سر سید کی کہانی سر سید کی زبانی... اپ ڈیٹ

الف عین

لائبریرین
یہ پوسٹ شگفتہ کے لئے ہے.
کیا سر سید کی کہانی کتاب مکمل ہو چکی ہے؟
یہاں کئی ابواب کے محض عنوانات دئے گئے ہیں، کچھ ابواب کا متن ہے. اگر ٹائپ کر رکھے ہوں تو مجھ کو ای میل کر دیں.
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم اعجاز انکل ، اس بارے میں پہلے کہیں لکھا تھا ، دراصل اس اس کے کچھ صفحات کاپی رائٹ واضح نہ ہونے کی وجہ سے پوسٹ نہیں کیے تھے ۔
 

الف عین

لائبریرین
لیکن اب ڈاؤن لوڈ ربط کوئی کام نہیں کر رہا۔ مکی متوجہ ہوں۔ ان کو ذ پ کرتا ہوں اگر انہوں نے جواب نہیں دیا تو۔
لیکن انہوں نے مواد کہاں سے حاصل کیا تھا، یہاں تو دستیاب نہیں؟؟
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آپ کو ذاتی پیغام میں اس کی تفصیل لکھی ہے۔ ویسے دوسرا اور دسواں باب موجود نہیں ہے۔ :)

اس کے جن صفحات کی ٹائپنگ پوسٹ نہیں کی تھی ان کا ذکر کر دیا تھا وہ میرے پاس موجود ہیں ، جو صفحات پوسٹ کر دئیے تھے وہ موجود ہوں گے یہاں ۔
 
اس کے جن صفحات کی ٹائپنگ پوسٹ نہیں کی تھی ان کا ذکر کر دیا تھا وہ میرے پاس موجود ہیں ، جو صفحات پوسٹ کر دئیے تھے وہ موجود ہوں گے یہاں ۔
کیا آپ ان صفحات کا مواد فراہم کر سکتی ہیں جن کو فورم پر پوسٹ نہیں کیا گیا تھا؟ :)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ باب دوم

------------------


عالم شباب
راگ رنگ کی محفلیں:
سرسید کا عنفوانِ شباب نہایت زندہ دل اور رنگین صحبتوں میں گزرا تھا ۔ وہ راگ رنگ کی مجلسوں میں شریک ہوتے تھے ۔ باغوں کی سیر کو دوستوں کے ساتھ جاتے تھے اور وہاں راگ رنگ اور دعوتوں کے جلسوں میں شریک ہوتے تھے ۔ ہولی کے جلسوں اور تماشوں میں جاتے تھے ۔ پھول والوں کی سیر میں خواجہ× صاحب پہنچتے تھے اور وہاں کی صحبتوں میں شریک ہوتے تھے ۔ دلی میں بسنت کے میلے میں جو موسم بہار کے آغاز میں درگاہوں پر ہوتے تھے وہاں جاتے تھے ۔ خود ان کے نانا خواجہ فرید کی قبر چونسٹھ کھمبے میں جو بسنت کا میلہ ہوتا تھا اس میں وہ اپنے اور بھائیوں کے ساتھ منتظم و مہتمم ہوتے تھے ۔
اس زمانے میں خواجہ محمد اشرف ایک بزرگ دلی میں تھے ۔ ان کے گھر پر بسنت کا جلسہ ہوتا تھا ۔ شہر کے خواص وہاں مدعو ہوتے تھے ۔ نامی نامی طوائف زرد لباس پہن کر وہاں آتی تھیں ۔ مکان میں بھی زرد فرش ہوتا تھا دالان کے سامنے ایک چبوترہ تھا جس میں حوض تھا ۔ اس حوض میں زرد ہی پانی کے فوارے چھوٹتے تھے ۔ صحن میں جو چمن تھا اس میں جھڑاں زرد پھول کھلے ہوتےتھے اور طوائف باری باری بیٹھ کر گاتی تھیں ۔ سرسید کہتے تھے کہ :
"میں ہمیشہ وہاں جاتا تھا اور اس جلسہ میں شریک ہوتا تھا ۔" 13
ظرافت کا اظہار :
سرسید جیسے بڑھاپے میں بذلہ سنج تھے جوانی میں اس سے بھی زیادہ ظرافت اور حاضر جوابی ان کی طبیعت میں تھی ۔ دلی میں ایک مشہور طوائف شیریں جان نامی نہایت حسین تھی مگر سنا ہے کہ اس کی ماں بھدی اور سانولے رنگ کی تھی ۔ ایک مجلس میں جہاں وہ اپنی ماں کے ساتھ مُجرا کے لیے آئی تھی ، سرسید بھی موجود تھے اور وہیں ان کے ایک قندھاری دوست بھی بیٹھے تھے ۔ وہ اس کی ماں کو دیکھ کر بولے :
"مادرش بسیار تلخ است"
سرسید نے یہ مصرعہ پڑھا
"گرچہ تلخ ست ولیکن برِ شیریں دارد!" 14
-----------------------------------------------------------------​
×: درگاہ حضرت خواجہ بختیار کاکی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ باب دہم

------------------


پادریوں سے گفتگو
ایک دفعہ وہ ریل میں سوار تھے ، کسی اسٹیشن پر دو انگریز ان کی گاڑی میں آ بیٹھے ۔ ایک اُن میں سے پادری تھا ۔ اس کو کسی طرح سے معلوم ہو گیا کہ سید احمد خاں یہی شخص ہے ۔ سر سید سے کہا : "مدت سے آپ کی ملاقات کا اشتیاق تھا ، میں آپ سے خدا کی باتیں کرنی چاہتا تھا ۔" سرسید نے کہا
"میں نہیں سمجھا آپ کس کی باتیں کرنی چاہتے ہیں؟"
اُس نے کیا "خدا کی" سرسید نے کمال سنجیدگی سے کہا:
"میری تو کبھی ان سے ملاقات نہیں ہوئی ، اس لیے میں ان کو نہیں جانتا۔"
پادری نے متعجب ہو کر کہا: "ہیں! آپ خدا کو نہیں جانتے؟" انہوں نے کہا:
"مجھی پر کیا موقوف ہے ، جس سے ملاقات نہ ہو اس کو کوئی بھی نہیں جانتا۔"
پھر کسی شخص کا نام لے کر پوچھا کہ آپ اس کو جانتے ہیں؟" پادری نے کہا ، "نہیں میں اس سے کبھی نہیں ملا۔" سرسید نے کہا :
"پھر جس سے میں کبھی نہ ملا ہوں ، نہ میں نے کبھی اس کو اپنے ہاں کھانے پر بلایا ہو ، نہ مجھ کو اس کے ہاں کھانے پر جانے کا اتفاق ہوا ہو ، اس کو میں کیونکر جان سکتا ہوں؟"
پادری یہ سن کر خاموش ہو رہا اور دُوسرے انگریز سے انگریزی میں کہا کہ "یہ تو سخت کافر ہے۔" پھر سرسید سے اس نے کوئی بات نہیں کی ۔ 65
ایک دفعہ دلی کے مشنری کالج اور علیگڑھ کالج کا میچ تھا اور دلی سے کالج کے دو پروفیسر جو پادری تھے ، میچ کھیلنے کے لیے اپنے طلبہ کو ساتھ لے کر علی گڑھ آئے تھے ۔ سرسید نے ان کو ڈنر پر بلایا جبکہ مسٹر بُک بھی ان کے ساتھ تھے ۔ کھانے کے بعد پادری صاحب سرسید سے مخاطب ہو کر بولے کہ "بہت اچھی بات ہے کہ آپ کے کالج میں مذہبی تعلیم بھی ہوتی ہے کیونکہ سچا مذہب ہی ایسی چیز ہے جو انسان میں نیکی پیدا کرتا ہے ۔"
پادری صاحب اسلام کو تو ، جس کی تعلیم علیگڑھ کالج میں ہوتی ہے ، سچا مذہب کہہ ہی نہیں سکتے تھے ، لا محالہ ان کی مراد عیسائی مذہب سے تھی اور عیسائی مذہب کی بدولت جس قدر دُنیا میں خونریزی ہوتی ہے اس کی مثال کسی مذہب میں نہیں مل سکتی ۔ سرسید نے پادری صاحب کی تقریر سن کر کہا کہ :
"دنیا میں مذہب سے زیادہ کوئی بدتر چیز اور تمام برائیوں اور جرائم کا مخزن نہیں ہے تاریخ شاہد ہے کہ جس قدر ظلم اور بے رحمیاں اور قتل اور خُونریزیاں دُنیا میں صرف مذہب کے سبب سے ہوئی ہیں وہ ایک طرف اور جو جرائم شیطان نے کرائے ہیں وہ ایک طرف رکھے جائیں تو بھی مذہبی جرائم اور برائیوں کو غلبہ رہے گا۔"
پادری صاحب یہ سُن کر چُپ ہو گئے اور مسٹر بک سے مکان پر آ کر کہا کہ "میں نے تو اس شخص کو بڑا تھیولوجین سنا تھا مگر اب معلوم ہوا کہ یہ بالکل غلط تھا۔" 66
ایک شیعہ سے سوال و جواب:
بعض اوقات سرسید کسی مسئلہ کی نسبت اپنے عقیدہ کا اظہار ظرافت کے پیرایہ میں ایسے طور پر کر جاتے تھے کہ بظاہر ایک ہنسی کی بات معلوم ہوتی تھی ۔ مگر درحقیقت وہ اُن کی اصلی رائے اس مسئلہ کی نسبت ہوتی تھی ۔ جس زمانہ میں وہ بنارس میں تھے ان کا ایک آرٹیکل "تہذیب الاخلاق" میں اس مضمون پر شایع ہوا تھا کہ اجماع ، جیسا کہ اہل سنت سمجھتے ہیں ، حجت شرعی نہیں ہے ۔ شیعوں میں سے ایک سید صاحب جو بنارس میں ملازم تھے ، اس آرٹیکل کو پڑھ کر خوشی خوشی ان سے ملنے کو آئے ، پہلے کبھی اُن سے ملاقات نہیں ہوئی تھی ، سرسید سے اس آرٹیکل کا ذکر کر کے کہنے لگے "کیوں جناب! جب آپ کے نزدیک اجماع حجت نہیں تو خلیفہ اول کی خلافت کیوں کر ثابت ہو گی؟" سرسید نے کہا :
"حضرت ! نہ ہو گی تو ان کی نہ ہو گی ، میرا کیا بگڑے گا ؟"
وہ یہ سُن کر اور بھی زیادہ خوش ہوئے اور سمجھے کہ کچھ پانی مرتا ہے ۔ تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگے " کیوں جناب! اس اختلاف کے وقت جبکہ کچھ لوگ خلیفہ اول کا ہونا چاہتے تھے اور کچھ جناب امیر کا ۔ اگر آپ اس وقت ہوتے تو کس کے لیے کوشش کرتے؟" سرسید نے کہا :
"حضرت ! مجھے کیا غرض تھی کہ کسی کے لیے کوشش کرتا ، مُجھ سے تو جہاں تک ہو سکتا اپنی ہی خلافت کا ڈول ڈالتا اور سو بسوے کامیاب ہوتا۔"
یہ سُن کر اُن کا جی چُھوٹ گیا اور جوتیاں پہن گھر کا رستہ لیا ۔ 67
 
Top