سائنس مسلسل خاموش کیوں؟

جاسم محمد

محفلین
جبکہ ملحد ین نظریاتی طور پر پابندی کی کس بنیاد کو تسلیم کرتے ہیں ؟
دو ملحد اگر نظریاتی طور پر اختلاف رکھتے ہیں تو کس بنیاد پر فیصلہ کریں گے؟ (خدارا اب جمہوریت نہ کہہ دینا :) ) ۔
آپ نے تو خود ہی جواب دے دیا۔ اب میں کیا بولوں :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آپ نے تو خود ہی جواب دے دیا۔ اب میں کیا بولوں :)
لیکن افسوس جمہوریتوں کی ان نیلم پریوں یا (استبداد کے دیووں) نے بھی تو جنگ و جدال کے انسانیت سوز مناظر نہ صرف دیکھے ہیں بلکہ "بڑی جمہوریتوں" نے دنیا میں برپا بھی کر رکھے ہیں ۔
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
 

سید عمران

محفلین
ہم خود کو "اُس" کے حوالہ کر دیں اور بے فکر ہوجائیں۔
اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے حسبنا اللہ و نعم الوکیل کہہ کر بیان فرمایا ہے ۔۔۔
یعنی ہم خود کو اس کی آغوش رحمت میں دے دیں، وہ ہماری ساری ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ہماری مدد کرے گا!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
اگر ہر چیز خدا نے بنائی ہے تو
اگر ہر چیز خدا نے نہیں بنائی ہے تو کم از کم کوئی ایک چیز انسان اپنی قدرت سے بنا دے۔۔۔
ریت کا ایک ذرّہ۔۔۔
یا خون کا ایک قطرہ۔۔۔
اور کچھ نہیں تو مکھی کا ایک پر۔۔۔
لیکن زمین پر نہیں، خالی ہاتھ خلا میں جائے، وہاں جاکے اپنے دست و بازو آزمائے، کچھ کر کے دکھائے، پھر اپنی بات منوائے!!!
 

ٹرومین

محفلین
سورج فضا میں ایک مقرر راستہ پر پچھلے پانچ ارب سال سے چھ سو میل فی سیکنڈ کی رفتار سے مسلسل بھاگا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا خاندان 9 سیارے، 27 چاند اور لاکھوں میٹرائٹ (Meteorite) کا قافلہ اسی رفتار سے جارہا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ تھک کر کوئی پیچھے رہ جائے یا غلطی سے کوئی اِدھر اُدھر ہوجائے۔ سب اپنی اپنی راہ پر اپنے اپنے پروگرام کے مطابق نہایت تابع داری سے چلے جارہے ہیں۔

اب بھی اگر کوئی کہے کہ چلتے ہیں لیکن چلانے والا کوئی نہیں، ڈیزائن ہے، لیکن ڈیزائنر نہیں، قانون ہے، لیکن قانون کو نافذ کرنے والا نہیں، کنٹرول ہے، لیکن کنٹرولر نہیں، بس یہ سب ایک حادثہ ہے۔ اسے آپ کیا کہیں گے؟

چاند تین لاکھ ستر ہزار میل دُور زمین پر سمندروں کے اربوں کھربوں ٹن پانیوں کو ہر روز دو دفعہ مد وجزر سے ہلاتا رہتا ہے تاکہ ان میں بسنے والی مخلوق کے لیے ہوا سے مناسب مقدار میں آکسیجن کا انتظام ہوتا رہے، پانی صاف ہوتا رہے، اس میں تعفن پیدا نہ ہو۔ ساحلی علاقوں کی صفائی ہوتی رہے اور غلاظتیں بہہ کر گہرے پانیوں میں چلتی جائیں۔

یہی نہیں بلکہ سمندروں کا پانی ایک خاص مقدار میں کھارا ہے۔ پچھلے تین اَرب سال سے نہ زیادہ نہ کم نمکین بلکہ ایک مناسب توازن برقرار رکھے ہوئے ہے تاکہ اس میں چھوٹے بڑے سب آبی جانور آسانی سے تیر سکیں اور مرنے کے بعد اُن کی لاشوں سے بُو نہ پھیلے۔ انہی میں کھاری اور میٹھے پانی کی نہریں بھی ساتھ ساتھ بہتی ہیں۔ سطح زمین کے نیچے بھی میٹھے پانی کے سمندر ہیں جو کھارے پانی کے کھلے سمندروں سے ملے ہوئے ہیں۔ سب کے درمیان ایک غیب کا پردہ ہے تاکہ میٹھا پانی میٹھا رہے اور کھارا پانی کھارا۔
اس حیران کن انتظام کے پیچھے کون سی عقل ہے؟ اس توازن کو کون برقرار رکھے ہوئے ہے؟
کیا پانی کی اپنی سوچ تھی یا چاند کا فیصلہ؟

ساڑھے چودہ سو سال پہلے جب جدید سائنس کا کوئی وجود نہیں تھا۔ عرب کے صحرا زدہ مُلک میں جہاں کوئی اسکول اور کالج نہیں تھا، ایک شخصیت (صلی اللہ علیہ وسلم) اُٹھ کر سورج اور چاند کے بارے میں کہتی ہےکہ یہ سب ایک حساب کے پابند ہیں۔ ’’الشمس والقمر بحسبان‘‘ (سورۃ الرحمٰن، آیت۵)

سمندروں کی گہرائیوں کے متعلق بتاتی ہے کہ ’’بینھما برزخ لا یبغین‘‘ ’’ان کے درمیان برزخ (Barrier) ہے جو قابو میں رکھے ہوئے ہے۔‘‘ (سورۃ الرحمٰن، آیت۲۰)

جب ستاروں کو اپنی جگہ لٹکے ہوئے چراغ کہا جاتا تھا، وہ شخصیت کہتی ہے: ’’وکل فی فلک یسبحون‘‘ یعنی سب کے سب اپنے مدار پر تیر رہے ہیں۔ (سورۃ یٰسین، آیت۴۰)

جب سورج کو ساکن تصور کیا جاتا تھا، وہ فرماتے ہیں ’’والشمس تجری لمستقر لھا‘‘ یعنی سورج اپنے لیے مقرر شدہ راستے پر کسی انجانی منزل کی طرف ہمیشہ سے چلا آرہا ہے۔ (سورۃ یٰسین، آیت۳۸)

جب کائنات کو جامد، آسمان کو چھت کہا جاتا تھا، وہ فرماتے ہیں: یہ پھیل رہی ہے۔ وانا لموسعون (سورۃ الذاریٰت، آیت۴۷)

وہ شخصیت نباتا ت اور حیوانی زندگی کے بارے میں بتاتی ہے کہ ان سب کی بنیاد پانی ہے۔ البرٹ آئن اسٹائن اپنی دریافت ’’قوانین قدرت اٹل ہیں‘‘ پر جدید سائنس کا بانی کہلاتا ہے لیکن اس شخصیت نے بہت پہلے بتایا ’’ماترٰی فی خلق الرحمٰن من تفٰوت‘‘ تم رحمان کی تخلیق میں کسی جگہ فرق نہیں پاؤگے۔ (سورۃ الملک، آیت ۳)

جدید سائنس کی ان قابل فخر دریافتوں پر ساڑھے چودہ سو سال پہلے پردہ اُٹھانے والی شخصیت کس یونی ورسٹی سے پڑھی تھی؟ کس لیبارٹری میں کام کرتی تھی؟ کیا اس کے پیچھے کوئی خدائی عقل تھی یا یہ بھی صرف حادثہ؟

نومولود بچے کو کون سمجھاتا ہے کہ بھوک کے وقت رو کر ماں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائے؟ ماں کو کون حوصلہ دیتا ہے کہ خطرے کے سامنے سینہ سپر ہوکر بچے کو بچائے۔ ایک معمولی سی چڑیا شاہین سے مقابلہ پر اُتر آتی ہے، یہ حوصلہ اسے کس نے دیا؟؟
مرغی کے بچے انڈے سے نکلتے ہی چلنے لگتے ہیں، حیوانات کے بچے بغیر سکھائے ماؤں کی طرف دودھ کے لیے لپکتے ہیں، انہیں یہ سب کچھ کون سکھاتا ہے؟ جانوروں کے دِلوں میں کون محبت ڈال دیتا ہے کہ اپنی چونچوں میں خوراک لاکر اپنے بچوں کے مونہوں میں ڈال دیںَ یہ آداب زندگی انہوں نے کہاں سے سیکھے؟
پھر بھی خدا نہیں!!
بس ارتقا (Evolution) ہے؟

شہد کی مکھیاں دُور دراز باغوں میں ایک ایک پھول سے رَس چوس چوس کر انتہائی ایمان داری سے لاکر چھتے میں جمع کرتی جاتی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک ماہر سائنسدان کی طرح جانتی ہے کہ کچھ پھول زہریلے ہیں، ان کے پاس نہیں جاتی، ایک قابل انجینئر کی طرح شہد اور موم کو علیحدہ علیحدہ کرنے کا فن بھی جانتی ہے۔ جب گرمی ہوتی ہے تو شہد کو پگھل کر بہہ جانے سے بچانے کے لیے اپنے پروں کی حرکت سے پنکھا چلاکر ٹھنڈا بھی کرتی ہے، موم سے ایسا گھر بناتی ہے جسے دیکھ کر بڑے سے بڑا آرکیٹیکٹ بھی حیرت زدہ ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں ایسے منظم طریقے سے کام کرتی ہیں کہ مثال نہیں، ہر ایک میں ایسا راڈار نظام نصب ہے کہ وہ دُور دُور نکل جاتی ہیں لیکن اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولتیں۔ انہیں زندگی کے یہ طریقے کس نے کھائے؟ انہیں یہ عقل کس نے دی؟ پھر بھی کہتے ہو۔
کچھ نہیں بس ایک حادثہ؟ صرف عمل ارتقاء!!!

مکڑا اپنے منہ کے لعاب سے شکار پکڑنے کے لیے ایسا جال بناتا ہے کہ جدید ٹیکسٹائل انجینئر بھی اس بناوٹ کا ایسا نفیس دھاگا بنانے سے قاصر ہیں۔
گھریلو چیونٹی (Ant) گرمیوں میں جاڑے کے لیے خوراک جمع کرتی رہتی ہے، اپنے بچوں کے لیے گھر بناتی ہے، ایک ایسی تنظیم سے رہتی ہے جہاں نظامت کے تمام اُصول حیران کُن حد تک کار فرما ہیں۔

ٹھنڈے پانیوں میں رہنے والی مچھلیاں اپنے انڈے اپنے وطن سے ہزاروں میل دُور گرم پانیوں میں دیتی ہیں لیکن نکلنے والے بچے جوان ہوکر ماں کے وطن خود بخود پہنچ جاتے ہیں، نباتات کی زندگی کا سائیکل بھی کم حیران کن نہیں، جراثیم اور بیکٹیریا کیسے کروڑوں سالوں سے اپنی بقا کو قائم رکھے ہوئے ہیں؟
زندگی کے گُر انہیں کس نے سکھائے؟ معاشرتی نظامت کے یہ اُصول انہیں کس نے پڑھائے؟
پھر بھی کوئی خدا نہیں؟

کیا زمین اس قدر عقل مند ہے کہ اس نے بھی خود بخود لیل ونہار کا نظام قائم کرلیا، خود بخود ہی اپنے محور پر 2/167 ڈگری جھک گئی تاکہ سارا سال موسم بدلتے رہیں۔ کبھی بہار، کبھی گرمی، کبھی سردی اور کبھی خزاں، تاکہ اس پر بسنے والوں کو ہر طرح کی سبزیاں، پھل اور خوراک سارا سال ملتی رہے؟

زمین نے اپنے اندر شمالاً جنوباً ایک طاقت ور مقناطیسی نظام بھی خود بخود ہی قائم کرلیا تاکہ اس کے اثر کی وجہ سے بادلوں میں بجلیاں کڑکیں جو ہوا کی نائٹروجن کو نائٹرس آکسائیڈ (Nitrous Oxide) میں بدل کر بارش کے ذریعے زمین پر پودوں کے لیے قدرتی کھاد مہیا کریں، سمندروں پر چلنے والے بحری جہاز، آبدوز (Submarine) اور ہواؤں میں اُڑنے والے طیارے اس مقناطیس کی مدد سے اپنا راستہ پائیں، آسمانوں سے آنے والی مہلک شعاعیں اس مقناطیسیت سے ٹکرا کر واپس پلٹ جائیں تاکہ زمینی مخلوق ان کے مہلک اثرات سے محفوظ رہے اور زندگی جاری رہے۔
کیا اس سب کے پیچھے کوئی ہاتھ نہیں، کوئی عقل نہیں، کوئی ڈیزائن نہیں؟ یا یہ بھی زمین کی اپنی سوچ تھی!!!؟

مزید دیکھیے! زمین، سورج، ہواؤں، پہاڑوں اور میدانوں نے مل کر سمندر کے ساتھ سمجھوتا کرلیا کہ سورج کی گرمی سے آبی بخارات اُٹھیں گے، ہوائیں اربوں ٹن پانی کو اپنے دوش پر اُٹھا کر پہاڑوں اور میدانوں تک لائیں گی، ستاروں سے آنے والے ریڈیائی ذرّے بادلوں میں موجود پانی کو اکٹھا کرکے قطروں کی شکل دیں گے اور پھر یہ پانی میٹھا بن کر خشک میدانوں کو سیراب کرنے کے لیے برسے گا، جب سردیوں میں پانی کی کم ضرورت ہوگی تو یہ پہاڑوں پر برف کی صُورت میں جمع ہوتا جائے گا، گرمیوں میں جب زیادہ پانی کی ضرورت ہوگی تو یہ پگھل کر ندی نالوں اور دریاؤں کی صورت میں میدانوں کو سیراب کرتے ہوئے واپس سمندر تک پہنچ جائے گا۔ ایک ایسا شان دار متوازن نظام جو سب کو سیراب کرتا ہے اور کچھ بھی ضائع نہیں ہوتا۔
کیا یہ بھی ستاروں، ہوا اور زمین کی اپنی باہمی سوچ تھی؟

کیا ہماری اپنی زندگی بھی ایک حادثہ ہے؟ ہمارے لبلبے (Pancreas) خون میں شوگر کی ایک خاص مقدار کو بڑھنے نہیں دیتے، دِل کا پمپ ہر منٹ ستر، اسی دفعہ بغیر آرام بلا تھکان خون پمپ کرتا رہتا ہے، ایک پچھتر سالہ زندگی میں بلا مرمت (Maintenance) تقریباً تین اَرب بار دھڑکتا ہے۔ ہمارے گردے (Kidneys) صفائی کی بے مثل اور عجیب فیکٹری ہے جو جانتی ہے کہ خون میں جسم کے لیے جو مفید ہے، وہ رکھ لینا ہے، فضلات کو باہر پھینک دینا ہے۔
معدہ حیران کن کیمیکل کمپلیکس (Chemical Complex) ہے جو خوراک سے زندگی بخش اجزا مثلاً پروٹین، کاربو ہائیڈریٹ وغیرہ کو علیحدہ کرکے خون کے حوالہ کردیتا ہے اور فضلات کو باہر نکال دیتا ہے۔
انسانی جسم میں انجینئرنگ کے یہ شاہکار، سائنس کے یہ بے مثل نمونے، چھوٹے سے پیٹ میں یہ لاجواب فیکٹریاں، کیا یہ سب کچھ یوں ہی بن گئے تھے؟
نہ کوئی ڈیزائنر (Designer)، نہ کوئی بنانے والا (Maker)، نہ کوئی چلانے والا (Oprator)، بس ایک عمل ارتقا ء؟

دماغ کو کس نے بنایا؟ مضبوط ہڈیوں کے خول میں بند، پانی میں یہ تیرتا ہوا عقل کا خزانہ، معلومات کا اسٹور، احکامات کا مرکز، انسان اور اس کے ماحول کے درمیان رابطہ کا ذریعہ، ایک ایسا کمپیوٹر کہ انسان اس کی بناوٹ اور ڈیزائن کو ابھی تک سمجھ نہیں پایا، لاکھ کوششوں کے باوجود انسانی ہاتھ اور ذہن کا بنایا ہوا کوئی سپر کمپیوٹر بھی اس کے عشر عشیر تک نہیں پہنچ سکتا۔

ہر انسان کھربوں خلیات (Cell) کا مجموعہ ہے، اتنے چھوٹے کہ خوردبین کی مدد کے بغیر نظر نہیں آتے، لیکن سب کے سب جانتے ہیں انہیں کیا کرنا ہے۔ یوں انسان کا ہر ایک خلیہ شعور رکھتا ہے اور اپنے وجود میں مکمل شخصیت ہے۔ ان جینز میں ہماری قسمت تحریر ہے اور زندگی اس بند پروگرام کے مطابق خود بخود کھلتی رہتی ہے۔ ہماری زندگی کا پورا ریکارڈ، ہماری شخصیت، ہماری عقل ودانش، غرض ہمارا سب کچھ پہلے ہی ان خلیات پر لکھا جاچکا ہے۔
یہ کس کی لکھا ئی ہے؟

حیوانات ہوں یا نباتات، ان کے بیج کے اندر ان کا پورا نقشہ بند ہے، یہ کس کی نقشہ بندی ہے؟ خورد بین سے بھی مشکل سے نظر آنے والا سیل (Cell) ایک مضبوط، توانا عقل وہوش والا انسان بن جاتا ہے۔ یہ کس کی بناوٹ ہے؟
ہونٹ، زبان اور تالو کے اجزا کو سیکڑوں انداز میں حرکت دینا کس نے سکھایا؟
ان حرکات سے طرح طرح کی عقل مند آوازیں کون پیدا کرتا ہے؟
ان آوازوں کو معنی کون دیتا ہے؟
لاکھوں الفاظ اور ہزاروں زبانوں کا خالق کون ہے؟
کوئی بھی نہیں، بس ایک حادثہ ہے!!!؟
محض عمل ارتقاء ہے!!!
لا الہ الا اللہ
کوئی خدا نہیں مگر اللہ تعالیٰ
پہلی اور آخری حقیقت
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
۱۹۳۲ء میں دو صحابہ کرام کی قبر کشائی۔۔۔
یہ منظر دیکھنے والوں میں بھارت کے مولانا ادریس صاحب بھی تھے۔۔۔
یہ ایک مرتبہ پاکستان آئے اور اس چشم دید واقعہ کو بیان کیا ۔۔۔
ہمارے ایک جاننے والے کے پاس ان کے اس بیان کی آڈیو موجود ہے۔۔۔
اگرچہ اس کی کوالٹی بہت خراب ہے، نہایت غور سے سننا پڑتا ہے تب سمجھ میں آتی ہے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون نہیں جانتا کہ موت کے بعد انسان کا جسم کچھ عرصہ میں مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاتا ہے اور سوائے ہڈیوں کے کچھ باقی نہیں رہتا، مگر یہ حقیقت ہے کہ برگزیدہ ہستیوں کے مبارک اجسام دنیا سے رخصتی کے بعد بھی ہمیشہ تازہ پھولوں کی طرح تروتازہ اور مہکتے رہتے ہیں۔
اگرچہ بہت سے لوگ ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے لیکن 1932ءمیں قدرت نے اس کا کھلا ثبوت ہزاروں انسانوں کی آنکھوں کے سامنے عیاں کردیا۔ ان دنوں عراق ،شاہ فیصل اول کے زیر حکمرانی تھا اور ایک رات حضرتِ حذیفہ الیمنی رضی اللہ عنہ ان کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا، اے بادشاہ! جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اور مجھے دجلہ کے کنارے سے نکال کر کسی محفوظ مقام پر منتقل کرو کیونکہ میری قبر میں پانی بھر چکا ہے جبکہ عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کی قبر میں بھی پانی بھررہا ہے۔ شاہ فیصل اول اپنی مصروفیات کی وجہ سے اس بات پر توجہ نہ دے پائے تو یہی خواب اگلی رات بھی انہیں نظر آیا مگر وہ اپنے کاموں میں مصروف رہے۔

تیسری رات حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ عراق کے مفتی اعظم کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا کہ میں بادشاہ کو دو راتوں سے ہماری منتقلی کا کہہ رہا ہوں مگر وہ توجہ نہیں دے رہے، آپ ان پر زور دیجئے کہ وہ ہمارے قبور منتقل کرنے کے انتظامات کریں۔ اس کے بعد مفتی اعظم، وزیراعظم اور شاہ فیصل اول کے درمیان ملاقات میں طے پایا کہ مفتی صاحب اس بارے میں فتویٰ جاری فرمائیں گے اور وزیر پریس کو بیان جاری کریں گے تاکہ عوام کو اس کے متعلق خبر ہوجائے۔
ابتدائی طور پر یہ فیصلہ ہوا کہ 10 ذی الحج کو قبور مبارکہ کی منتقلی کا مقدس فریضہ سرانجام دیا جائے گا مگر حجاج کرام کی درخواست پر تاریخ 20 ذی الحج مقرر کی گئی تاکہ حج سے فارغ ہونے والے بھی اس اہم موقع پر پہنچ سکیں۔ پھر وہ دن بھی آن پہنچا کہ بغداد شہر کی گلیاں لوگوں سے بھر گئیں اور دور و نزدیک سے آنے والے منتظر تھے کہ کب یہ مبارک فریضہ سرانجام دیا جائے گا۔ بعد از نماز ظہر ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں دونوں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کی قبور مبارک کو کھولا گیا تو واقعی ان میں پانی بھرچکا تھا، لیکن ہر دیکھنے والے نے دیکھا کہ ان مقدس ہستیوں کے مبارک جسم ایسے تروتازہ تھے جیسے ابھی چند لمحے پہلے سوئے ہوں اور فضا نہایت خوش کن خوشبو سے معطر تھی۔ اس موقع پر ہر آنکھ فرط جذبات سے اشکبار تھی اور دیکھنے والے حیرت سے دم بخود تھے۔

انہی دیکھنے والوں میں ایک جرمن فزیالوجسٹ بھی تھے جن کے سامنے یہ منظر تھا کہ 1300 سال سے بھی زائد عرصہ قبل دفنائے گئے مبارک جسم زندہ انسانوں سے بھی زیادہ تروتازہ نظر آرہے تھے۔ انہوں نے بے اختیار مفتی اعظم کے ہاتھ تھام لئے اور درخواست کی کہ انہیں مسلمان کیا جائے۔ اس موقع پر بے شمار عیسائی اور یہودی بھی مسلمان ہوئے اور قبول اسلام کا یہ سلسلہ کئی سال تک شدومد سے جاری رہا۔ دجلہ کے کنارے سے دونوں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کی قبور کو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مزار کے قریب منتقل کردیا گیا جو کہ اس وقت بغداد شہر سے 30 میل کے فاصلہ پر واقع تھا۔
لنک
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
دنیا میں اب تک جتنے بھی دھماکے دیکھے ان سب سے تباہی اور بربادی وجود میں آئی۔۔۔
مگر بگ بینگ کا ان دیکھا تخیلاتی دھماکہ عجیب دیکھا جس نے گل کھلائے، خوشبوئیں بکھرائیں، فصلیں لہلہائیں، جنگلات اگائے، پھل پکائے، بادل برسائے، گائے، بکریاں، بھینسیں بنائیں، ان میں دودھ بنایا، شہد کی مکھی بنائی اور اس میں شہد بنایا۔۔۔
اتنا عقل مند دھماکہ ایک مرتبہ ہی کیوں ہوا؟؟؟
بار بار کیوں نہیں ہوتا؟؟؟
 
آخری تدوین:
مذہب تو حضرت آدم کے ساتھ آیا ہے!!!
یہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔
البتہ سائینس والے کچھ فوسلز کی بنیاد پر یہ یقین کیے بیٹھے ہیں کہ انسان کو انسان بنے لگ بھگ دو لاکھ سال ہو گئے ہیں۔ یہ شاید اس وقت کی بات کر رہے ہیں۔
جب دنیا میں کسی دین و مذہب کا وجود تک نہیں تھا کیا اس وقت انسانوں میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں تھی؟
 

سید عمران

محفلین
یہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔
البتہ سائینس والے کچھ فوسلز کی بنیاد پر یہ یقین کیے بیٹھے ہیں کہ انسان کو انسان بنے لگ بھگ دو لاکھ سال ہو گئے ہیں۔ یہ شاید اس وقت کی بات کر رہے ہیں۔
فوسلز سے یہ کیسے معلوم ہوا کہ اس وقت کوئی مذہب نہیں تھا؟؟؟
 

فلسفی

محفلین
۱۹۳۲ء میں دو صحابہ کرام کی قبر کشائی۔۔۔
یہ منظر دیکھنے والوں میں بھارت کے مولانا ادریس صاحب بھی تھے۔۔۔
یہ ایک مرتبہ پاکستان آئے اور اس چشم دید واقعہ کو بیان کیا ۔۔۔
ہماے ایک جاننے والے کے پاس ان کے اس بیان کی آڈیو موجود ہے۔۔۔
اگرچہ اس کی کوالٹی بہت خراب ہے، نہایت غور سے سننا پڑتا ہے تب سمجھ میں آتی ہے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون نہیں جانتا کہ موت کے بعد انسان کا جسم کچھ عرصہ میں مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاتا ہے اور سوائے ہڈیوں کے کچھ باقی نہیں رہتا، مگر یہ حقیقت ہے کہ برگزیدہ ہستیوں کے مبارک اجسام دنیا سے رخصتی کے بعد بھی ہمیشہ تازہ پھولوں کی طرح تروتازہ اور مہکتے رہتے ہیں۔
اگرچہ بہت سے لوگ ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے لیکن 1932ءمیں قدرت نے اس کا کھلا ثبوت ہزاروں انسانوں کی آنکھوں کے سامنے عیاں کردیا۔ ان دنوں عراق ،شاہ فیصل اول کے زیر حکمرانی تھا اور ایک رات حضرتِ حذیفہ الیمنی رضی اللہ عنہ ان کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا، اے بادشاہ! جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اور مجھے دجلہ کے کنارے سے نکال کر کسی محفوظ مقام پر منتقل کرو کیونکہ میری قبر میں پانی بھر چکا ہے جبکہ عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کی قبر میں بھی پانی بھررہا ہے۔ شاہ فیصل اول اپنی مصروفیات کی وجہ سے اس بات پر توجہ نہ دے پائے تو یہی خواب اگلی رات بھی انہیں نظر آیا مگر وہ اپنے کاموں میں مصروف رہے۔

تیسری رات حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ عراق کے مفتی اعظم کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا کہ میں بادشاہ کو دو راتوں سے ہماری منتقلی کا کہہ رہا ہوں مگر وہ توجہ نہیں دے رہے، آپ ان پر زور دیجئے کہ وہ ہمارے قبور منتقل کرنے کے انتظامات کریں۔ اس کے بعد مفتی اعظم، وزیراعظم اور شاہ فیصل اول کے درمیان ملاقات میں طے پایا کہ مفتی صاحب اس بارے میں فتویٰ جاری فرمائیں گے اور وزیر پریس کو بیان جاری کریں گے تاکہ عوام کو اس کے متعلق خبر ہوجائے۔
ابتدائی طور پر یہ فیصلہ ہوا کہ 10 ذی الحج کو قبور مبارکہ کی منتقلی کا مقدس فریضہ سرانجام دیا جائے گا مگر حجاج کرام کی درخواست پر تاریخ 20 ذی الحج مقرر کی گئی تاکہ حج سے فارغ ہونے والے بھی اس اہم موقع پر پہنچ سکیں۔ پھر وہ دن بھی آن پہنچا کہ بغداد شہر کی گلیاں لوگوں سے بھر گئیں اور دور و نزدیک سے آنے والے منتظر تھے کہ کب یہ مبارک فریضہ سرانجام دیا جائے گا۔ بعد از نماز ظہر ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں دونوں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کی قبور مبارک کو کھولا گیا تو واقعی ان میں پانی بھرچکا تھا، لیکن ہر دیکھنے والے نے دیکھا کہ ان مقدس ہستیوں کے مبارک جسم ایسے تروتازہ تھے جیسے ابھی چند لمحے پہلے سوئے ہوں اور فضا نہایت خوش کن خوشبو سے معطر تھی۔ اس موقع پر ہر آنکھ فرط جذبات سے اشکبار تھی اور دیکھنے والے حیرت سے دم بخود تھے۔

انہی دیکھنے والوں میں ایک جرمن فزیالوجسٹ بھی تھے جن کے سامنے یہ منظر تھا کہ 1300 سال سے بھی زائد عرصہ قبل دفنائے گئے مبارک جسم زندہ انسانوں سے بھی زیادہ تروتازہ نظر آرہے تھے۔ انہوں نے بے اختیار مفتی اعظم کے ہاتھ تھام لئے اور درخواست کی کہ انہیں مسلمان کیا جائے۔ اس موقع پر بے شمار عیسائی اور یہودی بھی مسلمان ہوئے اور قبول اسلام کا یہ سلسلہ کئی سال تک شدومد سے جاری رہا۔ دجلہ کے کنارے سے دونوں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کی قبور کو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مزار کے قریب منتقل کردیا گیا جو کہ اس وقت بغداد شہر سے 30 میل کے فاصلہ پر واقع تھا۔
لنک

uc
 

احمد محمد

محفلین
السلام علیکم!

احباب کس بحث میں الجھ گئے؟ اللّٰہ تعالٰی کیا کر سکتے ہیں اور (نعوذباللہ) کیا نہیں، یقین جانیئے اس بات کا آپ سے بالکل سروکار نہیں ہے۔

جو ذات پہلی دفعہ پیدا کر سکتی ہے، موت دے سکتی ہے اور پھر زندہ کر سکتی ہے اس کے لیے شہید کا جسد باقی رکھنا ذرا بھی مشکل کام نہیں۔ تاہم یہاں یہ عرض کردوں کہ میں آج تک کوئی ایسی درست اور ٹھیک ویڈیو نہیں دیکھی جس میں واضع طور پر ایسا کوئی منظر دیکھا جا سکتا ہو۔ ایسی ویڈیوز اکثر دھندلی (low resolution)، غیر مصدقہ اور غیر متعلقہ مواد کو یکجا کر کے بنائی جاتی ہیں کیونکہ ویڈیو بنانے والے نے تو محض اپنے چینل پر ٹریفک کے لیے یہ کام کیا ہوتا ہے، اور مجھ جیسے ضعیف الاعتقاد ثوابِ دارین سمجھ کر اسے دیکھتے ہیں اور شیئر کرتے ہیں۔

اب موضوع پر واپس آتے ہیں:-

شہید کا جسد باقی رہتا ہے یا نہیں، اس کا آپ سے کیا لینا دینا؟ بات تو سادہ سی ہے کہ شہید زندہ و جاوید ہے۔

تاہم شہدا مختلف اقسام کے ہو سکتے ہیں اور ان کے درجات بھی الگ الگ ہوں گے۔

شہید وہ ہوتا ہے جو خالصتاً اللّٰہ کی راہ میں محض اسی کی خوشنودی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرے۔

کچھ شہید نہیں ہوتے مگر انہیں شہادت کی موت کا اجر ضرور ملتا ہے۔

کچھ لوگوں کی نظر میں تو شہید ہو سکتے ہیں مگر وہ حقیقی شہید ہوں یا ان کی شہادت بہرصورت بارگاہِ اقدس میں قبول و منظور ہو یہ ہرگز ضروری نہیں۔

دعا کرتا ہوں کہ ہم سب مسمانوں کا ایمان اللّٰہ تعالٰی کے خالق و مالک ہونے اور ابو القاسم محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نبی آخرالزماں ہونے پر قائم و دائم رہے

نہ کہ

کسی جسم یا جسد کے گلنے سڑنے یا اس کے باقی اور سلامت رہنے سے مشروط ہو۔ آمین

(امید ہے مخل ہونا در گذر فرمائیں گے)
 
آخری تدوین:
فوسلز سے یہ کیسے معلوم ہوا کہ اس وقت کوئی مذہب نہیں تھا؟؟؟
اسلامی عقائد کے مطابق زمین پر پہلا انسان حضرت آدم علیہ سلام تھے جو اندازاً 10 ہزار سال پہلے اس زمین پر بھیجے گئے۔ مذاہب وغیرہ کا ظہور لامحالہ اس کے بعد ہوا۔ سائینس والے اور شاید احمدی/ قادیانی عقائد والے بھی کیونکہ دو لاکھ سال پہ مُصر ہیں اور اسلامی عقیدے کے دس ہزار سال نکال کر اس سے پہلے کے بارے میں جو بات بھی کرتے ہیں، اس حساب (ایک لاکھ نوے ہزار سال) میں واقعی کوئی مذہب موجود نہیں تھا۔ :)
 
Top