جون ایلیا سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں - جون ایلیا

سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں
نیند آنے لگی ہے فرقت میں

ہیں دلیلیں تیرے خلاف مگر
سوچتا ہوں تیری حمایت میں

روح نے عشق کا فریب دیا
جسم کا جسم کی عداوت میں

اب فقط عادتوں کی ورزش ہے
روح شامل نہیں شکایت میں

عشق کو درمیاں نہ لاؤ کہ میں
چیختا ہوں بدن کی عسرت میں

یہ کچھ آسان تو نہیں ہے کہ ہم
روٹھتے اب بھی ہیں مروت میں

وہ جو تعمیر ہونے والی تھی
لگا گئی آگ اس عمارت میں

اپنے حجرہ کا کیا بیاں کہ یہاں
خون تھوکا گیا شرارت میں

وہ خلا ہے کہ سوچتا ہوں میں
اس سے کیا گفتگو ہو خلوت میں

زندگی کس طرح بسر ہو گی
دل نہیں لگ رہا محبت میں

حاصلِ ’’کُن‘‘ ہے یہ جہانِ خراب
یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں

پھر بنایا خدا نے آدم کو
اپنی صورت پہ، ایسی صورت میں

اور پھر آدمی نے غور کیا
چھپکلی کی لطیف صنعت میں

اے خدا (جو کہیں نہیں موجود)
کیا لکھا ہے ہماری قسمت میں؟
جون ایلیا
 
Top