زمیں آسماں

زیف سید

محفلین
بڑے ملک کے اک بڑے شہر کی
تنگ و تیرہ گلی میں کھڑا ہوں
فلک
اونچے برجوں کے بھالوں سے کٹ کر افق تا افق کرچی کرچی پڑا ہے
زمیں
پاؤں کے نیچے بدمست کشتی کی مانند ہچکولے کھاتی ہے

اور میں کھڑا سوچتا ہوں
کہ دستار کو دونوں ہاتھوں سے تھاموں
کہ فٹ پاتھ کی گرتی دیوار سے
اپنے سر کو بچاؤں
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوب زیف صاحب۔

فلک
اونچے برجوں کے بھالوں سے کٹ کر افق تا افق کرچی کرچی پڑا ہے

کیا خوبصورت اور منفرد تشبیہات ہیں، لاجواب۔
 

الف عین

لائبریرین
واہ، اچھی نظم ہے، لیکن میرے لئے ممنون ہونے کی ضرورت نہیں، میں خاص طور پر تعریف نہیں کر رہا۔کہ مجھے معلوم ہے کہ زیف اچھی شاعری کرتے ہیں!!
 

محمداحمد

لائبریرین
زیف سید صاحب،

بہت خوب، بہت خوبصورت نظم ہے، نذرانہء تحسین حاضرِ خدمت ہے۔

مزید کلام بھی شریکِ محفل کیجے گا۔
 
Top