ٹائپنگ مکمل سرِ وادیِ سینا از فیض احمد فیض

فرخ منظور

لائبریرین
مرثیے
(1)

دور جا کر قریب ہو جتنے
ہم سے کب تم قریب تھے اتنے
اب نہ آؤ گے تم نہ جاؤ گے
وصل و ہجراں بہم ہوئے کتنے
 

فرخ منظور

لائبریرین
(2)

چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا
رنگ بدلے کسی صورت شبِ تنہائی کا

دولتِ لب سے پھر اے خسروِ شیریں دہناں
آج ارزاں ہو کوئی حرف شناسائی کا

گرمیِ رشک سے ہر انجمنِ گُل بدناں
تذکرہ چھیڑے تری پیرہن آرائی کا

صحنِ گلشن میں کبھی اے شہِ شمشاد قداں
پھر نظر آئے سلیقہ تری رعنائی کا

ایک بار اور مسیحائے دلِ دل زدگاں
کوئی وعدہ، کوئی اقرار مسیحائی کا

دیدہء و دل کو سنبھالو کہ سرِ شامِ فراق
ساز و سامان بہم پہنچا ہے رسوائی کا


اگست 1968ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
(3)

کب تک دل کی خیر منائیں، کب تک رہ دکھلاؤ گے
کب تک چین کی مہلت دو گے، کب تک یاد نہ آؤ گے

بیتا دید اُمید کا موسم، خاک اُڑتی ہے آنکھوں میں
کب بھیجو گے درد کا بادل، کب برکھا برساؤ گے

عہدِ وفا یا ترکِ محبت، جو چاہو سو آپ کرو
اپنے بس کی بات ہی کیا ہے، ہم سے کیا منواؤ گے

کس نے وصل کا سورج دیکھا، کس پر ہجر کی رات ڈھلی
گیسوؤں والے کون تھے کیا تھے، ان کو کیا جتلاؤ گے

فیض دلوں کے بھاگ میں ہے گھر بھرنا بھی، لُٹ جانا بھی
تم اس حسن کے لطف و کرم پہ کتنے دن اتراؤ گے


اکتوبر 1968ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
خورشیدِ محشر کی لو

آج کے دن نہ پوچھو، مرے دوستو
دور کتنے ہیں خوشیاں منانے کے دن
کھُل کے ہنسنے کے دن، گیت گانے کے دن
پیار کرنے کے دن، دل لگانے کے دن

آج کے دن نہ پوچھو، مرے دوستو
زخم کتنے ابھی بختِ بسمل میں ہیں
دشت کتنے ابھی راہِ منزل میں ہیں
تیر کتنے ابھی دستِ قاتل میں ہیں

آج کا دن زبوں ہے، مرے دوستو
آج کے دن تو یوں ہے، مرے دوستو
جیسے درد و الم کے پرانے نشاں
سب چلے سوئے دل کارواں، کارواں
ہاتھ سینے پہ رکھو تو ہر استخواں
سے اٹھے نالہءالاماں، الاماں

آج کے دن نہ پوچھو،مرے دوستو
کب تمہارے لہو کے دریدہ عَلم
فرقِ خورشیدِ محشر پہ ہوں گے رقم
از کراں تا کراں کب تمہارے قدم
لے کے اٹھے گا وہ بحرِ خوں یم بہ یم
جس میں دھُل جائے گا آج کے دن کا غم

سارے درد و الم سارے جور و ستم
دور کتنی ہے خورشید محشر کی لو
آج کے دن نہ پوچھو، مرے دوستو

مارچ، اپریل 1969ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
بالیں پہ کہیں رات ڈھل رہی ہے
یا شمع پگھل رہی ہے
پہلو میں کوئی چیز جل رہی ہے
تم ہو کہ مری جاں نکل رہی ہے

مئی ۔ جون 1970ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
اِک سخن مطربِ زیبا کہ سلگ اٹھے بدن
اِک قدح ساقیِ مہوش جو کرے ہوش تمام
ذکرِ صبحے کہ رُخ یار سے رنگیں تھا چمن
یادِ شب ہا کہ تنِ یار تھا آغوش تمام

جون 1970ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
جرسِ گُل کی صدا

اس ہوس میں کہ پکارے جرسِ گل کی صدا
دشت و صحرا میں صبا پھرتی ہے یوں آوارہ
جس طرح پھرتے ہیں ہم اہلِ جنوں آوارہ

ہم پہ وارفتگیِ ہوش کی تہمت نہ دھرو
ہم کہ رمازِ رموزِ غمِ پنہانی ہیں
اپنی گردن پہ بھی ہے رشتہ فگن خاطرِ دوست
ہم بھی شوقِ رہِ دلدار کے زندانی ہیں

جب بھی ابروئے درِ یار نے ارشاد کیا
جس بیاباں میں بھی ہم ہوں گے چلے آئیں گے
در کھُلا دیکھا تو شاید تمہیں پھر دیکھ سکیں
بند ھو گا تو صدا دے کے چلے جائیں گے

جولائی 1970ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
فرشِ نومیدیِ دیدار

دیکھنے کی تو کسے تاب ہے لیکن اب تک
جب بھی اس راہ سے گزرو تو کسی دکھ کی کسک
ٹوکتی ھے کہ وہ دروازہ کھلا ہے اب بھی
اور اس صحن میں ہر سو یونہی پہلے کی طرح
فرشِ نومیدیِ دیدار بچھا ہے اب بھی
اور کہیں یاد کسی دل زدہ بچے کی طرح
ہاتھ پھیلائے ہوئے بیٹھی ہے فریاد کناں

دل یہ کہتا ھے کہ کہیں اور چلے جائیں جہاں
کوئی دروازہ عبث وا ہو نہ بیکار کوئی
یاد فریاد کا کشکول لیے بیٹھی ہو
محرمِ حسرتِ دیدار ھو دیوار کوئی
نہ کوئی سایہء گُل ہجرتِ گل سے ویراں

یہ بھی کر دیکھا ھے سو بار کہ جب راہوں میں
دیس پردیس کی بے مہر گزرگاہوں میں
قافلے قامت و رخسار و لب و گیسو کے
پردہء چشم پہ یوں اترے ہیں بے صورت و رنگ
جس طرح بند دریچوں پہ گرے بارشِ سنگ

اور دل کہتا ہے ہر بار چلو لوٹ چلو
اس سے پہلے کہ وہاں جائیں تو یہ دکھ بھی نہ ہو
یہ نشانی کہ وہ دروازہ کھلا ہے اب بھی
اور اُس صحن میں ہر سُو یونہی پہلے کی طرح
فرشِ نومیدیِ دیدار بچھا ہے اب بھی


اگست 1970ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
ٹوٹی جہاں جہاں پہ کمند

رہا نہ کچھ بھی زمانے میں جب نظر کو پسند
تری نظر سے کیا رشتہء نظر پیوند

ترے جمال سے ہر صبح پر وضو لازم
ہر ایک شب ترے در پر سجود کی پابند

نہیں رہا حرمِ دل میں اِک صنم باطل
ترے خیال کے لات و منات کی سوگند

مثال زینہء منزل بکارِ شوق آیا
ہر اِک مقام کہ ٹوٹی جہاں جہاں پہ کمند

خزاں تمام ہوئی کس حساب میں لکھیے
بہارِ گل میں جو پہنچے ہیں شاخِ گل کو گزند

دریدہ دل ہے کوئی شہر میں ہماری طرح
کوئی دریدہ دہن شیخِ شہر کے مانند

شعار کی جو مداراتِ قامتِ جاناں
کیا ہے فیض درِ دل، درِ فلک سے بلند

نومبر 1970ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

شرح بے دردیِ حالات نہ ہونے پائی
اب کے بھی دل کی مدارات نہ ہونے پائی

پھر وہی وعدہ جو اقرار نہ بننے پایا
پھر وہی بات جو اثبات نہ ہونے پائی

پھر وہ پروانے جنہیں اذنِ شہادت نہ ملا
پھر وہ شمعیں کہ جنہیں رات نہ ہونے پائی

پھر وہی جاں بلبی لذتِ مے سے پہلے
پھر وہ محفل جو خرابات نہ ہونے پائی

پھر دمِ دید رہے چشم و نظر دید طلب
پھر شبِ وصل ملاقات نہ ہونے پائی

پھر وہاں بابِ اثر جانیے کب بند ہوا
پھر یہاں ختم مناجات نہ ہونے پائی

فیض سر پر جو ہر اِک روز قیامت گزری
ایک بھی روز مکافات نہ ہونے پائی

23، مارچ 1971ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
حذر کرو مرے تن سے

سجے تو کیسے سجے قتلِ عام کا میلہ
کسے لبھائے گا میرے لہو کا واویلا
مرے نزار بدن میں لہو ہی کتنا ہے
چراغ ہو کوئی روشن نہ کوئی جام بھرے
نہ اس سے آگ ہی بھڑکے نہ اس سے پیاس بجھے
مرے فگار بدن میں لہو ہی کتنا ہے
مگر وہ زہرِ ہلاہل بھرا ہے نس نس میں
جسے بھی چھیدو ہر اِک بوند قہرِ افعی ہے
ہر اک کشید ہے صدیوں کے درد و حسرت کی
ہر اک میں مُہر بلب غیض و غم کی گرمی ہے
حذر کرو مرے تن سے یہ سم کا دریا ہے
حذر کرو کہ مرا تن وہ چوبِ صحرا ہے
جسے جلاؤ تو صحنِ چمن میں دہکیں گے
بجائے سرو و سمن میری ہڈیوں کے ببول
اسے بکھیرا تو دشت و دمن میں بکھرے گی
بجائے مشکِ صبا میری جان زار کی دھول
حذر کرو کہ مرا دل لہو کا پیاسا ہے


مارچ 1971ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
تہ بہ تہ دل کی کدورت
میری آنکھوں میں امنڈ آئی توکچھ چارہ نہ تھا
چارہ گر کی مان لی
اور میں نے گرد آلود آنکھوں کو لہو سے دھو لیا
میں نے گرد آلود آنکھوں کو لہو سے دھو لیا
اور اب ہر شکل و صورت
عالمِ موجود کی ہر ایک شے
میری آنکھوں کے لہو سے اس طرح ہم رنگ ہے
خورشید کا کندن لہو
مہتاب کی چاندی لہو
صبحوں کا ہنسنا بھی لہو
راتوں کا رونا بھی لہو
ہر شجر مینارِ خوں، ہر پھول خونیں دیدہ ہے
ہر نظر اک تارِ خوں، ہر عکس خوں مالیدہ ہے
موجِ خوں جب تک رواں رہتی ہے اس کا سرخ رنگ
جذبہء شوقِ شہادت ،درد،غیظ و غم کا رنگ
اور تھم جائے تو کجلا کر
فقط نفرت کا، شب کا،موت کا،
ہر اک رنگ کے ماتم کا رنگ
چارہ گر ایسا نہ ہونے دے
کہیں سے لا کوئی سیلابِ اشک
آبِ وضو
جس میں دُھل جائیں تو شاید دھُل سکے
میری آنکھوں ،میری گرد آلود آنکھوں کا لہو ....

8 اپریل 1971
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہم سادہ ہی ایسے تھے، کی یوں ہی پذیرائی
جس بار خزاں آئی، سمجھے کہ بہار آئی

آشوبِ نظر سے کی ہم نے چمن آرائی
جو شے بھی نظر آئی، گل رنگ نظر آئی

امیدِ تلطف میں‌ رنجیدہ رہے دونوں
تو اور تری محفل، میں اور مری تنہائی

یک جان نہ ہو سکیے، انجان نہ بن سکیے
یوں ٹوٹ گئی دل میں‌ شمشیرِ شناسائی

اس تن کی طرف دیکھو جو قتل گہِ دل ہے
کیا رکھا ہے مقتل میں ، اے چشمِ تماشائی
 

فرخ منظور

لائبریرین
یار اغیار ہو گئے ہیں
اور اغیار مُصِر ہیں کہ وہ سب
یارِ غار ہو گئے ہیں
اب کوئی ندیمِ باصفا نہیں ہے
سب رند شراب خوار ہو گئے ہیں


1971ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
کہیں تو کاروانِ درد کی منزل ٹھہر جائے
کنارے آ لگے عمرِ رواں یا دل ٹھہر جائے

اماں کیسی کہ موجِ خوں ابھی سر سے نہیں گزری
گزر جائے تو شاید بازوئے قاتل ٹھہر جائے

کوئی دم بادبانِ کشتیِ صہبا کو تہہ رکھو
ذرا ٹھہرو غبارِ خاطرِ محفل ٹھہر جائے
خُمِ ساقی میں جز زہرِ ہلاہل کچھ نہیں باقی
جو ہو محفل میں اس اکرام کے قابل، ٹھہر جائے

ہماری خامشی بس دل سے لب تک ایک وقفہ ہے
یہ طوفاں ہے جو پل بھر بر لبِ ساحل ٹھہر جائے

نگاہِ منتظر کب تک کرے گی آئینہ بندی
کہیں تو دشتِ غم میں یار کا محمل ٹھہر جائے​
 

فرخ منظور

لائبریرین
میں تیرے سپنے دیکھوں

برکھا برسے چھت پر، میں تیرے سپنے دیکھوں
برف گرے پربت پر، میں تیرے سپنے دیکھوں
صبح کی نیل پری، میں تیرے سپنے دیکھوں
کویل دھوم مچائے،میں تیرے سپنے دیکھوں
آئے اور اُڑ جائے، میں تیرے سپنے دیکھوں
باغوں میں پتے مہکیں، میں تیرے سپنے دیکھوں
شبنم کے موتی دہکیں، میں تیرے سپنے دیکھوں
اس پیار میں کوئی دھوکا ہے
تو نار نہیں کچھ اور ہے شے
ورنہ کیوں ہر ایک سمے
میں تیرے سپنے دیکھوں
 

فرخ منظور

لائبریرین
بھائی

آج سے بارہ برس پہلے بڑا بھائی مِرا
اسٹالن گراڈ کی جنگاہ میں کام آیا تھا
میری ماں اب بھی لیے پھرتی ہے پہلو میں یہ غم
جب سے اب تک ہے وہی تن پہ ردائے ماتم
اور اس دُکھ سے مِری آنکھ کا گوشہ تر ہے
اب مِری عمر بڑے بھائی سے کچھ بڑھ کر ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
داغستانی خاتون اور شاعر بیٹا

اس نے جب بولنا نہ سیکھا تھا
اس کی ہر بات میں سمجھتی تھی
اب وہ شاعر بنا ہے نامِ خدا
لیکن افسوس کوئی بات اس کی
میرے پلے ذرا نہیں پڑتی
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہ نوکِ شمشیر

میرے آبا کہ تھے نا محرمِ طوق و زنجیر
وہ مضامیں جو ادا کرتا ہے اب میرا قلم
نوکِ شمشیر پہ لکھتے تھے بہ نوکِ شمشیر
روشنائی سے جو میں کرتا ہوں کاغذ پہ رقم
سنگ و صحرا پہ وہ کرتے تھے لہو سے تحریر
 
Top