حسیب نذیر گِل
محفلین
از:جمیل خان
اپنی روزمرہ زندگی میں ہم جو الفاظ استعمال کرتے ہیں وہ اپنے اندر معانی کے اعتبار سے اکثر مختلف مفاہیم کے حامل ہوتے ہیں لیکن ہمارا مخاطب الفاظ کے اس مفہوم پر ہی اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے، جسے ہم اپنی گفتگو کے ذریعے اس پر عیاں کرنا چاہتے ہیں۔ دیگر زبانوں کی طرح اردو زبان میں بھی ایسے بے شمار الفاظ ہیں، جن میں دو بالکل مختلف مفہوم پوشیدہ ہیں۔
اپنی روزمرہ زندگی میں ہم جو الفاظ استعمال کرتے ہیں وہ اپنے اندر معانی کے اعتبار سے اکثر مختلف مفاہیم کے حامل ہوتے ہیں لیکن ہمارا مخاطب الفاظ کے اس مفہوم پر ہی اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے، جسے ہم اپنی گفتگو کے ذریعے اس پر عیاں کرنا چاہتے ہیں۔ دیگر زبانوں کی طرح اردو زبان میں بھی ایسے بے شمار الفاظ ہیں، جن میں دو بالکل مختلف مفہوم پوشیدہ ہیں۔
مثال کے طور پر شیر اور شیر یعنی ‘‘شیر’’ حیوانات کی ممالیہ قسم سے تعلق رکھنے والا ایک درندہ۔ جس سے ہرایک خوفزدہ رہتا ہے اور ‘‘شیر’’ بمعنی دودھ جو انسانی صحت کے لیے نہایت مفید اور ضروری غذائی شئے ہے۔
‘‘آب’’ کے ایک معنی پانی کے ہیں جو انسانی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے نہایت ضروری قدرتی نعمت ہے، جس کے بغیر انسانی زندگی کا تصور بھی محال ہے اور ‘‘آب’’کے ایک دوسرے معنی چمک کے بھی ہیں جیسے خنجر آبدار۔
لفظ ‘‘پا’’ سے پیر Foot بھی مراد لیا جاتا ہے اور لفظ ‘‘پا’’ قوت و مضبوطی کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔
کان انسانی جسم کے ایک ایسے عضو کو بھی کہتے ہیں جو سماعت کا کام کرتا ہے اور کان یعنی Mine پہاڑوں میں معدنیات حاصل کرنے کی جگہ کو بھی کہا جاتا ہے۔
‘‘گنج ’’ کے لفظ سے ذہن میں خزانے کا تصور بھی اُبھرتا ہے جسے حاصل کرنے کے لیے ہر ایک بے قراردکھائی دیتا ہے لیکن ایک ‘‘گنج’’ ایسا بھی ہے جس سے ہر ایک دور بھاگتا ہے اور وہ گنج ایسے مرض کا نام ہے جس میں مبتلا افراد اپنے سر کے بالوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔
‘‘سیر’’ کے معنی بے زار اوردل برداشتہ ہونے کے بھی ہیں، سولہ چھٹانک یا اسّی تولے کا مجموعہ بھی ‘‘سیر’’ کہلاتا ہے، سیر زیر کاشت اراضی کو بھی کہتے ہیں، سیر لہسن کو بھی کہتے ہیں اور سیر کا ایک ساتواں رُخ یہ بھی ہے کہ سیر، سیرت کی جمع ہے۔
بیرایک پھل کو بھی کہتے ہیں جسے اکثر لوگ بہت شوق سے کھاتے ہیں لیکن بیرسے مراد کینہ اور عداوت بھی ہے جس کو سب ناپسند کرتے ہیں۔نو ریاضی کے سب سے بڑے عدد 9 کو کہتے ہیں اور ‘‘نو’’ کے معنی نئے اورجدید کے بھی ہیں۔
سیاہی کے معنی کالک کے بھی ہیں اور قلم میں استعمال کی جانے والی روشنائی کے بھی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ‘‘سیاہی’’ کے معنی تاریکی اور اندھیرا بھی ہیں۔
‘‘لت’’ بری عادت، خصلت اور علّت کو کہتے ہیں لیکن ‘‘لت’’ لات کا بھی مخفف ہے جیسے دولتّی۔
مذکورہ بالا چند مثالیں ہم نے اردو کے وسیع ذخیرہ الفاظ سے پیش کی ہیں لیکن ایسے الفاظ کثیر تعداد میں موجود ہیں جواپنے اندرایک سے زیادہ مختلف معنی رکھتے ہیں۔ اردوزبان ہو یا دنیا کی کوئی بھی زبان اس میں موجود حروف کے باہم اتصال سے جو لفظ یا جملے تشکیل پاتے ہیں، وہ دراصل معانی اور مفاہیم کو ہمارے ذہنوں میں اُجاگر کرنے کا ذریعہ ہیں۔
اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ الفاظ علم کی کسی کرن کو ہمارے ذہن میں روشن کرنے کا ایک واسطہ ہیں۔
اب آئیے ایک تجربہ کرتے ہیں:
اپنے کسی دوست سے کہیے کہ وہ آپ کے سامنے لفظ ‘‘درخت’’ کہے یا پھر آپ اپنے دوست کے سامنے لفظ ‘‘درخت’’ کو دہرائیے۔اب آپ اپنے دوست سے دریافت کیجیے کہ کیا اس کے ذہن میں چار حرف ‘‘د ر خ ت’’ کا تصور اُبھرا ہے؟
ہمیں یقین ہے کہ وہ آپ کی بات کا جواب نفی میں دے گا، وہ آپ سے کہے گا کہ اس کے ذہن میں مضبوط تنے اور سرسبز پتوں سے لہلہاتے درخت کا ایک خوشگوار تاثر اپنے بھرپور خدوخال کے ساتھ قائم ہواہے۔
فرض کریں ایک ایسا شخص جس نے اپنی ساری زندگی میں درخت کا مشاہدہ نہ کیا ہو، عین ممکن ہے کہ وہ اس تجربے کے دوران درخت کے چار حرفی مجموعے ‘‘د ر خ ت’’ کو ہی اپنے ذہن میں اُبھرتا پائے اور وہ بھی صرف اسی صورت میں کہ وہ پڑھا لکھا ہو، اس لیے کہ ان پڑھ کے ذہن میں چار حرفوں سے بننے والے لفظ کا تصور بھی نہیں اُبھر سکے گا۔
یوں ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ الفاظ سے زیادہ اس مفہوم کی اہمیت ہے جو الفاظ کے حوالے سے مخصوص ہوگیا ہے۔ اگر ہم کسی لفظ کے پوشیدہ مفہوم یا علم سے واقف نہیں ہیں تو ہمارے لیے اس لفظ کی حیثیت بے جان ہے اور ہم اس سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔
یہ حقیقت ہے کہ انسان اپنے علم کی بنیاد پر ہی کسی چیز کے بارے میں اندازے قائم کرتا ہے۔ مذکورہ بالا مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی پہاڑی مقام پر مقیم ایک ایسا شخص جو زندگی بھر اپنی سرسبز وادی سے باہر ہی نہ نکلا ہو، اس کے سامنے درخت کا لفظ دہرایا جائے گا تو اس کے ذہن میں ابھرنے والا درخت وہی ہوگا جو اس کی سرسبز وادی میں پایا جاتا ہے۔ جبکہ ریتیلے، بنجر اور بے آب وگیاہ صحرامیں مقیم ایسا شخص جس نے کبھی صحرائی حدود سے باہر قدم نہ رکھا ہو، اس کے سامنے جب ‘‘درخت’’ کہا جائے گا تو صحرائی باشندے کے ذہن میں اُبھرنے والا درخت ایک خاردار جھاڑی سے زیادہ نہیں ہوگا۔
صحرائی باشندے کے ذہن میں سرسبز اور ہرے بھرے درخت کا تصور اُبھر ہی نہیں سکتا، کیوں کہ اس کی ساری زندگی کے علم میں ایسے درخت کا وجود نہیں ہے۔
تقریباً ڈیڑھ سوسال قبل جب ٹرین کی کارکردگی کا مظاہرہ پہلی مرتبہ عام افراد کے سامنے کیا گیا تو چونکہ ان لوگوں نے اپنی زندگی میں ایسی حیرت انگیز چیزکا مشاہدہ نہیں کیا تھا اس لیے اس کا نام ‘‘لوہے کا گھوڑا’’ Iron Horse رکھ دیا۔ اسی طرح عام انسانوں نے جب پہلی مرتبہ ہوائی جہاز کو فضا میں پرواز کرتے دیکھا تو کہا کہ یہ‘‘لوہے کی چڑیا’’ Iron Bird ہے۔ایسا صرف اس لیے ہوا کہ عوام کے دائرہ معلومات میں ہوائی جہاز یا ٹرین کا تصور موجود نہیں تھا۔
جب پہلی مرتبہ ٹرین چلائی گئی تو بہت سے لوگوں نے پہلے سے پروپیگنڈا شروع کردیا تھا کہ اس قدر بھاری بھرکم انجن ٹرین کے ڈبّوں کے ہمراہ دوڑے گا تو زمین کی پرتیں لرزنے لگیں گی اور زلزلہ آجائے گا، زلزلہ نہ آیا تو کم از کم ارد گرد کے مکانات اور عمارتیں تو ضرور گر جائیں گی۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت تجرباتی طورپر چلائی جانے والی ٹرین کی رفتار کیا ہوگی؟
صرف دس کلومیٹر فی گھنٹہ۔
جی ہاں، صرف دس کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار پر اس قدر واویلا کیا جا رہاتھا۔ پھر اس تجرباتی ٹرین میں بیٹھنے کے لیے کوئی تیار نہ تھا، شہر کے معززین کو دعوت نامے دیے گئے اور ان سے گزارش بھی کی گئی کہ آپ لوگ اس تجرباتی ٹرین میں سوار ہوں گے تو لوگوں کا خوف دور ہوسکے گا۔
پھر جب ٹرین دس کلومیٹر کی رفتار سے رینگتی ہوئی آگے بڑھی تو جانتے ہیں کہ کیا ہوا تھا؟
لوگوں نے دعائیں پڑھنا شروع کردی تھیں، خواتین نے یوں آنکھیں بند کرلی تھیں گویا متوقع موت کے لیے تیار ہوں۔ کچھ لوگوں پر خوف کا اس قدر غلبہ ہوا کہ انہوں نے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگادی۔
آج ٹرین کی زیادہ سے زیادہ رفتار 350 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔
اسی طرح سلائی مشین کے موجد کے خلاف زبردست پروپیگنڈا کیا گیا تھا۔ ہاتھ سے سلائی کرنے والے درزی تو اس کی جان کے ہی درپے ہوگئے تھے۔
جی ای سی ویکفیلڈ (George Edward Campbell Wakefield) جنہوں نے 1892ء تا 1942ء کا درمیانی عرصہ ہندوستان میں گزارا، اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ :
‘‘حیدرآباد دکن میں ایک بہت بڑے رئیس تھے، جن کے متعلق شہرت تھی کہ وہ ایک کروڑ روپے کی آسامی ہیں۔ موصوف نہایت کنجوس واقع ہوئے تھے۔ ایک دن دیکھا گیا کہ وہ اپنی گاڑی میں بیٹھے سیر فرمارہے ہیں۔ چند دن بعد وہ گاڑی پھر کبھی سڑکوں پر نظر نہیں آئی ۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ جونہی پٹرول کی پہلی مقدار ختم ہوئی تو ڈرائیور نے پٹرول کے پیسے طلب کیے، جس پر بوڑھے سیٹھ نے برافروختہ ہوکر کہا:
’’ہم نے تو یہ گاڑی اس لیے خریدی تھی کہ اُسے گھوڑوں کی طرح چارہ نہیں کھلانا پڑے گا، اب ہمیں اِس کا کیا فائدہ ؟ بند کرو جی اسے تالے میں۔‘‘
ویکفیلڈ مزید لکھتے ہیں کہ:
‘‘کاروں کے سلسلے میں مجھے ایک واقعہ اور یاد آگیا ہے۔ ایک حاکم ضلع نے سنایا تھا کہ جب وہ اپنے دورے کے دوران ایک ایسے گاؤں میں وارد ہوئے ، جہاں کسی نے اس سے پہلے موٹر نہیں دیکھی تھی۔ چونکہ ریڈی ایٹر کا پانی کھول گیا تھا ، اس لیے انہوں نے گاؤں کے نمبردار سے پانی مانگا، کچھ دیر بعد گردن موڑ کر دیکھا تو موٹر کے سامنے پانی اور ہری ہری گھاس کا گٹھا بھی رکھا ہوا تھا۔’’
اسی طرز کا ایک واقعہ یہ ہے کہ امریکہ میں جب نئی نئی بجلی آئی تو امریکہ کے وہائٹ ہاؤس میں بھی فراہم کی گئی۔ امریکہ کے نویں صدر بنجمن ہیریسن اور ان کی اہلیہ بجلی سے بہت ڈرتے تھے۔ انہیں سوئچ چھونے کی ہمت بھی نہیں ہوتی تھی۔ وہ سونے کے لیے لیٹتے تھے تو کمرے کا بلب ملازم آف کرتا تھا، جس روز کوئی خادم موجود نہ ہوتا تو وہ بلب آف کیے بغیر ہی سوجاتے تھے۔
ان واقعات میں جو بنیادی نکتہ مشترک ہے، وہ یہ ہے کہ ایسے لوگ جن کی شعوری استعداد محدود ہوتی ہے، وہ نئی اختراع، نئے نظریات یا نئی ایجادات کو قبول کرنے میں تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی شعور کی تشکیل ماحول کی مطابق ہوتی ہے۔
بات الفاظ کے پس پردہ ان کی معنوی حقیقت کی ہورہی تھی ،جس طرح ہم ‘‘شیر’’ اور ‘‘شیر’’کے فرق سے واقف ہیں یعنی اس کی حقیقت کو جانتے ہیں اور شیر بمعنی درندہ اور شیر بمعنی دودھ کے ہی سمجھتے ہیں اور مخاطب کے بیان کو اس کے مفہوم کی صورت میں ہی قبول کرتے ہیں۔
اسی طرح زندگی کے تمام معاملات ہم سے اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہم ان کی بنیادی حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں،کیونکہ پس پردہ حقائق کو سمجھے بغیران کی حیثیت ایک بے جان شئے کی مانند ہوگی۔
یہ بات ہم جانتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی جس طرزفکر اور سوچ کے تحت گزارتا ہے، اس کے اعمال اسی کے تحت انجام پاتے ہیں، طرزفکر اور سوچ ہی شخصیت اور کردار کو تشکیل دیتی ہے۔
آیئے اس نکتے کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں ۔
فرض کریں کہ آپ کا ایک دولت مند دوست آپ کو نہایت قیمتی تحفہ دیتا ہے ،لیکن اس کے ذہن میں یہ خیال موجود ہے کہ اس نے اس تحفے کے ذریعے آپ پر کوئی احسان کیاہے یا پھر وہ اس کے بدلے میں اپنا کوئی مفادحاصل کرنا چاہتاہے۔آپ کا ایک اور دوست جو پہلے کی مانند دولت مند تو نہیں ہے لیکن آپ کے لیے اپنے دل میں محبت کا بے لوث جذبہ موجود پاتاہے اوراسی پرخلوص جذبے کے تحت اس نے بھی ایک تحفہ آپ کو پیش کیا ہے گوکہ اس کی ظاہری حیثیت زیادہ قیمتی نہیں ہے لیکن آپ کے دوست کا خلوص انمول ہے۔
اب آپ فیصلہ کیجیے کہ آپ کے نزدیک کس تحفے کی اہمیت ہونی چاہیئے؟
قیمتی تحفے کی یا معمولی تحفے کی؟
اگر آپ خود غرض نہیں ہیں تو آپ کا جواب یقیناً یہی ہوگا کہ خلوص نیت سے دیے جانے والے تحفے کی اہمیت زیادہ ہے چاہے وہ کتناہی کم حیثیت کیوں نہ ہو۔
یوں اس مثال سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ تمام ظاہری اعمال کی اصل بنیاد ان کے پس پردہ کام کرنے والی طرزفکر ہوتی ہے۔
طرزفکر کی مزید وضاحت کے لیے ہم انگریزی زبان کے معروف شاعر فریڈرک لینگ برج کے ایک شعر کا ترجمہ بطور مثال پیش کرتے ہیں:
‘‘رات کے وقت دو آدمی جنگلے کے باہر دیکھتے ہیں، ایک شخص کیچڑ دیکھتا ہے اوردوسراشخص ستارہ۔’’
یعنی کسی آدمی کے اندر اس کی ذہنی استعداد اور ماحول کے اثرات سے جو طرزفکر قائم ہوگی وہی اس کی نگاہ پر لینس Lens کا کام کرے گی۔ اگر اس کی طرزفکر کا لینس دھندلا اور غیر شفاف ہے تو اسے تمام اشیاء دھندلی ہی دکھائی دیں گی اوراگر طرزفکر کا لینس محدود ہے تو وسیع مفاہیم اور معلومات اس کے ادراک میں ہرگز نہ آسکیں گے، اور اس کی رائے یا نظریات وعقائدکا درجہ قیاس آرائیوں سے زیادہ بلند نہیں ہوگا۔
فرض کریں ایک کمرے میں موجود دو افراد کو ایک آواز سنائی دیتی ہے ، ایک کہتاہے دروازہ کھلنے کی آواز ہے جب کہ دوسرا کہتا ہے دروازہ بند ہونے کی۔ یعنی ایک ہی آواز دو افراد بالکل مختلف اندازمیں سن سکتے ہیں ۔
دنیا میں ہمیشہ ایسے افراد کی بہت بڑی تعدا موجود رہتی ہے جو اپنے ارگرد کی دنیا اور دنیا سے باہر کی حقیقتوں کے بارے میں کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتے، ایسے لوگوں میں بعض لگی بندھی Routine Life میں زندہ رہتے ہیں، جبکہ بعض بےہودہ روایات کو سینے سے لگائے ان کو دوسروں پر بالجبر نافذکرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
اب تک کی تمام بحث وتمحیث سے یہ نتیجہ سامنے آتاہے کہ حقائق تک رسائی شعوری استعدادمیں اضافہ کے بعد ہی ممکن ہے، اسی صورت میں ہی سطحی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ حقیقی پہلوؤں سے آگاہی ہوسکتی ہے اور ناموافق حالات کے پس پردہ موافق حالات کو دریافت کیا جاسکتا ہے۔
شعوری استعداد جس قدر ہوگی اسی طرح ہی معنی اخذ کرسکے گا۔ آج سے دو سو سال پہلے کے لوگوں کے سامنے جب کراچی سے لاہور کے سفر کی بات کی جاتی ہوگی تو ان کے ذہن میں نہایت پُر خطر اور دشوار مرحلے کی تصویر اُبھرتی ہوگی۔ آج یہ سفر جہاز سے ہو تو چند گھنٹے میں طے ہوجائے گا۔ جب سفر کے لیے جدید سہولیات نہیں تھیں تو ایک براعظم سے دوسرے براعظم کے سفر میں سالوں لگتے ہوں گے۔ آج گھنٹوں میں یہ سفر طے ہوجاتا ہے۔ آج کے انسان اور ماضی کے انسان کے ذہن میں یکساں فاصلوں کے حوالے سے جو تصور ہوگا اس میں کئی ہزار گنا کا فرق آچکا ہے۔
عام سی مثال ہے کہ ہماری والدہ کے دور میں مرغی اسی وقت پکتی تھی جب مرغی بیمار ہو یا گھر میں کوئی بیمار ہو۔ چنانچہ جب ان کے وقت میں مرغی پکتی تھی تو صبح سے اہتمام کیا جاتا تھا، اب ان کی بہو رات کے آٹھ بجے کھانا چڑھاتی ہیں اور نو بجے سب کھانا کھارہے ہوتے ہیں۔
بنیادی سوال ہی یہی ہے کہ شعور کی وسعت کس قدر ہے؟
جب انسان تجربات سے گزرتا ہے یا دوسروں کے تجربات سے سیکھتا ہے تب ہی اس کی شعوری استعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں تجربے کو غلطی بلکہ جرم یا گناہ تک کہا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں ملنے والے بھیانک عذابوں سے ڈرایا جاتا ہے۔
اب ڈرانے سے بھی بات آگے بڑھ چکی ہے، آج تو جان سے ہی مار دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے لوگوں کی زندگی تجربات سے خالی رہتی ہے۔ وہ حیوانوں کی سی بلکہ ان سے بھی گئی گزری اور لگی بندھی زندگی گزار کر مر جاتے ہیں اور اگلی نسل کے لیے بھی کچھ نہیں چھوڑتے۔ لہٰذا صدیوں کے اس جمود نے مسلمانوں کی بڑی تعداد کو جانوروں سے بھی بدتر مخلوق بنا دیا ہے۔
بشکریہ:ڈان اردو