زمیں کو آسماں لکھتا سماں کو کہکشاں لکھتا

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
زمیں کو آسماں لکھتا سماں کو کہکشاں لکھتا
مرے دل کی ہے مرضی میں حقیقت کو گماں لکھتا

سمندر سے کنارے تک کنارے کے نظارے تک
ہے جتنے غم میں ان غم کی کہی اک داستاں لکھتا

مرا ایک یار رہتا ہے سمندر کے کنارے پر
مرے بس میں اگر ہوتا تجھے راجا یہاں لکھتا

مرے بس میں نہیں ایسا مگر سب لوگ کہتے ہیں
تو شاعر بن گیا ہوتا غزل کوئی یہاں لکھتا

مجھے اب شان شوکت کا نہیں ہے شوق ہوتا تو
میں اپنے نام خرم کو یہاں لکھتا وہاں لکھتا


سر جی ایک اور غزل آپ کی اصلاح کے لیے تیار ہے شکریہ
 

زھرا علوی

محفلین
--------------------------------------------------------------------------------

زمیں کو آسماں لکھتا سماں کو کہکشاں لکھتا
مرے دل کی ہے مرضی میں حقیقت کو گماں لکھتا


زبردست:)
 

ایم اے راجا

محفلین
اعجاز صاحب پوسٹمارٹم میں ذرا خیال کیجیئے گا، اس غزل میں ہمارا نام شامل ہے، اور ہم پہلے سے ہی بیمار اور دردوں سے چور ہیں:)
 

الف عین

لائبریرین
ان باتوں پر میرا دھیان گیا تھا وارث، لیکن سوچا تھا کہ بعد میں جب اس کو تفصیل سے لوں تو مکمل رائے دوں گا اس کے ہر شعر پر۔
 

الف عین

لائبریرین
حاضر ہے اصلاح یا پوسٹ مارٹم یا سرجری۔۔ جو بھی کہو:


زمیں کو آسماں لکھتا سماں کو کہکشاں لکھتا
مرے دل کی ہے مرضی میں حقیقت کو گماں لکھتا
’سماں‘ کا کیا محل ہے یہاں؟ زمیں آسمان کی نسبت سے یہاں کہکشاں کے مطابق کچھ ہونا چاہیے۔ مجبوراً میں اسے فلک کر رہا ہوں ایک امکان میں۔
زمیں کو آسماں لکھتا فلک کو کہکشاں لکھتا
ہاں یوں کہو تو بہتر ہے:
میں کہتا عرش کو فرش اور زمیں کو آسماں لکھتا
یا
فلک کو فرش کہتا یا زمیں کو آسماں لکھتا
مرے دل کی ہے مرضی میں حقیقت کو گماں لکھتا


سمندر سے کنارے تک کنارے کے نظارے تک
ہے جتنے غم میں ان غم کی کہی اک داستاں لکھتا

مطلب واضح نہیں ہوا۔ اس کو پھر کہو الفاظ بدل کر

مرا ایک یار رہتا ہے سمندر کے کنارے پر
مرے بس میں اگر ہوتا تجھے راجا یہاں لکھتا

یہاں ’ایک‘ نہیں ’اک‘ تقطیع میں آتا ہے۔ پہلا مصرع تو رواں ہے، لیکن دوسرا مصرعہ واضح نہیں، قافیہ ’یہاں‘ کا کیا محل ہے؟ دوسرا مصرع دوسرا کہو تو سوچا جائے۔

مرے بس میں نہیں ایسا مگر سب لوگ کہتے ہیں
تو شاعر بن گیا ہوتا غزل کوئی یہاں لکھتا

یہ بھی واضح نہیں، ’یہاں‘ محض قافیہ ہے یا مطلب بھی نکلتا ہے یہاں کا؟

مجھے اب شان شوکت کا نہیں ہے شوق ہوتا تو
میں اپنے نام خرم کو یہاں لکھتا وہاں لکھتا
یہاں ’اب‘ حشو نہیں ہے؟ یعنی پہلے تھا شوق؟ یوں بھی یہاں شان و شوکت نہیں شہرت کا محل ہے:
مجھے کچھ شوقِ شہرت تو نہیں ، ہوتا بھی جو خرم
ہزاروں طرح نام اپنا یہاں لکھتا وہاں لکھتا
ویسے دوسرے ،مصرعے میں میرا ارادہ ’طرح طرح سے‘ تھا لیکن کچھ درست بن نہیں پایا۔ میں بھی خود مطمئن نہیں ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
کیا کہکشاں کا قافیہ لانا فرض ہے؟ اسی کی بات کر رہے ہو نا خرم؟
محبوب کی مسکراہٹ کا لکھ دو۔ والد مرحوم ایک شعر یاد آ گیا۔

فلک پہ چھائی ہوئی ہے جو کہکشاں کی لکیر
ترے حسین تبسم کا استعارہ ہے
صادق اندوری
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
کہکشاں کی بات نہیں‌کر رہا سر میں‌ ”یہاں“ کی بات کر رہا ہوں کیوں کے ”یہاں“ کا مطلب نہیں‌ بن رہا نا اس لے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
فلک کو فرش کہتا یا زمیں کو آسماں لکھتا
مرے دل کی ہے مرضی میں حقیقت کو گماں لکھتا

سمندر سے کنارے تک کنارے کے نظارے تک
ہے جتنے غم میں ان غم کی کہی اک داستاں لکھتا

(مجھے اور کچھ نہیں ملا سر جی ویسے میں کہنا چاہتا ہوں جب انسان اداس ہوتا ہے تو اس کو ہر جگہ دکھ ، غم اور پرشانی ہی نظر آتی ہے اس لیے میں نے یہ لکھا ہے)

مجھے لکھنا نہیں آتا اگر آتا تو پھر اک دن
میں تیرے نام راجا جی غزل کا ایک جہاں لکھتا

مرے بس میں نہیں ایسا مگر سب لوگ کہتے ہیں
تو شاعر بن گیا ہوتا غزل کوئی وہاں لکھتا

مجھے کچھ شوقِ شہرت تو نہیں ، ہوتا بھی جو خرم
ہزاروں طرح نام اپنا یہاں لکھتا وہاں لکھتا
 
Top