سبھی کو سامنے رب کے ہی سر اپنا جھکانا ہے----برائے اصلاح

الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
یاسر شاہ
-------------
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
-----------
سبھی کو سامنے رب کے ہی سر اپنا جھکانا ہے
خدا کا نام گونجے گا زمانہ وہ بھی آنا ہے
----------------
مٹے گا ظلم دنیا سے اصولِ رب یہ کہتا ہے
مقدّر ہے یہ ظلمت کا اُسے جانا ہی جانا ہے
------------------
بھروسہ ہو خدا پر تو خدا بھی ساتھ دیتا ہے
تقاضا ہے یہی رب کا ہمیں اس پر ہی آنا ہے
----------
جو نیکی تم کرو گے وہ تمہارے ساتھ جائے گی
کرو لالچ نہ دنیا کا اِسے تو چھوڑ جانا ہے
------------------
وسائل سب بھی دنیا کے تمہارے پاس ہوں تب بھی
ہو تکیہ بس خدا پر ہی اگر مقصد کو پانا ہے
-------------
امامت کے لئے سب کی ہمیں بھیجا ہے دنیا میں
ہمیں پیچھے نہیں چلنا ،انہیں پیچھے لگانا ہے
-------------------
کرو گے شرک رب سے تو معافی مل نہ پائے گی
یہی ہے جرم انساں کا جہنّم ہی ٹھکانا ہے
-------------
گناہوں سے کرو توبہ تمہیں ارشد یہ کہتا ہے
یہاں رہنا نہیں ہم نے خدا کی پاس جانا ہے
------------------
 

عظیم

محفلین
سبھی کو سامنے رب کے ہی سر اپنا جھکانا ہے
خدا کا نام گونجے گا زمانہ وہ بھی آنا ہے
----------------'سر اپنا' میں اگر الفاظ آگے پیچھے کر لیں تو میرا خیال ہے کہ روانی مزید بہتر ہو جائے گی۔ مثلاً اپنا سر جھکانا ہے
دوسرے مصرع میں 'ہی' کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ یا یوں بھی کیا جا سکتا ہے
۔۔۔اسی کا نام گونجے گا زمانہ یہ/وہ بھی آنا ہے

مٹے گا ظلم دنیا سے اصولِ رب یہ کہتا ہے
مقدّر ہے یہ ظلمت کا اُسے جانا ہی جانا ہے
------------------ااچھا شعر ہے، صرف دونوں مصرعوں کا اختتام 'ہے' پر ہو رہا ہے۔ اصول رب کا ہے کہنا، یا اس طرح کا کچھ اور لے آئیں

بھروسہ ہو خدا پر تو خدا بھی ساتھ دیتا ہے
تقاضا ہے یہی رب کا ہمیں اس پر ہی آنا ہے
----------اس شعر میں بھی دونوں مصرعوں کا اختتام اور 'تو' کا طویل کھینچا جانا۔
دوسرے مصرعے میں 'اس پر ہی آنا' واضح نہیں ہے کہ آخر کار بھروسہ ہی کرنا ہے۔

جو نیکی تم کرو گے وہ تمہارے ساتھ جائے گی
کرو لالچ نہ دنیا کا اِسے تو چھوڑ جانا ہے
------------------دوسرے مصرع میں 'تو' یہاں بھی مکمل آیا ہے۔
کرو لالچ نہ دنیا کا کہ اس کو چھوڑ جانا ہے
کر سکتے ہیں۔

وسائل سب بھی دنیا کے تمہارے پاس ہوں تب بھی
ہو تکیہ بس خدا پر ہی اگر مقصد کو پانا ہے
-------------'سب بھی' پر ذرا رکنا پڑتا ہے۔ اگر 'سب زمانے' کر لیں تو بہت بہتر ہو جائے گا میرا خیال ہے۔

امامت کے لئے سب کی ہمیں بھیجا ہے دنیا میں
ہمیں پیچھے نہیں چلنا ،انہیں پیچھے لگانا ہے
-------------------شعر درست ہے، صرف 'انہیں پیچھے لگانا' کا بیانیہ پسند نہیں آ رہا

کرو گے شرک رب سے تو معافی مل نہ پائے گی
یہی ہے جرم انساں کا جہنّم ہی ٹھکانا ہے
-------------پہلے مصرع میں 'تو' یہاں بھی طویل کھینچا گیا ہے۔
اس کا متبادل ابھی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا آپ خود ہی سوچیں، اور دوسرا مصرع بھی بہتری چاہتا ہے۔
صرف 'یہی ہے جرم' کی جگہ 'یہی بڑا جرم' یا ایسا کچھ ہونا چاہیے تھا۔ اور 'جہنم ہی ٹھکانا' کی جگہ بھی 'جس کے بدلے جہنم ہی ٹھکانا ہے' وغیرہ ہونا چاہیے تھا
مختصر یہ کہ دوسرا مصرع بیان کے اعتبار سے نامکمل یے

گناہوں سے کرو توبہ تمہیں ارشد یہ کہتا ہے
یہاں رہنا نہیں ہم نے خدا کی پاس جانا ہے
------------------'ہے' دونوں مصرعوں کے اختتام پر،
یہی کہنا ہے ارشد کا، کیا جا سکتا ہے
 
الف عین
عظیم
-------------
اصلاح کے بعد دوبارا
-----------------
سبھی کو سامنے رب کے ہی اپنا سر جھکانا ہے
اسی کا نام گونجے گا زمانہ وہ بھی آنا ہے
-------------------
اصولِ رب کا ہے کہنا مٹے گا ظلم دنیا سے
مقدّر ہے یہ ظلمت کا اُسے جانا ہی جانا ہے
-----------
خدا بھی ساتھ دیتا ہے بھروسہ گر خدا ہر ہو
تقاضا ہے یہی رب کا ہمیں اس کو نبھانا ہے
------------
جو نیکی تم کرو گے وہ تمہارے ساتھ جائے گی
کرو لالچ نہ دنیا کا کہ اس کو چھوڑ جانا ہے
-------------
وسائل سب زمانے کے تمہارے پاس ہوں تب بھی
ہو تکیہ بس خدا پر ہی اگر مقصد کو پانا ہے
-----------
امامت کے لئے سب کی ہمیں بھیجا ہے دنیا میں
ہمیں بننا ہے رہبر اور انہیں رستے پہ لانا ہے
-----------
کرو گے شرک رب سے تو معافی مل نہ پائے گی
بڑا ہے جرم یہ جس کا جہنّم بس ٹھکانا ہے
------------یا
یہ ایسا جرم ہے جس کو جہنّم میں ہی جانا ہے
--------------
یہی کہنا ہے ارشد کا گناہوں سے کرو توبہ
یہاں رہنا نہیں ہم نے خدا کی پاس جانا ہے
----------------
 

عظیم

محفلین
سبھی کو سامنے رب کے ہی اپنا سر جھکانا ہے
اسی کا نام گونجے گا زمانہ وہ بھی آنا ہے
-------------------یہ درست ہو گیا ہے

اصولِ رب کا ہے کہنا مٹے گا ظلم دنیا سے
مقدّر ہے یہ ظلمت کا اُسے جانا ہی جانا ہے
-----------پہلے مصرع کے ٹکڑوں کی آپس میں جگہ بدل دیں۔ مثلاً
مٹے گا ظلم دنیا سے اصولِ رب کا ہے کہنا

خدا بھی ساتھ دیتا ہے بھروسہ گر خدا ہر ہو
تقاضا ہے یہی رب کا ہمیں اس کو نبھانا ہے
------------خدا لفظ دو بار آ گیا ہے
بھروسہ ہو خدا پر جب تو وہ بھی ساتھ ہے ااپنے
وغیرہ کیا جا سکتا ہے
اور تقاضا کے ساتھ نبھانا درست معلوم نہیں ہو رہا۔

جو نیکی تم کرو گے وہ تمہارے ساتھ جائے گی
کرو لالچ نہ دنیا کا کہ اس کو چھوڑ جانا ہے
------------یہ بھی ٹھیک ہو چکا ہے

وسائل سب زمانے کے تمہارے پاس ہوں تب بھی
ہو تکیہ بس خدا پر ہی اگر مقصد کو پانا ہے
-----------'تب بھی' ہلکا سا تنافر دور کرنے کی خاطر 'پھر بھی' بھی استعمال کیا جا سکتا ہے

امامت کے لئے سب کی ہمیں بھیجا ہے دنیا میں
ہمیں بننا ہے رہبر اور انہیں رستے پہ لانا ہے
-----------'رستے پہ لانا' کی جگہ 'رستہ دکھانا' کے بارے میں بھی سوچیں کہ یہ انداز کچھ بہتر محسوس ہوتا ہے

کرو گے شرک رب سے تو معافی مل نہ پائے گی
بڑا ہے جرم یہ جس کا جہنّم بس ٹھکانا ہے
------------یا
یہ ایسا جرم ہے جس کو جہنّم میں ہی جانا ہے
--------------پہلے مصرع میں ابھی بھی 'تو' طویل ہی ہے۔
دوسرا مصرع
یہ ایسا جرم ہے جس کا جہنم ہی ٹھکانا ہے
میرا خیال ہے کہ بہتر ہے اور چل جائے گا

یہی کہنا ہے ارشد کا گناہوں سے کرو توبہ
یہاں رہنا نہیں ہم نے خدا کی پاس جانا ہے
----------------اس کے بارے میں بھی میرا مشورہ تھا کہ پہلے مصرع کے دوسرے ٹکڑے کو بدلا جائے
یعنی۔ گناہوں سے کرو توبہ یہی کہنا ہے ارشد کا
 
الف عین
عظیم
-------------
سبھی کو سامنے رب کے ہی اپنا سر جھکانا ہے
اسی کا نام گونجے گا زمانہ وہ بھی آنا ہے
-------------------
مٹے گا ظلم دنیا سے اصولِ رب کا ہے کہنا
مقدّر ہے یہ ظلمت کا اُسے جانا ہی جانا ہے
------------
بھروسہ ہو خدا پر جب تو وہ بھی ساتھ ہے اپنے
خدا کی جو بھی مرضی ہو ہمیں سر کو جھکانا ہے
-----------------
---------یا
ملے گی پھر ہمیں نصرت ہمیں سر کو جھکانا ہے
-------------
جو نیکی تم کرو گے وہ تمہارے ساتھ جائے گی
کرو لالچ نہ دنیا کا کہ اس کو چھوڑ جانا ہے
---------------
وسائل سب زمانے کے تمہارے پاس ہوں پھر بھی
ہو تکیہ بس خدا پر ہی اگر مقصد کو پانا ہے
-------------
امامت کے لئے سب کی ہمیں بھیجا ہے دنیا میں
ہمیں بننا ہے رہبر اور انہیں رستہ دکھانا ہے
---------------
کرو گے شرک رب سے تو معافی مل نہ پائے گی
یہ ایسا جرم ہے جس کا جہنّم ہی ٹھکانا ہے
-----------
گناہوں سے کرو توبہ یہی کہنا ہے ارشد کا
یہاں رہنا نہیں ہم نے خدا کی پاس جانا ہے
----------------
 

الف عین

لائبریرین
اس غزل پر مکیش کا گانا 'سجن رے جھوٹ مت بولو، خدا کے پاس جانا ہے' یاد آ گیا
ایک ہی موضوع ہے جو اب تک کم از کم دو سو اشعار میں دہرایا گیا ہے، اس دہرانے سے بچیں
'جانا ہی جانا ہے' مجھے تو بے معنی لگتا ہے۔ باقی عظیم دیکھ لیں گے
 

عظیم

محفلین
دوسرے شعر کے دوسرے مصرع کو بہتر کر لیں 'جانا ہی جانا' کی جگہ 'مٹ ہی جانا' وغیرہ لایا جا سکتا ہے۔
اور تیسرا شعر میرا خیال ہے کہ نکال دیں کہ یہ موضوع بھی ایک آدھ بار آپ کی غزلوں میں دیکھا ہوا محسوس ہو رہا ہے
اس کے علاوہ میرا یہ مشورہ ہو گا کہ کسی طرح ایک دو دن کا گیپ لے آیا کریں اشعار کہنے میں۔ اس سے یہ ہو گا کہ نئے موضوعات ذہن آ جائیں گے اور خیالت اس عرصہ میں پکتے رہیں گے۔
 
Top