سالانہ عالمی اردو مشاعرہ 2016 تبصرے

ماشاء اللہ میری غیر موجودگی کے باوجود (یا باعث) مشاعرہ بہت اچھا جا رہا ہے۔ مشاعرے کے ددوران میں سامعین کی نشستوں میں بیٹھنا پسند کروں گا۔
اور اس کا بھی اعلان کر دوں کہ انشاء اللہ اس کے گلدستے کی ای بک شائع کی جائے گی بزمِ اردو لائبریری میں۔ ذاتی مکالموں میں اصلاح کے بعد
خوش آمدید استاد محترم !:)
صرف سامعین میں نہیں آپ منتظمین میں سے بھی ہیں
تمام محفلین منتظم شعراء کے کلام کے بے صبری سے منتظر ہیں !!
اور ای بک کا خیال زبردست ہے سر۔(y)
 
السلام علیکم
محترم انتظامیه کی خدمت میں خسته نباشید عرض کرتا ھوں

انٹر نیٹ کی سهولت میسر نه هونے کی وجه سے آپ کے ساتھ نه ره پایا ۔۔۔۔معذرت خواه ھوں

کلام پیش فرمانے والے تمام شعراء کی خدمت میں اجتماعی طور پر ھزاروں داد اور سب کے لئے ڈھیروں دعائیں
 
ماشاء اللہ میری غیر موجودگی کے باوجود (یا باعث) مشاعرہ بہت اچھا جا رہا ہے۔ مشاعرے کے ددوران میں سامعین کی نشستوں میں بیٹھنا پسند کروں گا۔
اور اس کا بھی اعلان کر دوں کہ انشاء اللہ اس کے گلدستے کی ای بک شائع کی جائے گی بزمِ اردو لائبریری میں۔ ذاتی مکالموں میں اصلاح کے بعد
اگر آپ موجود ہوتے تو یقیناََ زیادہ لطف آتا۔
 
سب سے پہلے تو میں منتظمین کو اس نادرالوقوع مشاعرے کے انعقاد پر، جس کے دوسالہ ہونے کے قوی امکانات ہیں، دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ اگلی سالگرہ پر نیا دھاگا کھولنے کی ضرورت نہیں پڑے گی
کچھ تو انفرادیت ہونی چاہیے محفل مشاعرہ کی۔ :)

جس کے وجود کا پتا موت کو بھی نہ مل سکا
اس کی گلی میں زندگی شور مچانے آ گئی

خاک ہوا تو دیکھیے، خاک پہ فضل کیا ہوا
کوچۂِ یار کی ہوا مجھ کو اڑانے آ گئی

کچھ نہ کچھ تاب و تواں باقی ابھی بسمل میں ہے
پوچھ لیجے، آخر ایسی بات کیا قاتل میں ہے؟

خود شناسی کے سفر میں کیا نہیں پائی مراد
یہ وہ منزل ہے کہ جس کی راہ بھی منزل میں ہے

بہت عمدہ کلام راحیل بھائی. لاجواب. بہت منفرد انداز سے خیالات پیش کئے ہیں. ڈھیروں داد.

عموماً شاعر کمی کوتاہی کی معافی نہیں مانگتے، مگر کوئی ہو گئی ہو تو مجھے، تابش بھائی اور فاتح بھائی کو معاف فرمائیے گا۔
سفارش کرنے پر ممنون ہوں۔ :)

دفتر ہونے کی وجہ سے ابھی کلامِ شاعر بزبانِ شاعر سے محظوظ نہیں ہو سکا ہوں۔ اس پر تبصرہ ادھار ہے۔ :)
 
آخری تدوین:

صفی حیدر

محفلین
میرے طبیب کی قضا میرے سرھانے آ گئی
چارہ گرانِ عشق کی عقل ٹھکانے آ گئی

رات کی خیمہ گاہ میں شمع جلانے آ گئی
آ گئی مہرباں کی یاد، آگ لگانے آ گئی

بندہ نواز، کیا کروں؟ مجھ کو تو خود نہیں خبر
فرش میں عرش کی کشش کیسے نجانے آ گئی؟

جس کے وجود کا پتا موت کو بھی نہ مل سکا
اس کی گلی میں زندگی شور مچانے آ گئی

خاک ہوا تو دیکھیے، خاک پہ فضل کیا ہوا
کوچۂِ یار کی ہوا مجھ کو اڑانے آ گئی

تیرے وصال کی قسم، تیرے جمال کی قسم
ایک بہار عشق پر آ کے نہ جانے آ گئی

عشق مشکل میں ہے، ضبط اس سے بڑی مشکل میں ہے
دل تمنا میں گیا، پھر بھی تمنا دل میں ہے

کچھ نہ کچھ تاب و تواں باقی ابھی بسمل میں ہے
پوچھ لیجے، آخر ایسی بات کیا قاتل میں ہے؟

جس کے باعث حسن ہے بدنام ازل سے، غافلو!
وہ خرابی اصل میں عاشق کے آب و گل میں ہے

انتظارِ وصل میں ہے کیا مزا، مت پوچھیے
پوچھیے مت، کیا مزا اس سعیِ لاحاصل میں ہے

خود شناسی کے سفر میں کیا نہیں پائی مراد
یہ وہ منزل ہے کہ جس کی راہ بھی منزل میں ہے

نام ہی کا رہ گیا ہوں یوں بھی اب راحیلؔ میں
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"
نہایت عمدہ ۔۔۔واہ واہ ۔۔۔ لا جواب ۔۔۔ بے مثال رواں کلام ہے ۔۔۔۔ ڈھیروں داد قبول کیجئے ۔۔۔۔۔۔
 

زیک

مسافر
سب سے پہلے تو میں منتظمین کو اس نادرالوقوع مشاعرے کے انعقاد پر، جس کے دوسالہ ہونے کے قوی امکانات ہیں، دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ اگلی سالگرہ پر نیا دھاگا کھولنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
یہ پیشنگوئی ہے؟
 

لاریب مرزا

محفلین
واہ واہ!! کیا کہنے!! بہت عمدہ کلام پیش کیا جناب راحیل فاروق صاحب!! کلام شاعر بزبان شاعر سن کر لطف دوبالا ہو گیا۔
طرحی غزل تو شاندار کہی، بہت سی داد قبول فرمائیں..

اقتباس لینے سے پرہیز کر رہے ہیں۔ مبادا پھر سے ہم مراسلوں کو مشاعرے میں ارسال کرنے کی قانون شکنی کے مرتکب نہ ہو جائیں۔ :unsure:
 

صفی حیدر

محفلین
عشق اک دشت ہائے وحشت تھا
دل بنَا ہی برائے وحشت تھا

بے قراری سکوں کی زیریں تہہ
اور سکوں بر بِنائے وحشت تھا

اشک قطرہ نہ تھا، سمندر تھا
غمِ دل آبنائے وحشت تھا

تھی ازل سے ہی بے قرار ہوا
اس کی فطرت میں پائے وحشت تھا

اک تڑپ بانسری کی لے میں تھی
ساز گویا صدائے وحشت تھا

کیا اُسے حالِ دل سناتے ہم
نغمہء دل نوائے وحشت تھا

بن کر جو کوئی سامنے آتا ہے آئینہ
خیمے میں دل کے آکے لگاتا ہے آئینہ

وہ کون ہے یہ مجھ سے کبھی پوچھتا نہیں
میں کون ہوں یہ مجھ کو بتاتا ہے آئینہ

اس عکس کے برعکس کوئی عکس ہے کہیں
کیوں عکس کو برعکس دکھاتا ہے آئینہ

خود کو سجائے جاتے ہیں وہ آئینے کو دیکھ
جلووں سے اُن کے خود کو سجاتا ہے آئینہ

خود آئینے پہ اُن کی ٹہھرتی نہیں نظر
کیسے پھر اُن سے آنکھ ملاتا ہے آئینہ

یہ میرا عکس ہے تو مگر اجنبی سا ہے
کیوں کر مجھے مجھی سی چُھپاتا ہے آئینہ

کب دل کے آئینے میں کھلا کرتے ہیں گُلاب
کب آئینے میں پھول کھلاتا ہے آئینہ

آویزہ دیکھتے ہیں وہ جُھک کر قریب سے
یا اُن کو کوئی راز بتاتا ہے آئینہ

جب میرا عکس مجھ سے مماثل نہیں رہا
کیوں میرا عکس مجھ کو دکھاتا ہے آئینہ

اس آئینے میں عکس کسی کا ہے رات دن
احمدؔ یہ عشق دل کو بناتا ہے آئینہ
واہ واہ واہ ۔۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک موتی پروئے ہیں ۔۔ لاجواب ۔۔۔ بے مثال و با کمال تخلیقات ہیں ۔۔۔ ڈھیروں داد قبول کیجئے ۔۔۔
 
بندہ نواز، کیا کروں؟ مجھ کو تو خود نہیں خبر
فرش میں عرش کی کشش کیسے نجانے آ گئی؟
بہت بہت زبردست!!!!!!

خاک ہوا تو دیکھیے، خاک پہ فضل کیا ہوا
کوچۂِ یار کی ہوا مجھ کو اڑانے آ گ
کمال کرتے ہَو میاں!!!!:applause:

انتظارِ وصل میں ہے کیا مزا، مت پوچھیے
پوچھیے مت، کیا مزا اس سعیِ لاحاصل میں ہے

خود شناسی کے سفر میں کیا نہیں پائی مراد
یہ وہ منزل ہے کہ جس کی راہ بھی منزل میں ہے

نام ہی کا رہ گیا ہوں یوں بھی اب راحیلؔ میں
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"
بہت اعلٰی راحیل بھائی!!!!! مزا آگیا!!!! :applause::applause::applause::thumbsup2:
 
محمد احمد بھیا!!!!
میں اقتباسات لینے لگی تھی مگر مجھے ایسا کچھ مِلا ہی نہیں جو نظرانداز کیا جاسکتا ہو. بہت ہی اعلٰی, گہرا اور شاندار کلام!!!!
(مجھے آپ کے آشیرباد کی سخت ضرورت محسوس ہو رہی ہے :p:))

آپ کے لیے standing ovation!!!
 
واہ واہ!! کیا کہنے!! بہت عمدہ کلام پیش کیا جناب راحیل فاروق صاحب!! کلام شاعر بزبان شاعر سن کر لطف دوبالا ہو گیا۔
طرحی غزل تو شاندار کہی، بہت سی داد قبول فرمائیں..

اقتباس لینے سے پرہیز کر رہے ہیں۔ مبادا پھر سے ہم مراسلوں کو مشاعرے میں ارسال کرنے کی قانون شکنی کے مرتکب نہ ہو جائیں۔ :unsure:
مجھ سے بھی وہ ہو گیا جو آپ سے ہوا تھا... منتظمین سے گزارش ہے کہ جلد از جلد میرا مراسلہ اس لڑی میں منتقل کر کے مجھے شرمندگی سے بچائیں اور ثوابِ دارین حاصل کریں. محمد خلیل الرحمٰن بھائی
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت بہت شکریہ، تابش بھائی۔
سب سے پہلے تو میں منتظمین کو اس نادرالوقوع مشاعرے کے انعقاد پر، جس کے دوسالہ ہونے کے قوی امکانات ہیں، دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ اگلی سالگرہ پر نیا دھاگا کھولنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
میرا خوب صورت کلام (بقولِ محمد تابش صدیقی ، دروغ بر گردنِ راوی) پیشِ خدمت ہے۔
پہلے ایک غیرطرحی غزل:

میرے طبیب کی قضا میرے سرھانے آ گئی
چارہ گرانِ عشق کی عقل ٹھکانے آ گئی

رات کی خیمہ گاہ میں شمع جلانے آ گئی
آ گئی مہرباں کی یاد، آگ لگانے آ گئی

بندہ نواز، کیا کروں؟ مجھ کو تو خود نہیں خبر
فرش میں عرش کی کشش کیسے نجانے آ گئی؟

جس کے وجود کا پتا موت کو بھی نہ مل سکا
اس کی گلی میں زندگی شور مچانے آ گئی

خاک ہوا تو دیکھیے، خاک پہ فضل کیا ہوا
کوچۂِ یار کی ہوا مجھ کو اڑانے آ گئی

تیرے وصال کی قسم، تیرے جمال کی قسم
ایک بہار عشق پر آ کے نہ جانے آ گئی​

فاتح بھائی کے حکم کی تعمیل میں یہ غزل اب میری آواز میں بھی سنیے:


اور اب طرحی غزل ملاحظہ فرمائیے:

عشق مشکل میں ہے، ضبط اس سے بڑی مشکل میں ہے
دل تمنا میں گیا، پھر بھی تمنا دل میں ہے

کچھ نہ کچھ تاب و تواں باقی ابھی بسمل میں ہے
پوچھ لیجے، آخر ایسی بات کیا قاتل میں ہے؟

جس کے باعث حسن ہے بدنام ازل سے، غافلو!
وہ خرابی اصل میں عاشق کے آب و گل میں ہے

انتظارِ وصل میں ہے کیا مزا، مت پوچھیے
پوچھیے مت، کیا مزا اس سعیِ لاحاصل میں ہے

خود شناسی کے سفر میں کیا نہیں پائی مراد
یہ وہ منزل ہے کہ جس کی راہ بھی منزل میں ہے

نام ہی کا رہ گیا ہوں یوں بھی اب راحیلؔ میں
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"​

عموماً شاعر کمی کوتاہی کی معافی نہیں مانگتے، مگر کوئی ہو گئی ہو تو مجھے، تابش بھائی اور فاتح بھائی کو معاف فرمائیے گا۔
والسلام!

واہ واہ واہ، کیا کہنے راحیل صاحب، دونوں‌ ہی عمدہ غزلیں‌ ہیں۔

خاک ہوا تو دیکھیے، خاک پہ فضل کیا ہوا
کوچۂِ یار کی ہوا مجھ کو اڑانے آ گئی

لاجواب، مکرر ارشاد حضور۔ واہ واہ واہ۔۔۔۔۔​
 

محمد وارث

لائبریرین
عزیزانِ محفل اور اساتذہ کی خدمت میں خاکسار کا سلام!

سب سے پہلے تو مبارکباد دینا چاہوں گا مشاعرے کے متنظمین کو کہ جنہوں نے شبانہ روز محنت اور لگن سے یہ محفل سجائی ۔ محترم خلیل الرحمٰن بھائی، حسن محمود بھائی، بلال اعظم بھائی اور تابش بھائی ، اس خوبصورت مشاعرے کے انعقاد کے لئے آپ تمام احباب کی کاوشیں لائقِ صد ستائش ہیں۔ سب سے بڑھ کر میں شکریہ ادا کروں گا اپنی پیاری سی بہنا مقدس کا کہ جو ہر چند شعر و شاعری سے خاطر و خواہ دلچسپی نہیں رکھتی پھر بھی ہم بھائیوں اور دیگر محفلین کی دل جوئی کے لئے اس مشاعرے کے انتظام و انصرام میں پیش پیش ہے۔ شکریہ مقدس ! جیتی رہو۔

اور اب بات کو مختصر کرتے ہوئے اساتذہ کرام کی اجازت سے ایک غزل کے کچھ اشعار پیش کر نے کی جسارت کر رہا ہوں۔

عشق اک دشت ہائے وحشت تھا
دل بنَا ہی برائے وحشت تھا

بے قراری سکوں کی زیریں تہہ
اور سکوں بر بِنائے وحشت تھا

اشک قطرہ نہ تھا، سمندر تھا
غمِ دل آبنائے وحشت تھا

تھی ازل سے ہی بے قرار ہوا
اس کی فطرت میں پائے وحشت تھا

اک تڑپ بانسری کی لے میں تھی
ساز گویا صدائے وحشت تھا

کیا اُسے حالِ دل سناتے ہم
نغمہء دل نوائے وحشت تھا

ایک اور رنگ کی ایک دوسری غزل کے ساتھ اجازت چاہوں گا۔

بن کر جو کوئی سامنے آتا ہے آئینہ
خیمے میں دل کے آکے لگاتا ہے آئینہ

وہ کون ہے یہ مجھ سے کبھی پوچھتا نہیں
میں کون ہوں یہ مجھ کو بتاتا ہے آئینہ

اس عکس کے برعکس کوئی عکس ہے کہیں
کیوں عکس کو برعکس دکھاتا ہے آئینہ

خود کو سجائے جاتے ہیں وہ آئینے کو دیکھ
جلووں سے اُن کے خود کو سجاتا ہے آئینہ

خود آئینے پہ اُن کی ٹہھرتی نہیں نظر
کیسے پھر اُن سے آنکھ ملاتا ہے آئینہ

یہ میرا عکس ہے تو مگر اجنبی سا ہے
کیوں کر مجھے مجھی سی چُھپاتا ہے آئینہ

کب دل کے آئینے میں کھلا کرتے ہیں گُلاب
کب آئینے میں پھول کھلاتا ہے آئینہ

آویزہ دیکھتے ہیں وہ جُھک کر قریب سے
یا اُن کو کوئی راز بتاتا ہے آئینہ

جب میرا عکس مجھ سے مماثل نہیں رہا
کیوں میرا عکس مجھ کو دکھاتا ہے آئینہ

اس آئینے میں عکس کسی کا ہے رات دن
احمدؔ یہ عشق دل کو بناتا ہے آئینہ

شکریہ ۔​

ہمیشہ کی طرح عمدہ کلام ہے احمد صاحب، بہت داد قبول کیجیے۔

جب میرا عکس مجھ سے مماثل نہیں رہا
کیوں میرا عکس مجھ کو دکھاتا ہے آئینہ

واہ واہ، مکرر ارشاد احمد صاحب۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تمام حاضرینِ مشاعرہ کی خدمت میں السلام علیکم اور تمام منتظمین کو اس بے مثال مشاعرے کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد کے بعد مصرعِ طرح پر ایک غزل کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔


فرق ہے واضح جو لا حاصل میں اور حاصل میں ہے
ہاں وہی جو دورئ منزل میں اور منزل میں ہے

جو کشاکش زندگی بھر خون رُلواتی رہی
کاروانِ زندگی اب تک اُسی مشکل میں ہے

وہ سمجھتے تھے کہ بس اِک ضرب میں قصّہ تمام
جان باقی اب تلک میرے تنِ بسمل میں ہے

حو کے پیروکار ہیں بے خوف اور سینہ سپر
دید کے قابل ہے جو لرزہ صفِ باطل میں ہے

آگئے پیں چھوڑ کر ساحل کو ہم یہ سوچ کر
دیکھتے ہیں لُطف کتنا دورئ ساحل میں پے

پائیے جذب و کشش ایسی بھلا کِس چیز میں
جو کسی کے چمپئ رُخسار کے اِک تِل میں پے

جن کو اپنے حال پر حاصل نہیں کچھ اختیات
وہ بھلا کیا جان سکتے ہیں کو مستقبل میں ہے

دِل میں ہنگامہ ہے برپا اِک ذرا سی بات پر
جو زباں تک آنہ پائی اور ابھی تک دِل میں ہے

کارواں میں ڈھونڈتا پھرتا ہے مجنوں ہر طرف
کون جانے اُس کی لیلیٰ کون سی محمل میں ہے

حُسن کے جلوے ہیں بکھرے جس برف اُٹھّے نگاہ
جانے کیا تاثیر اِس خطے کے آب و گِل میں ہے

اور کِس منظر میں، کِس جا، ہم کو مِلپائے حفیظ
حُسن اور وہ دلرُبائی ، جو مہِ کامل میں ہے

خوبصورت اور لاجواب غزل ہے جناب حفیظ صاحب، کیا کہنے۔

حُسن کے جلوے ہیں بکھرے جس طرف اُٹھّے نگاہ
جانے کیا تاثیر اِس خطے کے آب و گِل میں ہے

کیا کہنے واہ واہ۔

اور

پائیے جذب و کشش ایسی بھلا کِس چیز میں
جو کسی کے چمپئ رُخسار کے اِک تِل میں ہے

ع - میں‌ نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے :)
 
تھی ازل سے ہی بے قرار ہوا
اس کی فطرت میں پائے وحشت تھا

اک تڑپ بانسری کی لے میں تھی
ساز گویا صدائے وحشت تھا

کیا اُسے حالِ دل سناتے ہم
نغمہء دل نوائے وحشت تھا

وہ کون ہے یہ مجھ سے کبھی پوچھتا نہیں
میں کون ہوں یہ مجھ کو بتاتا ہے آئینہ

یہ میرا عکس ہے تو مگر اجنبی سا ہے
کیوں کر مجھے مجھی سی چُھپاتا ہے آئینہ

کب دل کے آئینے میں کھلا کرتے ہیں گُلاب
کب آئینے میں پھول کھلاتا ہے آئینہ

جب میرا عکس مجھ سے مماثل نہیں رہا
کیوں میرا عکس مجھ کو دکھاتا ہے آئینہ

واہ واہ احمد بھائی، دونوں غزلیں ہی لاجواب ہیں. خاص کر مندرجہ بالا اشعار تو دل میں اتر گئے. بہت عمدہ.
 
آ گئے ہیں چھوڑ کر ساحل کو ہم یہ سوچ کر
دیکھتے ہیں لُطف کتنا دورئ ساحل میں ہے

جن کو اپنے حال پر حاصل نہیں کچھ اختیار
وہ بھلا کیا جان سکتے ہیں کو مستقبل میں ہے

دِل میں ہنگامہ ہے برپا اِک ذرا سی بات پر
جو زباں تک آنہ پائی اور ابھی تک دِل میں ہے

حُسن کے جلوے ہیں بکھرے جس برف اُٹھّے نگاہ
جانے کیا تاثیر اِس خطے کے آب و گِل میں ہے

بہت عمدہ حفیظ صاحب۔ خاص طور پر مندرجہ بالا اشعار بہت پسند آئے۔ بہت سی داد
 
آخری تدوین:
ڈوب رہا ہے دیکھوکوئی
بڑھ کر ساحِل ہو جاتے ہیں!

جلدی منزِل چاہنے والے
جلدی بددِل ہو جاتے ہیں

اپنی وُسعت سے کچھ زمیں والے
آسمانوں کے آسماں ٹھہرے

شیخ بانٹے ہے نفرتیں، رِند بھی!
دل جو ٹھہرے تو اب کہاں ٹھہرے؟

بَیچ کھایا جنہوں نے کلِیوں کو
ہائے گُلشن کے پاسباں ٹھہرے!

"بیماری"

پنچھی جو پَلے ہوں پنجروں میں*
پرواز کو سمجھیں بیماری
جو ہونٹ سِلے ہوں صدیوں سے
آواز کو سمجھیں بیماری
جو تار کبھی نہ تڑپے ہوں
وہ ساز کو سمجھیں بیماری!

"ڈیجیٹل شاعری – فوٹو"

زندگی کی فوٹو کے
ایک ایک پِکسَل سے
روشنی تِری جھلکے
اور تُو نہیں تو پھر
اِک سیاہ پردے پر
گمشدہ نشاں ہوں میں
وہم ہُوں، گُماں ہُوں میں!
بہت عمدہ، کیا کہنے ابنِ منیب بھائی۔ سوچنے پر مجبور کرتے، آگہی بکھیرتے اشعار۔

"رایَل" کہنے سے کیا بھیا
پنکھے رایَل ہو جاتے ہیں؟
ارے آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں نے کچھ دن قبل ہی رائل کے پنکھے لئے ہیں۔ اب ڈرائیں تو نہ۔ :)
 
Top