سید علی رضوی
محفلین
زندگی
[FONT=Helvetica, sans-serif]-----------------------------[/FONT]
بدن کے قفس میں سنوارے گئے
خدا کی زمیں پر اتارے گئے
بھلے زلف ماں کی پریشاں رہی
مرے نین نقشے نکھارے گئے
ہماری خوشی کا بھی سوچا گیا
سبھی ہم پہ وارے نیا رے گئے
ہنر زندگی کا سکھایا گیا
مرے آج کل بھی سنوارے گئے
جو اچھا برا تھابتایا گیا
الگ بات پھر ہم بگاڑے گئے
جی اک دلربا سے ہمیں عشق تھا
سو اس کی گلی مارے مارے گئے
وہ بانہوں میں ڈالی گئی چوڑیاں
تو مانگوں میں اسکے ستارے گئے
جوانی میں مجنوں دوانے رہے
کئی نام سے ہم پکارے گئے
وہ شعلہ جوانی تھی رخصت ہوئی
جوباقی تھے دل میں شرارے گئے
تھا ماضی کا منظر بھی اک خواب سا
پڑی دھند پھر وہ نظارے گئے
بڑے ہی بہادر رہے رہنما
مرے نام کے جھنڈے گاڑے گئے
پڑا بوجھ ایسا کہ گئی عاشقی
ذہن سے وہ قصے ہمارے گئے
تراوٹ مرے آنکھوں کی چل بسی
جو رہتے تھے تر وہ کنارے گئے
وہ بھی وقت آیا کہ ہم چل بسے
جہاں سے تھے آئے سدھارے گئے
قفس سے قفس تک کا تھا اک سفر
سو ہم پھر لحد میں اتارے گئے
مری ماں سنبھالو نا پھر سے مجھے
مری ماں ترے ہم دلارےگئے