سرگوشی

زبیر مرزا

محفلین
میرے لیے بعض اوقات کچھ کہنا ، لکھنا یا اظہار کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور ایسا اکثرتب ہوتا ہے
جب کوئی تکلیف دہ یا ناگوار صورتحال ہو- ایک بار پہلے مجھے جھنجھوڑنے ایک خبرآئی تھی
اورشدیدکرب اورشرمندگی سے دوچارکرگئی تھی وہ تھلیسمیا میں مبتلا تڑپتے بچے اوران کے
ناداروالدین کے بارے میں تھی - تب مجھے خاموشی کوتوڑکربولناپڑاتھا کسی اور کے لیے نہیں اپنے بہرے کانوں کےلیے،خودکوخوابِ غفلت سے بیدارکرنے کےلیے -
اب پھرایک خبرنے مجھے آ گھیرا - میں مزے سے اپنے کام میں مصروف تھا اور
سمانیوزسے خبریں بھی سُن رہا تھا ، کریم کافی کا لذیذ مگ تھا جس کی مٹھاس اس خبرکے ساتھ
کڑواہٹ میں بدل گئی اوریہ خبرتھی ڈیرہ غازی خان کے ایک نابینا خاندان کی -
گھر کے سر برا ہ حا فظ غلام شبیر سمیت تین بیٹے پیدا ئشی نا بینا ،بیٹی اپا ہج جبکہ بچوں کی ماں بیمار ہے، ماں کے لئے تمام افراد کوسنبھالناایک بڑی آزمائش ہے۔ اس گھرا نے کا گزر بسر اْوپلے بیچ کر ہو تاہے۔
اس خاندان کی کسمپرسی ، ناداری اوربیچارگی نے مجھے گریبان سے آپکڑا - شرمندگی تھی اپنے
لباس کودیکھ کر، جوتے، گھڑی اورجیکٹ کی قیمت کا سوچ کرسرچکرانے لگا-کیا ان کی دادرسی
یا ان سے دیگرافراد کی خبرگیری اور مدد میرا فرض نہیں مجھے ہربار کسی ٹی وی کی خبرسے
ہی کیوں ان کا علم ہوتا ہے- کیوں اپنے طورپرکوشش نہیں کی جاتی مجھ سے -
وجہ شاید میری دیگردلچسپیاں ، تبصرے، سیاسی تانک جھانک اورتنقید سے اہم کام تھے میرے
سامنے ایسے میں بھلا ان پسے ہوئے مفلوک الحال ہم مذہبوں اورہم وطنوں کے خیال کیسے آتا
جودو وقت کی روٹی بھی پیٹ بھرکرنہیں کھاپاتے -
مجھے اپنی سوچوں کی تلاشی لینی پڑی کہیں اس ہمدردی کے جذبے کے پیچھے محض لفاظی تو نہیں ؟ کہہ سن کے بات آئی گئی ہوجائے تو یہ بوجھ سرک جائے اور میں پھرسے موجیں مارنے لگوں؟ کوئی عملی اقدام ان جیسے لوگوں کے لیے مجھ سے ہوبھی سکے گا یا نہیں ؟
یہ وقتی تلخی ،کڑواہٹ اور دُکھ تونہیں؟
اپنے سکون لیے ، خداکے آگے جوابدہی سے بچنے کے لیے ، قبرکی تاریکی اورتنگی سے نجات کےلیے، اپنے کندھوں کابوجھ ہلکا کرنے کے لیے کچھ توکرو - ہاں بات جب میرے اپنے
آپ کی ہوگی توان شاءاللہ کچھ نا کچھ ہوجائے گا خودغرضی نے میرے کانوں میں سرگوشی کی
 

نایاب

لائبریرین
سچ لکھا محترم بھائی
بے حسی و خود غرضی کی تاریکی نے ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔
کہیں کہیں کوئی " احساس میں جلتے " روشن چراغ دکھتا ہے ۔
 

مہ جبین

محفلین
زبیر مرزا ! بھائی جب بحیثیت مجموعی بےحسی اور بےضمیری عام ہوجائے تو خوابِ غفلت سے جگانے اور جھنجھوڑنے کے لئے ایسی ہی تحریروں کی ضرورت ہوتی ہے یا پھر یہ کہ کبھی ہمارا اس سے واسطہ پڑے۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا نہ کرے ، اللہ سب کو اس آزمائش سے سرخرو فرمائے آمین
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کیسی ہی ایسی کہانیاں گردوپیش میں بکھری ہوئی ہیں۔ غم گساروں کے کان پر ایسی سرگوشیاں اب اثر نہیں کرتی۔ بےحسی اور نفسانفسی نے کچھ ایسے جکڑ لیا ہے۔ کہ فریادی کی پکار اب کان سے ٹکرا کر یوں لوٹ جاتی ہے۔ جیسے وادیوں میں گونج لوٹ آتی ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ ڈیرہ غازی خان۔۔۔ ایسی مثالوں کے لیئے دور جانا ضروری ہے کیا۔ جمعہ نماز کے بعد جب باہر نکلو تو دیکھو کہ کتنے ہی بےرونق چہرے دست دراز کیئے دکھائی دیتے ہیں۔ احباب کا فرمانا ہےکہ یہ سب بازیگر ہیں۔ دھوکہ دیتے ہیں۔ مگر مجھے تو حضرت عمر فاروق:abt: کا قول یاد آجاتا ہے۔ کہ جب کوئی مجھے اللہ کے لیئے دھوکا دیتا ہے۔ تو میں اسکے دھوکے میں آجاتا ہوں۔ نیتوں کے حال تو اللہ جانتا ہے۔ مگر کبھی ان گداگروں کے درمیان کچھ ایسے بھی دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے ہاتھ نہیں اٹھتے۔ آنکھ سے سیلاب رواں اور سر جھکے ہوئے۔ لیکن گزرنے والے بےحسی کی چادر لپیٹے گزرتے جاتے ہیں۔ اس حالت کو اس شعر میں کیا خوب بیان کیا ہے
ہمیشہ صبر کو رسوا کیا ہے بھیگی آنکھوں نے​
ضرورت چیخ پڑتی ہے گداگر کچھ نہیں کہتا​

پر ہمارے پاس اتنا وقت ہی کہاں، کہ دیکھیں پلٹ کر۔۔ پوچھیں کہ کیا غم ہے۔۔ کیوں سر جھکا ہے۔۔ یہ کیسا پانی ہے جو رواں ہیں۔۔ بہت کیا تو جیب سے 10روپے کا نوٹ نکال کر گود میں پھینک دیا۔۔ یعنی بقول شاعر
میرے دل سے چہرے کا تعلق کچھ مزے کا ہے​
یہ اندرکچھ نہیں کہتا، یہ باہر کچھ نہیں کہتا​
میں سوچتا ہوں کہ روز محشر جب مخلوق روئے گی۔ پکارے گی۔ تو اللہ سبحان و تعالیٰ کیسے نظر انداز کردیں گے۔ وہ تو کہتا ہے کہ میں ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہوں۔ تو کیسے سن کر ان سنی کردے گا پکار کو۔ جب ایسی زندہ مثالیں دیکھتاہوں۔ لوگوں کو روتے مدد کے لیئے پکارتے دیکھتا ہوں۔ اور ساتھ سے گزرنے والے دامن بچا کر گزرتے چلے جاتے ہیں۔ تو احساس ہوتا ہے۔ اچھا ایسے نظرانداز کر دیا جائے گا اس دن۔ کہ چند لمحوں ہی کی تو بات ہے۔ لو دیکھ لو دنیا میں ہی یہ کیسے ممکن ہوگا۔​
 

شمشاد

لائبریرین
دیکھا جائے تو ہمارے ارد گرد بھی ایسے بہت سے لوگ ہوں گے جو دو وقت کی روٹی بھی نہیں کما سکتے۔

اگر ہم اپنے ارد گرد کے لوگوں کی ہی داد رسی کر سکیں تو ہمارے ضمیر کا بوجھ اتر سکتا ہے۔

شکریہ زبیر بھائی اور شکریہ نین بھائی۔
 
Top