زندگی

عمر سیف

محفلین
دشمنوں نے مجھ کو سمجھا اپنی اپنی سوچ تک
دوستوں نے اپنے اپنے ظرف تک پایا مجھے
میں تر و تازہ ہوں شاخِ زندگی پر دیکھ لے
حادثوں کی دھوپ تُو نے سُلگایا مجھے
 

عمر سیف

محفلین
اسکے ہجر میں چپکے سے مر گئے ہم
تھی کمال وابستگی دل کو اس آدمی کے ساتھ
گر جیتے کچھ دن اور تو دکھاتے نبھا کر بھی
وہ زندگی کی بات تھی،گئی زندگی کے ساتھ
 

عیشل

محفلین
اگر رہنا ہے گلشن میں تو اپنے آشیانے کی
کبھی تخریب بھی ہوگی،کبھی تعمیر بھی ہوگی
یہ ہم جانتے ہیں،زندگی اک خواب ہے افسر
مگر اس خواب کی آخر کوئی تعبیر بھی ہوگی
 

شمشاد

لائبریرین
بتائیں کیا تمہیں گذری ہے زندگی کیسی
کہو سکون کی صورت تو وہ کبھو نہ رہی
(سرور عالم راز سرور)
 

عیشل

محفلین
سوچوں کے افق پر بھی بسیرا تھا کسی کا
ہم یونہی بلندی پہ مکاں ڈھونڈنے آئے
لرزیدہ ہوں پتّے کی طرح زیست کی ٹہنی پر
اور تیز ہوا میرا پتا پوچھنے آئے
 

شمشاد

لائبریرین
سرور کو خامشی ہی پیامِ حیات ہے
کچھ کہہ کے زندگی کو پشیماں نہ کیجئے
(سرور عالم راز سرور)
 

شمشاد

لائبریرین
بس یہی حسرت رہی ہر دم دلیلِ زندگی
جو ملے تجھ سے ملے جتنا ملے جیسا ملے
(سرور عالم راز سرور)
 
Top