تبصرہ کتب سرکار ﷺ کا جلوہ --نعتیہ ادب میں ایک دل کش اضافہ

سرکار ﷺ کا جلوہ --نعتیہ ادب میں ایک دل کش اضافہ
محترم جناب حافظ و قاری مولانا محمد اسماعیل یارعلوی( متوطن مالیگاؤں ناسک مہاراشٹر) کو میں اپنے بچپن سے جانتا ہوں ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں تیسری جماعت میں زیر تعلیم تھا ، سید آل مصطفیٰ چوک ، اسلام پورہ ، مالیگاؤں پر منعقدہ ایک جلسۂ عام میں پہلی بار آپ سے نعت مصطفیٰ ﷺسننے کا اتفاق ہوا ، آپ نے اُس جلسے میں امام احمدرضا بریلوی قدس سرہٗ کالکھا ہوا مشہورِ زمانہ کلام "زمین و زماں تمہارے لیے" اپنے مخصوص اور مترنم لب و لہجے میں پڑھا تھا، ماضی کے جھرونکوں میں جب جھانک کر دیکھتا ہوں تو آج بھی وہ ترنم ریزی کانوں میں رس گھولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ اس کے بعد بچپن سے لڑکپن تک اور آگے بھی متعدد اجلاس میں آپ سے تقاریر اور نعتیہ نغمات سننے کا موقع ملا ۔ موصوف ایک بہترین خطیب ، خوش الحان قاری ، اچھے ناظمِ اجلاس اور مترنم لب و لہجے کے حامل خوش فکر و خوش گلو نعت گوشاعر کے رُوپ میں جانے جاتے ہیں ۔ کئی برس قبل آپ کے دو مختصر نعتیہ مجموعے "خورشیدِ جہاں " اور " مخزنِ ایماں " شائع ہوکر اپنے حلقے میں مقبولیت حاصل کر چکے ہیں ۔
پیشِ نظر مجموعۂ کلام"سرکارﷺکاجلوہ" اِن ہی حافظ و قاری محمد اسماعیل یارعلوی صاحب کے لائق فرزند محبّی عطاؔابن یارعلوی کی تقدیسی شاعری کی اولین کاوش ہے۔ اس سے قبل "آرزو مدینے کی" آڈیو سی ڈی کے ذریعہ اپنی نعت خوانی اور نعت گوئی سے عطاؔ نے کافی لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ بچپن سے موصوف کا فکر و قلم نعت خوانی اور نعت گوئی کی طرف مائل بہ پرواز ہے۔جو کہ والدین کی تربیت اور دعاؤں کا حسین ثمرہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انھیں اپنے والد سے ورثے میں نعت گوئی کا جذبۂ خیر بھی ملا اور مترنم لب و لہجہ بھی۔ جس کا اظہار و اعتراف عطاؔ نے کچھ اس طرح کیا ہے ؂
ماں باپ کی دعاؤں کا اثر ہے یہ دوستو!
بچپن سےکررہا ہوں میں مدحت رسول کی
مدحتِ خیرالبشر ﷺ جیسے سعادت افروز وصف اور اپنے مترنم لب و لہجے کے سبب مشاعروں کی دنیا میں رفتہ رفتہ مقبولیت حاصل کرنے والے عطاؔ ابن یارعلوی عمر کی جس منزل سے گزر رہے ہیں اس میں عموماً شعرا حضرات ادب کی کج ادا صنفِ سخن "غزل" کی طرف زیادہ میلان رکھتے ہیں۔ اسے رب العزت جل شانہٗ اور رسولِ رحمت ﷺکی عطا ہی سے تعبیر کیا جائے گاکہ عطاؔ ابن یارعلوی کا اشہب قلم تقدیسی شاعری (یعنی حمد و نعت ، سلام و دعا ، مناجات اور منقبت نگاری) کے میدان میں کامیابی سے دوڑ رہا ہے ۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ عطاؔ غزل گوئی بھی کرتے ہیں۔ لیکن نعت نگاری ان کا محبوب ترین شغل ہے اور جس کا ثبوت "آرزو مدینے کی " جیسی دل کش آڈیوسی ڈی کے ذریعہ موصوف پیش کرچکے ہیں اور اب نعتیہ دیوان" سرکارﷺ کا جلوہ" نذرِ قارئین کررہے ہیں۔
یوں تو شہر مالیگاؤں( ضلع ناسک ، مہاراشٹر) میں مختلف اصناف میں متعدد شعری مجموعے شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ لیکن ان میں حروفِ ہجائیہ کا لحاظ رکھتے ہوئے مُرتّبہ " دیوان" کی تعداد بہت کم ہے، اور صنفِ نعت میں توبہت ہی کم۔ اس ضمن میں مداح رسول ، شاعرِ اسلام حضرت الطاف انصاری سلطان پوری علیہ الرحمہ کے نعتیہ دیوان "رُودِ بخشش" ، جناب انیس نیرؔ کے نعتیہ دیوان " شافع محشر(ﷺ)" اور ناچیز مُشاہدؔ رضوی عبدہ المذنب کے نعتیہ دیوان "لمعاتِ بخشش" کے نام لیے جاسکتے ہیں ۔
الحمدللہ! یہ بڑی خوش آیند اور ہر اعتبار سے لائق تحسین بات ہے کہ عطاؔ ابن یارعلوی نے اتنی کم عمری میں تقدس مآب اور نازک ترین صنفِ سخن" نعت گوئی" کے حوالے سے جو شعری ذخیرہ خوانِ مطالعہ پر سجایا ہے اس میں اردو کے مکمل حروفِ تہجی( الف تا یاے) کا بھرپور لحاظ رکھا ہے۔اس طرح موصوف نے اپنے ہم عصروں میں ایک نمایاں مقام بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے ؂
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خداے بخشندہ
روایتِ پارینہ کے مطابق زیرِ مطالعہ دیوان"سرکارﷺکاجلوہ" کا آغاز بھی حمدِ باری تعالیٰ سے ہوتا ہے ۔ شاعر نے اپنی عاجزی اور خاکساری کا بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت جل شانہٗ کی عظمت و کبریائی ، جلالت و بزرگی ، صفات و کمالات، فضل و کرم اور جود و عطا کا ذکر بڑی سادگی اور صفائی سے کیا ہے ؂
میں کیا ہوں اور کیا مری اوقات اے خدا
پھر بھی ہے مجھ پہ تیری عنایات اے خدا
تو ہی تو لاشریک ہے اور لم یلد ہے تو
سب سے عظیم صرف تری ذات اے خدا
رب العزت جل شانہٗ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہوئے مقطع میں جس ایمانی آرزو کااظہار شاعر کے موے قلم سے نکلتا ہے وہ ہر سچے مسلمان کی دیرینہ خواہش ہے ۔ یہ شعر عطاؔ صاحب کی بارگاہِ رسالت مآب ﷺ کے تئیں خوش عقیدگی کا مظہر بھی ہے ؂
سینے میں ہے عطاؔ کے یہ مدت سے آرزو
گذریں درِ رسول پہ دن رات اے خدا
حمدِ باری تعالیٰ کے بعد شاعر اپنی عقیدت و محبت کا نذرانہ دہلیزِ نبوت پر نچھاور کرنے کی سمت رواں دواں ہوتا ہے ۔ اس مسلمہ حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ نعت گوئی کی سعادت ہر کس و ناکس کے حصے میں نہیں آتی، بلکہ یہ وصف اسی کو ملتا ہے جس پر اپنے مولاجل شانہٗ کا کرم ہوجاتا ہے ۔ عطا ؔنے اس عطا کا اظہار یوں کیا ہے ؂
مجھ پہ مولا کا ایسا کرم ہوگیا
میں بھی مداحِ شاہِ امم ہوگیا
فضل خداوندی اور عطاے رسول ﷺ کی عطاؔ پر ایسی بارش ہوئی کہ 1981ء میں آنکھ کھولنے والایہ جواں سال مدحت نگار اتنی کم عمری میں صاحب دیوان نعت گوشاعر کی منزل پر فائز ہوگیا ؂
ہوتا نہ گر رسول کا تجھ پر کرم عطاؔ
کیسے تو ہوتا صاحب دیوان ذرا سوچ
اور ایک دوسرے مقام پر نبی کریم ﷺ کے اس احسانِ عظیم کا تذکرۂ خیر اس طرح کیا ہے ؂
بچپن سے ہی کرتا ہوں میں پیارے نبی کی مدحت
نعتِ نبی کے صدقے عطاؔ ہے اوج پہ میری قسمت
مجھ کو بنایا اپنا ثناخواں اُن کا ہے احسان
میرا نبی ذی شان پکارو ، میرا نبی ذی شان
عطاؔ ابن یارعلوی کےنعتیہ دیوان"سرکارﷺکاجلوہ" کی زیریں رَو سے عشقِ رسالت مآب ﷺ کی جو خوب صورت پرچھائیاں ابھرتی ہیں اُن میں دل کشی بھی ہے، چاشنی بھی۔ نغمگی بھی ہے غنائیت بھی۔ سادہ بیانی بھی ہے ، سلاست بھی۔ وارفتگی بھی ہے شیفتگی بھی۔ پاکیزگی بھی ہے ، طہارت بھی۔ صداقت بھی ہے ، للہٰیت بھی ۔ فکر و فن کی حسن کاری بھی ہے اور عقیدے و عقیدت کا التہاب بھی، چند اشعارنشانِ خاطر فرمائیں اور لطف اٹھائیں ؂
جس کی مثال سارے جہاں میں نہ مل سکی
وہ حسن بے مثال ہے شاہِ ہدیٰ کے پاس
جو دیکھ لے وہ بن جائے کردار کا پیکر
ہے سب سے الگ آپ کے کردار کا جلوہ
کہتے ہیں لوگ سایہ نہیں ہے رسول کا
ہم مانتے ہیں سایہ ہے ان کا جہان پر
جاکر مدینہ روضۂ اقدس کے سامنے
نعتِ نبی ، نبی کوسنا نا نصیب ہو
عطاؔ ان کی الفت ضروری ہے دل میں
وگر نہ یہ جانو کہ بے کار ہے دل
گالیاں سن کر دعائیں جو دیا کرتے رہے
پیکرِ مہر و وفا اے رحمتِ عالم ہیں آپ
نبی مکرمﷺ کے مقام و منصب اور آپ ﷺ کی حقیقت کو اللہ رب العزت جل شانہٗ کے سوا کوئی صحیح طور پر نہیں پہچان سکتا ، نبی کریم ﷺ کے رتبۂ بلند کا بیان اللہ تبارک و تعالیٰ جل شانہٗ نے اپنے مقدس کلام میں جابجا فرمایا ہے۔ اہلِ محبت کے نزدیک قرآن سرچشمۂ ہدایت اور مکمل ضابطۂ حیات تو ہے ہی ساتھ ہی ساتھ نبیِ کونین ﷺ کی نعت بھی ہے اور اولین درس گاہِ نعت بھی۔عطاؔ نے کتنے پتے کی بات کہی ہے کہ ؂
میں نے قرآں کیآیت جو تحریر کی
نعت کا شعر خود ہی رَقَم ہوگیا
اور اس بند کو بھی ملاحظہ کریں ، سبحان اللہ!! ایک ایمانی حقیقت کا والہانہ اظہار ؂
رب نے کیا ہے رتبہ اعلیٰ میرے نبی کا ایسا
کوئی ہوا ہے اور نہ ہوگا میرے نبی کے جیسا
اُن کی عظمت و رفعت کا خود شاہد ہے قرآن
میرا نبی ذی شان پکارو میرا نبی ذی شان
آدابِ نعت اور لوازماتِ نعت میں موضوع روایتوں سے پرہیز، مبالغہ آمیزی سے احتراز ، لفظیات کے انتخاب میں احتیاط اور خیالات کے اظہار میں شرعی قیود کی پاس داری جیسے عناصر نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ نعت لکھتے وقت عبد و معبود کے واضح فرق کو ملحوظ رکھنا نعت نگار کے لیے حددرجہ ضروری ہے کہ نعت "آہستہ کہ رہ بردمِ تیغ است قدم را" کے مصداق "لے سانس بھی آہستہ" کی نازک ترین منزل ہے۔ جہاں "جنید و بایزید نَفَس گُم کردہ " آتے ہیں وہاں بے ساختہ تیشۂ قلم چلا کر کچھ بھی نہیں لکھا جاسکتا۔ یہاں دنیاوی محبوبوں کی طرح خالص تغزلانہ رنگ وآہنگ میں بے محابا اظہارِ عشق و محبت کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں ۔ بلکہ یہ وہ رفعت نشان اور واجب الاحترام مقام ہے جہاں صدیقی صداقت ، فاروقی محبت ، عثمانی عقیدت ، علوی سپردگی، بلالی سوز، صہیبی شیفتگی،حسّانی وارفتگی اور اُویسی خود رفتگی کے فیضان سے برکتیں حاصل کرکے شعری اظہار کی ضرورت ہے۔
عطاؔ ابن یارعلوی کی تربیت جس ماحول میں ہوئی ہے یہ اس کی برکت ہے کہ ان کے کلام میں عقیدے و عقیدت کے اظہاریے میں ایک محتاط وارفتگی دکھائی دیتی ہے۔ لفظیات کے انتخاب اور مضامین و خیالات کی پیش کش میں سادگی کے ساتھ جو احتیاطی رویّے ان کے کلام میں پنہاں ہیں وہ ان کی نعت گوئی کو ایک خصوصیت عطاکرتے ہیں ؂
تیری عظمت ابن آدم اک طرف
شانِ سرکارِ دوعالم اک طرف
اک طرف ہے حضرتِ یوسف کا حُسن
آپ کا نورِ مجسم اک طرف
ورفعنا لک ذکرک فرمایا خدا تو نے
کیا کوئی گھٹائے گا معیار محمد (ﷺ)کا
سر تا پا آپ نور کے پیکر شہ حجاز
کیسے ہو کوئی آپ کا ہمسر شہ حجاز
یہ کبھی شانِ رسالت میں نہیں کرتا غلو
کہنے والوں نے کہا حد سے گذرجاتا ہے موڈ
نبی کریم ﷺ کی محبت و الفت ہی اصل ایمان بلکہ ایمان کی جان ہے ۔ جو آقاے کائنات ﷺ سے اپنا رشتۂ عقیدت مضبوط نہیں رکھتے ان پر اللہ تعالیٰ جل شانہٗ اپنا فضل و کرم نہیں فرماتا ؂
خدا کا کرم اُن پہ کس طرح ہوگا
جو رکھتے نہیں مصطفیٰ سے تعلق
اور یہی محبت حقیقی جوشِ ایمانی ہے کہ اسی جذبے کی موت کے سبب مسلم اُمّہ دنیا میں ہر محاذ پرناکامیوں کا شکار ہورہی ہے۔آج سارے عالم میں باطل قوتیں اسی دولتِ لازوال کو ختم کرنے میں کوشاں ہے۔ اگر ہم عشقِ رسالت مآب ﷺ میں سرشار ہوکر سنتِ مصطفےٰ علیہ التحیۃ والثناء پر سختی سے عمل پیرا ہوجائیں تو اسلام دشمنوں کے جملہ عزائم خاک میں مل سکتے ہیں ، بہ قولِ عطاؔ ؂
اب طرزِ زندگی تو ذرا سا بدل کے دیکھ
تو سنتِ رسول کے سانچے میں ڈھل کے دیکھ
سرنگوں ہوجائے گی دنیا کی باطل طاقتیں
صدقِ دل سے کرلے تو جوشِ ایمانی سے ربط
جس شخص کی زندگی نبی کریم ﷺ کی پاکیزہ سنتوں کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے اس کا چلنا پھرنا ، اٹھنا بیٹھناغرض یہ کہ ایک ایک فعل قابل صدرشک بن جاتا ہے ، بے شک!! عطاؔ نے کتنی سچی بات کی ہے ؂
قابل صد رشک ہے اس شخص کی ہر اک ادا
جس کو ہے پیارے نبی کی پیاری سنت سے غرض
جیسا کہ ناچیز نے اوپر کہیں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ عطاؔ ابن یارعلوی نے جو نعتیہ شعری ذخیرہ خوانِ مطالعہ پر سجایا ہے اس میں انھوں نے اردو کے حروفِ تہجی (الف تا یاے) کا بھرپور لحاظ رکھا ہے۔ اِ س التزام میں بعض مشکل زمینوں اور ادق ردیفوں کے استعمال میں عطاؔ صاحب کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ اس ضمن میں آمد کے ساتھ ساتھ آورد کاانداز بھی درآیاہے اور کہیں کہیں سلاست بھی متاثر ہوئی ہے اور شعریت بھی۔ لیکن عقیدے وعقیدت کے اس ظہاریے کے پرخلوص ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مشکل زمینوں اور ادق ردیفوں میں قلم بند کی گئی چند نعتوں کے مطلعے نشان خاطر کریں ؂
سب سے جدا رسول کی ہے شان ذرا سوچ
ہیںجبرئیل ان کے بھی دربان ذرا سوچ
کی ہے خدا سے جس نے ملاقات سرِ چرخ
وہ ہے مرے رسول کی اک ذات سرِ چرخ
کب تک یوں ناشاد رہے گا اپنی روش سے ہٹ
اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے نام نبی کا رٹ
فکر کی دہلیز پہ جس وقت لے آتا ہے موڈ
پھر رَقَم نعتِ شہ کونین کرواتا ہے موڈ
محسوس کررہا ہوں میں اکثر کہ دل ہے ہاژ
چشمِ کرم ہو شافع محشر کہ دل ہے ہاژ
اہلِ باطل دہرِ فانی کی ہیں الفت کے حریص
اہلِ حق ہیں ہادیِ حق کی محبت کے حریص
مختصر یہ کہ عطاؔ صاحب کے اس اولین تقدیسی شاعری پر مبنی خوبصورت نعتیہ دیوان "سرکارﷺ کا جلوہ" کو نعتیہ ادب کے ذخیرے میں ایک دل کش اضافہ قراردیا جانا چاہیے کہ عطاؔ نے اتنی کم عمری میں صاحب دیوان ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے ، وہ بھی نعت جیسی مشکل ترین صنفِ سخن میں ۔ یقیناً یہ ایک سعادت مندی اور سرفرازی کی بات ہے ۔ہمارے اس جواں سال مدحت نگار شاعر کی پذیرائی نہ کرنا انصاف و دیانت کے منافی ہوگا۔ اہلِ نقد و نظر اس دیوان پر اپنے گراں قدر تاثرات سے ضرور نوازیں ۔
ناچیز عطاؔ ابن یارعلوی کو قرطاسِ عقیدت و محبت پر ایسی اچھی اور پیاری نعتیہ شاعری سجانے کے سبب ہدیۂ تبریک و تحسین پیش کرتا ہے اور دعاگو ہے کہ موصوف کا یہ عقیدت مندانہ شعری اظہاریہ اُن کے والدین ، اہلِ خانہ اور خود اُن کے لیے توشۂ آخرت اور نجاتِ سرمدی کا پیش خیمہ بنے (آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہٖ و صحبہٖ وبارک وسلم)
22صفر المظفر 1434ھ مطابق5 جنوری 2013ء بروز سنیچر
 
Top