سرحد کے اس پار * تبصرہ جات

مال روڈ مسوری!!!
194726705-Mussoorie-Mall-Road-Main.jpg
سو نکال دیں تو مری ہی ہے
 

فلسفی

محفلین
یہاں سے آگے بڑھنے سے قبل ان سونے سے لکھے جانے والے الفاظ پر سلام۔
بظاہر سادی سی، مگر کتنی تلخ بات ہے۔ اس کی تلخی وہی محسوس کر سکتے ہیں، جن کے بڑے قربانیاں دے کر یہاں پہنچے۔
تابش بھائی میں نے بھی انہی الفاظ کا اقتباس لیا تھا آپ کو مراسلہ دیکھا تو سوچا اسی پر جواب لکھنا زیادہ مناسب ہے۔

آہ --- امی بتاتی ہیں کہ نانا ڈھاکہ میں ڈاک خانے میں ملازم تھے۔ تقسیم کے وقت ڈھاکہ گئے ہوئے تھے۔ پیچھے (حسن گڑھ-روہتک) میں سارا خاندان کاٹ دیا گیا۔ اکثر روتے ہوئے کہتے تھے کہ جانے سے پہلے چھوٹا بھائی ساتھ ڈھاکہ جانے کی ضد کر رہا تھا ہائے کاش اس کو ساتھ لے جاتا۔
 
تابش بھائی میں نے بھی انہی الفاظ کا اقتباس لیا تھا آپ کو مراسلہ دیکھا تو سوچا اسی پر جواب لکھنا زیادہ مناسب ہے۔

آہ --- امی بتاتی ہیں کہ نانا ڈھاکہ میں ڈاک خانے میں ملازم تھے۔ تقسیم کے وقت ڈھاکہ گئے ہوئے تھے۔ پیچھے (حسن گڑھ-روہتک) میں سارا خاندان کاٹ دیا گیا۔ اکثر روتے ہوئے کہتے تھے کہ جانے سے پہلے چھوٹا بھائی ساتھ ڈھاکہ جانے کی ضد کر رہا تھا ہائے کاش اس کو ساتھ لے جاتا۔
ہماری دادی تین ماہ کے شیر خوار بچے کو ساتھ لے کر ٹرین سے آ رہی تھیں۔ 3 دن تک کچھ نہ ملنے کے باعث ہمارے 3 ماہ کے تایا کا انتقال ہو گیا۔ مگر دادی یہ دکھانے کے لیے کہ بچہ زندہ ہے، اپنے مردہ بچے کو جھولا دیتی رہیں، تاکہ پاکستان تک پہنچنے دیا جائے۔
 

فلسفی

محفلین
ہماری دادی تین ماہ کے شیر خوار بچے کو ساتھ لے کر ٹرین سے آ رہی تھیں۔ 3 دن تک کچھ نہ ملنے کے باعث ہمارے 3 ماہ کے تایا کا انتقال ہو گیا۔ مگر دادی یہ دکھانے کے لیے کہ بچہ زندہ ہے، اپنے مردہ بچے کو جھولا دیتی رہیں، تاکہ پاکستان تک پہنچنے دیا جائے۔
واقعی ہم جیسوں کو تو بنا بنایا ملک مل گیا۔ جنھوں نے حقیقی قربانیاں دی تھیں انہی کا حب الوطنی کا دعوی بھی سچا تھا۔
 

فلسفی

محفلین
آج تو کمال ہی کردیا سید صاحب
اپنی ذات کے حصار میں تنہائی کا ڈپریشن جھیلتے سسکتے زندگی گزارنا کس قدر اذیت آمیز ہے۔
کوئی ہم پردیسیوں سے پوچھے :cry:

بریف کیس تھا جس کا ہینڈل چلتے وقت چوں چوں کی آواز کررہا تھا۔ اندر وسیع ہال میں مکمل خاموشی کا راج تھا۔ کبھی کبھار ہمارے اکلوتے بریف کیس کی چوں چوں کی آواز سرجھکائے مراقبے میں منہمک لوگوں کو چونکا دیتی، وہ سر اٹھا کر چوں کی آواز کے منبع کو دیکھتے، ہم بھی نظر پڑتی تو دوبارہ ناگواری سے آنکھیں بند کرلیتے۔
کمال کی منظر کشی کی ہے جناب۔ زبردست

چوں چوں کرتے ہوئے ہال کی سیر کی
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 

فلسفی

محفلین
اگر کوئی ننگے پیر تھا تو وہ مسلمان تھے۔
تھا ۔۔۔ یا ہے۔ کئی مطالب چھپے ہیں آپ کے اس ایک فقرے میں۔

آج بھی اس کا مزار لاہور میں ایبک روڈ پر واقع ہے
آہ ۔۔۔ اس کی کسمپرسی کی ایک الگ داستان ہے۔
 
مسجد کے صحن میں ایک ۲۴ فیٹ بلند ٹھوس لوہے کا مینار نصب ہے۔ یہ تناسب کے ساتھ نیچے سے موٹا اور اوپر جاکر پتلا ہوجاتا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ ایک ہزار چھ سو سال بعد بھی اس میں زنگ نہیں لگا۔ راجہ چندر گپت کے زمانے میں تعمیر کیے گئے اس مینار پر قدیم زبان میں کندہ تحریر آج بھی واضح ہے جو راجہ کی تعریف پر مبنی ہے۔

سب لوگ اس کے پاس آکر کھڑے ہوتے، اس سے پشت لگا کر پیچھے سے دونوں ہاتھ ملانے کی کوشش کرتے۔ کسی کے ہاتھ آپس میں نہیں مل رہے تھے۔ ہم نے بھی کوشش کی اور ہمارے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں مل گئیں۔ صبا اور صبور بھائی نے شور مچا دیا۔ آس پاس کے لوگ بھی متوجہ ہوگئے۔ تب ہم نے پوچھا کہ اس ساری سعی کا مقصد کیا ہے؟ ہمیں بتایا گیا کہ قدم روایت کے مطابق جس کے ہاتھ آپس میں مل جائیں وہ بڑا خوش قسمت وغیرہ ہوتا ہے۔ ہم اپنی خوش قسمتی کو مستقبل کے کسی انقلاب کے سپرد کرکے چلے آئے!!!

یہاں سے ہمایوں کے مزار پہنچے۔ جیسے ہی عظیم الشان داخلی دروازے سے اندر داخل ہوئے سرخ رنگ کی پُر جلال و پُر ہیبت عمارت سامنے نمایاں ہوگئی۔ ایسا لگا گویا تاج لگائے ہمایوں بادشاہ اپنے جاہ و جلال اور کر و فر سمیت خود جلوہ افروز ہو۔
بھیا لال رنگ والی تحریر کا یہاں ذکر کچھ سمجھ نہیں آیا ۔ شاید کاپی پیسٹ کرنے میں آپ سے گڑبڑ ہو گئی ہے ۔ذرا دوبارہ دیکھ لیں شاید پیرگراف کچھ اوپر نیچے ہو گیا ہے ۔
 

سید عمران

محفلین
بھیا لال رنگ والی تحریر کا یہاں ذکر کچھ سمجھ نہیں آیا ۔ شاید کاپی پیسٹ کرنے میں آپ سے گڑبڑ ہو گئی ہے ۔ذرا دوبارہ دیکھ لیں شاید پیرگراف کچھ اوپر نیچے ہو گیا ہے ۔
پچھلے پیرا سے ملا کر پڑھیں۔۔۔
چودہ طبق روشن ہونے کی قوی امید ہے!!!
 
Top