زیرک کے پسندیدہ قطعات

زیرک

محفلین
اقرار کسی دن ہے تو انکار کسی دن
ہو جائے گی اب آپ سے تکرار کسی دن
چاہا،کبھی سوچا، کبھی تصویر بنائی
چھوڑا نہ تری یاد نے بے کار کسی دن
بدر واسطی​
 

زیرک

محفلین
دھانی سُرمئی سبز گلابی جیسے ماں کا آنچل شام
کیسے کیسے رنگ دکھائے روز لبالب چھاگل شام
چرواہے کو گھر پہنچائے پہریدار سے گھر چھڑوائے
آتے جاتے چھیڑتی جائے دروازے کی سانکل شام
بدر واسطی​
 

زیرک

محفلین
آج کا مسلمان
خدا سے دیکھوں کتنا ڈر رہا ہوں
تجوری، جیب دونوں بھر رہا ہوں
پڑوسی بھوکا ہے تیسرا دن ہے
میں چوتھی بار عمرہ کر رہا ہوں​
 

زیرک

محفلین
یہ ایک بات سمجھنے میں رات ہو گئی ہے
میں اس سے جیت گیا ہوں کہ مات ہو گئی ہے
بدن میں ایک طرف دن طلوع میں نے کیا
بدن کے دوسرے حصے میں رات ہو گئی ہے
تہذیب حافی​
 

زیرک

محفلین
سمندروں کے مسافرو! کچھ اضافی پانی بھی ساتھ رکھنا
کہ اک جزیرہ بڑی ہی مدت سے چند قطروں کی آس پر ہے
بدن کا ہر ایک عضو دل کا کِیا کرایا بھگت رہا ہے
اس اک سٹوڈنٹ کی خطا کا عتاب ساری کلاس پر ہے​
 

زیرک

محفلین
مجھے پہلے پہل لگتا تھا، ذاتی مسئلہ ہے
میں پھر سمجھا، محبت کائناتی مسئلہ ہے
پرندے قید ہیں، تم چہچہاہٹ چاہتے ہو
تمہیں تو اچھا خاصا نفسیاتی مسئلہ ہے​
 

زیرک

محفلین
پھر بھی وہ تخت نشیں خوفزدہ رہتا ہے
اپنے حصے کی وراثت بھی نہیں مانگتے ہم
ساری دستاروں پہ دھبے ہیں لہو کے اظہر
ایسے کوفے میں تو عزت بھی نہیں مانگتے ہم​
 

زیرک

محفلین
پھول چہرے، مزاج پتھر کا
چار سُو ہے رواج پتھر کا
مثلِ شیشہ ہمارا دل، لیکن
روبرو ہے سماج پتھر کا​
 

زیرک

محفلین
اپنے اسلاف کی عظمت کے پرستار ہیں ہم
سگِ دربار نہیں، صاحبِ کردار ہیں ہم
ہم سے شرماتا ہے آئینہ مقابل آ کر
بے وفا ہیں، نہ منافق، نہ اداکار ہیں ہم​
 

زیرک

محفلین
منزلیں پاؤں پکڑتی ہیں ٹھہرنے کے لیے
شوق کہتا ہے کہ دو چار قدم اور سہی
کل تو اس عالمِ ہستی سے گزر جانا ہے
آج کی رات تری بزم میں ہم اور سہی
ساحر لکھنوی​
 

زیرک

محفلین
75 لاکھ ترک ڈرامہ ارطغل غازی دکھانے پر کیونکہ یہ نئے دور کے محمد شاہ رنگیلے کی خواہش ہے

نئی حد بندیاں ہونے کو ہیں آئینِ گلشن میں
کہو بلبل سے اب انڈے نہ رکھے آشیانے میں
جو ارزاں ہے تو ہے ان کی متاع آبرو، ورنہ
ذرا سی چیز بھی بے حد گراں ہے اس زمانے میں
پچھتر لاکھ اک بے کار مد میں صرف کر دیں گے
رعایا کے لیے کوڑی نہیں جن کے خزانے میں​
 

زیرک

محفلین
رستہ کوئی واضح ہے، نہ منزل کا نشاں ہے
سب نفع کے پیچھے ہیں یہی سب کا زیاں ہے
سونے کی نظر ہے یہاں پیسے کی زباں ہے
ارزاں ہے کوئی چیز تو اک خوابِ گراں ہے​
 

زیرک

محفلین
تمہیں بھی ضد ہے کہ مشق ستم رہے جاری
ہمیں بھی ناز کہ جور و جفا کے عادی ہیں
تمہیں بھی زعم "مہا بھارتا لڑی تم نے"
ہمیں بھی فخر کہ ہم" کربلا" کے عادی ہیں​
 

زیرک

محفلین
روزِ محشر خراب مت کیجو
اور مجھ کو عذاب مت دیجو
تیرے بندوں نے گِن لیا سب کچھ
تُو، الٰہی! حساب مت لیجو​
 

زیرک

محفلین
فقط خدا کو ہے معلوم کون کیسا ہے؟
کسی کے بس کا نہیں روگ نیک و بد کا قیاس
اگر گناہ میں ہوتی ذرا سی بھی بدبو
تو بیٹھ سکتے نہ ہم ایک دوسرے کے پاس
فیض لدھیانوی​
 

زیرک

محفلین
اندھیرے پانی سے کچھ راز کہہ رہا ہو گا
کنویں میں جھانک رہا ہے نجانے کب سے کوئی
نمازِ شب میں کوئی یاد آ گیا ہے اسے
سکوت اوڑھ کے بیٹھا ہے نیم شب سے کوئی
فیصل ہاشمی​
 

زیرک

محفلین
ذرا سا ٹوٹ گیا آئینہ کنارے سے
جھلک رہا ہے نیا رنج استعارے سے
وہ آنکھ جس کے لیے میں اداس رہتا ہوں
بھری ہوئی ہے کسی اور ہی نظارے سے
فیصل ہاشمی​
 

زیرک

محفلین
اب کبوتر فاختائیں جا چکی ہیں گاؤں سے
اے خداوند! پیڑ کی اور بستیوں کی خیر ہو
رات ہے بابر کھڑی سیلاب کا بھی زور ہے
ساحلوں کی مانجھیوں کی کشتیوں کی خیر ہو

احمد سجاد بابر​
 

زیرک

محفلین
جاگتی شب خدا حافظ
جا چکے سب خدا حافظ
دشت مجھ کو بلاتا ہے
زندگی! اب خدا حافظ

احمد سجاد بابر​
 

زیرک

محفلین
لباسِ جاں بدل کے دیکھتے ہیں
چلو خود سے نکل کر دیکھتے ہیں
سبھی جس آگ میں ہوتے ہیں میلے
اسی میں ہم اُجل کر دیکھتے ہیں

شائستہ سحر​
 
Top