سارا دن (نظم) وحید احمد

فرخ منظور

لائبریرین
سارا دن

جب پھوٹی کونپل دھوپ کی، ہم گھر سے نکلے
پھر شہر کی بہتی دھار میں، ہلکورے کھائے
اک لہر کی دست درازیاں، ساحل پر لائیں
اک ریستوران میں چائے پی، اور جسم سکھایا
اب دھوپ درخت جوان تھا چھتنار ہوا تھا
سو ہم نے تنہا ریت پر تنہائی تانی
اور اس کے نیچے رنگ رنگ کی باتیں کھولیں
کچھ باتیں گذرے وقت کی جو ہم نے دیکھا
کچھ آنے والے وقت کی جو کس نے دیکھا
کچھ سرسوں دن کھلیان کی لچکیلی پیلی
شب آنکھیں سم پھنکارتی چمکیلی نیلی
کچھ شامیں رنگ اچھالتی گہرا نارنجی
کچھ روز و شب بیکار سے بے جاں شطرنجی
جب گھر لوٹے تو شام کی، پت جھڑ ہوتی تھی
جو لمحہ لمحہ گرد تھی، کپڑوں سے جھاڑی
جو بہتی دھار کے خار تھے، پاوں سے کھینچے
پھر دونوں نے دہلیز پر، آوازیں رکھ دیں
اور آنکھیں بجھتی روشنی کے ہاتھ میں دے دیں۔

(وحید احمد)
 
Top