سر مومنؔ کے ایک شعر کی بابت اساتذہ سے ایک سوال

’جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با‌وفا
میں وہی ہوں مومنِ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘

اساتذہ سے نہایت احترام کے ساتھ سوال ہے کہ کیا سر مومنؔ کے اس شعر میں شتر گربہ موجود ہے۔ میری حقیر رائے اس کے بر عکس ہے کیوں غالباً یہ اصول سر مومنؔ کے بعد حتمی قرار پایا ہے۔ عین نوازش ہو گی۔ شکریہ​
 

محمد وارث

لائبریرین
شتر گربہ کی طرف سب سے پہلے زیادہ توجہ حسرت موہانی نے دلائی تھی اور اس کے بعد ہی شعرا نے اس سے زیادہ پرہیز شروع کیا وگرنہ کلاسیکی اساتذہ کے ہاں شتر گربہ کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ اگر شتر گربہ کی تعریف پر اس شعر کو جانچیں تو شتر گربہ موجود ہے یعنی پہلے مصرعے میں خطاب آپ کہہ کر کیا دوسرے میں تمھیں سے، لیکن پھر وہی بات کہ کلاسیکی شعرا اس کو زیادہ بڑا عیب نہیں سمجھتے تھے۔
 
شتر گربہ کی طرف سب سے پہلے زیادہ توجہ حسرت موہانی نے دلائی تھی اور اس کے بعد ہی شعرا نے اس سے زیادہ پرہیز شروع کیا وگرنہ کلاسیکی اساتذہ کے ہاں شتر گربہ کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ اگر شتر گربہ کی تعریف پر اس شعر کو جانچیں تو شتر گربہ موجود ہے یعنی پہلے مصرعے میں خطاب آپ کہہ کر کیا دوسرے میں تمھیں سے، لیکن پھر وہی بات کہ کلاسیکی شعرا اس کو زیادہ بڑا عیب نہیں سمجھتے تھے۔

بہت بہت شکریہ جناب
 

سید عاطف علی

لائبریرین
شتر گربہ کی طرف سب سے پہلے زیادہ توجہ حسرت موہانی نے دلائی تھی اور اس کے بعد ہی شعرا نے اس سے زیادہ پرہیز شروع کیا وگرنہ کلاسیکی اساتذہ کے ہاں شتر گربہ کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ اگر شتر گربہ کی تعریف پر اس شعر کو جانچیں تو شتر گربہ موجود ہے یعنی پہلے مصرعے میں خطاب آپ کہہ کر کیا دوسرے میں تمھیں سے، لیکن پھر وہی بات کہ کلاسیکی شعرا اس کو زیادہ بڑا عیب نہیں سمجھتے تھے۔
میرا خیال ہے کہ حسرت جگر فانی اور اصغر ، ان کے بعد اردو کے لہجے میں ایک موڑ آیا ہے جس میں متروکات کا دھیان رکھا جانے لگا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
’جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با‌وفا
میں وہی ہوں مومنِ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘

اساتذہ سے نہایت احترام کے ساتھ سوال ہے کہ کیا سر مومنؔ کے اس شعر میں شتر گربہ موجود ہے۔ میری حقیر رائے اس کے بر عکس ہے کیوں غالباً یہ اصول سر مومنؔ کے بعد حتمی قرار پایا ہے۔ عین نوازش ہو گی۔ شکریہ​
بھائی عاصم شمس صاحب اس شعر میں شتر گربہ نہیں ہے ۔اس شعر میں آپ کے معنی ’’خود‘‘ کے ہیں۔ آپ کا استعمال بمعنی خود یا آپ خود مومن کے دور میں بہت عام تھا ۔ اردو میں آپ بمعنی خود آج بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اب اس کی عمومی صورت ’’ آپ ہی‘‘ ہو گئی ہے ۔ جیسے ’’بھئی آپ ہی کہتے تھے کہ موسم بہت خشک ہے ‘‘ وغیرہ۔ اردو کی تمام مستند لغات میں آپ کے ایک معنی ’’خود‘‘ لکھے ہوئے ہیں ۔ وضاحت کے لیے مومن ہی کا ایک اور شعر دیکھ لیجئے:

الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا

اسی طرح مومن کے ہم عصر غالب کا ایک شعر دیکھئے:

وائے دیوانگیء شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا اُدھر، اور آپ ہی حیراں ہونا

امید ہے بات واضح ہوگئی ہوگی ۔
 
Top