تبصرہ کتب سرمایۂ حیات ، نعتیہ مجموعہ، شاعر: سید وحید القادری عارفؔ

جناب سید وحیدالقادری عارفؔ صاحب اردو شعری آفاق کی ایک معتبر شخصیت کا نام ہے۔ جن کا کلام اہل علم و ادب کے نزدیک بڑی قدر ومنزلت رکھتا ہے ۔ آپ جنوبی ہند کےایک سادات گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ آپ کے جد اعلیٰ ، حضرت شیخ الشیوخ ابو البرکات سید احمد نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ کابل سے حیدرآباد دکن آنے والے پہلے بزرگ ہیں ۔جن کے تلامذہ اور ارادت مندوں کی کثیر تعداد افغانستان ‘ سرزمینِ عرب اور ہندوستان میں موجود تھی۔
1535486_10203063665055444_1977481640_n.jpg
آپ کے صاحبزادوں میں حضرت علامہ ابوالفضل سید محمودعلیہ الرحمہ نے بہت شہرت پائی۔ یہ مولوی محمود کے نام سے معروف تھے اورآصفجاہِ خامس کے دورِ سلطنت میں ناظمِ نظمِ جمعیت ‘ناظمِ قضایائے عروب ‘مفتی وضعِ قوانین اور رکن عدالت العالیہ کے جلیل القدرعہدوں پر فائز رہے۔ تلامذہ اور ارادت مندوں کی کثیر تعداد تھی۔ آپ کے حلقہ درس میں امرا‘ فقرا ‘ علما‘ عوام الناس ‘مسلم وغیرمسلم افراد سینکڑوں کی تعداد میں شریک ہوتے تھے۔ آپ کا تفصیلی ذکر کتبِ تاریخ و سیر میں مرقوم ہے۔
ان کے صاحبزادے حضرت مفتی ابو السعد سید عبد الرشید قادری علیہ الرحمہ مفتی شہر اور قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز رہے۔جو اپنے وقت کے جید علما میں شمار ہوتے تھے۔ ممتاز اساتذہ سے حصولِ علم فرمایا تھا جن میں آپ کے والد حضرت ابو الفضل سید محمود علیہ الرحمہ اور نانا عمدۃ العلما مفتی میر مسیح الدین علی خان (محبوب نواز الدولہ علیہ الرحمہ) کے علاوہ حضرت علامہ سید حسن ، مولانا سید عبد الحق خیرآبادی ‘مولانا امیرحسن نعمانی ‘ مولوی سید خلیل ہراتی ‘ مولانا شاہ عبد الحق کانپوری ‘ مولوی سید حسن بخاری ‘علامہ قاری تونس علیہم الرحمہ وغیرہم شامل تھے۔ شعر کہتے تھے۔ اخترؔ تخلص تھا اورڈاکٹراحمدحسین مائلؔ سے تلمذ رکھتے تھے۔
ان کے صاحبزادے یعنی جناب سید وحیدالقادری عارفؔ کے والد ماجد حضرت علامہ ابو الفضل سیدمحمود قادری تھے جو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدہ پر فایز تھے۔ طریقت میں نقیب الاشراف بغداد حضرت پیر ابراہیم سیف الدین قادری الگیلانی علیہ الرحمہ کی بیعت و خلافت سے مشرف تھے۔آپ علماے عصر میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔ اپنے والدِ گرامی علیہ الرحمہ کے علاوہ بحر العلوم حضرت علامہ عبد القدیر صدیقی ‘ علامہ سید ابراہیم ادیب ‘ علامہ مفتی مخدوم حسینی ‘ مولانا سید نبی‘ مولانا سید عثمان جعفروغیرہ کی خدمت میں زانوئے ادب تہہ کیا تھا اور انکے تلامذہ میں منفرد و ممتاز تھے۔ اردو انسئکلوپیڈیا میں حصہ قانون کی تدوین کے علاوہ کم و بیش چھبیس کتابوں کے مصنف تھے۔ عربی‘ فارسی اور اردو کے معروف شاعر تھے۔ اپنے والد حضرتِ اخترؔ کے علاوہ امام الکلام پہلوانِ سخن نجم الدین صاحب ثاقبؔ بدایونی سے شرفِ تلمذ حاصل تھا۔ مختلف علمی اور سماجی انجمنوں کے بانی تھے جن میں انجمنِ معین الملت ‘ معارفِ اسلامیہ ٹرسٹ ‘ مسلم ویلفیر آرگنائزیشن وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر مذہبی ‘ ادبی اورسماجی اداروں سےبہ حیثیت صدر ‘ نائب صدریا معتمد مجلسِ انتظامی منسلک اور انکے سرگرم کارکن تھے۔ ان میں مجلسِ علمائے دکن ‘ جامعہ نظامیہ‘ طور بیت المال ‘ انجمنِ تحفظِ اوقاف ‘ مجلسِ اصلاحِ معاشرہ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
جناب سید وحیدالقادری عارفؔ کے نانا حضرت سید وحید القادری الموسویؒ تھے جو اپنے ہمعصر علماء و صوفیا میں اپنے زہد و ورع اور علم کے باعث وحید العصر کے لقب سے جانے جاتے تھے۔ جناب وحیدالقادری عارفؔ کا نام انہی کے نام پررکھا گیا۔ یہ حضرت سید عبد القادر الجیلانی رضی اللہ عنہ کی اولادِ امجاد سے تھے اور اپنے جدِ امجد شیخ المشائخ افتخار الاکابر و الاکارم حضرت سید شاہ مرتضیٰ قادری مہاجر مدنی علیہ الرحمہ اور دیگر مشہور علمائے وقت سے حصولِ علم فرمایا تھا۔ ان میں محدثِ وقت حضرت منصور علی خان قابلِ ذکر ہیں۔

اس مختصر سے خاندانی پس سے مبرہن ہوتا ہے کہ جناب سید وحیدالقادری عارفؔ صاحب کا دادیہال اور نانیہال دونوں ہی اپنے اپنے دور میں علم و فضل ، زہد و تقویٰ اور شعر وادب کا مرکز و محور رہا ہے ۔ ایسے علمی خاندان میں پرورش پانے والے سید وحیدالقادری عارفؔ صاحب کو بھی ورثے میں بہت کچھ ملا ۔ جو یقیناً سعادت مندی کی بات ہے ۔

عارفؔ صاحب نے شاعری کا آغاز خاندانی محفلِ نعت و منقبت سے کیا ۔اس طرح آپ کا ذوقِ شعری اس درجہ پروان چڑھا کہ آج ان کانام اور ان کا کلام اہل علم و دانش کے نزدیک قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ۔یوں تو آپ نے شعر گوئی کا آغاز نعت و منقبت سے کیا لیکن بعد میں آپ نے غزلیں بھی کہیں ۔ غزل کے علاوہ اپنے والد ماجد سے تاریخ گوئی کافن بھی سیکھا بایں سبب جناب وحیدالقادری عارفؔ صاحب نے چند تاریخی نظمیں اور رباعیات بھی لکھیں ۔

پیش نظر مضمون میں جناب سید وحیدالقادری عارفؔ کی نعت گوئی میری تبصراتی کاوش کاعنوان ہے ۔ نعت گوئی کے بارے میں مسلمہ امر ہے کہ یہ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی کسبی چیز ہے بل کہ یہ خالص عطاے الٰہی سے حاصل ہونے کا مقدس فن ہے اور یہ انھیں سعادت مند حضرات کو ملتا ہے ۔ جن پر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہِ کرم ہوجاتی ہے ۔

جناب سید وحیدالقادری عارفؔ نے جس ماحول میں پرورش پائی اس کے سبب آپ کی شعری کائنات میں مذہبی عنصر غالب نظر آتا ہے ۔ آپ کے یہاں حمد و مناجات، سلام و نعت اور منقبت کا گہرا رچاو پایا جاتا ہے ۔ آپ نے میدانِ غزل میں بھی کامیاب طبع آزمائی کی ۔لیکن آپ کی غزل گوئی روایتی انداز سے پرے تصوفانہ رنگ و آہنگ میں ڈھلی ہوئی ہے ۔ ویسےآپ کے شعری اظہار کا اہم رویہ نعت نگاری ہی ہے ۔ جو کہ رب العزت جل و علا کی عطا اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نوازش کے ساتھ ساتھ اپنے اسلافِ کرا م سےملی ہوئی روشن وراثتوں کی دین ہے ۔ آپ ۱۹۸۴ء سے جدہ میں مقیم ہیں ۔ جدہ شہرِ محبت مدینۂ منورہ سے قریب ہے آقاے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس شہر کی اس قربت نے آپ کے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید جِلابخشی جس کے سبب آپ کی نعت گوئی میں بلا کی تازہ کاری اور التہاب کا عنصر در آیا ہے ۔ عار فؔ صاحب کے چند نمایندہ اشعار خاطر نشین کیجیے ؎

جداگانہ ہے وقعت اب ان اوراقِ پریشاں کی
نبی کی نعت زینت بن گئی ہے میرے دیواں کینبی کے نقشِ پا پیش ِ نظر ہیں
رہِ فردوس کی یہ رہبری ہے
نعت ان کی کہاں کہاں عارفؔ
بخش دی عشق کو جلا کس نے
بڑی محکم ہے نسبت اُن کے در سے
مرا عہدِ وفا ہے اور میں ہوں

جناب سید وحیدالقادری صاحب کے نزدیک غلامِ مصطفیٰﷺ کہلانا بہت بڑے اعزازِ خسروانہ کی بات ہے ۔ نبیِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم سے حُسنِ عقیدت کی دولتِ عظمیٰ ایمان کی تازگی اور پختگی کا سبب ہے ۔ دیارِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں رہنے کی جو لذت ہے اُس نسبت پر جتنا ناز کیا جائے کم ہے ۔ غلامیِ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج بس یہی ہے کہ آقاے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اپنے غلام کو ’’میرا ‘‘ فرمادیں، عارفؔ صاحب کا حُسنِ تخیل اور تمنّاے ایمانی قابل داد ہے ؎
دولتِ حسنِ عقیدت جو میسّر ہے مجھے
لطف دیتا ہے مرا جذبہء ایماں مجھ کو
میں تو ان کا ہوں غلامی میں رہوں گا ہردم
کاش فرمادیں ’’مرا‘‘ سرورِ دوراں مجھ کو
فخر نسبت پہ مری جتنا کروں میں کم ہے
کردیا اس نے یہیں خلد بداماں مجھ کو

زندگی کاحقیقی مزہ عشق سے ہے ۔ اگر عشق نہ ہوتو زندگی بے رنگ اور بے کیف ہوجاتی ہے ۔ محبتوں کی کئی قسم ہے بعض محبتیں جائز ہوتی ہیں بعض ناجائز اور بعض ضروری اور اہم ، محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر اہم ہے کہ اِس محبت کے بغیر ایمان ہی کامل نہیں ہوسکتا ۔ ایمان کاکمال اس بات پر منحصر ہے کہ نبی کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ، ماں باپ ، بھائی بہن ، اولاد اور تمام جہان کی محبت پر غالب آجائے ۔جب تک یہ محبت نہیں تو زندگی بے نشان ہی کہلائے گی ؎
رہبری کون کرے ان کی محبت کے سوا
منزلِ عشق کہاں راہِ عقیدت کے سوا
عشق آقا کا میسّر جو نہیں کچھ بھی نہیں
زیست بے کیف ہے اس عشق کی لذّت کے سوا

حضرت سید وحیدالقادری صاحب کی نعت گوئی روایتی نعت نگاری کے اسلوب کے ساتھ ساتھ جدت و ندرت کی آئینہ دار ہے۔جس کے سبب آپ کے کلام میں تازگی و طرفگی کے گلہاے رنگارنگ قاری و سامع کو براہ راست متاثر کرنے میں مکمل طور پر کامیاب دکھائی دیتے ہیں ۔ سید صاحب کی نعت گوئی عقیدے و عقیدت دونوں کی ترجمانی کرتی ہوئے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی محتاط محبتوں کا مخلصانہ اظہاریہ ہے ۔جو ہر اعتبار سے لائق تحسین و آفرین ہے۔
علاجِ اضطرابِ آدمیّت اُن کے در پر ہے
غرض کچھ چارہ گر سے ہے نہ حاجت کوئی درماں کی
مری نسبت ہی سرمایہ ہے میرا
یہی پایا ہے میں نے زندگی سے
اندازِ کرم بھی ہے جدا شانِ عطا بھی
اس در کا گدا شاہ بھی ہے اور گدا بھی
سمجھے جو فنا ہونے لگے عشق میں ان کے
دراصل بقا ہے جسے کہتے ہیں فنا بھی

آپ کے نعتیہ اشعار میں ایمان و وجدان اور تصوف و معرفت کی تب و تاب بھی پائی جاتی ہے ۔ لفظ لفظ سے محبت و عقیدت کی ایمان افروز کرنیں پھوٹتی محسوس ہوتی ہیں۔ اشعار میں ایک والہانہ پن ، دامنِ کرم سے وابستگی و قربت کا مخلصانہ اظہار،اسی دیار میں رہ جانے کی ایک خوشگوار کسک ، احترام رسول اور مقام رسالت سے باخبری آپ کی نعتیہ شاعری کے نمایاں عناصر ہیں ۔
غلامی اُن کی گر مہمیز بن جائے تو بن جائے
منازل ورنہ طئے کس طرح ہوں گی راہِ عرفاں کی

ممنونِ کرم ہوں مجھے قدموں میں رکھا ہے
مدفن کے لئے چاہئے تھوڑی سی جگہ بھی

کسی صورت کسک اس درد کی کم ہو نہیں پاتی
علاجِ درد سے بڑھتا ہے کیوں دردِ نہاں دیکھو
اٹھتی نہیں اٹھائے جبیں در سے آپ کے
دیتی ہے لطف ایسا یہاں بندگی ہمیں
مدینہ جاوں پھر آوں دوبارہ پھر جاوں
بتاوں کیا مجھے ملتا ہے کیا مدینے سے

سید صاحب کا یہ شعر تو بڑا خوب صورت اورپاکیزہ جذبات کا آئینہ دار ہے ۔ روضۂ سرکار کے قریب دفن ہونے کی آرزو کے ساتھ یہ کہنا کتنا بھلا معلوم ہوتا ہے کہ موت بھی مجھ کو مدینے سے جد انہ کرے ، سبحان اللہ! ؎
قریبِ روضہء سرکار دفن ہوجاوں
کرے نہ موت بھی مجھ کو جدا مدینے سے سید وحیدالقادری عارفؔ صاحب کی نعتوں میں اہل سنت کی شہرۂ آفاق خوش عقیدگی کا بھی والہانہ اظہاریہ اپنے پورے جوش و خروش کے ساتھ ملتا ہے ۔ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اس کائناتِ کے لیے وجہِ حیات ہے ، کیا خوب کہا ہے عارفؔ صاحب نے ؎

ممکن نہیں ہو اس سے سوا کچھ خوشی ہمیں
’’میلادِ مصطفیٰ سے ملی زندگی ہمیں‘‘

نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ پاک کی زیارت من زار قبری وجبت لہٗ شفاعتی کے مصداق ہمارے لیے شفاعت کا پروانۂ عظمیٰ ہے ،کس درجہ خوبی سے اس بات کو عارفؔ صاحب نے اپنے ایک شعر میں یوں پیش کیا ہے ؎
میثاقِ شفاعت دیا سرکار نے ہم کو
جاتے ہیں زیارت کو تو پاتے ہیں جزا بھی
نبیِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کاغم ، غم کے ماروں کے لیے درد بھی ہے اور دوا بھی ؎
بیمارِ غمِ عشق کو کیا کام دوا سے
یہ درد ہے جو درد بھی ہے اور دوا بھی
اور نامِ اقدس کا وظیفہ بلاؤں اور مصیبتوں کو دفع کرنے کا تیر بہ ہدف نسخۂ کیمیاہے ، عارفؔ صاحب کی خوش عقیدگی کا مظہر یہ شعر بے ساختہ سبحان اللہ کی داد نہاں خانۂ دل سے ابھارتا ہے ؎
نام ان کا جو لیتا ہوں تو ٹلتی ہیں بلائیں
یہ میرا وظیفہ بھی ہے اور ردِّ بلا بھی
عارفؔ صاحب ایک ایسے خوش نصیب نعت گوشاعر ہیں جنھیں قربتِ شہرِ مدینہ ، جدہ کی رہایش نصیب ہوئی ہے ۔ اوریہ آپ کے نصیب کی معراج ہے کہ آپ کو بارہا دیارِ پاکِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی سعادت بھی میسر ہوتی رہتی ہے ۔ آپ کی محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سکون آمیز تڑپ روضۂ جہاں آراے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی آپ سے نعتیہ اشعار کہلو لیتی ہے ، ذیل میں ایسی نعتوں سے چند اشعار نشانِ خاطر فرمائیں ؎

قدم یوں مجھ سے عاصی کے پڑیں ارضِ مدینہ پر
کرم ہے آپ کا جو حاضرِ دربار میں بھی ہوں
یہاں پاسِ شریعت مانعِ اظہار ہے ورنہ
شکستہ دل لئے بے کل پئے اظہار میں بھی ہوں
مرادیں اپنی پاتے ہیں جہاں پر اصفیا سارے
وہیں شرمندہ شرمندہ پسِ دیوار میں بھی ہوں
مری قسمت مجھے اس منبعِ انوار پر لائی
ز سر تا پا غریقِ بارشِ انوار میں بھی ہوں

پھر مقدر میں مدینہ کو جو جانا آیا
پھر نظر میں مری منظر وہ سہانا آیا
وہی وادی وہی کہسار وہی راہیں ہیں
وجد ہر گام پہ لازم ہے جو آنا آیا
کرمِ شاہِ مدینہ کے تصدق عارفؔ
میری قسمت میں یہاں بارہا آنا آیا

عاشقِ صادق حسان الہند امامِ نعت گویاں امام احمد رضا خاں بریلوی کی زمین میں لکھی گئی عارفؔ صاحب کی ایک نعت نے بھی مجھے کافی متاثر کیا ، ملاحظہ فرمائیں برزمینِ رضا ، عارفؔ صاحب کی مرقومہ نعت شریف کے دو شعر ؎


کتنی عظیم مرتبت کیسی بڑی یہ شان ہے

خاکِ درِ رسول کا ہر ذرہ آسمان ہے

آمدِ مصطفیٰ ہوئی نورِ یقین آگیا

ریب و گمان یوں مٹے ریب ہے نہ گمان ہے

جناب سید وحیدالقادری عارفؔ صاحب نے بڑی سادگی و صفائی اور صداقت و سچائی کے ساتھ سلیس و رواں اور سہل و آسان زبان میں اپنا نذرانۂ عقیدت و محبت بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کرتے ہوئے نعت کے بڑے اچھے ، صاف ستھرے ، خوب صورت ، دل کش اور دل نشین متاثر کُن اشعار زیب قرطاس کیے ہیں ۔ میں جناب سید وحیدالقادری عارفؔ صاحب کو اُن کے مجمو عۂ کلام "سرمایۂ حیات" کی اشاعت پر ہدیۂ تبریک و تحسین پیش کرتا ہوں ۔اور انھیں کے ایک بہترین شعر پر اپنے اس مضمون کا اختتام کرتا ہوں یہی میرا بھی ایمان ہے اور قلبی تمنّا ؎
کام کچھ اور نہ ہو آپ کی مدحت کے سوا
اور کیا چاہیے اس طور کی فرصت کے سوا


مُشاہدؔ

۲۴؍ شوال المکرم ۱۴۳۴ھ مطابق ۱ ستمبر ۲۰۱۳ء ، بروز اتوار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ڈاکٹر ) محمد حسین مُشاہدرضوی

سروے ۳۹ پلاٹ نمبر ۴۱ نیااسلام پورہ ، مالیگاؤں

ناسک ۴۲۳۲۰۳ مہاراشٹر ، انڈیا

mushahidrazvi79@gmail.com

www.gravatar.com/mushahidrazvi
 

الف نظامی

لائبریرین
کتنی عظیم مرتبت کیسی بڑی یہ شان ہے
خاکِ درِ رسول کا ہر ذرہ آسمان ہے

آمدِ مصطفیٰ ہوئی نورِ یقین آگیا
ریب و گمان یوں مٹے ریب ہے نہ گمان ہے
 
Top