سارا دن
جب پھوٹی کونپل دھوپ کی، ہم گھر سے نکلے
پھر شہر کی بہتی دھار میں، ہلکورے کھائے
اک لہر کی دست درازیاں، ساحل پر لائیں
اک ریستوران میں چائے پی، اور جسم سکھایا
اب دھوپ درخت جوان تھا چھتنار ہوا تھا
سو ہم نے تنہا ریت پر تنہائی تانی
اور اس کے نیچے رنگ...
ہم شاعر ہوتے ہیں
ہم پیدا کرتے ہیں
ہم گیلی مٹی کو مٹھی میں بھینچا کرتے ہیں
تو شکلیں بنتی ہیں
ہم ان کی چونچیں کھول کے سانسیں پھونکا کرتے ہیں
جو مٹی تھے، وہ چھو لینے سے طائر ہوتے ہیں
ہم شاعر ہوتے ہیں
کنعان میں رہتے ہیں
جب جلوہ کرتے ہیں
تو ششدر انگشتوں کو پوریں نشتر دیتی ہیں
پھر خون ٹپکتا ہے
جو سرد...