکھا نے خدا کا شکر ادا کیا جس نے اس کی مشکلات دور کیں۔ اب وہ آرام سے سانس لے سکتا تھا اور مستقبل کے متعلق اطمینان سے سوچ سکتا تھا۔ صغریٰ بڑے سلیقے والی سگھڑ لڑکی تھی۔ سارا دن گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی۔ ادھر ادھر سے لکڑیاں چن کے لاتی۔ چولہا سلگاتی اور مٹی کی ہنڈیا میں ہر روز اتنا سالن پکاتی جو دو وقت کے لیے پورا ہو جائے۔ آٹا گوندھتی، پاس ہی تنور تھا، وہاں جا کر روٹیاں لگوا لیتی۔

تنہائی میں‌ آدمی کیا کچھ نہیں سوچتا۔ طرح طرح کے خیالات آتے ہیں۔ صغریٰ عام طور پر دن میں تنہا ہوتی تھی اور اپنی بہن اور ماں کو یاد کر کے آنسو بہاتی رہتی تھی، پر جب باپ آتا تو وہ اپنی آنکھوں کے سارے آنسو خشک کر لیتی تھی تاکہ اس کے زخم ہرے نہ ہوں۔ لیکن وہ اتنا جانتی تھی کہ اس کا باپ اندر ہی اندر گھلا جا رہا ہے۔ اس کا دل ہر وقت روتا رہتا ہے مگر وہ کسی سے کہتا نہیں۔ صغریٰ سے بھی اس نے کبھی اس کی ماں اور بہن کا ذکر نہیں کیا تھا۔

اندگی افتاں و خیزاں گزر رہی تھی۔ ادھر گوجرانوالہ میں‌ اللہ دتہ اپنے بھائی کے مقابلے میں کسی قدر خوش حال تھا، کیونکہ اسے بھی ملازمت مل گئی تھی اور زینب بھی تھوڑا بہت سلائی کا کام کر لیتی تھی۔ مل ملا کے کوئی سو روپے ماہوار ہو جاتے تھے جو تینوں کے لیے بہت کافی تھے۔

مکان چھوٹا تھا، مگر ٹھیک تھا۔ اوپر کی منزل میں طفیل رہتا تھا، نچلی منزل میں زینب اور اس کا باپ۔ دونوں ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اللہ دتا اسے زیادہ کام نہیں کرنے دیتا تھا۔ چنانچہ منہ اندھیرے اٹھ کر وہ صحن میں جھاڑو دے کر چولہا سلگا دیتا تھا کہ زینب کا کام کچھ ہلکا ہو جائے۔ وقت ملتا تو وہ دو تین گھڑے بھر کر گھڑونچی پر رکھ دیتا تھا۔

زینب نے اپنے شہید خاوند کو کبھی یاد نہیں کیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اس کی زندگی میں کبھی تھا ہی نہیں۔ وہ خوش تھی۔ اپنے باپ کے ساتھ بہت خوس تھی۔ بعض اوقات وہ اس سے لپٹ جاتی تھی ------ طفیل کے سامنے بھی، اور اس کو خوب چومتی تھی۔

صغریٰ اپنے باپ سے ایسے چہل نہیں کرتی تھی۔ اگر ممکن ہوتا تو وہ اس سے پردہ کرتی۔ اس لیے نہیں کہ وہ کوئی نامحرم تھا۔ نہیں، صرف احترام کے لیے۔ اس کے دل سے کئی دفعہ یہ دعا اٹھتی تھی۔ “ یا پروردگار، میرا باپ میرا جنازہ اٹھائے۔“

بعض اوقات کئی دعائیں الٹی ثابت ہوتی ہیں۔ جو خدا کو منظور تھا، وہی ہونا تھا۔ غریب صغریٰ کے سر پر غم و اندوہ کا ایک پہاڑ ٹوٹنا تھا۔

جون کے مہینے دوپہر کو دفتر کے کسی کام پر جاتے ہوئے تپتی ہوئی سڑک پر اللہ رکھا کو ایسی لُو لگی کہ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ لوگوں نے اٹھایا۔ ہسپتال پہنچایا مگر دوا دارو نے کوئی کام نہ کیا۔

صغریٰ باپ کی موت کے صدمے سے نیم پاگل ہو گئی۔ اس نے قریب قریب اپنے آدھے بال نوچ ڈالے۔ ہمسایوں نے بہت دم دلاسا دیا۔ مگر یہ کارگر کیسے ہوتا۔ وہ تو ایس کشتی کے مانند تھی، جس کا بادبان ہو نہ کوئی پتوار اور بیچ منجدار کے آن پھنسی ہو۔

پٹیالہ کے وہ افسر جنہوں نے مرحوم اللہ رکھا کو ملازمت دلوائی تھی، فرشتہ رحمت ثابت ہوئے۔ ان کو جب اطلاع ملی تو دوڑے آئے۔ سب سے پہلے انہوں نے یہ کام کیا کہ صغریٰ کو موٹر میں بٹھا کر گھر چھوڑ آئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ وہ اس کا خیال رکھے۔ پھر ہسپتال جا کر انہوں نے اللہ رکھا کے غسل وغیرہ کا وہیں انتظام کیا اور دفتر والوں سے کہا کہ وہ اس کو دفنا آئیں۔

اللہ دتا کو اپنے بھائی کے انتقال کے خبر بڑی دیر کے بعد ملی۔ بہر حال وہ لاہور آیا اور پوچھتا پاچھتا وہاں پہنچ گیا جہاں صغریٰ تھی۔ اس نے اپنی بھتیجی کو بہت دم دلاسا دیا۔ بہلایا۔ سینے کے ساتھ لگایا، پیار کیا۔ دنیا کی بےثباتی کو ذکر کیا۔ بہادر بننے کو کہا، مگر صغریٰ کے پھٹے ہوئے دل پر ان تمام باتوں کا کیا اثر ہوتا۔ غریب خاموش اپنے آنسو دوپٹے میں خشک کرتی رہی۔

اللہ دتا نے افسر صاحب سے آخر میں کہا، “ میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں۔ میری گردن آپ کے احسانوں تلے ہمیشہ جھکی رہے گی۔ مرحوم کی تجہیز و تکفین کا آپ نے بندوبست کیا۔ پھر یہ بچی جو بالکل بے آسرا رہ گئی تھی، اس کو آپ نے اپنے گھر میں جگہ دی۔ خدا آپ کو اس کا اجر دے۔ اب میں اسے اپنے ساتھ لیے جاتا ہوں۔ میرے بھائی کی بڑی قیمتی نشانی ہے۔“

افسر صاحب نے کہا، “ ٹھیک ہے، لیکن تم اسے کچھ دیر اور یہاں رہنے دو۔ طبیعت سنبھل جائے تو لے جانا۔“

اللہ دتا نے کہا، “ حضور میں نے ارادہ کیا ہے کہ اس کی شادی اپنے لڑکے سے کروں گا اور بہت جلد۔“

افسر صاحب بہت خوش ہوئے۔ “ بڑا نیک ارادہ ہے۔ لیکن اس صورت میں جب کہ تم اس کی شادی اپنے لڑکے سے کرنے والے ہو، اس کا اس گھر میں رہنا مناسب نہیں۔ تم شادی کا بندوبست کرو، مجھے تاریخ سے مطلع کر دینا۔ خدا کے فضل و کرم سے سب ٹھیک ہو جائے گا۔“

بات درست تھی۔ اللہ دتا واپس گوجرانوالہ چلا گیا۔ زینت اس کی غیر موجودگی میں بہت اداس ہو گئی۔ جب وہ گھر میں داخل ہوا تو اس سے لپٹ گئی اور کہنے لگی کہ اس نے اتنی دیر کیوں لگائی۔

اللہ دتا نے پیار سے اسے ایک طرف ہٹایا، “ ارے بابا، آنا جانا کیا ہے، قبر پر فاتح پڑھنی تھی۔ صغریٰ سے ملنا تھا، اسے یہاں لانا تھا۔

زینب نہ معلوم کیا سوچنے لگی۔ “ صغریٰ کو یہاں لانا تھا۔“ ایک دم چونک کر، “ ہاں ------ صغریٰ کو یہاں لانا تھا۔ پر وہ کہاں ہے؟“

“ وہیں ہے۔ پٹیالے کے ایک بڑے نیک دل افسر ہیں، ان کے پاس ہے۔ انہوں نے کہا جب تم اس کی شادی کا بندوبست کر لو گے تو لے جانا۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے بیڑی سلگائی۔

زینب نے بڑی دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔ “ اس کی شادی کا بندوبست کر رہے ہو۔ کوئی لڑکا ہے تمہاری نظر میں؟“

اللہ دتا نے زور کا کش لیا۔ “ ارے بھئی اپنا طفیل۔ میرے بڑے بھائی کی صرف ایک ہی نشانی تو ہے۔ میں اسے کیا غیروں کے حوالے کر دوں گا۔“

زینب نے ٹھنڈی سانس بھری۔ “ تو صغریٰ کی شادی تم طفیل سے کرو گے؟“

اللہ دتا نے جواب دیا۔ “ ہاں، کیا تمہیں کوئی اعتراض ہے؟“

زینب نے بڑے مضبوط لہجے میں ‌کہا، “ ہاں ------ اور تم جانتے ہو، کیوں ہے ------ یہ شادی ہرگز نہیں ہو گی۔“

اللہ دتا مسکرایا۔ زینب کی تھوڑی پکڑ کر اس نے اس کا منہ چوما۔ “ پگلی ------ ہر بات پر شک کرتی ہے۔ ------ اور باتوں کو چھوڑ، آخر میں تمہارا باپ ہوں۔“

زینب نے بڑے زور سے ہونہہ کی “ باپ۔“ اور اندر کمرے میں جا کر رونے لگی۔

اللہ دتا اس کے پیچھے گیا اور اس کو پچکارنے لگا۔

دن گزرتے گئے۔ طفیل فرمانبردار لڑکا تھا۔ جب اس کے باپ نے صغریٰ کی بات کی تو وہ فوراً مان گیا۔ آخر تین چار مہینے کے بعد تاریخ مقرر ہر گئی۔ افسر صاحب نے فوراً صغریٰ کے لیے ایک بہت اچھا جوڑا سلوایا جو اسے شادی کے دن پہننا تھا۔ ایک انگوٹھی بھی لے دی۔ پھر اس نے محلے والوں سے اپیل کی کہ وہ ایک یتیم لڑکی کی شادی کے لیے جو بالکل بے سہارا ہے، حسبِ توفیق کچھ دیں۔

صغریٰ کو قریب قریب سبھی جانتے تھے اور اس کے حالات سے واقف تھے، چنانچہ انہوں نے مل ملا کر اس کے لیے بڑا اچھا جہیز تیار کر دیا۔

صغریٰ دلہن بنی تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ تمام دکھ جمع ہو گئے ہیں اور اس کو پیس رہے ہیں۔ بہرحال وہ اپنے سسرال پہنچی جہاں اس کا استقبال زینب نے کیا۔ کچھ اس طرح کہ صغریٰ کو اسی وقت معلوم ہو گیا کہ وہ اس کے ساتھ بہنوں کا سا سلوک نہیں کرئے گی بلکہ ساس کی طرح پیش آئے گی۔

صغریٰ کا اندیشہ درست تھا۔ اس کے ہاتھوں کی مہندی ابھی اچھی طرح اترنے بھی نہیں پائی تھی کہ زینب نے اس سے نوکروں کے کام لینے شروع کر دیئے۔ جھاڑو دیتی، برتن وہ مانجھتی، چولہا وہ جونکتی، پانی وہ بھرتی، یہ سب کام وہ بڑی پھرتی اور بڑے سلیقے سے کرتی لیکن پھر بھی زینب خوش نہ ہوتی۔ بات بات پر اس کو ڈانتی ڈپٹتی، جھڑکتی رہتی۔

صغریٰ نے دل میں تہیہ کر لیا تھا، وہ یہ سب کچھ برداشت کرئے گی اور کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائے گی۔ کیونکہ اگر اسے یہاں سے دھکا مل گیا تو اس کے لیے اور کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔

اللہ دتا کا سلوک البتہ اس سے برا نہیں تھا۔ زینب کی نظر بچا کر کبھی کبھی وہ اس کو پیار کر لیتا تھا اور کہتا تھا کہ وہ کچھ فکر نہ کرئے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔

صغریٰ کو اس سے بہت ڈھارس ہوتی۔ زینب جب کبھی اپنی کسی سہیلی کے ہاں جاتی اور اللہ دتا اتفاق سے گھر پر ہوتا تو وہ اس سے دل کھول کر پیار کرتا۔ اس سے بڑی میٹھی میٹھی باتیں کرتا۔ کام میں اس کا ہاتھ بٹاتا۔ اس کے واسطے اس نے جو چیزیں چھپا کر رکھی ہوتی تھیں، دیتا اور سینے کے ساتھ لگا کر اس سے کہتا، “ صغریٰ تم بڑی پیاری ہو۔“

صغریٰ جھینپ جاتی۔ در اصل وہ اتنے پرجوش پیار کی عادی نہیں تھی۔ اس کا مرحوم باپ اگر کبھی اسے پیار کرنا چاہتا تھا تو صرف اس کے سر پر ہاتھ پھیر دیا کرتا تھا یا اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ دعا دیا کرتا تھا “ خدا میری بیٹی کے نصیب اچھے کرئے۔“

صغریٰ طفیل سے بہت خوش تھی۔ وہ بڑا اچھا خاوند تھا۔ جو کماتا تھا اس کے حوالے کر دیتا تھا، مگر صغریٰ زینب کو دے دیتی تھی۔ اس لیے کہ وہ اس کے قہر و غضب سے ڈرتی تھی۔

طفیل سے صغریٰ نے زینب کی بدسلوکی اور اس کے ساس ایسے برتاؤ کا کبھی ذکر نہیں کیا تھا۔ وہ صلح کل تھی۔ وہ نہین چاہتی تھی کہ اس کے باعث گھر میں کسی قسم کی بدمزگی پیدا ہو۔ اور بھی کئی باتیں تھیں جو وہ طفیل سے کہنا چاہتی تہ کہہ دیتی مگر اسے ڈر تھا کہ طوفان برپا ہو جائے گا۔ اور تو اس میں سے بچ کر نکل جائیں گے مگر وہ اکیلی اس میں پھنس جائے گی، اور اس کی تاب نہ لا سکے گی۔

یہ خاص باتیں اسے چند روز ہوئے معلوم ہوئی تھیں اور وہ کانپ کانپ گئی تھی۔ اب اللہ دتا اسے پیار کرنا چاہتا تو وہ الگ ہٹ جاتی، یا دوڑ کر اوپر چلی جاتی جہاں وہ اور طفیل رہتے تھے۔

طفیل کو جمعہ کو چھٹی ہوتی تھی۔ اللہ دتا کو اتوار کو۔ زینب کہیں باہر گئی ہوتی تو وہ جلدی جلدی کام کاج ختم کر کے اوپر چلی جاتی۔ اگر اتفاق سے اتوار کو زینب کہیں باہر گئی ہوتی تو صغریٰ کی جان پر بنی رہتی۔ ڈر کے مارے اس سے کام نہ ہوتا۔ لیکن زینت کا خیال آتا تو اسے مجبوراً کانپتے ہاتھوں اور دھڑکتے دل سے طوعاً و کرہاً سب کچھ کرنا پڑتا۔ اگر وہ کھانا وقت پر نہ پکائے تو اس کا خاوند بھوکا رہے کیونکہ وہ ٹھیک بارہ بجے اپنا شاگرد روٹی کے لیے بھیج دیتا تھا۔

ایک دن اتوار کو جب کہ زینب گھر پر نہیں تھی، اور وہ آٹا گوند رہی تھی، اللہ دتا پیچھے سے دبے پاؤں آیا اور کھلنڈرے انداز میں اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئے۔ وہ تڑپ کر اٹھی، مگر اللہ دتا نے اسے اپنی مضبوط گرفت میں لے لیا۔

صغریٰ نے چیخنا شروع کر دیا مگر وہاں سننے والا کون تھا۔ اللہ دتا نے کہا، “ شور مت مچاؤ۔ یہ سب بے فائدہ ہے ------ چلو آؤ۔“

وہ چاہتا تھا کہ صغریٰ کو اٹھا کر اندر لے جائے۔ کمزور تھی مگر خدا جانے اس میں کہاں سے اتنی طاقت آ گئی کہ اللہ دتا کی گرفت سے نکل گئی اور ہانپتی کانپتی اوپر پہنچ گئی۔ کمرے میں داخل ہو کر اس نے اندر سے کنڈی چڑھا دی۔

تھوڑی دیر کے بعد زینب آ گئی۔ اللہ دتا کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ اندر کمرے میں لیٹ کر اس نے زینب کو پکارا۔ وہ آئی تو اس سے کہا، “ ادھر آؤ، میری ٹانگیں دباؤ۔ زینب اچک کر پلنگ پر بیٹھ گئی اور اپنے باپ کی ٹانگیں دبانے لگی ------ تھوڑی دیر کے بعد دونوں کے سانس تیز تیز چلنے لگے۔

زینب نے اللہ دتا سے پوچھا۔ “‌کیا بات ہے؟ آج تم اپنے آپ میں نہیں ہو۔“

اللہ دتا نے سوچا زینب سے چھپانا فضول ہے، چنانچہ اس نے سارا ماجرا بیان کر دیا۔ زینب آگ بگولا ہو گئی۔ “ کیا ایک کافی نہیں تھی ------ تمہیں تو شرم نہ آئی، پر اب تو آنی چاہیے تھی ------ مجھے معلوم تھا کہ ایسا ہو گا، اسی لیے میں شادی کے خلاف تھی ------ اب سن لو کہ صغریٰ اس گھر میں نہیں رہے گی۔“

اللہ دتا نے بڑے مسکین لہجے میں پوچھا “کیوں؟“

زینب نے کھلے طور پر کہا، “ میں اس گھر میں اپنی سوت دیکھنا نہیں چاہتی۔“

اللہ دتا کا حلق خشک ہو گیا۔ اس کے منہ سے کوئی بات نکل نہ سکی۔

زینب باہر نکلی تو اس نے دیکھا کہ صغریٰ صحن میں جھاڑو دے رہی ہے۔ چاہتی تھی کہ اس سے کچھ کہے مگر خاموش رہی۔

اس واقعے کو دو مہینے گزر گئے ------ صغریٰ نے محسوس کیا کہ طفیل اس سے کھچا کھچا رہتا تھا۔ ذرا ذرا سی بات پر اس کو شک کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ آخر ایک دن آیا کہ اس نے طلاق نامہ اس کے ہاتھ میں‌ دیا اور گھر سے باہر نکال دیا۔
۔۔۔۔۔۔ ختم شد ۔۔۔۔۔۔
--------------------------------------------------------
تبصرے اور تجاویز کے لیے مندرجہ ذیل ربط استعمال کیجیئے :
http://www.urduweb.org/mehfil/viewtopic.php?t=6734
 

شمشاد

لائبریرین
سعادت حسن منٹو

کھول دو

امر تسر سے اسپيشل ٹرين دوپہر دو بجے کو چلي آٹھ گھنٹوں کے بعد مغل پورہ پہنچي، راستے میں کئي آدمي مارے گئے، متعدد زخمي اور کچھ ادھر ادھر بھٹک گئے۔

صبح دس بجے ۔۔۔۔کيمپ کي ٹھنڈي زمین پرجب سراج الدين نے آنکھيں کھوليں، اور اپنے چاروں طرف مردوں، عورتوں اور بچوں کا ايک متلاطم سمندر ديکھا تو اس کي سوچنے کي قوتيں اور بھي ضعيف ہوگئيں، وہ دير تک گدلے آسمان کو ٹکٹکي باندھے ديکھتا رہا، يو تو کيمپ ميں ہر طرف شور برپا تھا، ليکن بوڑھے سراج الدين کے کان جيسے بند تھے، اسے کچھ سنائي نہيں ديتا تھا، کوئي اسے ديکھتا تو يہ خيال کرتا تھا، کہ وہ کسي گہري فکر ميں غرق ہے، اسے کچھ سنائي نہيں ديتا ہے، اس کے حوش و حواس شل تھے، اس کا سارا وجود خلا میں معلق تھا۔

گدلے آسمان کي طرف بغير کسي ارادے کے ديکھتے ديکھتے سراج الدين کي نگاہيں سورج سے ٹکرائيں، تيز روشني اس کے وجود کے رگ و ريشے ميں اتر گئي اور وہ جاگ اٹھا، اوپر تلے اس کے دماغ پر کئي تصويريں دوڑ گئيں، لوٹ، آگ۔۔۔۔۔بھاگم بھاگ۔۔۔۔۔اسٹیشن۔۔۔۔گولياں۔۔۔۔رات اور سکينہ۔۔۔سراج الدين ايک دم اٹھ کھڑا ہوا اور پاگلوں کي طرح اس نے اپنے چاروں طرف پھليے ہوئے انسانوں کے سمندر کو کھٹکانا شروع کيا۔

پورے تين گھنٹے وہ سکينہ سکينہ پکارتا کيمپ کي خاک چھانتا رہا، مگر اسے اپني جوان اکلوتي بيٹي کا پتہ نہ چل سکا،چاروں طرف ايک دھاندلي سي مچي ہوئي تھي، کوئي اپنا بچہ ڈھونڈ رہا تھا، کوئي ماں، کوئي بيوي اور کوئي بيٹي، سراج الدين تھک ہار کر ايک طرف بيٹھ گيا، اور حافظے پر زور دينے لگا، کہ سکينہ اس سے کب اور کہاں جدا ہوئي تھي ليکن سوچتے سوچتے اس کا دماغ سکينہ کي ماں کي لاش پر جا کر جم جاتا ہے، جس کي ساري انتڑياں باہر نکلي ہوئي تھيں، اس سے آگے وہ اور کچھ نہ سوچ سکا۔

سکينہ کي ماں مر چکي تھي، اس نے سراج الدين کي آنکھوں کے سامنے دم توڑا تھا، ليکن سکينہ کہاں تھي، جس کے متعلق اس کي ماں نے مرتے ہوئے کہا تھا، مجھے چھوڑ دو اور سکينہ کو لے کر جلدي يہاں سے بھاگ جاؤ۔

سکينہ اس کے ساتھي ہي تھي، دونوں ننگے پاؤں بھاگ رہے تھے، سکينہ کا دوپٹہ گر پڑا تھا، اسے اٹھانے کيلئے سراج الدين نے رکنا چاہا مگر سکينہ نے چلا کر کہا ابا جي ۔۔۔۔۔چھوڑئيے، ليکن اس نے دوپٹہ اٹھا ليا تھا۔۔۔يہ سوچتے سوچتے اس نے اپنے کوٹ کي بھري ہوئي جيب کي طرف ديکھا اور ميں ہاتھ ڈال کر ايک کپڑا نکالا۔۔۔۔۔سکينہ کا وہي دوپٹا تھا۔۔۔۔ليکن سکينہ کہاں تھي؟

سراج الدين نے اپنے تھکے ہوئے دماغ پر بہت زور ديا مگر وہ کسي نتيجہ پر نہ پہنچ سکا، کيا وہ سکينہ کو اپنے ساتھ اسٹيشن لے آيا تھا؟۔۔۔۔کيا وہ اس کے ساتھ ہي گاڑي ميں سوار تھي؟۔۔۔ راستہ ميں جب گاڑي روکي گئي تھي اور بلوائي اندر گھس آئے تھے تو کيا وہ بے ہوش تھا جو وہ سکينہ کو اٹھا کر لئے گئے؟

سراج الدين کے دماغ ميں سوال ہي سوال تھے، جواب کوئي بھي نہيں تھا، اس کو ہمدردي کي ضرورت تھي، ليکن چاروں طرف جتنے بھي انسان پھيلے ہوئے تھے، سب کو ہمدردي کي ضرورت تھي، سراج الدين نے رونا چاہا، مگر آنکھوں نے اس کي مدد نہ کي، آنسو جانے کہاں غائب ہوگئے تھے۔ چھ روز کے بعد جب ہوش و حواس کسي قدر درست ہوئے تو سراج ان لوگوں سے ملا جو اس کي مدد کرنے کيلئے تيار تھے، آٹھ نوجوان تھے، جن کے پاس لاري تھي، بندوقيں تھيں، سراج الدين نے ان کو لاکھ لاکھ دعائيں ديں اور سکينہ کا حليہ بتايا، گورا رنگ ہے، بہت ہي خوبصورت ہے ۔۔۔۔مجھ پر نہيں اپني ماں پر تھي۔۔۔۔عمر سترہ برس کے قريب اکلوتي لڑکي ہے، ڈھونڈ لاؤ، تمہارا خدا بھلا کرے گا۔

رضاکار نوجوانوں نے بڑے جذبے کے ساتھ بوڑھے سراج الدين کو يقين دلايا کہ اگر اس کي بيٹي زندہ ہوئي تو چند ہي دنوں ميں اس کے پاس ہوگي۔

آٹھوں نوجوانوں نے کوشش کي، جان ہتھيلي پر رکھ کر وہ امرتسر گئے، کئي عورتوں کئ مردوں اور کئي بچوں کو نکال نکال کر انہوں نے محفوظ مقاموں پر پہنچايا، دس روز گزر گئے مگر انہيں سکينہ نہ ملي۔

ايک روز وہ اسي خدمت کيلئے لاري پر امر تسر جا رہے تھے، کہ چھ ہرٹہ کے پاس سڑک پر انہيں ايک لڑکي دکھائي دي، لاري کي آواز سن کر وہ بدکي اور بھاگنا شروع کرديا، رضاکاروں نے موٹر روکي اور سب کے سب اس کے پيچھے بھاگے، ايک کھيت ميں انہوں نے لڑکي کو پکڑ ليا، ديکھا تو بہت ہي خوبصورت تھي، دہنے گال پر موٹا تل تھا، ايک لڑکے نے اس سے کہا گھبراؤ نہيں۔۔۔۔۔۔کيا تمہارا نام سکينہ ہے؟

لڑکي کا رنگ اور بھي زرد ہوگيا، اس نے کوئي جواب نہ ديا، ليکن جب تمام لڑکوں نے اسے دم سلاسہ ديا تو اسکي وحشت دور ہوئي اس نے مان ليا کہ وہ سراج الدين کي بيٹي سکينہ ہے۔

آٹھ رضا کار نوجوانوں نے ہر طرح سے سکينہ کي دل جوئي کي، اسے کھانا کھلايا، دودھ پلايا، اور لاري ميں بيٹھا ديا، ايک نے اپنا کوٹ اتار کر اسے دے ديا، کيونکہ دوپٹہ نہ ہونے کے باعث وہ بہت الجھن محسوس کر رہي تھي، اور بار بار بانہوں سے اپنے سينے کو ڈھانکنے کي ناکام کوشش ميں مصروف تھي۔ کئي دن گزر گئے ۔۔۔۔۔۔۔سراج الدين کو سکينہ کي کوئي خبر نہ ملي، وہ دن بھر مختلف کميپوں اور دفتروں کے چکر کاٹتا رہتا، ليکن کہيں سے بھي اسکي بيٹي سکينہ کا پتہ نہ چلا سکا، رات کو وہ بہت دير تک ان رضاکر نوجوانوں کي کاميابي کيلئے دعائيں مانگتا رہا، جنہوں نے اسکو يقين دلايا تھا کہ اگر سکينہ زندہ ہوئي تو چند ہي دنوں ميں وہ اسے ڈھونڈ نکاليں گے۔

ايک روز سراج الدين نے کيمپ میں ان نوجوان رضا کاروں کو ديکھا، لاري میں بيٹھے تھے، سراج الدين بھاگا بھاگا ان کے پاس گيا، لاري چلنے والي تھي کہ اس نے پوچھا بيٹا میري سکينہ کا پتہ چلا؟

سب نے يک زبان ہو کر کہا چل جائے گا، چل جائے گا اور لاري چلادي۔

سراج الدين نے ايک بار پھر ان نوجوانوں کي کاميابي کيلئے دعا مانگي اور اس کا جي کس قدر ہلکا ہوگيا، شام کے قريب کيمپ ميں جہاں سراج الدين بيٹھا تھا، اس کے پاس ہي کچھ گڑبڑ سي ہوئي چار آدمي کچھ اٹھا کر لارہے تھے، اس نے دريافت کيا تو معلوم ہو کہ ايک لڑکي ريلوے لائن کے پاس بے ہوش پڑي تھي، لوگ اسے اٹھا کر لائے ہیں، سراج الدين ان کے پيچھے پيچھے ہوليا، لوگوں نے لڑکي کو اسپتال والوں کے سپرد کيا اور چلے گئے۔

کچھ دير بعد ايسے ہي اسپتال کے باہر گڑے ہوئے لکڑي کے کھمبے کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا، پھر آہستہ آہستہ اندر چلا گيا، کمرے ميں کوئي نہیں تھا، ايک اسٹيريچر تھا، جس پر ايک لاش پڑي تھي، سراج الدين چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کي طرف بڑھا، کمرے ميں دفعتا روشني ہوئي سراج الدين نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہو تل ديکھا اور چلايا، سکينہ۔

ڈاکٹر نے جس نے کمرے ميں روشني کي تھي، سراج الدين سے پوچھا کيا ہے؟

سراج الدين کے حلق سے صرف اس قدر نکل سکا، جي میں ۔۔۔۔۔ جي میں۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا باپ ہوں۔

ڈاکٹر نے اسٹريچر پر پڑي ہوئي لاش کي طرف ديکھا، اس کي نبض ٹٹولي اور سراج الدين سے کہا کھڑکي کھول دو۔

سکينہ کے مردہ جسم ميں جنبش پيدا ہوئي ، بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نيچے سرکا ديا، بوڑھا سراج الدين خوشي سے چلايا، زندہ ہے۔۔۔۔۔۔ميري بيٹی زندہ ہے۔۔۔۔ڈاکٹر سر سے پير تک پسينے ميں غرق ہوگيا۔

۔۔۔۔۔۔ ختم شد ۔۔۔۔۔۔
--------------------------------------------------------------------------------------------
تبصرے اور تجاویز کے لیے مندرجہ ذیل ربط استعمال کیجیئے :
http://www.urduweb.org/mehfil/viewtopic.php?t=6734
 

شمشاد

لائبریرین
سعادت حسن منٹو

بلاؤز

کچھ دنوں سے مومن بہت بے قرار تھا۔ اس کا وجود کچا پھوڑا سا بن گیا تھا۔ کام کرتے وقت، باتیں کرتے ہوئے، حتٰی کہ سوچتے ہوئے بھی اسے ایک عجیب قسم کا درد محسوس ہوتا تھا۔ ایسا درد جس کو اگر وہ بیان کرنا چاہتا تو نہ کر سکتا۔

بعض اوقات بیٹھے بیٹھے وہ ایک دم چونک پڑتا۔ دھندلے دھندلے خیالات جو عام حالتوں میں بے آواز بلبلوں کی طرح پیدا ہو کر مٹ جایا کرتے ہیں مومن کے دماغ میں بڑے شور کے ساتھ پیدا ہوتے اور شور ہی کے ساتھ پھٹتے۔ اس کے دل و دماغ کے نرم و نازک پردوں پر ہر وقت جیسے خار دار پاؤں والی چیونٹیاں سی رینگتی رہتی تھیں۔ ایک عجیب قسم کا کھنچاؤ اس کے اعضا میں پیدا ہو گیا تھا جس کے باعث اسے بہت تکلیف ہوتی تھی۔ اس تکلیف کی شدت جب بڑھ جاتی تو اس کے جی میں آتا کہ اپنے آپ کو ایک بڑے سے ہاون میں ڈال دے اور کسی سے کہے کہ مجھے کوٹنا شروع کردیں۔

باورچی خانے میں گرم مصالحہ جات کوٹتے وقت جب لوہے سے لوہا ٹکراتا اور دھمکوں سے چھت میں ایک گونج سی دوڑ جاتی تو مومن کے ننگے پیروں کو یہ لرزش بہت بھلی معلوم ہوتی۔ پیروں کے ذریعے یہ لرزش اس کی تنی ہوئی پنڈلیوں اور رانوں میں دوڑتی ہوئی اس کے دل تک پہنچ جاتی جو تیز ہوا میں رکھے ہوئے دیےکی لو کی طرح کانپنا شروع کردیتا۔

مومن کی عمر پندرہ برس تھی۔ شاید سولہواں بھی لگا ہو۔ اسے اپنی عمر کے متعلق صحیح اندازہ نہیں تھا۔ وہ ایک صحت مند اور تندرست لڑکا تھا جس کا لڑکپن تیزی سے جوانی کے میدان کی طرف بھاگ رہا تھا۔ اسی دوڑ نے جس سے مومن بالکل غافل تھا اس کے لہو کے ہر قطرے میں سنسنی پیدا کردی۔ وہ اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا مگر ناکام رہتا۔

اس کے جسم میں کئی تبدیلیاں ہو رہی تھیں۔ گردن جو پہلے پتلی تھی اب موٹی ہوگئی تھی۔ بانہوں کے پٹھوں میں اینٹھن سی پیدا ہو گئی تھی۔ کنٹھ نکل رہاتھا۔ سینے پر گوشت کی موٹی تہہ ہو گئی تھی اور اب کچھ دنوں سے پستانوں میں گولیاں سی پڑ گئی تھیں، جگہ ابھر آئی تھی جیسے کسی نے ایک بنٹا اندر داخل کر دیا ہے۔ ان ابھاروں کو ہاتھ لگانے سے مومن کو بہت درد محسوس ہو تا تھا۔ کبھی کبھی کام کرنے کے دورا ن میں غیر ارادی طور پر جب کا ہاتھ ان گولیوں سے چھو جاتا تو وہ تڑپ اٹھتا۔ قمیض کے موٹے اور کھردرے کپڑے سے بھی اس کی تکلیف دہ سرسراہٹ محسوس ہوتی تھی۔

غسل خانے میں نہاتے وقت یا باورچی خانہ میں جب کوئی اورموجود نہ ہوتا۔ مومن اپنے قمیض کے بٹن کھول کر ان گولیوں کو غور سے دیکھتا۔ ہاتھوں سے مسلتا۔ درد ہوتا، ٹیسیں اٹھتیں جیسے جسم پھلوں سے لدے ہوئے پیڑ کی طرح زور سے ہلا دیا گیا ہو۔ کانپ کانپ جاتا مگر اس کے باوجود وہ اس درد پیدا کرنے والے کھیل میں مشغول رہتا۔ کبھی کبھی زیادہ دبانے پر یہ گولیاں پچک جاتیں اور ان کے منہ سے ایک لیس دار لعاب نکل آتا۔ اس کو دیکھ کر اس کا چہرہ کان کی لوؤں تک سرخ ہو جاتا۔ وہ یہ سمجھتا کہ اس سے کوئی گناہ سر زد ہو گیا ہے۔ گناہ اور ثواب کے متعلق مومن کا علم بہت محدود تھا۔ ہر وہ فعل جو ایک انسان دوسرے انسان کے سامنے نہ کر سکتا ہو، اس کے خیال کے مطابق گناہ تھا۔ چنانچہ جب شرم کے مارے اس کا چہرہ کان کی لوؤں تک سرخ ہو جاتا تو وہ جھٹ سے اپنی قمیض کے بٹن بند کرلیتا اور دل میں عہد کرتا کہ آئندہ ایسی فضول حرکت کبھی نہیں کر ے گا لیکن اس عہد کے باوجود دوسرے یا تیسرے روز تخلیے میں وہ پھر اسی کھیل میں مشغول ہو جاتا۔

مومن کا بھی بالکل یہی حال تھا۔ وہ کچھ دنوں سے موڑ مڑتا زندگی کے ایک ایسے راستے پر آنکلا تھا جو زیادہ لمبا تو نہیں تھا مگر بے حد پُرخطر تھا۔ اس راستے پر اس کے قدم کبھی تیز تیز اٹھتے تھے، کبھی ہولے ہولے۔ وہ در اصل جانتا نہیں تھا کہ ایسے راستوں پر کس طرح چلنا چاہئے۔ انہیں جلدی طے کرنا چاہئے یا کچھ وقت لے کر آہستہ آہستہ ادھر ادھر کی چیزوں کا سہارا لے کر طے کرنا چاہئے۔ مومن کے ننگے پاؤں کے نیچے آنے والے شباب کی گول گول چکنی بنٹیاں پھسل رہی تھیں۔ وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکتا تھا۔ اس لئے بے حد مضطرب تھا۔ اسی اضطراب کے باعث کئی بار کام کرتے کرتے چونک کر وہ غیر ارادی طور پر کسی کھونٹی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیتا اور اس کے ساتھ لٹک جاتا۔ پھر اس کے د ل میں خواہش پیدا ہوتی کہ ٹانگوں سے پکڑ کر اسے کوئی اتنا کھینچے کہ وہ ایک مہین تار بن جائے۔ یہ سب باتیں اس کے دماغ کے کسی ایسے گوشے میں پیدا ہوتی تھیں کہ وہ ٹھیک طور پر ان کا مطلب نہیں سمجھ سکتا تھا۔

مومن سے سب گھر والے خوش تھے۔ بڑا محنتی لڑکا تھا۔ جب ہر کام وقت پر کردیتا تو کسی کو شکایت کا موقع کیسے ملتا۔ ڈپٹی صاحب کے یہاں اسے کام کرتے ہوئے صرف تین مہینے ہوئے تھے لیکن اس قلیل عرصے میں اس نے گھر کے ہر فرد کو اپنی محنت کش طبعیت سے متاثر کرلیا تھا۔ چھ روپے مہینے پر نوکر ہوا تھا مگر دوسرے مہینے ہی اس کی تنخواہ میں دو روپے بڑھا دئے گئے تھے۔ وہ اس گھر میں بہت خوش تھا اس لئے کہ اس کی یہاں قدر کی جاتی تھی مگر اب کچھ دنوں سے وہ بے قرار تھا۔ ایک عجیب قسم کی آوارگی اس کے دماغ میں پیدا ہو گئی تھی۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ سارا دن بے مطلب بازاروں میں گھومتا پھرے یا کسی سنسان مقام پر جا کر لیٹا رہے۔

اب کام میں اس کا جی نہیں لگتا تھا لیکن اس بے دلی کے ہوتے ہوئے بھی وہ کاہلی نہیں برتتا تھا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ گھر میں کوئی بھی اس کے اندرونی انتشار سے واقف نہیں تھا۔ رضیہ تھی سو وہ دن بھر باجہ بجانے، نئی نئی فلمی طرزیں سیکھنے اور رسالے پڑھنے میں مصروف رہتی تھی۔ اس نے کبھی مومن کی نگرانی ہی نہ کی تھی۔ شکیلہ البتہ مومن سے ادھر ادھر کے کام لیتی تھی اور کبھی کبھی اسے ڈانٹتی بھی تھی مگر اب کچھ دنوں سے وہ بھی چند بلاؤزوں کے نمونے اتارنے میں بے طرح مشغول تھی۔ یہ بلاؤز اس کی ایک سہیلی کے تھے جسے نئی نئی تراشوں کے کپڑے پہننے کا بے حد شوق تھا۔ شکیلہ اس سے آٹھ بلاؤز مانگ کر لائی تھی اور کاغذوں پر ان کے نمونے اتار رہی تھی چنانچہ اس نے بھی کچھ دنوں سے مومن کی طرف دھیان نہیں دیا تھا۔

ڈپٹی صاحب کی بیوی سخت گیر عورت نہیں تھی۔ گھر میں دو نوکر تھے یعنی مومن کے علاوہ ایک بڑھیا بھی تھی جو زیادہ تر باورچی خانے کا کام کرتی تھی۔ مومن کبھی کبھی اس کا ہاتھ بٹا دیا کرتا تھا۔ ڈپٹی صاحب کی بیوی نے ممکن ہے مومن کی مستعدی میں کوئی کمی دیکھی ہو مگر اس نے مومن سے اس کا ذکر نہیں کیا تھا اور وہ انقلاب جس میں مومن کا دل و دماغ اور جسم گزر رہا تھا، اس سے تو ڈپٹی صاحب کی بیوی بالکل غافل تھی۔ چونکہ اس کا کوئی لڑکا نہیں تھا اس لئے وہ مومن کی ذہنی اور جسمانی تبدیلیوں کو نہیں سمجھ سکی اور پھر مومن نوکر تھا.... نوکروں کے متعلق کون غور و فکر کرتا ہے۔ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک وہ تمام منزلیں پیدل طے کرجاتے ہیں اور آس پاس کے آدمیوں کو خبر تک نہیں ہوتی۔

غیر شعوری طور پر وہ چاہتا تھا کہ کچھ ہو.... کیا ہو؟ .... بس کچھ ہو۔ میز پر قرینے سے چنی ہوئی پلیٹیں ایک دم اچھلنا شروع کریں۔ کیتلی پر رکھا ہوا ڈھکا پانی ایک ہی ابال سے اوپر کو اڑ جائے۔ نل کی جستی نال پر دباؤ ڈالے تو وہ دوہری ہو جائے اور اس میں سے پانی کا ایک فوارہ سا پھوٹ نکلے۔ اسے ایک ایسی زبردست انگڑائی آئے کہ اس کے سارے جوڑ جوڑ علیحدہ علیحدہ ہو جائیں اور اس میں ایک ڈھیلا پن پیدا ہو جائے۔
کوئی ایسی بات وقوع پذیر ہو جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھی ہو۔

مومن بہت بے قرار تھا۔ رضیہ نئی طرز سیکھنے میں مشغول تھی اور شکیلہ کاغذوں پر بلاؤزوں کے نئے نمونے اتار رہی تھی۔ جب اس نے یہ کام ختم کرلیا تو وہ نمونہ جو ان سب میں اچھا تھا، سامنے رکھ کر اپنے لئے اودی ساٹن کا بلاؤز بنانا شروع کردیا۔ اب رضیہ کو بھی اپنا باجہ اور فلمی گانوں کی کاپی چھوڑ کر اس طرف متوجہ ہونا پڑا۔

شکیلہ ہر کام بڑے اہتمام اور چاؤ سے کرتی تھی۔ جب سینے پرونے بیٹھتی تو اس کی نشست بڑی پر اطمینان ہوتی تھی۔ اپنی چھوٹی بہن رضیہ کی طرح وہ افرا تفری پسند نہیں کرتی تھی۔ ایک ایک ٹانکا سوچ سمجھ کر بڑے اطمینان سے لگاتی تھی تاکہ غلطی کا امکان نہ رہے۔ پیمائش بھی اس کی بہت صحیح تھی۔ اس لئے کہ پہلے کاغذ کاٹ کر پھر کپڑا کاٹتی تھی یوں وقت زیادہ صرف ہوتا ہے مگر چیز بالکل فٹ تیار ہوتی تھی۔

شکیلہ بھر ے بھرے جسم کی صحت مند لڑکی تھی، ہاتھ بہت گدگدے تھے۔ گوشت بھری مخروطی انگلیوں کے آخر میں ہر جوڑ پر ایک ننھا گڑھا تھا جب مشین چلاتی تھی تو یہ ننھے گڑھے ہاتھ کی حرکت سے کبھی کبھی غائب ہو جاتے تھے۔

شکیلہ مشین بھی بڑے اطمینان سے چلاتی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کی دو یا تین انگلیاں بڑی صفائی کے ساتھ مشین کی ہتھی گھماتی تھیں۔ کلائی میں ایک ہلکا سا خم پیدا ہو جاتا تھا۔ گردن ذرا ایک طرف کو جھک جاتی تھی اور بالوں کی ایک لٹ جسے شاید اپنے لئے کوئی مستقل جگہ نہیں ملتی تھی نیچے پھسل آتی تھی۔ شکیلہ اپنے کام میں اس قدر منہمک رہتی کہ اسے ہٹانے یا جمانے کی کوشش ہی نہیں کرتی تھی۔

جب شکیلہ اودی ساٹن سامنے پھیلاکر اپنے ماپ کا بلاؤز تراشنے لگی تو اسے ٹیپ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کیونکہ ان کا ٹیپ گھس گھسا کر اب بالکل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا۔ لوہے کا گز موجود تھا مگر اس سے کمر اور سینے کی پیمائش کیسے ہو سکتی ہے۔ اس کے اپنے کئی بلاؤز موجودے تھے مگر اب چونکہ وہ پہلے سے کچھ موٹی ہو گئی تھی اس لئے ساری پیمائش دوبارہ کرنا چاہتی تھی۔

قمیض اتار کر اس نے مومن کو آواز دی۔ جب وہ آیا تو اس سے کہا ”جاؤ مومن دوڑ کر چھ نمبر سے کپڑے کا گز لے آؤ۔ کہنا شکیلہ بی بی مانگتی ہے“۔

مومن کی نگاہیں شکیلہ کی سفید بنیان سے ٹکرائیں۔ وہ کئی بار شکیلہ بی بی کو ایسی بنیانوں میں دیکھ چکا تھا مگر آج اسے ایک عجیب قسم کی جھجک محسوس ہوئی۔ اس نے اپنی نگاہوں کا رخ دوسری طرف پھیر لیا اور گھبراہٹ میں کہا۔ ”کیسا گز بی بی جی۔“

شکیلہ نے جواب دیا” کپڑے کا گز.... ایک گز تو یہ تمہارے سامنے پڑا ہے۔ یہ لوہے کا ہے۔ ایک دوسرا گز بھی ہوتا ہے کپڑے کا۔ جاؤ چھ نمبر میں جاؤ اور دوڑ کے ان سے یہ گز لے آؤ۔ کہنا شکیلہ بی بی مانگتی ہے۔“

چھ نمبر کا فلیٹ بالکل قریب تھا۔ مومن فوراً ہی کپڑے کا گز لے کر آگیا۔ شکیلہ نے اس کے ہاتھ سے لے لیا اور کہا ”یہاں ٹھہر جا۔ اسے ابھی واپس لے جانا۔“ پھر وہ اپنی بہن رضیہ سے مخاطلب ہوئی۔ ان لوگوں کی کوئی چیز اپنے پاس رکھ لی جائے تو وہ بڑھیا تقاضے کر کے پریشان کردیتی ہے.... ادھر آؤ یہ گز لو اور یہاں سے میرا ماپ لو۔

رضیہ نے شکیلہ کی کمر اور سینے کا ماپ لینا شروع کیا تو ان کے درمیان کئی باتیں ہوئیں۔ مومن دروازے کی دہلیز پر کھڑا تکلیف دہ خاموشی سے یہ باتیں سنتا رہا۔

”رضیہ تم گز کو کھینچ کر ماپ کیوں نہیں لیتیں.... پچھلی دفعہ بھی یہی ہوا۔ جب تم نے ماپ لیا اور میرے بلاؤز کا ستیاناس ہوگیا.... اوپر کے حصہ پر اگر کپڑا فٹ نہ آئے تو ادھر ادھر بغلوں میں جھول پڑ جاتے ہیں۔“

” کہاں کا لوں، کہاں کا نہ لوں۔ تم تو عجب مخمصے میں ڈال دیتی ہو۔ یہاں کا ماپ لینا شروع کیا تھا تو تم نے کہا ذرا اور نیچے کا لو.... ذرا چھوٹا بڑا ہو گیا تو کون سی آفت آجائے گی۔“

”بھئی واہ.... چیز کے فٹ ہونے ہی میں ساری خوبصورتی ہوتی ہے۔ ثریا کو دیکھو کیسے فٹ کپڑے پہنتی ہے۔ مجال ہے جو کہیں شکن پڑے، کتنے خوبصورت معلوم ہوتے ہیں ایسے کپڑے.... لو اب تم ماپ لو....“۔

یہ کہہ کر شکیلہ نے سانس کے ذریعے اپنا سینہ پھلانا شروع کیا۔ جب اچھی طرح پھول گیا تو سانس روک کر اس نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا ” لو اب جلدی کرو۔“

جب شکیلہ نے سینے کی ہوا خارج کی تو مومن کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کے اندر ربڑ کے کئی غبارے پھٹ گئے ہیں۔ اس نے گھبرا کر کہا ”گز لائیے بی بی جی.... دے آؤں۔“

شکیلہ نے اسے جھڑ ک دیا۔ ”ذرا ٹھہر جا“۔

یہ کہتے ہوئے کپڑے کا گز اس کے ننگے بازو سے لپٹ گیا۔ جب شکیلہ نے اسے اتارنے کی کوشش کی تو مومن کو اس کی سفید بغل میں کالے کالے بالوں کا ایک گچھا نظر آیا۔ مومن کی اپنی بغلوں میں بھی ایسے ہی بال اگ رہے تھے مگر یہ گچھا اسے بہت بھلا معلوم ہوا۔ ایک سنسنی سی اس کے سارے بدن میں دوڑ گئی۔ ایک عجیب و غریب خواہش اس کے دل میں پیدا ہوئی کہ یہ کالے کالے بال اس کی مونچھیں بن جائیں۔ بچپن میں وہ بُھٹوں کے کالے اور سنہری بال نکال کر اپنی مونچھیں بنایا کرتا تھا۔ ان کو اپنے بالائی ہونٹ پر جماتے وقت جو سرسراہٹ اسے محسوس ہوتی تھی۔ اسی قسم کی سرسراہٹ اس خواہش نے اس کے بالائی ہونٹ اور ناک میں پیدا کردی۔

شکیلہ کا بازو اب نیچے جھک گیا تھا اور بغل چھپ گئی تھی مگر مومن بھی کالے بالوں کا وہ گچھا دیکھ رہا تھا۔ اس کے تصورمیں شکیلہ کا بازو دیر تک ویسے ہی اٹھا رہا اور بغل میں اس کے سیاہ بال جھانکتے رہے۔

تھوڑی دیر بعد شکیلہ نے مومن کو گز دے دیا اور کہا ”جاؤ، واپس دے آؤ۔ کہنا بہت بہت شکریہ ادا کیا ہے“۔

مومن گز واپس دے کر باہر صحن میں بیٹھ گیا۔ اس کے دل و دماغ میں دھندلے دھندلے خیال پیدا ہو رہے تھے۔ دیر تک ان کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا رہا جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو اس نے غیر ارادی طور پر اپنا چھوٹا سا ٹرنک کھولا، جس میں اس نے عید کے لئے نئے کپڑے بنوارکھے تھے۔

جب ٹرنک کا ڈھکنا کھولا اور نئے لٹھے کی بو اس کی ناک تک پہنچی تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ نہا دھو کر یہ نئے کپڑے پہن کر وہ سیدھا شکیلہ بی بی کے پاس جائے اور اسے سلام کرے۔ اس کی لٹھے کی شلوار کس طرح کھڑ کھڑ کرے گی اور اس کی رومی ٹوپی....

رومی ٹوپی کا خیال آتے ہی مومن کی نگاہوں کے سامنے اس کا پھندنا آگیا اور پھندنا فوراً ہی ان کالے کالے بالوں کے گچھے میں تبدیل ہو گیا جو اس نے شکیلہ کی بغل میں دیکھا تھا۔ اس نے کپڑوں کے نیچے سے اپنی نئی رومی ٹوپی نکالی اور اس کے نرم اور لچکیلے پھندنے پر ہاتھ پھیرنا شروع ہی کیا تھا کہ اندر سے شکیلہ بی بی کی آواز آئی۔ ”مومن“

مومن نے ٹوپی ٹرنک میں رکھی، ڈھکنا بند کیا اور اندر چلا گیا جہاں شکیلہ نمونے کے مطابق اودی ساٹن کے کئی ٹکڑے کاٹ چکی تھی۔ ان چمکیلے اور پھسل پھسل جانے والے ٹکڑوں کو ایک جگہ رکھ کر وہ مومن کی طرف متوجہ ہوئی۔ "میں نے تمہیں اتنی آوازیں دیں۔ سو گئے تھے کیا؟“

مومن کی زبان میں لکنت پیدا ہو گئی۔ ”نہیں بی بی جی“۔

”تو پھر کیا کر رہے تھے؟“

”کچھ.... کچھ بھی نہیں“۔

”کچھ تو ضرور کرتے ہوگے۔“ شکیلہ یہ سوال کئے جا رہی تھی مگر اس کا دھیان اصل میں بلاؤز کی طرف تھا جسے اب اسے کچا کرنا تھا۔

مومن نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ جواب دیا۔ ٹرنک کھول کر اپنے نئے کپڑے دیکھ رہا تھا۔

شکیلہ کھل کھلا کر ہنسی۔ رضیہ نے بھی اس کا ساتھ دیا۔

شکیلہ کو ہنستے دیکھ کر مومن کو ایک عجیب تسکین محسوس ہوئی اور اس تسکین نے اس کے دل میں یہ خواہش پیدا کی کہ وہ کوئی ایسی مضحکہ خیز طور پراحمقانہ حرکت کرے جس سے شکیلہ کو اور زیادہ ہنسنے کا موقع ملے چنانچہ لڑکیوں کی طرح جھینپ کر اور لہجے میں شرماہٹ پیدا کرکے اس نے کہا۔ ”بڑی بی بی جی سے پیسے لے کر میں ریشمی رومال بھی لوں گا۔“

شکیلہ نے ہنستے ہوئے اس سے پوچھا۔ ”کیا کرو گے اس رومال کو ؟“

مومن نے جھینپ کر جوا ب دیا۔ ”گلے میں باندھ لو ں گا بی بی جی.... بڑا اچھا معلوم ہو گا۔“

یہ سن کر شکیلہ اور رضیہ دونوں دیر تک ہنستی رہیں۔

”گلے میں باندھو گے تو یاد رکھنا اسی سے پھانسی دے دوں گی“

یہ کہہ کر شکیلہ نے اپنی ہنسی دبانے کی کوشش کی اور رضیہ سے کہا۔ ”کم بخت نے مجھ سے کام ہی بھلا دیا۔ رضیہ میں نے اسے کیوں بلایا تھا؟“

رضیہ نے جواب نہ دیا اور نئی فلمی طرز گنگنانا شروع کردی جو وہ دو روز سے سیکھ رہی تھی۔ اس دوران میں شکیلہ کو خود ہی یاد آگیا کہ اس نے مومن کو کیوں بلا یاتھا۔

”دیکھو مومن میں تمہیں یہ بنیان اتار کر دیتی ہوں۔ دوائیوں کے پاس جو ایک دکان نئی کھلی ہے نا، وہاں جہاں تم اس دن میرے ساتھ گئے تھے۔ وہاں جاؤ اور پوچھ کے آؤ کہ ایسی چھ بنیانوں کے وہ کیا لے گا.... کہنا ہم چھ لیں گے۔ اس لئے کچھ رعایت ضرور کرے.... سمجھ لیا نا؟“

”مومن نے جواب دیا۔ ”جی ہاں“۔

”اب تم پرے ہٹ جاؤ۔“

مومن باہر نکل کر دروازے کی اوٹ میں ہو گیا۔ چند لمحات کے بعد بنیان اس کے قدموں کے پاس آ گرا اور اندر سے شکیلہ کی آوازآئی۔ ”کہنا ہم اس قسم کی ہی ڈیزائن کی بالکل یہی چیز لیں گے۔ فرق نہیں ہونا چاہئے۔“

مومن نے بہت اچھا کہہ کر بنیان اٹھا لیا جو پسینے کے باعث کچھ کچھ گیلا ہو رہا تھا جیسے کسی نے بھاپ پر رکھ کر فوراً ہی اٹھا لیا ہو۔ بدن کی بو بھی اس میں بسی ہوئی تھی۔ میٹھی میٹھی گرمی بھی تھی۔ یہ تمام چیزیں اس کو بہت بھلی معلوم ہوئیں۔

وہ اس بنیان کو جو بلی کے بچے کی طرح ملائم تھا، اپنے ہاتھوں میں مسلتا ہوا باہر چلا گیا۔ جب بھاؤ دریافت کر کے بازار سے واپس آیا تو شکیلہ بلاؤز کی سلائی شروع کر چکی تھی۔ اس اودی، اودی ساٹن کے بلاؤز کی جو مومن کی رومی ٹوپی کے پھندنے سے کہیں زیادہ چمکیلی اور لچک دار تھی۔

یہ بلاؤز شاید عید کے لئے تیار کیا جارہا تھا کیونکہ عید اب بالکل قریب آگئی تھی۔ مومن کو ایک دن میں کئی بار بلا گیا۔ دھاگہ لانے کے لئے، استری نکالنے کے لئے، سوئی ٹوٹ گئی تو نئی سوئی لانے کےلئے، شام کے قریب جب شکیلہ نے دوسرے روز پر باقی کام اٹھا دیا تو دھاگے کے ٹکڑے اور اودی ساٹن کی بیکار کترنیں اٹھانے کے لئے بھی اسے بلایا گیا۔

مومن نے اچھی طرح جگہ صاف کردی۔ باقی سب چیزیں اٹھا کر باہر پھینک دیں مگر ساٹن کی چمکیلی کترنیں اپنی جیب میں رکھ لیں.... بالکل بے مطلب کیونکہ اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ ان کا کیا کر ے گا؟

دوسرے روز اس نے جیب سے کترنیں نکالیں اورالگ بیٹھ کر ان کے دھاگے الگ کرنے شروع کردئے۔ دیر تک وہ اس کھیل میں مشغول رہا حتٰی کہ دھاگے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کا ایک گچھا سا بن گیا۔ اس کو ہاتھ میں لے کر وہ دباتا رہا، مسلتا رہا لیکن اس کے تصور میں شکیلہ کی وہی بغل تھی جس میں اس نے کالے کالے بالوں کا ایک چھوٹا سا گچھا دیکھا تھا۔

اس دن بھی اسے شکیلہ نے کئی بار بلایا.... اودی ساٹن کے بلاؤز کی ہر شکل اس کی نگاہوں کے سامنے آتی رہی۔۔

پہلے جب اسے کچا کیا گیا تھا تو اس پر سفید دھاگے کے بڑے بڑے ٹانکے جا بجا پھیلے ہوئے تھے۔ پھر اس پر استری پھیری گئی جس سے سب شکنیں دور ہو گئیں اور چمک بھی دوبالا ہو گئی۔ اس کے بعد کچی حالت ہی میں شکیلہ نے اسے پہنا۔ رضیہ کو دکھایا۔ دوسرے کمرے میں سنگھار میز کے پاس آئینے میں خود اس کو ہر پہلو سے اچھی دیکھا۔ جب پورا اطمینان ہو گیا تو اسے اتارا۔ جہاں جہاں تنگ یا کھلا تھا وہاں نشان لگائے۔ اس کی ساری خامیاں دور کیں۔ ایک بار پھر پہن کر دیکھا جب بالکل فٹ ہو گیا تو پکی سلائی شروع کی۔

اُدھر ساٹن کا یہ بلاؤز سیا جا رہا تھا، اِدھر مومن کے دماغ میں عجیب و غریب خیالوں کے ٹانکے ادھڑ رہے تھے.... جب اسے کمرے میں بلایا جاتا اور اس کی نگاہیں چمکیلی ساٹن کے بلاؤز پر پڑتیں تو اس کا جی چاہتا کہ وہ ہاتھ سے چھو کر اسے دیکھے صرف چھو کر ہی نہیں.... بلکہ اس کی ملائم اور روئیں دار سطح پر دیر تک ہاتھ پھیرتا رہے۔ اپنے کھردرے ہاتھ۔

اس نے ان ساٹن کے ٹکڑوں سے اس کی ملائمت کا اندازہ کرلیا تھا۔ دھاگے جو اس نے ان ٹکڑوں سے نکالے تھے اور بھی زیادہ ملائم ہو گئے تھے۔ جب اس نے ان کا گچھا بنایا تو دباتے وقت اسے معلوم ہوا کہ ان میں ربڑی کی سی لچک بھی ہے.... وہ جب بھی اندر آکر بلاؤز کو دیکھتا تو کا خیال فوراً ان بالوں کی طرف دوڑ جاتا جو اس نے شکیلہ کی بغل میں دیکھے تھے۔ کالے کالے بال۔ مومن سوچتا تھا کہ وہ بھی ساٹن ہی کی طرح ملائم ہوں گے؟

بلاؤز بالآخر تیار ہو گیا.... مومن کمرے کے فرش پر گیلا کپڑا پھیر رہا تھا کہ شکیلہ اندر آئی۔ قمیض اتار کر اس نے پلنگ پر رکھی۔ اس کے نیچے اسی قسم کا سفید بنیان تھا جس کا نمونہ لے کر مومن بھاؤ دریافت کرنے گیا تھا.... اس کے اوپر شکیلہ نے اپنے ہاتھ کا سلا ہوا بلاؤز پہنا۔ سامنے کے ہک لگائے اور آئینے کے سامنے کھڑی ہوگئی۔

مومن نے فرش صاف کرتے ہوئے آئینہ کی طرف دیکھا۔ بلاؤز میں اب جان سی پڑ گئی تھی۔ ایک دو جگہ پر وہ اس قدر چمکتا تھا کہ معلوم ہوتا تھا ساٹن کا رنگ سفید ہو گیا ہے.... شکیلہ کی پیٹھ مومن کی طرف تھی جس پر ریڑھ کی ہڈی کی لمبی جھری بلاؤز فٹ ہونے کے باعث اپنی پوری گہرائی کے ساتھ نمایاں تھی۔ مومن سے رہا نہ گیا۔ چنانچہ اس نے کہا”بی بی جی، آپ نے درزیوں کو بھی مات کر دیا ہے۔“

شکیلہ اپنی تعریف سن کر خوش ہو ئی مگر وہ رضیہ کی رائے طلب کرنے کے لئے بے قرار تھی۔ اس لئے وہ صرف ”اچھا ہے نا“ کہہ کر باہر دوڑ گئی.... مومن آئینے کی طرف دیکھتا رہ گیا جس میں بلاؤز کا سیاہ اور چمکیلا عکس دیر تک موجود رہا۔

رات کو جب وہ پھر اس کمرے میں صراحی رکھنے کے لئے آیا تو اس نے کھونٹی پر لکڑی کے ہینگر میں اس بلاؤز کو دیکھا۔

کمرے میں کوئی موجود نہیں تھا۔ چنانچہ آگے بڑھ کر پہلے اس نے غورسے دیکھا پھر ڈرتے ڈرتے اس پر ہاتھ پھیرا۔ ایسا کرتے ہوئے یوں لگا کہ کوئی اس کے جسم کے ملائم روؤں پر ہولے ہولے بالکل ہوائی لمس کی طرح ہاتھ پھیر رہا ہے۔

رات کو جب وہ سویا تو اس نے کئی اوٹ پٹانگ خواب دیکھے.... ڈپٹی صاحب نے پتھر کے کوئلوں کا ایک بڑا ڈھیر اسے کوٹنے کو کہا جب اس نے ایک کوئلہ اٹھایا اور اس پر ہتھوڑے کی ضرب لگائی تو وہ نرم نرم بالوں کا ایک گچھا بن گیا.... یہ کالی کھانڈ کے مہین مہین تار تھے جن کا گولا بنا ہوا تھا.... پھر یہ گولے کالے رنگ کے غبارے بن کر ہوا میں اڑنے شروع ہوگئے.... بہت اوپر جا کر یہ پھٹنے لگے.... پھر آندھی آگئی اور مومن کی رومی ٹوپی کا پھندنا کہیں غائب ہو گیا.... پھندنے کی تلاش میں نکلا.... دیکھی اور ان دیکھی جگہوں میں گھومتا رہا.... نئے لٹھے کی بو بھی یہیں کہیں سے آنا شروع ہوگئی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا.... ایک کالی ساٹن کی بلاؤز پر اس کا ہاتھ پڑا .... کچھ دیر تک وہ کسی دھڑکتی ہوئی چیز پر اپنا ہاتھ پھیرتا رہا۔ پھر دفعتہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ تھوڑی دیر تک وہ کچھ سمجھ نہ سکا کیا ہوگیاہے۔ اس کے بعد اسے خوف، تعجب اور ایک انوکھی ٹھیس کا احساس ہوا۔ اس کی حالت اس وقت عجیب و غریب تھی.... پہلے اسے تکلیف دہ حرارت محسوس ہوئی۔ مگر چند لمحات کے بعد ایک ٹھنڈی سی لہر اس کے جسم میں رینگنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔ ختم شد ۔۔۔۔۔۔​
--------------------------------------------------------------------------------------------
تبصرے اور تجاویز کے لیے مندرجہ ذیل ربط استعمال کیجیئے :
http://www.urduweb.org/mehfil/viewtopic.php?t=6734
 

شمشاد

لائبریرین
سعادت حسن منٹو

کالی شلوار

دہلی آنے سے پہلے وہ انبالہ چھاؤنی میں تھی۔ جہاں کئی گورے اس کے گاہک تھے۔ ان گوروں سے ملنے جلنے کے باعث وہ انگریزی کے دس پندرہ جملے سیکھ گئی تھی۔ ان کو وہ عام گفتگو میں استعمال نہیں کرتی تھی۔ لیکن جب وہ دہلی میں آئی اور اس کا کاروبار نہ چلا تو ایک دن اس نے اپنی پڑوسن طمنچہ جان سے کہا۔ “ دِس لیف ------ ویری بیڈ، یعنی یہ زندگی بہت بری ہے جبکہ کھانے ہی کو نہیں ملتا۔“

انبالہ چھاؤنی میں‌ اس کا دھندا بہت اچھی طرح چلتا تھا۔ چھاؤنی کے گورے شراب پی کر اس کے پاس آ جاتے تھے اور تین چار گھنٹوں ہی میں آٹھ دس گوروں کو نمٹا کر بیس تیس روپے پیدا کر لیا کرتی تھی۔ یہ گورے اس کے ہم وطنوں کے مقابلے میں بہت اچھے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسی زبان بولتے تھے جس کا مطلب سلطانہ کی سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر اس کی زبان سے یہ لاعلمی اس کے حق میں بہت اچھی ثابت ہوتی تھی۔ اگر وہ اس سے کچھ رعایت چاہتے تو وہ سر ہلا کر کہہ دیا کرتی تھی “ صاحب ہماری سمجھ میں تمہاری بات نہیں آتا۔“ اور اگر وہ اس سے ضرورت سے زیادہ چھیڑ چھاڑ کرتے تو وہ ان کو اپنی زبان میں گالیاں دینا شروع کر دیتی تھی۔ وہ حیرت سے اس کے منہ کی طرف دیکھتے تو وہ ان سے کہتی “ صاحب تم ایک دم الو کا پٹھا ہے۔ حرامزادہ ہے ------ سمجھا۔“ یہ کہتے وقت وہ اپنے لہجے میں سختی پیدا نہ کرتی بلکہ بڑے پیار کے ساتھ ان سے باتیں کرتی ------ گورے ہنس دیتے اور ہنستے وقت وہ سلطانہ کو بالکل الو کے پٹھے دکھائی دیتے۔

مگر یہاں دہلی میں وہ جب سے آئی تھی، ایک گورا بھی اس کے یہاں نہیں آیا تھا۔ تین مہینے اس کو ہندوستان کے اس شہر میں رہتے ہو گئے تھے جہاں اس نے سنا تھا کہ بڑے الاٹ صاحب رہتے ہیں۔ جو گرمیوں میں شملے چلے جاتے ہیں، صرف چھ آدمی اس کے پاس آئے تھے۔ صرف چھ، یعنی مہینے میں دو۔ اور ان چھ گاہکوں سے، اس نے خدا جھوٹ نہ بلوائے، ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کیئے تھے۔ تین روپے سے زیادہ کر کوئی مانتا ہی نہیں تھا۔ سلطانہ نے ان میں سے پانچ آدمیوں کو اپنا ریٹ دس روپے بتایا تھا، مگر تعجب کی بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے یہی کہا “ بھئی تین روپے سے زیادہ ایک کوڑی نہیں دیں گے۔“ جانے کیا بات تھی کہ ان میں سے ہی ایک نے اسے صرف تین روپے کے قابل سمجھا۔ چنانچہ جب چھٹا آیا تو اس نے کہا “ دیکھو میں تین روپے ایک ٹیم کے لوں گی۔ اس سے ایک دھیلا تم کم کہو تو نہ ہو گا۔ اب تمہاری مرضی ہو تو رہو ورنہ جاؤ۔“ چھٹے آدمی نے یہ بات سن کر تکرار نہ کی اور اس کے ہاں ٹھہر گیا۔ جب دوسرے کمرے میں دروازہ بند کر کے وہ اپنا کوٹ اتارنے لگا تو سلطانہ نے کہا “ لائیے ایک روپیہ دودھ کا“ ایک روپیہ تو نہ دیا لیکن نئے بادشاہ کی چمکتی ہوئی اٹھنی جیب میں سے نکال کر اس کو دے دی اور سلطانہ نے بھی چپکے سے لے لی کہ چلو جو آیا غنیمت ہے۔

ساڑھے اٹھارہ روپے تین مہینوں میں ------ بیس روپے ماہوار تو اس کوٹھے کا کرایہ تھا جس مالک مکان انگریزی میں فلیٹ کہتا تھا۔ اس فلیٹ میں ایسا پاخانہ تھا جس میں زنجیر کھینچنے سے ساری گندگی پانی کے زور سے ایک دم نیچے نل میں غائب ہو جاتی تھی اور بڑا شور ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو اس شور نے اسے بہت ڈرایا تھا۔ پہلے دن جب وہ رفع حاجت کے لیے اس پاخانے میں گئی تو اس کی کمر میں شدت کا درد ہو رہا تھا۔ فارغ ہو کر جب اٹھنے لگی تو اس نے لٹکی ہوئی زنجیر کا سہارا لے لیا۔ زنجیر کو دیکھ کر اس نے خیال کیا چونکہ مکان خاص ہم لوگوں کی رہائش کے لیے تیار کئے گئے ، یہ زنجیر اس لیے لگائی گئی ہے کہ اٹھتے وقت تکلیف نہ ہو اور سہارا مل جایا کرے۔ مگر جونہی اس نے زنجیر کو پکڑ کر اٹھنا چاہا اور کھٹ کھٹ کی آواز آئی اور پھر ایک دم سے پانی اس زور کے ساتھ باہر نکلا تو ڈر کے مارے اس کی چیخ نکل گئی۔

خدا بخش دوسرے کمرے میں اپنا فوٹو گرافی کا سامان درست کر رہا تھا اور ایک صاف بوتل میں ہائڈرو کونین ڈال رہا تھا کہ اس نے سلطانہ کی چیخ سنی، دوڑ کر باہر نکلا اور سلطانہ سے پوچھا “ کیا ہوا ------ یہ چیخ تمہاری تھی؟“

سلطانہ کا دل دھڑک رہا تھا۔ اس نے کہا “ یہ مؤا پیخانہ ہے یا کیا ہے؟ بیچ میں یہ ریل گاڑیوں کی طرح زنجیر لٹکا رکھی ہے؟ میری کمر میں درد تھا میں نے کہا کہا چلو اس کا سہارا لے لوں گی۔ پر اس موئی زنجیر کر چھیڑنا تھا کہ وہ دھماکہ ہوا کہ میں تم سے کیا کہوں۔“

اس پر خدا بخش بہت ہنسا تھا اور اس نے سلطانہ کو اس پیخانے کی بابت سب کچھ بتا دیا کہ یہ نئے فیشن کا ہے جس میں زنجیر ہلانے سے سب گندگی زمین میں دھنس جاتی ہے۔

خدا بخش اور سلطانہ کا آپس میں کیسے سمبندھ ہو، یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ خدا بخش راولپنڈی کا تھا۔ انٹرنس پاس کرنے کے بعد اس نے لاری چلانا سیکھی، چنانچہ چار برس تک وہ راولپنڈی اور کشمیر کے درمیان لاری چلانے کا کام کرتا رہا۔ اس کے بعد کشمیر میں اس کی دوستی ایک عورت سے ہو گئی۔ اس کو بھگا کر وہ ساتھ لے آیا۔ لاہور میں چونکہ اس کوئی کام نہ ملا اس لیے اس نے عورت کو پیشے پر بٹھا دیا۔ دو تین برس تک یہ سلسلہ جاری رہا اور وہ عورت کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی۔ خدا بخش کومعلوم ہوا کہ وہ انبالہ میں ہے۔ وہ اس کی تلاش میں آیا جہاں اس کو سلطانہ مل گئی۔ سلطانہ نے اس کو پسند کیا، چنانچہ دونوں کا سمبندھ ہو گیا۔

خدا بخش کے آنے سے ایک دم سلطانہ کا کاروبار چمک اٹھا۔ عورت چونکہ ضعیف الاعتقاد تھی، اس لیے اس نے سمجھا کہ خدا بخش بڑا بھاگوان ہے جس کے آنے سے اتنی ترقی ہو گئی ہے۔ چنانچہ اس خوش اعتقادی نے خدا بخش کی وقعت اس کی نظروں میں اور بھی بڑھا دی۔

خدا بخش محنتی آدمی تھا۔ سارا دن ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ اس نے ایک فوٹو گرافر سے دوستی پیدا کی جو ریلوے اسٹیشن کے باہر منٹ کیمرے سے فوٹو کھنچا کرتا تھا۔ اس سے اس نے فوٹو کھنچنا سیکھا، پھر سلطانہ سے ساٹھ روپے لے کر کیمرہ بھی خرید لیا۔ آہستہ آہستہ ایک پردہ بنوایا، دو کرسیاں خریدیں اور فوٹو دھونے کا سب سامان لے کر اس نے علیٰحدہ اپنا کام شروع کر دیا۔

کام چل نکلا، چنانچہ اس نے تھوڑی ہی دیر کے بعد اپنا اڈا انبالہ چھاؤنی میں قائم کر دیا۔ یہاں وہ گوروں کے فوٹو کھینچتا۔ ایک مہینے کے اندر اندر اس کی چھاؤنی کے متعدد گوروں سے واقفیت ہو گئی۔ چنانچہ وہ سلطانہ کو وہیں لے گیا۔ یہاں چھاؤنی میں خدا بخش کے ذریعے کئ گورے سلطانہ کے مستقل گاہک بن گئے۔

سلطانہ نے کانوں کے بندے خریدے۔ ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں بھی بنوائیں۔ دس پندرہ اچھی اچھی ساڑھیاں بھی جمع کر لیں۔ گھر میں‌ فرنیچر بھی آ گیا۔ قصہ مختصر کہ کہ انبالہ چھاؤنی میں وہ بڑی خوش حال تھی۔ مگر ایکا ایکی جانے خدا بخش کے دل میں کیا سمائی کہ اس نے دہلی جانے کی ٹھان لی۔ سلطانہ انکار کیسے کرتی جبکہ خدا بخش کو اپنے لیے بہت مبارک خیال کرتی تھی۔ اس نے خوشی خوشی دہلی جانا قبول کر لیا۔ بلکہ اس نے یہ بھی سوچا کہ اتنے بڑے شہر میں جہاں لاٹ صاحب رہتے ہیں، اس کا دھندا اور بھی اچھا چلے گا۔ اپنی سہلیوں سے وہ دہلی کی تعریف سن چکی تھی۔ پھر وہاں نظام الدین اولیا رح کی خانقاہ تھی جس سے اسے بے حد عقیدت تھی۔ چنانچہ گھر کا بھاری سامان بیچ باچ کر وہ خدا بخش کے ساتھ دہلی آ گئی۔ یہاں پہنچ کر خدا بخش نے بیس روپے ماہوار پر یہ فلیٹ لیا۔ جس میں دونوں رہنے لگے۔

ایک ہی قسم کے نئے مکانوں کی لمبی لمبی قطار سڑک کے ساتھ ساتھ چلی گئی ہے۔ میونسپل کمیٹی نے شہر کا یہ حصہ خاص کسبیوں کے لیے مقرر کر دیا تھا تا کہ وہ شہر میں جگہ جگہ اپنے اڈے نہ بنائیں۔ نیچے دوکانیں تھیں اور اوپر دو منزلہ رہائشی فلیٹ، چونکہ سب عمارتیں ایک ہی ڈیزائن کی تھیں، اس لیے شروع شروع میں سلطانہ کو اپنا فلیٹ تلاش کرنے میں بہت دقت محسوس ہوئی تھی۔ پر جب نیچے لانڈری والے نے اپنا بورڈ گھر کی پیشانی پر لگایا تو اس کو ایک پکی نشانی مل گئی “ یہاں میلے کپڑوں کی دھلائی کی جاتی ہے “ یہ بورڈ پڑھتے ہی وہ اپنا فلیٹ تلاش کر لیا کرتی تھی۔ اس طرح اس نے اور بہت سی نشانیاں قائم کر لی تھیں۔ مثلاّ بڑے حروف میں جہاں “ کوئلوں کی دکان “ لکھا تھا وہاں اس کی سہیلی ہیرا بائی رہتی تھی جو کبھی کبھی ریڈیو گھر میں گانے جایا کرتی تھی۔ جہاں “ شرفا کے لیے کھانے کا اعلٰی انتظام ہے “ لکھا تھا وہاں اس کی دوسری سہیلی مختار رہتی تھی۔ نواڑ کے کارخانے کے اوپر انوری رہتی تھی جو اسی کارخانے کے سیٹھ کے پاس ملازم تھی۔ چونکہ سیٹھ صاحب کو رات کے وقت اپنے کارخانے کی دیکھ بھال کرنا ہوتی تھی، اس لیے وہ انوری کے پاس ہی رہتے تھے۔

دکان کھولتے ہی گاہک تھوڑے ہی آتے ہیں، چنانچہ جب ایک مہینے تک سلطانہ بیکار رہی تو اس نے یہی سوچ کر اپنے دل کو تسلی دی۔ پر جب دو مہینے گزر گئے اور کوئی آدمی اس کے کوٹھے پر نہ آیا تو اسے بہت تشویش ہوئی۔ اس نے خدا بخش سے کہا، “ کیا بات ہے خدا بخش، پورے دو مہینے ہو گئے ہیں ہمیں یہاں آئے ہوئے، کسی نے ادھر کا رخ بھی نہیں کیا ------ مانتی ہوں آج کل بازار بہت مندا ہے، پر اتنا مندا تو نہیں کہ مہینے بھر میں کوئی شکل دیکھنے ہی میں نہ آئے۔“ خدا بخش کو بھی یہ بات بہت عرصے سے کھٹک رہی تھی مگر وہ خاموش تھا۔ پر جب سلطانہ نے خود بات چھیڑی تو اس نے کہا “ میں کئی دنوں سے اس کی بابت سوچ رہا ہوں۔ ایک بات سمجھ میں میں آتی ہے، وہ یہ کہ جنگ کی وجہ سے لوگ باگ دوسرے دھندوں میں پڑ کر ادھر کا راستہ بھول گئے ہیں ------ یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ “ وہ اس کے آگے کہنے ہی والا تھا کہ سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آواز آئی۔ خدا بخش اور سلطانہ دونوں اس آواز کی طرف متوجہ ہوئے۔ تھوڑی دیر کے بعد دستک ہوئی۔ خدا بخش نے لپک کر دروازہ کھولا۔ ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ یہ پہلا گاہک تھا جس سے تین روپے میں سودا طے ہوا۔ اس کے بعد پانچ اور آئے۔ یعنی مہینے میں‌ چھ، جن سے سلطانہ نے صرف ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کیے۔

بیس روپے ماہوار تو فلیٹ کے کرائے میں چلے جاتے تھے۔ پانی کا ٹیکس اور بجلی کا بل جدا۔ اس کے علاوہ گھر کے دوسرے خرچ کھانا پینا، کپڑے لتے دوا دارو۔ اور آمدن کچھ بھی نہیں تھی۔ ساڑھے اٹھارہ روپے تین‌ مہینے میں آئے تو اسے آمدن تو نہیں کہہ سکتے۔ سلطانہ پریشان ہو گئی۔ ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں جو اس نے انبالہ سے بنوائی تھیں، آہستہ آہستہ بک گئیں۔ آخری کنگنی کی جب باری آئی تو اس نے خدا بخش سے کہا، “ تم میری سنؤ، اور چلو واپس انبالے ------ یہاں کیا دھرا ہے ------ بھئی ہو گا، پر ہمیں یہ شہر راس نہیں آیا۔ تمارا کام بھی وہاں خوب چلتا تھا۔ چلو، وہیں چلتے ہیں۔ جو نقصان ہوا ہے اس کو اپنا سر صدقہ سمجھو۔ اس کنگنی کو بیچ کر آؤ۔ میں اسباب وغیرہ باندھ کر تیار رکھتی ہوں۔ آج رات کی گاڑی سے یہاں سے چل دیں گے۔“

خدا بخش نے کنگنی سلطانہ کے ہاتھ سے لے لی اور کہا، “ نہیں، جانِ من، انبالے نہیں جائیں گے۔ یہیں دہلی میں رہ کر کمائیں گے۔ یہ تمہاری چوڑیاں سب کی سب یہیں واپس آئیں گی۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ وہ بڑا کارساز ہے۔ یہاں بھی وہ کوئی نہ کوئی اسباب بنا ہی دے گا۔“

سلطانہ چپ ہو رہی۔ چنانچہ آخری کنگنی بھی ہاتھ سے اتر گئی۔ بُچے ہاتھ دیکھ کر اس کو بہت دکھ ہوتا تھا۔ پر کیا کرتی، پیٹ بھی تو آخر حیلے سے بھرنا تھا۔ جب پانچ مہینے گزر گئے اور آمدن خرچ کے مقابلے میں چوتھائی سے بھی کچھ کم رہی تو سلطانہ کی پریشانی اور زیادہ بڑھ گئی۔ خدا بخش بھی سارا دن اب گھر سے غائب رہنے لگا تھا۔ سلطانہ کو اس کا بھی دکھ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پڑوس میں اس کی دو تین ملنے والیاں موجود تھیں جن کے ساتھ وہ اپنا وقت کاٹ سکتی تھی۔ پر ہر روز ان کے یہاں جانا اور گھنٹوں بیٹھے رہنا اس کو بہت برا لگتا تھا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ اس نے ان سہلیوں سے ملنا جلنا بالکل ترک کر دیا۔ سارا دن وہ اپنے سنسان مکان میں بیٹھی رہتی۔ کبھی چھالیہ کاٹتی رہتی، کبھی اپنے پرانے اور پھٹے ہوئے کپڑوں کو سیتی رہتی اور کبھی باہر بالکنی میں آ کر جنگلے کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو جاتی اور سامنے ریلوے شیڈ میں ساکت اور متحرک انجنوں کی طرف گھنٹوں بے مطلب دیکھتی رہتی۔

سڑک کے دوسری طرف مال گودام تھا جو اس کونے سے اس کونے تک پھیلا ہوا تھا۔ داہنے ہاتھ کو لوہے کی چھت کے نیچے بڑی بڑی گانٹھیں پڑی رہتی تھیں اور ہر قسم کے مال و اسباب کے ڈھیر لگے رہتے تھے۔ بائیں ہاتھ کو کھلا میدان تھا جس میں بے شمار ریل کی پٹریاں بچھی ہوئی تھیں۔ دھوپ میں لوہے کی یہ پٹریاں چمکتیں تو سلطانہ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتی جن پر نیلی نیلی رگیں بالکل ان پٹڑیوں کی طرح ابھری رہتی تھیں۔ اس لمبے اور کھلے میدان میں ہر وقت انجن اور گاڑیاں چلتی رہتی تھیں۔ کبھی ادھر، کبھی ادھر۔ ان انجنوں اور گاڑیوں کی چھک چھک، پھک پھک سدا گونجتی رہتی تھی۔ صبح سویرے جب وہ اٹھ کر بالکنی میں آتی تو ایک عجیب سماں نظر آتا۔ دھندلکے میں انجنوں کے منہ سے گاڑھا گاڑھا دھواں نکلتا اور گدلے آسمان کی جانب موٹے اور بھاری آدمیوں کی طرح اٹھتا دکھائی دیتا تھا۔ بھاپ کے بڑے بادل بھی ایک شور کے ساتھ پٹڑیوں سے اٹھتے اور آنکھ جھپکنے کی دیر میں‌ ہوا کے اندر گھل مل جاتے تھے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ گاڑی کے کسی ڈبے کو جسے انجن نے دھکا دے کر چھوڑ دیا ہو، اکیلے پٹڑیوں پر چلتا دیکھتی تو اسے اپنا خیال آیا۔ وہ سوچتی کہ اسے بھی کسی نے زندگی کی پٹڑی پر دھکا دے کر چھوڑ دیا ہے اور وہ خود بخود جا رہی ہے، دوسرے لوگ کانٹے بدل رہے ہیں اور وہ چلی جا رہی ہے ------ نہ جانے کہاں پھر ایک روز ایسا آئے گا جب اس دھکے کا زور آہستہ آہستہ ختم ہو گا اور وہ کہیں رک جائے گی۔ کسی ایسے مقام پر جو اس کا دیکھا بھالا نہ ہو گا۔ یوں تو وہ بے مطلب، گھنٹوں ریل کی ان ٹیڑھی بانکی پٹڑیوں اور ٹھہرے اور چلتے ہوئے انجنوں کی طرف دیکھتی رہی، پر طرح طرح کے خیال اس کے دماغ میں آتے رہتے تھے۔ انبالہ چھاؤنی میں جب وہ رہتی تھی تو اسٹیشن کے پاس ہی اس کا مکان تھا۔ مگر وہاں اس نے کبھی ان چیزوں کو ایسی نظروں نہیں دیکھا تھا۔ اب تو کبھی اس کے دماغ میں یہ بھی خیال آتا کہ یہ جو سامنے ریل کی پٹڑیوں کا جال سا بچھا ہے اور جگہ جگہ سے بھاپ اور دھواں اٹھ رہا ہے، ایک بہت بڑا چکلا ہے۔ بہت سی گاڑیاں ہیں جن کو چند موٹے موٹے انجن ادھر ادھر دھکیلتے رہتے ہیں۔ سلطانہ کو تو بعض اوقات یہ انجن سیٹھ معلوم ہوتے جو کبھی کبھی انبالہ میں اس کے ہاں آیا کرتے تھے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ کسی انجن کو آہستہ آہستہ گاڑیوں کی قطار کے پاس سے گزرتا دیکھتی تو اسے ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی آدمی چکلے کے کسی بازار میں سے اوپر، کوٹھوں کی طرف دیکھتا جا رہا ہے۔ سلطانہ سمجھتی تھی کہ ایسی باتیں سوچنا دماغ کی خرابی کا باعث ہے۔ چنانچہ جب اس قسم کے خیال اس کو آنے لگے تو اس نے بالکنی میں جانا چھوڑ دیا۔ خدا بخش سے اس نے بارہا کہا، “ دیکھو میرے حال پر رحم کرو۔ یہاں گھر میں رہا کرو۔ میں سارا دن یہاں بیماروں کی طرح پڑی رہتی ہوں۔“ مگر اس نے ہر بار سلطانہ سے یہ کہہ کر اس کی تشفی کر دی “ جانِ من، میں باہر کچھ کمانے کی فکر کر رہا ہوں۔ اللہ نے چاہا تو چند دنوں میں ہی بیڑا پار ہو جائے گا۔“

پورے پانچ مہینے ہو گئے تھے مگر ابھی تک سلطانہ کا بیڑا پار ہوا تھا نہ خدا بخش کا۔ محرم کا مہینہ سر پر آ رہا تھا مگر سلطانہ کے پاس کالے کپڑے بنوانے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ مختار نے لیڈی ہملٹن کی ایک نئی وضع کی قمیص بنوائی تھی جس کی آستینیں کالی جارجٹ کی تھیں۔ اس کے ساتھ میچ کرنے کے لیے اس کے پاس کالی ساٹن کی شلوار تھی جو کاجل طرح چمکتی تھی۔ انوری نے ریشمی جارجٹ کی بڑی نفیس ساڑھی خریدی تھی۔ اس نے سلطانہ سے کہا تھا کہ وہ اس ساڑھی کے نیچے بوسکی کا پیٹی کوٹ پہنے گی کیوں کہ یہ نیا فیشن ہے۔ اس ساڑھی کے ساتھ پہننے کو انوری کالی مخمل کا ایک جوتا لائی تھی جو بڑا نازک تھا۔ سلطانہ نے جب یہ تمام چیزیں دیکھیں تو اس کو اس احساس نے بہت دکھ دیا کہ وہ محرم منانے کے لیے ایسا لباس خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔

انوری اور مختار کے پاس یہ لباس دیکھ کر جب وہ گھر آئی تو اس کا دل بہت مغموم تھا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک پھوڑا سا اس کے اندر پیدا ہو گیا ہے۔ گھر بالکل خالی تھا۔ خدا بخش حسبِ معمول باہر تھا۔ دیر تک وہ دری پر گاؤ تکیہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹی رہی، پر جب اس کی گردن اونچائی کے باعث اکڑ گئی تو باہر بالکنی میں چلی گئی تاکہ غم افزا خیالات کو اپنے دماغ میں سے نکال دے۔

سامنے پٹڑیوں پر گاڑیوں کے ڈبے کھڑے تھے، پر انجن کوئی بھی نہ تھا۔ شام کا وقت تھا ------ چھڑکاؤ ہو چکا تھا اس لیے گرد و غبار دب گیا تھا۔ بازار میں ایسے آدمی چلنے شروع ہو گئے تھے جو تاک جھانک کرنے کے بعد چپ چاپ گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک آدمی نے گردن اونچی کر کے سلطانہ کی طرف دیکھا۔ سلطانہ مسکرا دی اور اس کو بھول گئی کیونکہ اب سامنے پٹڑیوں پر ایک انجن نمودار ہو گیا تھا۔ سلطانہ نے غور سے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یہ خیال دماغ میں سے نکالنے کی خاطر جب اس نے سڑک کی جانب دیکھا تو اسے وہی آدمی بیل گاڑی کے پاس کھڑا نظر آیا۔ جس نے اس کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا تھا۔ سلطانہ نے ہاتھ سے اسے اشارہ کیا۔ اس آدمی نے ادھر ادھر دیکھ کر ایک لطیف اشارے سے پوچھا کدھر سے آؤں۔ سلطانہ نے اسے راستہ بتا دیا۔ وہ آدمی تھوڑی دیر کھڑا رہا، مگر بڑی پھرتی سے اوپر چلا آیا۔

سلطانہ نہ اسے دری پر بٹھایا۔ جب وہ بیٹھ گیا تو اس نے سلسلہ گفتگو شروع کرنے کے لیے کہا، “ آپ اوپر آتے ڈر کیوں رہے تھے؟“ وہ آدمی یہ سن کر مسکرایا، “ تمہیں کیسے معلوم ہوا ------ ڈرنے کی بات ہی کیا تھی۔“ اس پر سلطانہ نے کہا، “ یہ میں نے اس لیے کہا کہ آپ دیر تک وہیں کھڑے رہے، اور پھر کچھ سوچ کر ادھر آئے۔“ وہ یہ سن کر پھر مسکرایا، “ تمہیں غلط فہمی ہوئی۔ میں تمہارے فلیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہاں کوئی عورت کھڑی ایک مرد کو ٹھینگا دکھا رہی تھی۔ مجھے یہ منظر پسند آیا۔ پھر بالکنی میں سبز بلب روشن ہوا تو میں کچھ دیر کے لیے ٹھہر گیا۔ سبز روشنی مجھے بہت پسند ہے۔ آنکھوں کو بہت اچھی لگتی ہے۔“ یہ کہہ کر اس نے کمرے کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ سلطانہ نے پوچھا، “ آپ جا رہے ہیں؟“ اس آدمی نے جواب دیا، “ نہیں، میں تمہارے مکان کو دیکھنا چاہتا ہوں ------ چلو مجھے تمام کمرے دکھاؤ۔“

سلطانہ نے اس کو تینوں کمرے ایک ایک کر کے دکھا دیئے۔ اس آدمی نے بالکل خاموشی سے ان کمروں کا معائنہ کیا۔ جب وہ دونوں پھر اسی کمرے میں آ گئے جہاں پہلے بیٹھے ہوئے تھے تو اس آدمی نے کہا، “ میرا نام شنکر ہے۔“

سلطانہ نے پہلے بار غور سے شنکر کی طرف دیکھا۔ وہ متوسط قد کا معمولی شکل و صورت کا آدمی تھا مگر اس کی آنکھیں غیر معمولی طور پر صاف اور شفاف تھیں۔ کبھی کبھی ان میں ایک عجیب قسم کی چمک پیدا ہوتی تھی۔ گٹھیلا اور کسرتی بدن تھا۔ کنپٹیوں پر اس کے بال سفید ہو رہے تھے۔ خاکستری رنگ کی گرم پتلون پہنے تھا سفید قمیص تھی جس کا کالر گردن پر سے اوپر کو اٹھا ہوا تھا۔

شنکر کچھ اس طرح دری پر بیٹھا تھا کہ معلوم ہوتا تھا شنکر کی بجائے سلطانہ گاہک ہے۔ اس احساس نے سلطانہ کو قدرے پریشان کر دیا۔ چنانچہ اس نے شنکر سے کہا “ فرمائیے۔“

شنکر بیٹھا تھا یہ سن کر لیٹ گیا۔ “ کیا فرماؤں، کچھ تم ہی فرماؤ۔ بلایا تمہیں نے ہے مجھے۔“ جب سلطانہ کچھ نہ بولی تو وہ اٹھ بیٹھا، “ میں سمجھا۔ لو، اب مجھ سے سنو، جو کچھ تم نے سمجھا، غلط ہے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کچھ دے کر جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی طرح میری بھی فیس ہے۔ مجھے جب بلایا جائے تو فیس دینا پڑتی ہے۔“

سلطانہ یہ سن کر چکرا گئی مگر اس کے باوجود اسے بے اختیار ہنسی آ گئی۔ “ آپ کام کیا کرتے ہیں؟“

شنکر نے جواب دیا، “ یہی جو تم لوگ کرتے ہو۔“

“ کیا؟“

“ میں ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔ میں کچھ بھی نہیں کرتی۔“

“ میں بھی کچھ نہیں کرتا۔“

سلطانہ نے بھنا کر کہا، “ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی ------ آپ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرتے ہوں گے۔“

شنکر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا، “ تم بھی کچھ نہ کچھ ضرور کرتی ہو گی۔“

“ جھک مارتی ہوں۔“

“ میں بھی جھک مارتا ہوں۔“

“ تو آؤ دونوں جھک ماریں۔“

“ حاضر ہوں، مگر جھک مارنے کے دام میں کبھی نہیں دیا کرتا۔“

“ ہوش کی دوا کرو ------ یہ لنگر خانہ نہیں۔“

“ اور میں بھی والنٹیر نہیں۔“

سلطانہ یہاں رک گئی۔ اس نے پوچھا، “ یہ والنٹیر کون ہوتے ہیں؟“

شنکر نے جواب دیا، “ اُلو کے پٹھے۔“

“ میں اُلو کی پٹھی نہیں۔“

“ مگر وہ آدمی خدا بخش جو تمہارے ساتھ رہتا ہے، ضرور اُلو کا پٹھا ہے۔“

“ کیوں؟“

“ اس لیے کہ وہ کئی دنوں سے ایک ایسے خدا رسیدہ فقیر کے پاس اپنی قسمت کُھلوانے کی خاطر جا رہا ہے جس کی اپنی قسمت زنگ لگے تالے کی طرح بند ہے۔“ یہ کہہ کر شنکر ہنسا۔

اس پر سلطانہ نے کہا، “ تم ہندو ہو۔ اسی لیے ہمارے ان بزرگوں کا مذاق اڑاتے ہو۔“

شنکر مسکرایا، “ ایس جگہوں پر ہندو مسلم سوال پیدا نہیں ہوا کرتے۔ بڑے بڑے پنڈت اور مولوی بھی یہاں آئیں تو شریف آدمی بن جائیں۔“

“ جانے کیا اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہو ------ بولو، رہو گے؟“

“ اس شرط پر جو پہلے بتا چکا ہوں۔“

سلطانہ اٹھ کھڑی ہوئی، “ تو جاؤ رستہ پکڑو۔“

شنکر آرام سے اٹھا۔ پتلون کی جیبوں میں دونوں ہاتھ ٹھونسے اور جاتے ہوئے کہا، “ میں کبھی کبھی اس بازار سے گزرا کرتا ہوں۔ جب بھی تمہیں میری ضرورت ہو، بلا لینا ------ بہت کام کا آدمی ہوں۔“

شنکر چلا گیا، اور سلطانہ کالے لباس کو بھول کر دیر تک اس کے متعلق سوچتی رہی۔ اس آدمی کی باتوں نے اس کے دکھ کو بہت ہلکا کر دیا تھا۔ اگر وہ انبالہ میں آیا ہوتا جہاں کہ وہ خوشحال تھی تو اس نے کسی اور ہی رنگ میں اس آدمی کو دیکھا ہوتا، اور بہت ممکن ہے کہ اسے دھکے دے کر باہر نکال دیا ہوتا۔ مگر یہاں چونکہ وہ بہت اداس رہتی تھی، اس لیے شنکر کی باتیں اسے پسند آئیں۔

شام کو جب خدا بخش آیا تو سلطانہ نہ اس سے پوچھا، “ تم آج سارا دن کدھر غائب رہے ہو؟“

خدا بخش تھک کر چور چور ہو رہا تھا، کہنے لگا، “ پرانے قلعے کے پاس سے آ رہا ہوں۔ وہاں ایک بزرگ کچھ دنوں سے ٹھہرے ہوئے ہیں۔ انہی کے پاس ہر روز جاتا ہوں کہ ہمارے دن پھر جائیں ------“

“ کچھ انہوں نے تم سے کہا؟“

“ نہیں، ابھی وہ مہربان نہیں ہوئے ------ پر سلطانہ، میں جو ان کی خدمت کر رہا ہوں، وہ اکارت نہیں جائے گی۔ اللہ کا فضل شاملِ حال رہا تو ضرور وارے نیارے ہو جائیں گے۔“

سلطانہ کے دماغ میں محرم منانے کا خیال سمایا ہوا تھا۔ خدا بخش سے رونی آواز میں کہنے لگی، “ سارا دن باہر غائب رہتے ہو ------ میں یہاں پنجرے میں قید رہتی ہوں۔ کہیں جا سکتی ہوں نہ آ سکتی ہوئں۔ محرم سر پر آ گیا ہے۔ کچھ تو نے اس کی بھی فکر کی کہ مجھے کالے کپڑے چاہیں۔ گھر میں پھوٹی کوڑی تک نہیں۔ کنگنیاں تھیں، وہ ایک ایک کر کے بک گئیں۔ اب تم ہی بتاؤ کیا ہو گا ------ یوں فقیروں کے پیچھے کب تک مارے مارے پھرا کرو گے۔ مجھے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہاں دہلی میں خدا نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا ہے۔ میری سنو تو اپنا کام شروع کر دو۔ کچھ تو سہارا ہو جائے گا۔“

خدا بخش دری پر لیٹ گیا اور کہنے لگا، “ پر یہ کام شروع کرنے کے لیے بھی تو تھوڑا بہت سرمایا چاہیے۔ ------ خدا کے لیے اب ایسی دکھ بھری باتیں نہ کرؤ۔ مجھ سے اب برداشت نہیں ہو سکتیں۔ میں نے سچ مچ انبالہ چھوڑنے میں سخت غلطی کی۔ پر جو کرتا ہے، اللہ ہی کرتا ہے اور ہماری بہتری ہی کے لیے کرتا ہے۔ کیا پتہ ہے کچھ دیر اور تکلیفیں برداشت کرنے کے بعد ہم ۔۔۔۔۔۔“

سلطانہ نے بات کاٹ کر کہا، “ تم خدا کے لیے کچھ کرو، چوری کرو یا ڈاکہ ڈالو، پر مجھے ایک شلوار کا کپڑا ضرور لا دو۔ میرے پاس سفید بوسکی کی قمیص پڑی ہے اس کو میں رنگوا لوں گی۔ سفید نینون کا ایک نیا دوپٹہ بھی میرے پاس موجود ہے۔ وہی جو تم نے مجھے دیوالی پر لا کر دیا تھا۔ یہ بھی قمیص کے ساتھ ہی رنگوا لیا جائے گا۔ ایک صرف شلوار کی کسر ہے۔ سو، وہ تم کسی نہ کسی طرح پیدا کرو ۔۔۔۔۔۔ دیکھو، تمہیں میری جان کی قسم، کسی نہ کسی طرح ضرور لا دو ------ میری بھتی کھاؤ، اگر نہ لاؤ۔“

خدا بخش اٹھ بیٹھا، “ اب تم خوامخواہ زور دیئے چلی جا رہی ہو ------ میں کہاں سے لاؤں گا ------ افیم کھانے کے لیے تو میرے پاس ایک پیسہ نہیں۔“

“ کچھ بھی کرو، مگر مجھے ساڑھے چار گز کالی ساٹن لا دو۔“

“ دعا کرو کہ آج رات ہی اللہ دو تین آدمی بھیج دے۔“

“ لیکن تم کچھ نہیں کرو گے ------ تم اگر چاہو تو ضرور اتنے پیسے پیدا کر سکتے ہو۔ جنگ سے پہلے یہ ساٹن بارہ چودہ آنے گز مل جاتی تھی، اب سوا روپے گز کے حساب سے ملتی ہے۔ ساڑھے چار گزوں پر کتنے روپے خرچ ہو جائیں گے؟“

“ اب تم کہتی ہو تو میں‌ کوئی حیلہ کروں گا۔“ یہ کہہ کر خدا بخش اٹھا۔ “ لو اب ان باتوں کو بھول جاؤ۔ میں ہوٹل سے کھانا لے آؤں۔“

ہوٹل سے کھانا آیا۔ دونوں نے مل کر زہر مار کیا اور سو گئے۔ صبح ہوئی خدا بخش پرانے قلعے والے فقیر کے پاس چلا گیا اور سلطانہ اکیلی رہ گئی۔ کچھ دیر لیٹی رہی، کچھ دیر سوئی رہی۔

ادھر ادھر کمروں میں ٹہلتی رہی۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اس نے اپنا سفید نینون کا دوپٹہ اور سفید بوسکی کی قمیص نکالی اور نیچے لانڈری والے کو رنگنے کے لیے دے آئی۔ کپڑے دھونے کے علاوہ وہاں رنگنے کا کام بھی ہوتا تھا۔ یہ کام کرنے کے بعد اس واپس آ کر فلموں کی کتابیں پڑھیں جن میں اس کے دیکھے ہوئے فلموں کی کہانی اور گیت چھپے ہوئے تھے۔ یہ کتابیں پڑھتے پڑھتے وہ سو گئی۔ جب اتھی تو چار بج چکے تھے، کیونکہ دھوپ آنگن میں سے موری کے پاس پہنچ چکی تھی۔ نہا دھو کر فارغ ہوئی تو گرم چادر اوڑھ کر بالکنی میں آ کھڑی ہوئی۔ قریباّ ایک گھنٹہ سلطانہ بالکنی میں کھڑی رہی۔ اب شام ہو گئی تھی۔ بتیاں روشن ہو رہی تھیں۔ نیچے سڑک پر رونق کے آثار نظر آنے لگے۔ سردی میں تھوڑی سی شدت ہو گئی ------ مگر سلطانہ کو یہ ناگوار معلوم نہ ہوئی۔ وہ سڑک پر آتے جاتے تانگوں اور موٹروں کر طرف ایک عرصے سے دیکھ رہی تھی۔ دفعتہّ اسے شنکر نظر آیا۔ مکان کے نیچے پہنچ کر اس نے گردن اونچی کی اور سلطانہ کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔ سلطانہ نے غیر ارادی طور پر ہاتھ کا اشارہ کیا اور اسے اوپر بلا لیا۔

جب شنکر اوپر آ گیا تو سلطانہ بہت پریشان ہوئی کہ اس سے کیا کہے۔ دواصل اس نے بلا سوچے سمجھے اسے اشارہ کر دیا تھا۔ شنکر بے حد مطمئن تھا جیسے اس کا اپنا گھر ہے۔ چنانچہ بڑی بے تکلفی سے پہلے روز کی طرح وہ گاؤ تکیہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا۔ جب سلطانہ نہ دیر تک اس سے کوئی بات نہ کی تو اس نے کہا، “ تم مجھے سو دفعہ بلا سکتی ہو اور سو دفعہ کہہ سکتی ہو کہ چلے جاؤ ------ میں ایسی باتوں پر کبھی ناراض نہیں ہوا کرتا۔“

سلطانہ شش و پنج میں گرفتار ہو گئی۔ کہنے لگی، “ نہیں بیٹھو تمہیں جانے کو کون کہتا ہے۔“

شنکر اس پر مسکرا دیا، “ تو میری شرطیں منظور ہیں۔“

“ کیسی شرطیں؟“ سلطانہ نے ہنس کر کہا۔ “ کیا نکاح کر رہے ہو مجھ سے؟“

“ نکاح اور شادی کیسی؟ ------ نہ تم عمر بھر کسی سے نکاح کرو گی نہ میں۔ یہ رسمیں ہم لوگوں کے لیے نہیں ------ چھوڑو ان فضولیات کو۔ کوئی کام کی بات کرو۔“

“ بولو کیا بات کروں؟“

“ تم عورت ہو ------ کوئی ایسی بات شروع کرو جس سے دو گھڑی دل بہل جائے۔ اس دنیا میں صرف دکانداری ہی دکانداری نہیں، کچھ اور بھی ہے۔“

سلطانہ ذہنی طور پر اب شنکر کو قبول کر چکی تھی۔ کہنے لگی، “ صاف صاف کہو تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟“

“ جو دوسرے چاہتے ہیں۔“ شنکر اٹھ کر بیٹھ گیا۔

“ تم میں اور دوسروں میں پھر فرق ہی کیا رہا؟“

“ تم میں اور مجھ میں‌ کوئی فرق نہیں۔ ان میں اور مجھ میں زمیں و آسمان کا فرق ہے۔ ایسی بہت سی باتیں ہوتی ہیں جو پوچھنا نہیں چاہیں، خود سمجھنا چاہیں۔“

سلطانہ نے تھوڑی دیر تک شنکر کی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ پھر کہا، “ میں سمجھ گئی۔“

“ تو کہو کیا ارادہ ہے؟“

“ تم جیتے میں ہاری، پر میں کہتی ہوں آج تک کسی نے ایسی بات قبول نہ کی ہو گی۔“

“ تم غلط کہتی ہو ------ اسی محلے میں تمہیں ایسی سادہ لوح عورتیں بھی مل جائیں گی جو کبھی یقین نہیں کریں گی کہ عورت ایسی ذلت قبول کر سکتی ہے، جو تم بغیر کسی احساس کے قبول کرتی رہی ہو۔ لیکن ان کے نہ یقین کرنے کے باوجود تم ہزاروں کی تعداد میں موجود ہو ------ تمہارا نام سلطانہ ہے نا؟“

“ سلطانہ ہی ہے۔“

شنکر اٹھ کھڑا ہوا اور ہنسنے لگا۔ “ میرا نام شنکر ہے ------ یہ نام بھی عجیب اوٹ پٹانگ ہوتے ہیں۔ چلو آؤ اندر چلیں۔“

شنکر اور سلطانہ دری والے کمرے میں واپس آئے تو دونوں ہنس رہے تھے۔ نہ جانے کس بات پر۔ جب شنکر جانے لگا تو سلطانہ نے کہا، “ شنکر میری بات مانو گے؟“

شنکر نے جواباّ کہا، “ پہلے بات بتاؤ۔“

سلطانہ کچھ جھینپ سی گئی، “ تم کہو گے کہ میں دام وصول کرنا چاہتی ہوں۔ مگر ۔۔۔۔“

“ کہو کہو ------ رک کیوں گئی ہو۔“

سلطانہ نے جرات سے کام لے کر کہا، “ بات یہ ہے کہ محرم آ رہا ہے اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں کالی شلوار بنوا سکوں ------ یہاں کے سارے دکھڑے تو تم مجھ سے سن ہی چکے ہو۔ قمیص اور دوپٹہ میرے پاس موجود تھا جو میں نے آج رنگوانے کے لیے دے دیا ہے۔“

شنکر نے یہ سن کر کہا، “ تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں کچھ روپے دے دوں جو تم یہ کالی شلوار بنوا سکو۔“

سلطانہ جے فوراّ ہی کیا، “ نہیں، میرا مطلب یہ ہے کہ اگر ہو سکے تو تم مجھے ایک کالی شلوار لا دو۔“

شنکر مسکرایا، “ میری جیب میں تو اتفاق ہی سے کبھی کچھ ہوتا ہے۔ بہرحال میں کوشش کروں گا۔ محرم کی پہلی تاریخ کو تمہیں یہ شلوار مل جائے گی۔ لے بس، اب خوش ہو گئیں۔“

سلطانہ کے بندوں کی طرف دیکھ کر پھر اس نے پوچھا، “ کیا یہ بندے تم مجھے دے سکتی ہو؟“

سلطانہ نے ہنس کر کہا، “ تم انہیں کیا کرو گے؟“ چاندی کے معمولی سے بندے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پانچ روپے کے ہوں گے۔“

اس پر شنکر نے کہا، “ میں نے تم سے بندے مانگے ہیں۔ ان کی قیمت نہیں پوچھی۔، بولو دیتی ہو؟“

“ لے لو۔“ یہ کہہ کر سلطانہ نے بُندے اتار کر شنکر کو دے دیئے۔ اس کے بعد اسے افسوس ہوا مگر شنکر جا چکا تھا۔

سلطانہ کو قطعاّ یقین نہیں تھا کہ شنکر اپنا وعدہ پورا کرئے گا۔ مگر آٹھ روز کے بعد محرم کی پہلی تاریخ کو صبح نو بجے دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو شنکر کھڑا تھا۔ اخبار میں لپٹی ہوئی چیز اس نے سلطانہ کو دی اور کہا، “ ساٹن کی کالی شلوار ہے۔ دیکھ لینا، شاید لمبی ہو ------ اب میں چلتا ہوں۔“

شنکر شلوار دے کر چلا گیا اور کوئی بات اس نے سلطانہ سے نہ کی۔ اس کی پتلون میں شکنیں پڑی ہوئی تھیں۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ابھی سو کر اٹھا ہے اور سیدھا ادھر ہی چلا آیا ہے۔

سلطانہ نے کاغذ کھولا۔ ساٹن کی کالی شلوار تھی۔ ایسی ہی جیسی کہ وہ مختار کے پاس دیکھ کر آئی تھی۔ سلطانہ بہت خوش ہوئی۔ بُندوں اور اس سودے کا جو افسوس اسے ہوا تھا، اس شلوار نے اور شنکر کی وعدہ ایفائی نے دور کر دیا۔

دوپہر کو وہ نیچے لانڈری سے اپنی رنگی ہوئی قمیص اور دوپٹہ لے آئی۔ تینوں کالے کپڑے جب اس نے پہن لیے تو دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو مختار اندر داخل ہوئی۔

اس نے سلطانہ کے تینوں کپڑوں کی طرف دیکھا اور کہا، “ قمیص اور دوپٹہ تو رنگا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ پر یہ شلوار نئی ہے ------ کب بنوائی؟“

سلطانہ نے جواب دیا، “ آج ہی درزی لایا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اس کی نظریں مختار کے کانوں پر پڑیں، “ یہ بُندے تم نے کہاں سے منگوائے ہیں؟“

مختار نے جواب دیا، “ آج ہی منگوائے ہیں۔“

اس کے بعد دونوں کو تھوڑی دیر خاموش رہنا پڑا۔
۔۔۔۔۔۔ ختم شد ۔۔۔۔۔۔
--------------------------------------------------------------------------------------------
تبصرے اور تجاویز کے لیے مندرجہ ذیل ربط استعمال کیجیئے :
http://www.urduweb.org/mehfil/viewtopic.php?t=6734
 

شمشاد

لائبریرین
ممد بھائی

ممد بھائی

فارس روڈ سے آپ اس طرف گلی میں چلے جایئے جو سفید گلی کہلاتی ہے تو اس کے آخری سرے پر آپ کو چند ہوٹل ملیں گے۔ یوں تو بمبئی میں قدم قدم پر ہوٹل اور ریستوران ہوتے ہیں مگر یہ ریستوران اس لحاظ سے بہت دلچسپ اور منفرد ہیں کہ یہ اس علاقے میں واقع ہیں جہا بھانت بھانت کی رنڈیاں بستی ہیں۔

ایک زمانہ گزر چکا ہے۔ بس آپ یہی سمجھئے کہ بیس برس کے قریب، جب میں ان ریستورانوں میں چائے پیا کرتا تھا اور کھانا کھایا کرتا تھا۔ سفید گلی سے آگے نکل کر " پلے ہاؤس " آتا ہے۔ ادھر دن بھر ہاؤ ہو رہتی ہے۔ سنیما کے شو دن بھر چلتے رہتے تھے۔ چمپیاں ہوتھ تھی۔ سنیما گھر غالبا چار تھے۔ ان کے باہر گھنٹیاں بجا بجا کر بڑے سماعت پاش طریقے پر لوگوں کو مدعو کرتے تھے : " آؤ آؤ - دو آنے میں – فسٹ کلاس کھیل – دو آنے میں۔"

بعض اوقات یہ گھنٹیاں بجانے والے زبردستی لوگوں کو اندر دھکیل دیتے تھے۔ باہر کرسیوں پر چمپی کرانے والے بیٹھے ہوتے تھے جن کی کھوپڑیوں کی مرمت بڑے سائنٹیفک طریقے پر کی جاتی تھی۔ مالش اچھی چیز ہے، لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بمبئی کے رہنے والے اس کے اتنے گرویدہ کیوں ہیں۔ دن کو اور رات کو، ہر وقت انہیں تیل مالش کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ آپ اگر چاہیں تو رات کے تین بچے بڑے آسانی سے تیل مالشیا بلا سکتے ہیں۔ یوں بھی ساری رات، آپ خواہ بمبئی کے کسی کونے میں ہوں، یہ آواز آپ یقینا سنتے رہیں گے " پی --- پی --- پی "۔

یہ ، پی ، چمپی کا مخفف ہے۔

فارس روڈ یوں تو ایک سڑک کا نام ہے لیکن دراصل یہ اس پورے علاقے سے منسوب ہے جہاں بیسوائیں بستی ہیں۔ یہ بہت بڑا علاقہ ہے۔ اس میں کئی گلیاں ہیں، جن کے مغتلف نام ہیں، لیکن سہولت کے طور پر اس کی ہر گلی کو فارس روڈ یا سفید گلی کہا جاتا ہے۔ اس میں سینکڑوں جنگلا لگی دکانیں ہیں جن میں مختلف رنگ و سن کی عورتیں بیٹھ کر اپنا جسم بیچتی ہیں۔ مختلف داموں پر، آٹھ آنے سے آٹھ روپے تک، آٹھ روپے سے سو روپے تک۔ ہر دام کی عورت آپ کو اس علاقے میں مل سکتی ہے۔

یہودی، پنجابی، مرہٹی، کشمیری، گجراتی، بنگالی، اینگلو انڈین، فرانسیسی، چینی، جاپانی، غرضیکہ ہر قسم کی عورت آپ کو یہاں سے دستیاب ہو سکتی ہے۔ --- یہ عورتیں کیسی ہوتی ہیں --- معاف کیجیئے گا، اس کے متعلق آپ مجھ سے کچھ نہ پوچھیئے --- بس عورتیں ہوتی ہیں۔ اور ان کو گاہک مل ہی جاتے ہیں۔

اس علاقے میں بہت سے چینی بھی آباد ہیں۔ معلوم نہیں یہ کیا کاروبار کرتے ہیں، مگر رہتے اسی علاقے میں ہیں۔ بعض تو ریستوران چلاتے ہیں جن کے باہر بورڈوں پر اوپر نیچے کیڑے مکوڑوں کی شکل میں کچھ لکھا ہوتا ہے۔ معلوم نہیں کیا۔

اس علاقے میں بزنس مین اور ہر قوم کے لوگ آباد ہیں۔ ایک گلی ہے جس کا نام عرب سین ہے۔ وہاں کے لوگ اسے عرب گلی کہتے ہیں۔ اس زمانے میں جس کی میں بات کر رہا ہوں، اس گلی میں غالبا بیس پچیس عرب رہتے تھے جو خود کو موتیوں کے بیوپاری کہتے تھے۔ باقی آبادی پنجابیوں اور رام پوریوں پر مشتمل تھی۔

اس گلی میں مجھے ایک کمرہ مل گیا تھا جس میں سورج کی روشنی کا داخلہ بند تھا، ہر وقت بجلی کا بلب روشن رہتا تھا۔ اس کا کرایہ ساڑھے نو روپے ماہوار تھا۔

آپ کا اگر بمبئی میں قیام نہیں رہا تو شاید آپ مشکل سے یقین کریں کہ وہاں کسی کو کسی اور سے سروکار نہیں ہوتا۔ اگر آپ اپنی کھولی میں مر رہے ہیں تو آپ کوکوئی نہیں پوچھے گا۔ آپ کے پڑوس میں قتل ہو جائے، مجال ہے جو اپ کو اس کی خبر ہو جائے۔ مگر وہاں عرب گلی میں صرف ایک شخص ایسا تھا جس کو اڑوس پڑوس کے ہر شخص سے دلچسپی تھی۔ اور اس کا ناممد بھائی تھا۔ ممد بھائی رامپور کا رہنے والا تھا۔ اول درجے کا پھکیت، گتکے اور بنوٹ کے فن میں یکتا۔ میں جب عرب گلی میں آیا تو ہوٹلوں میں اس کا نام اکثر سننے میں آیا، لیکن ایک عرصے تک اس سے ملاقات نہ ہو سکی۔

میں صبح سویرے اپنی کھولی سے نکل جاتا تھا اور بہت رات گئے لوٹتا تھا۔ لیکن مجھے ممد بھائی سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا کیونکہ اس کے متعلق عرب گلی میں بے شمار داستانیں مشہور تھیں کہ بیس پچیس آدمی اگر لاٹھیوں سے مسلح ہو کر اس پر ٹوٹ پڑیں تو وہ اس کا بال تک بیکا نہیں کر سکتے۔ ایک منٹ کے اندر اندر وہ سب کو چت کر دیتا ہے۔ اور یہ کہ اس جیسا چھری مار ساری بمبئی میں نہیں مل سکتا۔ ایسے چھری مارتا ہے کہ جس کے لگتی ہے اسے پتہ بھی نہیں چلتا۔ سو قدم بغیر احساس کے چلتا رہتا ہے اور آخر ایک دم ڈھیر ہو جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اس کے ہاتھ کی صفائی ہے۔

اس کے ہاتھ کی صفائی دیکھنے کا مجھے اشتیاق نہیں تھا لیکن یوں اس کے متعلق اور باتیں سن سن کر میرے دل میں یہ خواہش ضرور پیدا ہو چکی تھی کہ میں اسے دیکھوں۔ اس سے باتیں نہ کروں لیکن قریب سے دیکھ لوں کہ وہ کیسا ہے۔ اس تمام علاقے پر اس کی شخصیت چھائی ہوئی تھی۔ وہ بہت بڑا دادا یعنی بدمعاش تھا۔ لیکن اس کے باوجود لوگ کہتے تھے کہ اس نے کسی کی بہو بیٹی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ لنگوٹ کا بہت پکا ہے۔ غریبوں کے دکھ درد کا شریک ہے۔ عرب گلی، صرف عرب گلی ہی نہیں، آس پاس جتنی گلیاں تھیں، ان میں جتنی نادار عورتیں تھیں سب ممد بھائی کو جانتی تھیں کیونکہ وہ اکثر ان کی مالی امداد کرتا رہتا تھا۔ لیکن وہ خود ان کے پاس کبھی نہیں جاتا تھا۔ اپنے کسی خورسال شاگرد کو بھیج دیتا تھا اور ان کی خیریت دریافت کر لیا کرتا تھا۔

مجھے معلوم نہیں اس کی آمدنی کے کیا ذرائع تھے۔ اچھا کھاتا تھا، اچھا پہنتا تھا۔ اس کے پاس ایک چھوٹا سا تانگہ تھا جس میں بڑا تندرست ٹٹو جتا ہوتا تھا۔ اس کو وہ خود چلاتا تھا۔ ساتھ دو یا تین شاگرد ہوتے تھے۔ بڑے باادب – بھنڈی بازار کا ایک چکر لگا کر یا کسی درگاہ میں ہو کر وہ اس تانگے میں واپس عرب گلی آ جاتا تھا اور کسی ایرانی کے ہوٹل میں بیٹھ کر اپنے شاگردوں کے ساتھ گتکے اور بنوٹ کی باتوں میں مصروف ہو جاتا تھا۔

میری کھولی کے ساتھ ہی ایک اور کھولی تھی جس میں مارواڑ کا ایک مسلمان رقاص رہتا تھا۔ اس نے مجھے ممد بھائی کی سینکڑوں کہانیاں سنائیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ ممد بھائی ایک لاکھ روپے کا آدمی ہے۔ اس کو ایک مرتبہ ہیضہ ہو گیا تھا۔ ممد بھائی کو پتہ چلا تو اس نے فارس روڈ کے تمام ڈاکٹر اس کی کھولی میں اکٹھے کر دیے اور ان سے کہا، " دیکھو، اگر عاشق حسین کو کچھ ہو گیا تو میں سب کا صفایا کر دوں گا۔" عاشق حسین نے بڑے عقیدت مندانہ لہبے میں مجھ سے کہا، " منٹو صاحب، ممد بھائی فرشتہ ہے ۔۔۔۔ فرشتہ ۔۔۔۔ جب اس نے ڈاکٹروں کو دھمکی دی تو وہ سب کانپنے لگے۔ ایسا لگ کے علاج کیا کہ میں دو دن میں ٹھیک ٹھاک ہو گیا۔

ممد بھائی کے متعلق میں عرب گلی کے گندے اور واہیات ریستورانوں میں اور بھی بہت کچھ سن چکا تھا۔ ایک شخص نے غالبا اس کا شاگرد تھا اور خود کو بہت بڑا پھکیت سمجھتا تھا، مجھ سے یہ کہا کہ ممد دادا اپنے نیفے میں ایک ایسا آبدار خنجر اڑس کر رکھتا ہے جو استرے کی طرح شیو بھی کر سکتا ہے اور یہ خنجر نیام میں نہیں ہوتا، کھلا رہتا ہے۔ بالکل ننگا، اور وہ بھی اس کے پیٹ کے ساتھ۔ اس کی نوک اتنی تیکھی ہے کہ اگر باتیں کرتے ہوئے، جھکتے ہوئے، اس سے ذرا سی غلطی ہو جائے تو ممد بھائی کا ایک دم کام تمام ہو کے رہ جائے۔

ظاہر ہے کہ اس کو دیکھنے اور اس سے ملنے کا اشتیاق دن بدن میرے دل و دماغ میں بڑھتا گیا۔ معلوم نہیں میں نے اپنے تصور میں اس کی شکل و صورت کا کیا نقشہ تیار کیا تھا، بہرحال اتنی مدت کے بعد مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ میں ایک قوی ہیکل انسان کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا تھا جس کا نام ممد بھائی تھا، اس قسم کا آدمی جو ہرکولیس سائیکلوں پر اشتہار کے طور دیا جاتا ہے۔

میں صبح سویرے اپنے کام پر نکل جاتا تھا اور رات کو دس بجے کے قریب کھانے وانے سے فارغ ہو کر واپس آ کر فورا سو جاتا تھا۔ اس دوران میں ممد بھائی سے کیسے ملاقات ہو سکتی تھی۔ میں نے کئی مرتبہ سوچا کہ کام پر نہ جاؤں اور سارا دن عرب گلی میں گزار کر ممد بھائی کو دیکھنے کی کوشش کروں، مگر افسوس کہ میں ایسا نہ کر سکا اس لیے کہ میری ملازمت ہی بڑی واہیات قسم کی تھی۔

ممد بھائی سے ملاقات کرنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک انفلوئنزا نے مجھ پر زبردست حملہ کیا۔ ایسا حملہ کہ میں بوکھلا گیا۔ خطرہ تھا کہ یہ بگڑ کر نمونیا میں تبدیل ہو جائے گا، کیونکہ عرب گلی کے ایک ڈاکٹر نے یہی کہا تھا۔ میں بالکل تن تنہا تھا۔ میرے ساتھ جو ایک آدمی رہتا تھا، اس کو پونہ میں نوکری مل گئی تھی، اسلیے اس کی رفاقت بھی نصیب نہیں تھی۔ میں بخار میں پھنکا جا رہا تھا ۔ اس قدر پیاس تھی کہ جو پانی کھولی میں رکھا تھا، وہ میرے لیے ناکافی تھا۔ اور دوست یار کوئی پاس نہیں تھا جومیری دیکھ بھال کرتا۔

میں بہت سخت جان ہوں، دیکھ بھال کی مجھے عموما ضرورت نہیں ہوا کرتی۔ مگر معلوم نہیں کہ وہ کس قسم کا بخار تھا۔ انفلوئنزا تھا، ملیریا تھا یا اور کیا تھا۔ لیکن اس نے میری ریڑھ کی ہڈی بوڑ دی۔ میں بلبلانے لگا۔ میرے دل میں پہلی مرتبہ خواہش پیدا ہوئی کہ میرے پاس کوئی ہو جو مجھے دلاسے دے۔ دلاسہ نہ دے تو کم از کم ایک سیکنڈ کے لیے اپنی شکل دکھا کے چلا جائے تا کہ مجھے یہ خوشگوار احساس ہو کہ مجھے پوچھنے والا بھی کوئی ہے۔

دو دن تک میں بستر میں پڑا تکلیف بھری کروٹیں لیتا رہا، مگر کوئی نہ آیا۔ آنا بھی کسے تھا۔ میری جان پہچان کے آدمی ہی کتنے تھے ۔۔۔ دو تین یا چار ۔۔۔ اور وہ اتنی دور رہتے تھے کہ ان کو میری موت کا علم بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ اور پھر وہاں بمبئی میں کون کس کو پوچھتا ہے ۔۔۔ کوئی مرے یا جئے ۔۔۔ ان کی بلا سے ۔۔۔۔۔

میری بہت بری حالت تھی۔ عاشق حسین ڈانسر کی بیوی بیمار تھی اس لیے وہ اپنے وطن جا چکا تھا۔ یہ مجھے ہوٹل کے چھوکرے نے بتایا تھا۔ اب میں کس کو بلاتا۔ بڑی نڈھال حالت میں تھا اور سوچ رہا تھا کہ خود نیچے اتروں اور کسی ڈاکٹر کے پاس جاؤں کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے خیال کی کہ ہوٹل کا چھوکرا جسے بمبئی کی زبان میں باہر والا کہتے ہیں ہو گا۔ بڑی مریل آواز میں کہا، " آ جاؤ۔"

دروازہ کھلا اور ایک چھریرے بدن کا آدمی جس کی مونچھیں مجھے سب سے پہلے دکھائی دیں اندر داخل ہوا۔

اس کی مونچھیں ہی سب کچھ تھیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کی مونچھیں نہ ہوتیں تو بہت ممکن ہے کہ وہ کچھ بھی نہ ہوتا۔ اس کی مونچھوں ہی نے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے سارے وجود کو زندگی بخش رکھی ہے۔

وہ اندر آیا اور اپنی قیصر ولیم جیسی مونچھوں کو ایک انگلی سے ٹھیک کرتے ہوئے میری کھاٹ کے قریب آیا۔ اس کے پیچھے پیچھے تین چار آدمی تھے، عجیب و غریب وضع قطع کے۔ میں بہت حیران تھا کہ یہ کون ہیں اور میرے پاس کیوں آئے ہیں۔

قیصر ولیم جیسی مونچھوں اور چھریرے بدن والے آدمی نے مجھ سے بڑی نرم و نازک آواس میں کہا، " ومٹو صاحب، آپ نے حد کر دی۔ سالا مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟" منٹو کا ومٹو بن جانا میرے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس کے علاوہ میں اس موڈ میں بھی نہیں تھا کہ میں اس کی اصلاح کرتا۔ میں نے اپنی نحیف آواز میں اس کی مونچھوں سے صرف اتنا کہا، " آپ کون ہیں؟"

اس نے مختصر سا جواب دیا، " ممد بھائی۔"

میں اٹھ کر بیٹھ گیا، " ممد بھائی ۔۔۔۔ تو ۔۔۔۔ تو آپ ممد بھائی ہیں ۔۔۔۔ مشہور دادا۔"

میں نے یہ کہہ تو دیا۔ لیکن فورا مجھے اپنے بینڈے پن کا احساس ہوا اور رک گیا۔ ممد بھائی نے چھوٹی انگلی سے اپنی مونچھوں کے کرخت بال ذرا اوپر کئے اور مسکرایا " ہاں ومٹو بھائی ۔۔۔ میں ممد ہوں ۔۔۔ یہاں کا مشہور دادا ۔۔۔۔ مجھے باہر والے سے معلوم ہوا کہ تم بیمار ہو ۔۔۔ سالا یہ بھی کوئی بات ہے کہ تم نے مجھے خبر نہ کی۔ ممد بھائی کا مستک پھر جاتا ہے جب کوئی ایسی بات ہوتی ہے۔"

میں جواب میں کچھ کہنے والا تھا کہ اس نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک سے مخاطب ہو کر کہا، " ارے ۔۔۔ کیا نام ہے تیرا ۔۔۔ جا بھاگ کے جا، اور کیا نام ہے اس ڈاکٹر کا ۔۔۔ سمجھ گئے نا، اس سے کہہ کہ ممد بھائی تجھے بلاتا ہے ۔۔۔ ایک دم جلدی آ ۔۔۔ ایک دم سب کام چھوڑ دے اور جلدی آ اور دیکھ سالے سے کہنا، سب دوائیں لیتا آئے۔"

ممد بھائی نے جس کو حکم دیا تھا وہ ایک دم چلا گیا۔ میں سوچ رہا تھا۔ میں اس کو دیکھ رہا تھا۔ وہ تمام داستانیں میرے بخار آلود دماغ میں چل پھر رہی تھیں۔ جو میں اس کے متعلق لوگوں سے سن چکا تھا۔۔۔۔ لیکن گڈ مڈ صورت میں۔ کیونکہ بار بار اس کو دیکھنے کی وجہ سے اس کی مونچھیں سب پر چھا جاتی تھیں۔ بڑی خوفناک، مگر بڑی خوبصورت مونچھیں تھیں۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس چہرے کو جس کے خدوخال بڑے ملائم اور نرم و نازک ہیں، صرف خوفناک بنانے کے لئے یہ مونچھیں رکھی گئی ہیں۔ میں نے اپنے بخار آلود دماغ میں سوچا کہ یہ شخص درحقیقت اتنا خوفناک نہیں جتنا اس نے خودکو ظاہر کر رکھا ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
کھولی میں کوئی کرسی نہیں تھی۔ میں نے ممد بھائی سے کہا کہ وہ میری چارپائی پر بیٹھ جائے مگر اس نے انکار کر دیا اور بڑے روکھے سے لہجے میں کہا، " ٹھیک ہے ۔۔۔ ہم کھڑے رہیں گے۔"

پھر اس نے ٹہلتے ہوئے ۔۔۔۔ حالانکہ اس کھولی میں اس عیاشی کی کوئی گنجائش نہین تھی، کرتے کا دامن اٹھا کر پاجامے کے نیفے سے ایک خنجر نکالا ۔۔۔۔ میں سمجھا چاندی کا ہے۔ اس قدر لشک رہا تھا کہ میں آپ سے کیا کہوں۔ یہ خنجر نکال کر پہلے اس نے اپنی کلائی پر پھیرا۔ جو بال اس کی زد میں آئے، سب صاف ہو گئے۔ اس نے اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا اور ناخن تراشنے لگا۔

اس کی آمد ہی سے میرا بخار کئی درجے نیچے اتر گیا تھا۔ میں نے اب کسی قدر ہوش مند حالت میں اس سے کہا، " ممد بھائی ۔۔۔۔ یہ چھری تم اس طرح اپنے ۔۔۔۔۔۔۔۔ نیفے میں ۔۔۔۔ یعنی بالکل اپنے پیٹ کے ساتھ رکھتے ہو۔ اتنی تیز ہے، کیا تمہیں خوف محسوس نہیں ہوتا؟" ممد نے خنجر سے اپنے ناخن کی ایک قاش بڑی صفائی سے اڑاتے ہوئے جواب دیا، " ومٹو بھائ ۔۔۔۔ یہ چھری دوسروں کے لیے ہے۔ یہ اچھی طرح جانتی ہے۔ سالی، اپنی چیز ہے، مجھے نقصان کیسے پہنچائے گی؟"

چھرٰ سے جو رشتہ اس نے قائم کیا تھا وہ کچھ ایسا ہی تھا جیسے کوئی ماں یا باپ کہے کہ یہ میرا بیٹا ہے، یا بیٹی ہے۔ اس کا ہاتھ مجھ پر کیسے اٹھ سکتا ہے۔

ڈاکٹر آ گیا ۔۔۔ اس کا نام پنٹو تھا، اور میں ومٹو ۔۔۔۔ اس نے ممد بھائی کو اپنے کرسچئین انداز میں سلام کیا اور پوچھا کہ معاملہ کیا ہے۔ جو معاملہ تھا وہ ممد بھائی نے بیان کر دیا۔ مختصر، لیکن کڑے الفاظ میں، جم میں تحکم تھا کہ دیکھو اگر تم نے ومٹو بھائی کا علاج اچھی طرح نہ کیا تو تمہاری خیر نہیں۔

ڈاکٹر پنٹو نے فرماں بردار لڑکے کی طرح اپنا کام کیا۔ میری نبض دیکھی ۔۔۔ سٹیتھو سکوپ لگا کر میرے سینے اور پیٹھ کا معائنہ کیا۔ بلڈ پریشر دیکھا۔ مجھ سے میری بیماری کی تمام تفصیل پوچھی۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے نہیں، ممد بھائی سے کہا، " کوئی فکر کی بات نہیں۔ ملیریا ہے ۔۔۔ میں انجکشن لگا دیتا ہوں۔"

ممد بھائی مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ اس نے ڈاکٹر پنٹو کی بات سنی اور خنجر سے اپنی کلائی کے بال اڑاتے ہوئے کہا، " میں کچھ نہیں جانتا، انجکشن دینا ہے تو دے دو، لیکن اگر اسے کچھ ہو گیا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

ڈاکٹر پنٹو کانپ گیا، " نہیں ممد بھائی ۔۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔"

ممد بھائی نے خنجر اپنے نیفے میں اڑس لیا، " تو ٹھیکہے۔"

" تو میں انجکشن لگاتا ہوں۔" ڈاکٹر نے اپنا بیگ کھولا اور سرنج نکالی۔

"ٹھہرو ۔۔۔۔ ٹھہرو ۔۔۔۔"

ممد بھائی گھبرا گیا تھا۔ ڈاکٹر نے سرنج فورا بیگ میں واپس رکھ دی، اور ممیاتے ہوئے ممد بھائی سے مخاطب ہوا، " کیوں؟ "

" بس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کسی کے سوئی لگتے نہیں دیکھ سکتا۔" یہ کہہ کر وہ کھولی سے باہر چلا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے ساتھی بھی چلے گئے۔

ڈاکٹر پنٹو نے میرے کونین کا انجکشن لگایا۔ بڑے سلیقے سے، ورنہ ملیریا کا یہ انجکشن بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جب وہ فارغ ہوا تو میں نے اس سے فیس پوچھی۔ اس نے کہا، " دس روپے۔" میں تکیئے کے نیچے سے اپنا بٹوا نکال رہا تھا کہ ممد بھائی اندر آ گیا۔ اس وقت میں دس روپے کا نوٹ ڈاکٹر پنٹو کو دے رہا تھا۔

ممد بھائی نے غضب آلود نگاہوں سے مجھے اور ڈاکٹر کو دیکھا اور گرج کر کہا،" یہ کیا ہو رہا ہے؟"

میں نے کہا، " فیس دے رہا ہوں۔"

ممد بھائی ڈاکٹر پنٹو سے مخاطب ہوا، " سالے یہ فیس کیسی لے رہے ہو؟"

ڈاکٹر پنٹو بوکھلا گیا، " میں کب لے رہا ہوں ۔۔۔۔ یہ دے رہے تھے۔"

" سالا ۔۔۔۔۔ ہم سے فیس لیتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واپس کرو یہ نوٹ۔" ممد بھائی کے لہجے میں اس کے خنجر ایسی تیزی تھی۔

ڈاکٹر پنٹو نے مجھے نوٹ واپس کر دیا اور بیگ بند کر کے ممد بھائی سے معذرت طلب کرتے ہوئے چلا گیا۔

ممد بھائی نے ایک انگلی سے اپنی کانٹوں ایسی مونچھوں کو تاؤ دیا اور مسکرایا، " ومٹو بھائی ۔۔۔۔ یہ بھی کوئی بات ہے کہ اس علاقے کا ڈاکٹر تم سے فیس لے ۔۔۔۔ تمہاری قسم، اپنی مونچھیں منڈوا دیتا اگر اس سالے نے فیس لی ہوتی ۔۔۔۔ یہاں سب تمہارے غلام ہیں۔"

تھوڑے سے توقف کے بعد میں نے اس سے پوچھا، " ممد بھائی، تم مجھے کیسے جانتے ہو؟"

ممد بھائی کی مونچھیں تھرتھرائیں، " ممد بھائی کسے نہیں جانتا ۔۔۔۔ ہم یہاں کے بادشاہ ہیں پیارے ۔۔۔۔ اپنی رعایا کا خیال رکھتے ہیں۔ ہماری سی آئی ڈی ہے وہ ہمیں بتاتی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔ کون آیا ہے، کون گیا ہے، کون اچھی حالت میں ہے، کون بری حالت میں ۔۔۔۔۔ تمہارے متعلق ہم سب کچھ جانتے ہیں۔"

میں نے ازراہ تفنن پوچھا، " کیا جانتے ہیں آپ؟"

"سالا ۔۔۔۔ ہم کیا نہیں جانتے ۔۔۔۔۔ تم امرتسر کا رہنے والا ہے ۔۔۔۔۔ کشمیری ہے ۔۔۔۔ یہاں اخباروں میں کام کرتا ہے ۔۔۔۔ تم نے بسم اللہ ہوٹل کے دس روپے دینے ہیں، اسی لیے تم ادھر سے نہیں گزرتے۔ بھنڈی بازار میں ایک پان والا تمہاری جان کو روتا ہے۔ اس سے تم بیس روپے دس آنے کے سگریٹ لے کر پھونک چکے ہو۔"

میں پانی پانی ہو گیا۔

ممد بھائی نے اپنی کرخت مونچھوں پر ایک انگلی پھیری اور مسکرا کر کہا، " ومٹو بھائی، کچھ فکر نہ کرو۔ تمہارے سب قرض چکا دیئے گئے ہیں۔ اب تم نئے سرے سے معاملہ شروع کر سکتے ہو۔ میں نے اس سالون سے کہہ دیا ہے کہ خبردار اگر ومٹو بھائی کو تم نے تنگ کیا ۔۔۔۔ اور ممد بھائی تم سے کہتا ہے کہ انشاٗ اللہ کوئی تمہیں تنگ نہیں کرتے گا۔"

میرے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس سے کیا کہوں۔ بیمار تھا، کونین کا ٹیکہ لگ چکا تھا جس کے باعث کانوں میں شائیں شائیں ہو رہی تھی۔ اس کے علاوہ میں اس کے خلوص کے نیچے اتنا دب چکا تھا کہ اگر مجھے کوئی نکالنے کی کوشش کرتا تو اسے بہت محنت کرنی پڑتی ۔۔۔۔ میں صرف اتنا کہہ سکا، " ممد بھائی، خدا تمہیں زندہ رکھے ۔۔۔۔ تم خوش رہو۔"

ممد بھائی نے اپنی مونچھوں کے بال ذرا اوپر کئے اور کچھ کہے بغیر چلا گیا۔

ڈاکٹر پنٹو ہر روز صبح شام آتا رہا۔ میں نے اس سے کئی مرتبہ فیس کا ذکر کیا مگر اس نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا، " نہیں مسٹر منٹو، ممد بھائی کا معاملہ ہے میں ایک ڈیڑھیا بھی نہیں لے سکتا۔ میں نے سوچا یہ ممد بھائی کوئی بہت بڑا آدمی ہے۔ یعنی خوفناک قسم کا جس سے ڈاکٹر پنٹو جو بڑا خسیس قسم کا آدمی ہے، ڈرتا ہے اور مجھ سے فیس لینے کی جرات نہیں کرتا۔ حالانکہ وہ اپنی جیب سے انجکشنوں پر کرچ کر رہا تھا۔

بیماری کے دوران میں ممد بھائی بھی بلاناغہ آتا رہا۔ کبھی صبح آتا، کبھی شام کو، اپنے چھ سات شاگردوں کے ساتھ۔ اور مجھے ہر ممکن طریقے سے ڈھارس دیتا تھا کہ معمولی ملیریا ہے، تم ڈاکٹر پنٹو کے علاج سے انشاٗ اللہ بہت جلد ٹھیک ٹھاک ہو جاؤ گے۔

پندرہ روز کے بعد میں ٹھیک ٹھاک ہو گیا۔ اس دوران میں ممد بھائی کے ہر خد و کال کو اچھی طرح دیکھ چکا تھا۔

جیسا کہ میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں، وہ چھریرے بدن کا آدمی تھا۔ عمر یہی پچیس تیس کے درمیان ہو گی۔ پتلی پتلی بانہیں، ٹانگیں بھی ایسی ہی تھیں۔ ہاتھ بلا کے پھرتیلے تھے۔ ان سے جب وہ چھوٹا سا تیز دھار چاقو کسی دشمن پر پھینکتا تھا تو وہ سیدھا اس کے دل میں کُھبتا تھا۔ یہ مجھے عرب گلی کے لوگوں نے بتایا تھا۔

اس کے متعلق بے شمار باتیں مشہور تھیں۔ اس نے کسی کو قتل کیا تھا، میں اس کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ چھری مار وہ اول درجے کا تھا۔ بنوٹ اور گتکے کا ماہر۔ یوں سب کہتے تھے کہ وہ سینکڑوں قتل کر چکا ہے، مگر میں یہ اب بھی ماننے کو تیار نہیں۔

لیکن جب میں اس کے خنبر کے متعلق سوچتا ہوں تو میرے تن بدن پر جھرجھری سی طاری ہو جاتی ہے۔ یہ خوف ناک ہتھیار وہ کیوں ہر وقت اپنی شلوار کے نیفے میں اڑسے رہتا ہے۔ میں جب اچھا ہو گیا تو ایک دن عرب گلی کے ایک تھرڈ کلاس چینی ریستوران میں اس سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ اپنا وہی خوف ناک خنجر نکال کر اپنے ناخن کاٹ رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا، " ممد بھائی ۔۔۔۔ آج کل بندوق پستول کا زمانہ ہے ۔۔۔۔ تم یہ خنجر کیوں لیے پھرتے ہو؟"

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
ممد بھائی نے اپنی کرخت مونچھوں پر ایک انگلی پھیری اور کہا، " ومٹو بھائی بندوق پستول میں کوئی مزا نہیں۔ انہیں کوئی بچہ بھی چلا سکتا ہے۔ گھوڑا دبایا اور ٹھاہ ۔۔۔۔۔ اس میں کیا مزا ہے۔ یہ چیز ۔۔۔۔ یہ خنجر ۔۔۔۔۔ یہ چھری ۔۔۔۔۔ یہ چاقو ۔۔۔۔۔ مزا آتا ہے نا، خدا کی قسم ۔۔۔۔ یہ وہ ہے ۔۔۔۔ تم کیا کہا کرتے ہو ۔۔۔۔۔ ہاں آرٹ ۔۔۔۔۔ اس میں آرٹ ہوتا ہے میری جان ۔۔۔۔۔۔ جس کو چاقو یا چھری چلانے کا آرٹ نہ آتا ہو وہ ایک دم کنڈم ہے۔ پستول کیا ہے ۔۔۔۔ کھلونا ہے ۔۔۔۔ جو نقصان پہنچا سکتا ہے ۔۔۔۔۔ پر اس میں کیا لطف آتا ہے ۔۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں ۔۔۔۔۔ تم یہ خنجر دیکھو ۔۔۔۔ اس کی تیز دھار دیکھو۔" یہ کہتے ہوئے اس نے انگوٹھے پر لب لگایا اور اس کی دھار پر پھیرا۔ " اس سے کوئی دھماکہ نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔ بس، یوں پیٹ کے اندر داخل کر دو ۔۔۔۔ اس صفائی سے کہ اس سالے کو معلوم تک نہ ہو ۔۔۔۔۔ بندوق پستول سب بکواس ہے۔"

ممد بھائی سے اب ہر روز کسی نہ کسی وقت ملاقات ہو جاتی تھی۔ میں اس کا ممنون احسان تھا لیکن جب میں اس کا ذکر کرتا تو وہ ناراض ہو جاتا۔ کہتا تھا کہ میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا، یہ تو میرا فرض تھا۔

جب میں نے کچھ تفتیش کی تو مجھے معلوم ہوا کہ فارس روڈ کے علاقے کا وہ ایک قسم کا حاکم ہے۔ ایسا حاکم جو ہر شخص کی خبر گیری کرتا تھا۔ کوئی بیمار ہو، کسی کے کوئی تکلیف ہو، ممد بھائی اس کے پاس پہنچ جاتا تھا۔ اور یہ اس کی سی آئی ڈی کا کام تھا جو اس کو ہر چیز سے باخبر رکھتی تھی۔

وہ دادا تھا یعنی ایک غنڈہ – لیکن میری سمجھ میں اب بھی نہیں آتا کہ وہ کس لحاظ سے غنڈہ تھا۔ خدا واحد شاہد ہے کہ میں نے اس میں کوئی غنڈہ پن نہیں دیکھا۔ ایک صرف اس کی مونچھیں تھیں جو اس کو ہیبت ناک بنائے رکھتی تھیں۔ لیکن اس کو ان سے پیار تھا۔ وہ ان کی اس طرح پرورش کرتا تھا جس طرح کوئی اپنے بچے کی کرے۔

اس کی مونچھوں کا ایک ایک بال کھڑا تھا، جیسے خار پشت کا ۔۔۔۔۔ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ ممد بھائی ہر روز اپنی مونچھوں کو بالائی کھلاتا ہے۔ جب کھانا کھاتا ہے تو سالن بھری انگلیوں سے اپنی مونچھیں ضرور مروڑتا ہے کہ بزرگوں کے کہنے کے مطابق یوں بالوں میں طاقت آتی ہے۔

میں اس سے پیشتر غالبا کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ اس کی مونچھیں بڑی خوفناک تھیں۔ دراصل مونچھوں کا نام ہی ممد بھائی تھا۔ یا اس کا خنبر کا جو اس کی تنگ گھیرے کی شلوار کے نیفے میں ہر وقت موجود رہتا تھا۔ مجھے ان دونوں چیزوں سے ڈر لگتا تھا، نہ معلوم کیوں۔

ممد بھائی یوں تو اس علاقے کا بہت بڑا دادا تھا، لیکن وہ سب کا ہمدرد تھا۔ معلوم نہیں اس کی آمدنی کے کیا ذرائع تھے، پر وہ ہر حاجت مند کی بروقت مدد کرتا تھا۔ اس علاقے کی تمام رنڈیاں اس کو اپنا پیر مانتی تھیں۔ چونکہ وہ ایک مانا ہوا غنڈہ تھا، اس لیے لازم تھا کہ اس کا تعلق وہاں کی کسی طوائف سے ہوتا، مگر مجھے معلوم ہوا کہ اس قسم کے سلسلے سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں رہا تھا۔

میری اس کی بڑی دوستی ہو گئی تھی۔ ان پڑھ تھا، لیکن جانے کیوں وہ میری اتنی عزت کرتا تھا کہ عرب گلی کے تمام آدمی رشک کرتے تھے۔ ایک دن صبح سویرے، دفتر جاتے وقت میں نے چینی کے ہوٹل میں کسی سے سنا کہ ممد بھائی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مجھے بہت تعجب ہوا، اس لیے کہ تمام تھانے والے اس کے دوست تھے۔ کیا وجہ ہو سکتی تھی ۔۔۔۔۔ میں نے اس آدمی سے پوچھا کہ کیا بات ہوئی جو ممد بھائی گرفتار ہو گیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اسی عرب گلی میں ایک عورت رہتی ہے جس کا نام شیریں بائی ہے۔ اس کی ایک جوان لڑکی ہے۔ اس کو کل ایک آدمی نے خراب کر دیا۔ یعنی اس کی عصمت دری کر دی۔ شیریں بائی روتی ہوئی ممد بھائی کے پاس آئی اور اس سے کہا، " تم یہاں کے دادا ہو۔ میری بیٹی سے فلاں آدمی نے یہ برا کیا ہے۔ لعنت ہے تم پر کہ تم گھر میں بیٹھے ہو۔" ممد بھائی نے یہ موٹی گالی اس بڑھیا کو دی اور کہا، " تم چاہتی کیا ہو؟" اس نے کہا، " میں یہ چاہتی ہوں کہ تم اس حرام زادے کا پیٹ چاک کر دو۔"

ممد بھائی اس وقت ہوٹل میں سیس پاؤں کے ساتھ قیمہ کھا رہا تھا۔ یہ سن کر اس نے اپنے نیفے میں سے خنجر نکالا۔ اس پر انگوٹھا پھیر کر اس کی دھار دیکھی اور بڑھیا سے کہا، " جا تیرا کام ہو جائے گا۔"

اور اس کا کام ہو گیا ۔۔۔۔۔ دوسرے معنوں میں جس آدمی نے اس بڑھیا کی لڑکی کی عصمت دری کی تھی، آدھ گھنٹے کے اندر اندر اس کا کام تمام ہو گیا۔

ممد بھائی گرفتارتو ہو گیا تھا، مگر اس نے کام اتنی ہوشیاری اور چابک دستی سے کیا تھا کہ اس کے خلاف کوئی شہادت نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اگر کوئی عینی شاہد موجود بھی ہوتا تو وہ کبھی عدالت میں بیان نہ دیتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

دو دن حوالات میں رہا تھا، مگر اس کو وہاں کوئی تکلیف نہ تھی۔ پولیس کے سپاہی، انسپکٹر، سب انسپکٹر، سب اس کو جانتے تھے۔ لیکن جب وہ ضمانت پر رہا ہو کر باہر آیا تو میں نے محسوس کیا کہ اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا دھچکا پہنچا ہے۔ اس کی مونچھیں جو خوفناک طور پر اوپر کو اٹھی ہوئی تھیں اب کسی قدر جھکی ہوئی تھیں۔

چینی کے ہوٹل میں اس سے میری ملاقات ہوئی۔ اسکے کپڑے جو ہمیشہ اجلے ہوتے تھے، میلے تھے، میں نے اس سے قتل کے متعلق کوئی بات نہ کی لیکن اس نے خود کہا، " ومٹو صاحب، مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ سالا دیر سے مرا ۔۔۔۔ چھری مارنے میں مجھ سے غلطی ہو گئی، ہاتھ ٹیڑھا پڑا ۔۔۔۔ لیکن وہ بھی اس سالے کا قصور تھا ۔۔۔۔۔ ایک دم مڑ گیا اور اس وجہ سے سارا معاملہ کنڈم ہو گیا ۔۔۔۔ لیکن مر گیا ۔۔۔۔ ذرا تکلیف کے ساتھ، جس کا مجھے افسوس ہے۔"

آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ میرا رد عمل کیا ہو گا۔ یعنی اس کو افسوس تھا کہ وہ اسے بطریق احسن قتل نہ کر سکا، اور یہ کہ مرنے میں اسے ذرا تکلیف ہوئی ہے۔

مقدمہ چلنا تھا ۔۔۔۔۔ اور ممد بھائی اس سے بہت گھبراتا تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں عدالت کی شکل کبھی نہیں دیکھی تھی۔ معلوم نہیں اس نے اس سے پہلے بھی قتل کئے تھے کہ نہیں، لیکن جہاں تک میرے معلومات کا تعلق تھا وہ مجسٹریٹ، وکیل اور گواہ کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا، اس لیے کہ اس کا سابقہ ان لوگوں سے کبھی پڑا ہی نہیں تھا۔

وہ بہت فکر مند تھا۔ پولیس نے جب کیس پیش کرنا چاہا اور تاریخ مقرر ہو گئی تو ممد بھائی بہت پریشان ہو گیا۔ عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے کیسے حاضر ہوا جاتا ہے، اس کے متعلق اس کو قطعا معلوم نہیں تھا۔ بار بار وہ اپنی کرخت مونچھوں پر انگلیاں پھیرتا اور مجھ سے کہتا تھا " ومٹو صاحب، میں مر جاؤں گا، پر کورٹ میں نہیں جاؤں گا۔ سالی، معلوم نہیں کیسی جگہ ہے۔"

عرب گلی میں اس کے کئے دوست تھے۔ انہوں نے اس کو ڈھارس دی کہ معاملہ سنگین نہیں ہے۔ کوئی گواہ موجود نہیں۔ ایک صرف اس کی مونچھیں ہیں جو مجسٹریٹ کے دل میں اس کے خلاف یقینی طور پر کوئی مخالف جذبہ پیدا کر سکتی ہیں۔

جیسا کہ میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں، اس کی صرف مونچھیں ہی تھیں جو اس کو خوفناک بناتی تھیں ۔۔۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو وہ ہرگز ہرگز " دادا " دکھائی نہ دیتا تھا۔

اس نے بہت غور کیا۔ اس کی ضمانت تھانے ہی میں ہو گئی تھی۔ اب اسے عدالت میں پیش ہونا تھا۔ مجسٹریٹ سے وہ بہت گھبراتا تھا۔ ایرانی کے ہوٹل میں جب میری اس کی ملاقات ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت پریشان ہے۔ اس کو اپنی مونچھوں کے متعلق بڑی فکر تھی۔ وہ سوچتا تھا کہ ان کے ساتھ اگر وہ عدالت میں پیش ہوا تو بہت ممکن ہے اس کو سزا ہو جائے۔

آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کہانی ہے، مگر یہ واقعہ ہے کہ وہ بہت پریشان تھا۔ اس کے تمام شاگرد حیران تھے، اس لیے کہ وہ کبھی حیران و پریشان نہیں ہوا تھا۔ اس کو مونچھوں کی فکر تھی کیونکہ اس کے بعض قریبی دوستوں نے اس سے کہا تھا " ممد بھائی ۔۔۔۔۔ کورٹ میں جانا ہے تو ان مونچھوں کے ساتھ کبھی نہ جانا ۔۔۔۔ مجسٹریٹ تمکو اندر کر دے گا۔"

اور وہ سوچتا تھا ۔۔۔۔ ہر وقت سوچتا تھا کہ اس کی مونچھوں نے اس آدمی کو قتل کیا یا اس نے ۔۔۔۔ لیکن کسی نتیجے پر پہنچ نہیں سکتا تھا۔ اس نے اپنا خنجر معلوم نہیں جو پہلی مرتبہ خون آشنا ہوا تھا یا اس سے پہلے کئی مرتبہ ہو چکا تھا، اپنے نیفے سے نکالا اور ہوٹل کے باہر گلی میں پھینک دیا۔ میں نے حیرت بھرے لہبے میں اس سے پوچھا، " ممد بھائی ۔۔۔۔۔۔ یہ کیا؟"

" کچھ نہیں، ومٹو بھائی۔ بہت گھوٹالا ہو گیا ہے۔ کورٹ میں جانا ہے ۔۔۔۔۔ یار دوست کہتے ہیں کہ تمہاری مونچھیں دیکھ کر وہ ضرور تم کو سزا دے گا ۔۔۔۔۔ اب بولو، میں کیا کروں؟"

میں کیا بول سکتا تھا۔ میں نے اس کی مونچھوں کی طرف دیکھا جو واقعی بڑی خوفناک تھیں۔

میں نے اس سے صرف اتناکہا، " ممد بھائی، بات تہ ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ تمہاری مونچھیں مجسٹریٹ کے فیصلے پر ضرور اثر انداز ہوں گی۔ سچ پوچھو تو جو کچھ ہو گا، تمہارے خلاف نہیں ۔۔۔۔۔۔ مونچھوں کے خلاف ہو گا۔"

" تو میں منڈوا دوں؟ " ممد بھائی نے اپنی چہتی مونچھوں پر بڑے پیار سے انگلی پھیری ۔۔۔۔۔

میں نے اس سے پوچھا، " تمہارا کیا خیالہے؟"

" میرا خیال جو کچھ بھی ہے، وہ تم نہ پوچھو ۔۔۔۔۔ لیکن یہاں ہر شخص کا یہی خیال ہے کہ میں انہیں منڈوا دوں تا کہ وہ سالا مجسٹریٹ مہربان ہو جائے۔ تو منڈوا دوں ومٹو بھائی ؟"

میں نے کچھ توقف کے بعد اس سے کہا، " ہاں اگر تم مناسب سمجھتے ہو تو منڈوا دو ۔۔۔۔۔۔ عدالت کا سوال ہے، اور تمہاری مونچھیں واقعی بڑی خوفناک ہیں۔"

دوسرے دن ممد بھائی نے اپنی مونچھیں ۔۔۔۔۔۔ اپنی جان سے عزیز مونچھیں منڈوا ڈالیں۔ کیونکہ اس کی عزت خطرے میں تھی ۔۔۔۔۔ لیکن صرف دوسروں کے مشورے پر ۔۔۔۔۔

مسٹرایف۔ ایچ۔ ٹیگ کی عدالت میں اس کا مقدمہ پیش ہوا۔ مونچھوں کے بغیر ممد تھائی پیش ہوا۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ اس کے خلاف کوئی شہادت موجود نہیں تھی، لیکن مجسٹریٹ صاحب نے اس کو خطرناک غنڈہ قرار دیتے ہوئے تڑی پار یعنی صوبہ بدر کر دیا۔ اس کو صرف ایک دن ملا تھا جس میں اسے اپنا تمام حساب کتاب طے کر کے بمبئی چھوڑ دینا تھا۔

عدالت سے باہر نکل کر اس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ اس کی چھوٹی بڑی انگلیاں بار بار بالائی ہونٹ کی طرف بڑھتی تھیں ۔۔۔۔۔ مگر وہاں کوئی بال ہی نہیں تھا۔

شام کو جب اسے بمبئی چھوڑ کو کہیں اور جانا تھا، میری اس کی ملاقات ایرانی کے ہوٹل میں ہوئی۔ اس کے دس بیش شاگرد آس پاس کرسیوں پر بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ جب میں اس سے ملا تو اس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی ۔۔۔۔۔۔ مونچھوں کے بغیر وہ بہت شریف آدمی دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت مغموم ہے۔

اس کے پاس کرسی پر بیٹھ کر میں نے اس سے کہا، " کیا بات ہے ممد بھائی؟"

اس نے جواب میں ایک بہت بڑی گالی خدا معلوم کس کو دی اور کہا، " سالا، اب ممد بھائی ہی نہیں رہا۔"

مجھے معلوم تھا کہ وہ صوبہ بد کیا جا چکا ہے۔ " کوئی بات نہیں ممد بھائی، ۔۔۔۔۔۔ یہاں نہیں تو کسی اور جگہ سہی۔"

اس نے تمام جگہوں کو بے شمار گالیاں دیں " سالا --- اپن کو یہ غم نہیں – یہاں رہیں یا کسی اور جگہ رہیں --- یہ سالا مونچھیں کیوں منڈائیں؟"

پھر اس نے ان لوگوں کو جنہوں نے اس کو مونچھیں منڈوانے کا مشورہ دیا تھا، ایک کروڑ گالیاں دیں اور کہا، " سالا اگر مجھے تڑی پار ہی ہونا تھا تو مونچھوں کے ساتھ کیوں نہ ہوا۔"

مجھے ہنسی آ گئی۔ وہ آگ بگولا ہو گیا: " سالا تم کیسا آدمی ہے، ومٹو --- ہم سچ کہتا ہے، خدا کی قسم --- ہمیں پھانسی لگا دیتے ۔۔۔۔۔۔ پر ۔۔۔۔۔۔ یہ بے وقوفی تو ہم نے خود کی۔ اج تک کسی سے نہ ڈرا تھا۔۔۔۔ سالا اپنی مونچھوں سے ڈر گیا۔" یہ کہہ کر اس نے دوہتڑ اپنے منہ پر مارا۔ " ممد بھائی لعنت ہے تجھ پر ۔۔۔۔ سالا ۔۔۔۔۔ اپنی مونچھوں سے ڈر گیا۔ اب جا اپنی ماں کے ۔۔۔۔۔۔۔۔"

اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے جو اس کے مونچھوں بغیر چہرے پر کچھ عجیب سے دکھائی دیتے تھے۔

۔۔۔۔۔ ختم شد ۔۔۔۔۔​
 
Top