داغ سبق ایسا پڑھا دیا تو نے

سبق ایسا پڑھا دیا تو نے
دل سے سب کچھ بھلا دیا تو نے

ہم نکمے ہوئے زمانے کے
کام ایسا سیکھا دیا تو نے

لاکھ دینے کا ایک دینا ہے
دل بے مدّعا دیا تو نے

بے طلب جو ملا ، ملا مجھ کو
بے غرض جو دیا ، دیا تو نے

عمر جاوید ، خضر کو بخشی
آب حیواں پلا دیا تو نے

نار نمرود کو کیا گلزار
دوست کو یوں بچا لیا تو نے

داغ کو کون دینے والا تھا
جو دیا اے خدا دیا تو نے

داغ دہلوی
 
خوب انتخاب
مکمل غزل:
سبق ایسا پڑھا دیا تو نے
دل سے سب کچھ بھلا دیا تو نے

ہم نکمے ہوئے زمانے کے
کام ایسا سکھا دیا تو نے

کچھ تعلق رہا نہ دنیا سے
شغل ایسا بتا دیا تو نے

کس خوشی کی خبر سنا کے مجھے
غم کا پتلا بنا دیا تو نے

لاکھ دینے کا ایک دینا ہے
دلِ بے مدعا دیا تو نے

کیا بتاؤں کہ کیا لیا میں نے
کیا کہوں میں کہ کیا دیا تو نے

بے طلب جو ملا، ملا مجھ کو
بے غرض جو دیا، دیا تو نے

عمرِ جاوید خضر کو بخشے
آبِ حیواں پلا دیا تو نے

نارِ نمرود کو کیا گلزار
دوست کو یوں بچا دیا تو نے

دستِ موسیٰ میں فیض بخشش ہے
نور و لوح و عصا دیا تو نے

صبحِ موجِ نسیمِ گلشن کو
نفسِ جانفزا دیا تو نے

شبِ تیرہ میں شمعِ روشن کو
نور خورشید کا دیا تو نے

نغمہ بلبل کو رنگ و بو گل کو
دلکش و خوشنما دیا تو نے

کہیں مشتاق سے حجاب ہوا
کہیں پردہ اٹھا دیا تو نے

تھا مرا منہ نہ قابلِ لبیک
کعبہ مجھ کو دکھا دیا تو نے

جس قدر میں نے تجھ سے خواہش کی
اس سے مجھ کو سِوا دیا تو نے

رہبرِ خضر و ہادیِ الیاس
مجھ کو وہ رہنما دیا تو نے

مٹ گئے دل سے نقشِ باطل سب
نقشہ اپنا جما دیا تو نے

ہے یہی راہ منزلِ مقصود
خوب رستے لگا دیا تو نے

مجھ گہنگار کو جو بخش دیا
تو جہنم کو کیا دیا تو نے

داغؔ کو کون دینے والا تھا
جو دیا اے خدا دیا تو نے
 
آخری تدوین:
Top