محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
اسرار الحق مجاز کی بہن اور جاں نثار اختر کی شریکِ حیات کے خطوط اختر کے نام اب اردو ادب کا حصہ ہیں۔ ان کے دو مجموعے شائع ہوئے۔ حرفِ آشنا اور زیرِ لب۔ آج زیرِ لب درمیان سے کھولی اور ایک خط پڑھنا شروع کیا تو اسے نظم میں ڈھال دیا۔ اساتذہ اور محفلین سے درخواست ہے کہ نہ صرف اس کی اصلاح کریں بلکہ اللہ تعالیٰ سے ہمارے حق میں دعا بھی فرمائیں کہ یہ ایک ترجمہ ایک نئے پراجیکٹ کا آغاز ثابت ہو۔ آمین
زیرِ لب
صفیہ اختر کا ایک خط جاں نثار اختر کے نام
منظوم : محمد خلیل الرحمٰن
پیارے اختر!،
کل ہی تُم کو خط لکھا ہے،
دل تمہاری خیریت میں ہی لگا ہے،
نظم پڑھ لی انجمن میں؟،
یہ غزل جو تُم نے لکھی ہےتمہارے دور سے دو سو برس پہلے کے شاعر کا تغزل لگ رہا ہے،
بیٹھے بیٹھے یہ تمہیں کیا سوجھتی ہے؟،
پھر بھی اس کے بعض شعروں کا ( کہوں گی) مجھکو جیسے چبھ گئے ہیں،
ایسا لگتا ہے کہ میرے ہی کہے کو تُم نے شعروں میں پرویا،
آج کل تو گھر بھرا ہے،
یوں نثار اور جاروے سے آیا لڑکا اور شمیم اپنے سبھی باہر کے کمرے کو سجا رکھے ہوئے ہیں،
اور اِدھر منی علیگڑھ جانے پر اصرار کرتی جارہی ہے،
چاہتی ہوں جس طرح ہو بس وہ بے فکری سے پڑھ لے،
دیکھو ( کیا ہو)۔۔۔،
سلسلہ بچوں کی بیماری کا چلتا ہی چلا جائے ہے اختر!،
میری ساری زندگی کیا یوں ہی ناکامی میں گزرے گی ہمیشہ؟،
خدمتیں میری تمہارے واسطے ہوں گی کبھی یا ،
دور ہی سے میں تمہیں پوجا کروں گی؟،
دور ہی سے تُم مجھے (آغوش میں اپنی) بُلانے کے اشارے ہی کرو گے؟،
آج پانی اس طرح برسا ہے گویا پھر نہ برسے گا کبھی بھی،
آگ برہا کی تو ایسے ہی بھڑک اُٹھتی ہے میرے دوست( پیارے)
زیرِ لب
صفیہ اختر کا ایک خط جاں نثار اختر کے نام
منظوم : محمد خلیل الرحمٰن
پیارے اختر!،
کل ہی تُم کو خط لکھا ہے،
دل تمہاری خیریت میں ہی لگا ہے،
نظم پڑھ لی انجمن میں؟،
یہ غزل جو تُم نے لکھی ہےتمہارے دور سے دو سو برس پہلے کے شاعر کا تغزل لگ رہا ہے،
بیٹھے بیٹھے یہ تمہیں کیا سوجھتی ہے؟،
پھر بھی اس کے بعض شعروں کا ( کہوں گی) مجھکو جیسے چبھ گئے ہیں،
ایسا لگتا ہے کہ میرے ہی کہے کو تُم نے شعروں میں پرویا،
آج کل تو گھر بھرا ہے،
یوں نثار اور جاروے سے آیا لڑکا اور شمیم اپنے سبھی باہر کے کمرے کو سجا رکھے ہوئے ہیں،
اور اِدھر منی علیگڑھ جانے پر اصرار کرتی جارہی ہے،
چاہتی ہوں جس طرح ہو بس وہ بے فکری سے پڑھ لے،
دیکھو ( کیا ہو)۔۔۔،
سلسلہ بچوں کی بیماری کا چلتا ہی چلا جائے ہے اختر!،
میری ساری زندگی کیا یوں ہی ناکامی میں گزرے گی ہمیشہ؟،
خدمتیں میری تمہارے واسطے ہوں گی کبھی یا ،
دور ہی سے میں تمہیں پوجا کروں گی؟،
دور ہی سے تُم مجھے (آغوش میں اپنی) بُلانے کے اشارے ہی کرو گے؟،
آج پانی اس طرح برسا ہے گویا پھر نہ برسے گا کبھی بھی،
آگ برہا کی تو ایسے ہی بھڑک اُٹھتی ہے میرے دوست( پیارے)
بھوپال
۲۸ جولائی ۱۹۵۰
اختر عزیز!
کل ایک خط لکھ چکی ہوں، تمہاری خیریت میں دل لگا ہے۔ نظم پڑھی تُم نے انجمن میں؟ کیسی رہی؟
غزل جو تُم نے لکھی ہے، تمہارے زمانے سے کم سے کم دوسو برس پہلے والے شاعر کا رنگِ تغزل ہے۔ یہ بیٹھے بیٹھے تمہیں کیا سوجھتی ہے؟ پھر بھی اس کے بعض اشعار مجھے بہت چبھ گئے۔ ایسا معلوم ہوا کہ میری ہی کہی ہوئی بات کو تُم نے شعر میں پرودیا ہے۔
آج کل گھر پوری طرح بھرا ہوا ہے۔ نثار، شمیم اور جاورے سے آیا ہوا لڑکا سب باہر کے کمرے کو آباد رکھتے ہیں۔ منی علیگڑھ جانے کی تجویز پیش کرتی رہتی ہے۔ گوالیار کی ملازمت کے لیے بھی کوشاں ہے۔ غرضیکہ طرح طرح کی خلشیں پیدا کرلیتی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ جس طرح ہو ، وہ بے فکر ہوکر پڑھ سکے، دیکھو۔۔ نثار کا نتیجہ اکتیس کو نکلے گا۔
بچوں کی بیماری کا سلسلہ چلا ہی جاتا ہے۔ اختر! کیا میری تمام زندگی یونہی ناکام سی گزرے گی؟ میری خدمتیں تمہارے لیے کبھی وقف نہ ہوں گی؟ میں دور ہی سے تُم کو پوجا کروں گی اور دور ہی سے تُم مجھے پاس آنے کے اشارے کرتے رہو گے؟
آج پانی اِس طرح برس رہا ہے گویا پھر نہ برسے گا۔ برہ کی آگ تو ایسے میں بھی بھڑک اٹھتی ہے دوست!
تمہاری صفیہ
آخری تدوین: