زندگی



زندگی

[FONT=Helvetica, sans-serif]-----------------------------[/FONT]
بدن کے قفس میں سنوارے گئے
خدا کی زمیں پر اتارے گئے

بھلے زلف ماں کی پریشاں رہی
مرے نین نقشے نکھارے گئے

ہماری خوشی کا بھی سوچا گیا
سبھی ہم پہ وارے نیا رے گئے

ہنر زندگی کا سکھایا گیا
مرے آج کل بھی سنوارے گئے

جو اچھا برا تھابتایا گیا
الگ بات پھر ہم بگاڑے گئے

جی اک دلربا سے ہمیں عشق تھا
سو اس کی گلی مارے مارے گئے

وہ بانہوں میں ڈالی گئی چوڑیاں
تو مانگوں میں اسکے ستارے گئے

جوانی میں مجنوں دوانے رہے
کئی نام سے ہم پکارے گئے

وہ شعلہ جوانی تھی رخصت ہوئی
جوباقی تھے دل میں شرارے گئے

تھا ماضی کا منظر بھی اک خواب سا
پڑی دھند پھر وہ نظارے گئے

بڑے ہی بہادر رہے رہنما
مرے نام کے جھنڈے گاڑے گئے



پڑا بوجھ ایسا کہ گئی عاشقی
ذہن سے وہ قصے ہمارے گئے


تراوٹ مرے آنکھوں کی چل بسی
جو رہتے تھے تر وہ کنارے گئے

وہ بھی وقت آیا کہ ہم چل بسے
جہاں سے تھے آئے سدھارے گئے

قفس سے قفس تک کا تھا اک سفر
سو ہم پھر لحد میں اتارے گئے

مری ماں سنبھالو نا پھر سے مجھے
مری ماں ترے ہم دلارے
گئے
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ اچھی ہے غزل، کم ہی اغلاط ہیں۔ البتہ فانٹ منےخب کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہاں ڈفالٹ فانٹ میں ہی نستعلیق آتا ہے۔ اب نسخ میں نظر آ رہی ہے،
بدن کے قفس میں سنوارے گئے
خدا کی زمیں پر اتارے گئے
۔۔درست۔ اگرچہ بہت واضح نہیں۔

بھلے زلف ماں کی پریشاں رہی
مرے نین نقشے نکھارے گئے
÷÷÷درست محاورہ نین نقش ہوتا ہے میرے علم کے مطابق۔ اسی طرح محض ’بھلے‘ کی جگہ درست ’بھلے ہی‘ پوتا ہے۔
ہماری خوشی کا بھی سوچا گیا
سبھی ہم پہ وارے نیا رے گئے
÷÷÷ یہ بھی واضح نہیں کہ کس نے سوچا؟ ویسے درست ہے۔
ہنر زندگی کا سکھایا گیا
مرے آج کل بھی سنوارے گئے
÷÷÷ ’مرے‘ سنوارے گئے واضح نہیں۔

جو اچھا برا تھابتایا گیا
الگ بات پھر ہم بگاڑے گئے
÷÷ محاورہ ’یہ الگ بات‘ ہوتا ہے، نہ کہ صرف ’الگ بات‘

جی اک دلربا سے ہمیں عشق تھا
سو اس کی گلی مارے مارے گئے
÷÷÷درست محاورہ مارے مارے پھرے تو درست ہے، لیکن مارے مارے گئے نہیں۔
وہ بانہوں میں ڈالی گئی چوڑیاں
تو مانگوں میں اسکے ستارے گئے
÷÷ وہ کی بجائے ’جو‘ بہتر ہو گا۔
جو بانہوں میں۔۔۔

جوانی میں مجنوں دوانے رہے
کئی نام سے ہم پکارے گئے
÷÷÷ یہ بھی واضح نہیں

وہ شعلہ جوانی تھی رخصت ہوئی
جوباقی تھے دل میں شرارے گئے
÷÷÷درست

تھا ماضی کا منظر بھی اک خواب سا
پڑی دھند پھر وہ نظارے گئے
÷÷÷واضح نہیں
بڑے ہی بہادر رہے رہنما
مرے نام کے جھنڈے گاڑے گئے
÷÷÷ یہ بھی تضاد لگ رہا ہے۔


پڑا بوجھ ایسا کہ گئی عاشقی
ذہن سے وہ قصے ہمارے گئے
÷÷÷ گئی کو دو حرفی باندھنا غلط ہے۔ ذہن بھی بر وزن درد ’فعل‘ درست ہے۔ بر وزن فَ عَ ل درست نہیں

تراوٹ مرے آنکھوں کی چل بسی
جو رہتے تھے تر وہ کنارے گئے
÷÷÷کنارے کیسے جا سکتے ہیں، ان کی تری گئی ہو گی!!!

وہ بھی وقت آیا کہ ہم چل بسے
جہاں سے تھے آئے سدھارے گئے
÷÷دوسرا مصرع واضح نہیں۔ یہ’سِِدھارے‘ ہونا چاہئے۔ اس کے ساتھ ’گئے‘ استعمال نہیں کیا جاتا۔
قفس سے قفس تک کا تھا اک سفر
سو ہم پھر لحد میں اتارے گئے
÷÷÷درست
مری ماں سنبھالو نا پھر سے مجھے
مری ماں ترے ہم دلارےگئے
÷÷÷شتر گربہ ہے ۔ اگر ماں سے تو سے مخاطب ہیں تو ’سنبھالُ ہونا چاہیے، سنبھالو نہیں۔ شعر بھی کوئی خاص نہیں
 
Top