ست اسپغول اور گڑ کا شربت

Dilkash

محفلین
ست اسپغول اور گڑ کا شربت
از ڈاکٹر ظہور احمد اعوان۔۔۔۔۔بشکریہ روزنامہ اج پشاور
کہا جاتا ہے کہ اسپغول کا ست (چھلکا ) پیٹ کے امراض کا سب سے بہترین علاج ہے بلکہ اس سے بہتر علاج دریافت ہی نہیں ہوا، مجھے محسوس ہوا کہ معدے میں تکلیف ہے ، شہر کے بڑے سے بڑے ڈاکٹر کے پاس گیا اس نے نسخے پر ست اسپغول ضرور لکھا، جب مزید ایک دو دوائیوں کے بارے میں پوچھا تو کہا گیا کہ وہ ویسے ہی مریض کا دل رکھنے کیلئے لکھ دیتے ہیں ، ست اسپغول کا صبح یا شام ایک پھکہ (چمچ) پانی میں گھول کر پی لیں اور پیٹ کے بیشتر امراض سے چھٹکارا پالیں، پہلے میں بھی اسے محض ٹوٹکا سمجھتا تھا مگر جب سب بڑے بڑے پروفیسر ، ڈاکٹر کو نہ صرف مریضوں کیلئے تجویز کرتے بلکہ خود کھاتے بھی دیکھا تو یقین آیا ۔

میرے ایک بہت بڑے دوست اور ڈاکٹر امریکہ سے آتے ہیں تو ان کے بریف کیس میں اور کچھ ہو نہ ہو ست اسپغول کی ایک تھیلی ضرور ہوتی ہے بلکہ اس چھلکے میں اپنا کلچر گھولنے کیلئے امریکہ میں بھی اپنے پاس چتراں والا ایک کٹورہ رکھ چھوڑا ہے۔ ویسے اہل پشاور کو ایسی چیزوں کا مزہ چتراں والے کٹورے میں ہی آتا ہے یعنی ایسا کٹورہ جس پر چتر کاری سے پھول بوٹے بنائے گئے ہوں۔ ہم قدیم اہل پشاور آج سے نصف صدی قبل جب موسم گرما میں صبح سویرے باہر نکلتے تو جگہ جگہ گڑ کا شربت بیچنے والے اپنے مٹکورے رکھ کر بیٹھے ہوتے تھے ۔

مٹکورے پر سرخ رنگ کا پانی سے تربتر کپڑا پڑا ہوتا تھا اس گڑ کے شربت میں رات کی بھگوئی ہوئی کچھ خوبانیاں بھی شامل ہوتی تھیں جنہیں ہم مزے لے لے کر کھاتے وہ مزہ ہم آج تک نہیں بھول پائے۔ جو لوگ بازار سے خوبانیاں لیتے تھے وہ رات کو اپنے گھر میں یہ پانی میں بھگو لیتے تھے ، صبح گھڑے کا ٹھنڈ ا یخ پانی لے کر اس میں ڈال کر پی جایا کرتے تھے، ہمارے امریکی دوست کو چتراں والا کٹورہ اس قدر پسند آیا کہ اس نے اس پر پوری کتاب لکھ ڈالی جسے پشاوری ثقافت سے ناآشنا چترال کا کٹورہ پڑھتے ہیں ۔

اس دوست کو صبح سویرے امریکہ میں چتراں والے کٹورے میں گڑ کا شربت معہ ست اسپغول پیتے ہوئے اپنے شہر کی مشہور شخصیات اس کے نقش و نگار میں نظر آتیں ، پھر ایک دن ان کو خیال آیا کہ کیوں نہ اس پر خاکوں کی ایک کتاب لکھ ڈالی جائے ، چنانچہ جو شخصیت ان کو نظر آتی اس پر وہ قلمی خاکے Sketches لکھتے جاتے جو ہوتے ہوتے ایک بڑی کتاب بن گئی ۔ یہ سب ست اسپغول اور گڑ کے شربت کا کمال ہے ، میں بھی گڑ کے شربت کا زبردست دلدادہ ہوں

کسی زمانے میں بہت میٹھا ٹھنڈا اور اصلی گڑ کے شربت کا بڑا گلاس ایک آنے میں ملتا تھا ، ہم فٹ بال کھیل کر آتے تو شرطیں لگا کر کئی کئی گلاس پیتے، اب نہ و ہ گڑ رہا نہ گڑ کا شربت ، شربت تو قیمتاً 5 روپے فی گلاس ، اور مزہ سرے سے ندارد اس لئے کئی برس ہو گئے گڑ خوبانیاں اور ٹھنڈے گھڑوں کے ٹھنڈے پانی کے مزے دم توڑ گئے اور ہم ان کی یادوں کی پٹاری کھولے اس زمانے کو یاد کرتے ہیں جو کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا ، پتہ نہیں آگے کس قسم کا زمانہ آنے والا ہے ، اگلے پچاس برس بعد لوگ کس چیز کو یاد کریں گے ، کوکا کولا کی بوتلوں کو ، ہمارے زمانے میں تو بلورے والی بوتلیں بھی تھیں، اب ان کے بارے میں سوچیں تو دل سے ہوک سی اٹھتی ہے ۔

اس زمانے کی آئس کریم اور روح افزاء کو بھی لوگ یاد کریں گے ، اگلے زمانوں میں نجانے کیا کیا کچھ نیا بن چکا ہوگا ، کیسے کیسے مشروبات ، کیسی کیسی نو ایجاد اشیاء ، وہ لوگ ہمارے چتراں والے کٹورے ، خوبانیوں اور گڑ کے شربت کی باتیں پڑھ کر قہقہے لگائیں گے ، ہمارا مذاق اڑائیں گے ، اب یہ باتیں کرنے والے بھی پشاور میں چند سو دانے ہی رہ گئے ہیں، آئندہ برسوں میں کوئی دو آدمی ایسے نہیں ملیں گے جو ایسی سٹوریاں ایک دوسرے کو سنائیں، یا ایسے لوگ جنہوں نے ایک ایسا زمانہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، اسی دن ایک بزرگ سے فون پر بات ہوئی تو انہوں نے پرانے زمانے کی وہ باتیں سنائیں کہ ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے

جہاں ہشتنگری دروازے کے باہر رائل ہوٹل بنا ہے یہاں تانگوں کا اڈہ ہوتا تھا جہاں جی ٹی ایس کا پرانا اڈ ہ تھا وہاں سبزیوں کے کھیت ہوتے تھے ، ہم محلہ جیون مل میں رہتے تھے یہ پچاس کی دہائی کی بات ہے ، ہم کھیتوں میں جا کر ایک اکنی کی چارتازہ مولیاں کھیت سے کھینچ کر لاتے تھے، کھیتوں کے اندر کنوئیں بھی تھے ، میرے والد صاحب بتاتے ہیں کہ ان کے گھوڑے کا ایک بچہ ان کنوؤں میں گر کر مرا ہے۔ 1910 ء میں پہلی مرتبہ پشاور میں بس آئی تو میرے بزرگ جو انگریزوں کو ڈاک کیلئے گھوڑے سپلائی کرنے کا کاروبار کرتے تھے ، انہوں نے اپنا کاروبار سمیٹنا شروع کر دیا اور کہا کہ اب ہم اور ہمارا کاروبار گیا ، اب بسیں ڈاک لایا لے جایا کریں گی اور واقعی ایسا ہی ہوا 1910 ء سے قبل ڈاک گھوڑوں پر جایا کرتی تھی

ہر چالیس پچاس میل کے فاصلے پر گھوڑے کسی سرائے میں رکتے وہاں سے اُدھر سے آمدہ ڈاک لیتے ساتھ کچھ دمہ بھی اور پھر واپس لوٹ آتے ، اسی طرح اگلے پڑاؤ سے تازہ دم گھوڑے وہ ڈاک اس سے اگلے پڑاؤ تک پہنچاتے ، اندازہ کر سکتے ہیں کہ دنیا 1910 ء میں کیا تھی اور اب 2010 ء میں کیا ہو گئی ہے اب موبائل پر سارا کاروبار چل رہا ہے ، ڈاک ہی ختم ہو گئی ، لفافے گئے ، کارڈ گئے ، رجسٹریاں گئیں ایس ایم ایس نے سارے دھندے ہی مٹا دیئے آگے نجانے کیا کچھ ہونے والا ہے۔ ہمارے فہم سے تو بالا ہے ، ہماری کیسٹ تو ابھی چتراں والے کٹورے ، خوبانیوں ، گڑ کے شربت اور ست اسپغول میں پھنسی ہوئی ہے۔

افسوس کہ ہم اور ہماری نسل سے پہلے کی نسل نے گھوڑوں کی ڈاک بھی دیکھی اور اب سپرسانک جہاز پر آٹھ دس گھنٹے میں امریکہ میں پہنچ جاتے ہیں ، اگر آپ چاہیں اور جہاز مل جائے تو 24 گھنٹے کے اندر واپس اپنے گھر میں پہنچ سکتے ہیں اور لکھنے کا حوصلہ ہو تو ان چوبیس گھنٹوں میں جہاز کے اندر بیٹھے بیٹھے ایک کتاب بھی لکھ سکتے ہیں، جس طرح ہمارے حکیم سعید شہید کیا کرتے تھے ، انہوں نے بیشتر کتابیں جہاز کے اندر ہی لکھی تھیں۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
بہت خوب معلومات تو اپنی جگہ مگر انداز تحریر بھی بہت ہی زبردست ہے۔ شیئرنگ کا شکریہ، اچھا لگا پڑھ کر۔۔۔۔۔۔!:)
 
Top