باباجی
محفلین
زیست کا مفہوم پوچھا تھا کہ اک جام آگیا
ذوقِ استفسار کو آخر کچھ آرام آگیا
زندگی اور موت کے تِیرہ معمے ہائے ہائے
اس دوراہے پر چراغِ میکدہ کام آگیا
بچتے بچتے چشمِ ساقی کی جواں ترغیب ہے
اتفاقاً ہوش پر مستی کا الزام آگیا
شیخ تو لے ہی چلا تھا مجھ کو کعبے کی طرف
اتفاقاً راستے میں کوئے اصنام آگیا
جس نے بھی کی میری رسوائی کی کوشش اے "عدم"
وہ خدا کے فضل سے خود ہو کے بدنام آگیا