ستاروں کی گنتی

ستاروں کی گنتی
ابرار محسن
فیسی لگڑبھگا غمگین تھا اور جھلّایا ہوا بھی۔ اس کا مزاج انتہائی خراب تھا۔ اسی لیے اس پر ہر وقت جھلّاہٹ سوار رہتی تھی۔ وہ جنگلی جانوروں سے بہت زیادہ ناراض رہتا تھا۔ کیوں کہ وہ جانتا تھا سب اسے ناپسند کرتے تھے۔ ظاہر ہے اس بدمزاج، بددماغ اور گندے لگڑبھگے میں ایسی کون سی بات تھی جو اسے پسند کرتا۔ اس کی جھلّاہٹ خصوصاً اس وقت بہت بڑھ جاتی تھی جب اسے خیال آتا تھا کہ کس طرح خولو نے اسے کئی بار بیوقوف بنا کر کسی نہ کسی مصیبت میں پھنسوایا تھا اور ہر بار بری طرح پٹوایا تھا۔ ایک چھوٹے سے بے حقیقت خرگوش نے! کاش وہ عقل سے اس قدر پیدل نہ ہوتا! اس کی دلی تمنّا تھی کہ وہ عقل مند ہوتا خولو کی طرح! کاش اسے عقل کہیں پڑی مل جاتی تو وہ اسے اپنے جبڑوں میں جکڑ لیتا۔
وہ اس قدر جھلّایا ہوا تھا کہ چلتے چلتے جنگلی بھینسے کو منہ چڑا دیا، چیتے کو برا بھلا کہا، ہاتھی کو کوسا اور گدھے کی ٹانگ پر کاٹا۔ گدھے نے فوراً دولتی جھاڑ دی۔فیسی ہوا میں قلابازیاں کھاتا ہوا دھڑام سے دور جا گرا اور دور ہی سے گدھے کو خطرناک قسم کی دھمکیاں دینے لگا۔
جلا بھُنا آگے بڑھا۔ رات ہو چکی تھی۔ اچانک وہ ٹھٹھک کر رک گیا اور آنکھیں پھاڑ کے حیرت سے دیکھنے لگا۔ خولو خرگوش بیچ راستے میں بیٹھا آسمان کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے بڑبڑا رہا تھا، "پچاس لاکھ، دس ہزار تین سو دو، پچاس لاکھ، دس ہزار تین سو تین۔"
عجیب بات یہ تھی کہ خولو اسے دیکھ کر بھی نہیں بھاگا۔ اس نے پنجوں سے زمین کھُرچی اور غرایا۔ غرض ہر طرح سے خولو کو اپنی موجودگی سے آگاہ کیا، مگر خولو اسی طرح منہ اوپر اٹھائے تارے گننے میں مشغول رہا۔ فیسی نے دل میں سوچا کہ آخر یہ کیا کر رہا ہے؟ میں چھپ کر دیکھتا ہوں۔ خولو اسی انداز میں گنتا رہا۔
" پچاس لاکھ، دس ہزار تین سو چار۔۔۔۔۔"
اب فیسی اور زیادہ صبر نہیں کر سکتا تھا۔
اس نے نزدیک آ کر پوچھا، "یہ کیا کر رہے ہو خولو؟"
خولو نے اگلا پنجہ اٹھا کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور گنتا رہا۔
" پچاس لاکھ، دس ہزار تین سو چھے۔۔۔۔۔"
فیسی اور پاس آ گیا اور بولا، "خولو! خولو! یہ کیا گن رہے ہو؟"
خولو نے جھڑک کر کہا، "چھپ رہو بیوقوف! دیکھتے نہیں، میں عقلمند بن رہا ہوں؟"
فیسی کا مارے تجسس سے برا حال تھا، "عقل مند بن رہے ہو! وہ کیسے؟"
خولو نے بڑے غصّے سے اپنا پنجہ جھٹک کر جواب دیا، "ارے جاؤ اپنا کام کرو۔"
فیسی گھگیایا، "بتاؤ نا اے خولو! آخر کس طرح عقلمند بن رہے ہو؟"
"اوہو!" خولو نے عاجز آ کر کہا، "میں ستارے گن رہا ہوں۔ صبح ہونے سے پہلے ہی گنتی ختم کرنی ہے اور پھر میں دنیا میں سب سے زیادہ عقلمند ہو جاؤں گا۔"
فیسی گڑگڑایا، "خولو! میں بھی گنوں تارے؟ مجھے بھی عقلمند بننا ہے۔"
خولو نے جواب دیا، "ایک وقت میں صرف ایک ہی گن سکتا ہے۔ تم پھر کبھی گن لینا۔ اس وقت مجھے گننے دو۔"
فیسی خوشامد پر اتر آیا، "میرے اچھے دوست! تم بعد میں گن لینا۔ آج کی رات مجھے گننے دو۔"
خولو بولا، "ٹھیک ہے، تم ہی گن لو۔ مگر خبردار! گننے میں غلطی نہ ہو اور صبح ہونے سے پہلے تمام تارے گن لینا۔ ورنہ پاگل ہو کر درختوں سے سر ٹکراتے پھرو گے۔"
خولو آہستہ آہستہ چلتا ہوا جھاڑیوں میں چلا گیا۔
دراصل خولو کی ٹانگ میں موچ آ گئی تھی۔ وہ دوڑ نہیں سکتا تھا۔ اسی وقت فیسی سامنے سے آ گیا۔ بس اسے تاروں والی ترکیب سوجھ گئی، ورنہ فیسی اسے کھا ہی جاتا۔
تمام رات فیسی کی عجیب سی کیفیت رہی۔ وہ گنتا پھر بھول جاتا۔ دانت نکال کر اپنے جسم کو کاٹتا، پھر شروع سے گننا شروع کرتا، پھر بھول جاتا۔ پھر زمین پر لوٹ پوٹ ہوتا اور اپنی ہی بوٹیاں نوچتا۔ اسی دوران صبح ہوگئی۔ فیسی نے مایوسی اور غم سے پاگل ہو کر ایک درخت کے تنے سے سر ٹکرا دیا اور بے ہوش ہو گیا۔
٭٭٭​
 
شاید ابرار مھسن کی کہانیوں کا ایک برقی مجموعہ الگ سئ تیار ہو جائے گا۔
جی بالکل استاد محترم۔ ان کی کئی کہانیاں مزید پوسٹ کروں گا۔اور ایک برقی مجموعہ غیرملکی لوک کہانیوں کا بھی۔
ویسے ابرار محسن صاحب دہلی سے تعلق رکھتے ہیں۔ شاید آپ جانتے ہوں۔
 
Top