زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے ۔۔۔۔سید مظہر علی شاہ

Dilkash

محفلین
زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے
یہی اگست کا مہینہ تھا اور سال تھا 1980ء جب برصغیر کے عظیم گلوگار محمد رفیع ہم سے جدا ہوئے آج پورے تیس برس بیت گئے پر محمد رفیع کے گانے آج بھی موسیقی سے شغف رکھنے والوں کے کانوں میں رس گھولتے ہیں وہ تین عشروں یعنی 1950ئ‘ 1960ء اور 1970ء میں برصغیر کے گلوگاروں کا بادشاہ رہا‘ گو کہ اس کی پیدائش امرتسر کے ایک گاؤں کوٹلہ سلطان سنگھ میں ہوئی تھی وہ کم سنی میں ہی لاہور آگیا

وہ پیشے کے لحاظ سے حجام تھا اور بھائی گیٹ لاہور میں اسکی دکان تھی پر اس کا دل موسیقی میں تھا شنید ہے کہ جب وہ برصغیر کے مشہور موسیقار فیروز نظامی جن کا تعلق بھی لاہور سے تھا کے بال بنا رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ گنگنا بھی رہا تھا فیروز نظامی نے اسکے اندر چھپا ہوا گلوگار تلاش کرلیا انہوں نے اسکو لاہور ریڈیو سٹیشن سے بطور گلوگار متعارف کروایا اور بعد میں وہ اسے بالی ووڈ لے گئے جس گانے سے محمد رفیع کی بالی ووڈ میں دھاک بیٹھ گئی وہ فلم جگنو میں فیروز نظامی کی بنائی ہوئی دھن میں دلیپ کمار پر فلمایا گیا وہ Duet تھا کہ جسکے بول تھے

یہاں بدلا وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے

محبت کرکے بھی دیکھا محبت میں بھی دھوکہ ہے

اس کے بعد تو جیسے محمد رفیع کی دنیا ہی بدل گئی اسکی آواز میں درد‘ لوچ اور اٹھان تو خدا نے پہلے ہی سے پیدا کی ہوئی تھی اس نعمت کو موسیقار نوشاد علی ‘شنکر جے کشن‘ خیام‘ فیروز نظامی‘ حسن لال بھگت رام‘ روی‘ روشن‘ لکشمی کانت ‘ پیارے لال‘ کلیان جی آنند جی اور غلام محمد وغیرہ نے اپنی مدھر دھنوں میں ڈھال کر جو گانے‘ گیت ‘غزلیں ‘ترانے اور قوالیاں بنائیں وہ امر ہوگئیں

آدھی صدی گذرنے کے بعد آج بھی ان کو سن کر قلبی سکون ملتا ہے محمد رفیع گو کہ آج ہم میں موجود نہیں ہے پر اس کی روح کو یہ جان کرکتنی تسکین ملتی ہوگی کہ برصغیر میں آج بھی اس کے کروڑوں مداح موجود ہیں اور یہ کہ بالی ووڈ میں اسکے نام پر ایک اکیڈیمی قائم کردی گئی ہے موسیقی کی دنیا ہو کہ گائیکی کا میدان‘ اداکاری کا شعبہ ہو کہ ہدایت کاری یا شاعری کا اکھاڑا ایک آدھ مثال کو چھوڑ کر تجربہ یہ بتاتا ہے کہ یہ خطہ جو آج پاکستان کہلاتا ہے

اسکے کسی علاقے سے بھی اگر کوئی فنکار ممبئی ‘کلکتہ یا مدارس گیا کہ جہاں فلمی صنعت لاہور اور کراچی میں موجود فلمی صنعت سے زیادہ متحرک تھی تو بالی ووڈ نے اسے گلے لگایا اور اس میں موجود ٹیلنٹ کو جلا بخشی استاد بڑے غلام علی خان کا تعلق بھی تو لاہور سے تھا اور معروف موسیقار خیام بھی لاہور کا رہائشی تھا ان دونوں نے بالی ووڈ کی موسیقی کی دنیا میں ایک بڑا نام کمایا نور جہان کی البتہ ایک ایسی مثال ضرور ملتی ہے کہ جنہوں نے بالی ووڈ میں اپنا اچھا خاصا مقام بنا لیا تھا پر تقسیم ہند کے بعد وہ لاہور چلی آئیں پاکستان کی فلم انڈسٹری کی کامیابی میں ان کا بڑا ہاتھ رہا بھلے وہ موسیقی کے حوالے سے تھا یا اداکاری کے شعبے سے

جب پاکستان بنا تو دلیپ کمار نے بھی اپنے چھوٹے بھائی ناصر خان کو لاہور بھجوا دیا تھا کہ وہ لالی ووڈ میں اپنی قسمت آزمائی کرے وہ پاکستان کی سب سے پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ کا ہیرو تھا پر اس کے بعد غالباً ناصر خان نے یہ سوچا کہ وہ بالی ووڈ میں پہلے ہی سے اپنے بنائے ہوئے ایک مقام کو چھوڑنے کی رسک نہیں لے سکتا لہٰذا وہ واپس چلا گیا یہ اور بات کہ زندگی نے اسکے ساتھ وفانہ کی اور وہ جلد چل بسا تقسیم ہند سے پہلے لگتا یوں ہے کہ ایک فنکار لاہور میں رہ کر بالی ووڈ میں بھی کام سرانجام دے سکتا تھا نامور موسیقار خورشید انور رہتا لاہور میں تھا پر کام بالی ووڈ میں کرتا

محمد رفیع کو جہاں خدا نے ایک پرسوز آواز عطا کی ہوئی تھی ان کے سینے میں ایک نہایت ہی خوبصورت دل بھی دھڑکتا تھا ممبئی میں سخت سردی بھی پڑتی ہے اور اکثر بے گھر غریب لوگ رات کو فٹ پاتھوں اور دکانوں کے تھڑوں پر بھی سوتے ہیں کئی کئی مرتبہ بعض لوگوں نے دیکھا کہ رات گئے ایک شخص ایک ویگن میں آتا اور اپنے ہاتھوں سے ان بے گھر کھلے آسمان کے نیچے لیٹے ہوئے افراد میں گرم کمبل تقسیم کرکے چلا جاتا آخر ایک دن کسی نے پہچان لیا کہ وہ شخص تو محمد رفیع ہے۔
 

Dilkash

محفلین
وہی حالات ہیں فقیروں کے
حبیب جالب کو خدا بخشنے بڑا بے باک شاعر تھا سچ بات منہ پر کہنے کی صلاحیت اس میں بدرجہ اتم موجود تھی کسی زمانے میں پی پی پی بائیں بازو کی سیاسی جماعت سمجھی جاتی تھی اور چونکہ حبیب جالب بھی سوشلسٹ ذہن کا شخص تھا لہٰذا اس پارٹی کے ساتھ اس کی نظریاتی ہم آہنگی ضرور تھی پر اس کے باوجود جب اس نے دیکھا کہ سوشلسٹوں نے بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں سے جو امیدیں لگارکھی تھیں کہ شاید برسراقتدار آکر وہ غریبوں کے حالات بدل دیں گی ‘وہ پوری نہیں ہورہیں تو جالب چیخ اٹھا کہ

دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے

وہی حالات ہیں فقیروں کے

ہربلاول ہے دیس کا مقروض

پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

جب یہ کالم چھپے گا تو زرداری صاحب یا تو وطن واپس آچکے ہوں گے یا آنے والے ہوں گے انہوں نے اچھا کیا کہ برمنگھم میں جو سیاسی جلسہ ہونے والا تھا جس میں بلاول کو سیاست کے میدان میں لانچ کیا جانا تھا وہ ملتوی کردیا پہلے تو ہمیں لفظ لانچ پر اعتراض ہے سیاست دان کوئی اشیائے خوردنی یا شیائے صرف کی کوئی چیز تھوڑی ہوتا ہے کہ جسے مارکیٹ میں لانچ کیا جائے

سیاست دان پیدائشی طور پر سیاست دان ہوتا ہے اسے نہ کسی اکیڈیمی میں تربیت لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ وہ کسی پبلسٹی کا مرہون منت ہوتا ہے بھلا ہو میڈیا کا جس نے وقت سے پہلے یہ بھانڈا پھوڑ دیا کہ بلاول کی Launching Ceremonyکے لئے برمنگھم میں 40ہزار برطانوی پاؤنڈز کرایہ پر ایک ہال کی ایڈوانس بکنگ کی گئی ہے گو کہ بعد میں حکومتی ترجمان نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہال کا کرایہ 40 ہزار پاؤنڈز نہیں بلکہ 9ہزار پاؤنڈز ہے یہ رقم بھی پاکستانی کرنسی میں اچھی خاصی رقم ہے اور پھر ان لوگوں کوجنہوں نے یہ پروگرام ترتیب دیا تھا یہ خیال تک نہ آیا کہ بلاول نے اگر سیاست میں آنا ہے تو یہ تقریب انگلستان میں کیوں منعقد کی جائے کیا

انہوں نے انگلستان کا وزیراعظم بننا ہے؟ اس کے لئے تو پاکستان کے کسی بھی شہر میں اس تقریب کا انعقاد کیا جاسکتا تھا درحقیقت زرداری صاحب کا یہ بیرونی دورہ اتنا متنازعہ ہوگیا تھا کہ یار لوگوں نے صحیح ہی سوچا کہ برمنگھم والی تقریب کو بھلا دیا جائے تو بہتر ہے ویسے یہ وارثتی سیاست اب اس ملک کے عوام کو ایک آنکھ نہیں بھاتی وہ اب یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ آخر کیوں پی پی پی ‘ن۔ لیگ جے یو آئی (ف) جے یوآئی (س)‘(ق) لیگ ‘پگاڑا لیگ‘ چٹھہ لیگ‘ اے این پی ‘جے یو پی وغیرہ وغیرہ کی قیادت انہی خاندانوں میں رہے جو عرصہ دراز سے ان سیاسی پارٹیوں پر حکمرانی کررہے ہیں

ان کے اس سوال میں بڑا وزن ہے کہ جو لوگ اپنی سیاسی پارٹی میں اپنے خاندان سے باہر کسی دوسرے شخص کو پارٹی کی قیادت یا کلیدی عہدہ دینے کو تیار نہیں وہ کس منہ سے جمہوریت کی بات کرتے ہیں؟یقین کیجئے کہ اب لوگ آسمان کی طرف دیکھ کر اللہ پاک کے سامنے اپنی جھولی پھیلا کر یہ دعا مانگتے ہیں کہ اے باری تعالیٰ تو اس ملک پر رحم کر اور ہم پر ایسے حاکم مسلط کردے کہ جن کے دلوں میں قوم اور ملک کی محبت ہو جو نہ خود حرام کھائے نہ کسی کو کھانے دے کوئی امام خمینی‘ ماوزے تنگ ‘یا چو این لائی جیسا کردار رکھنے والا شخص یہاں بھیج دے کوئی فیڈل کاسٹر آجائے

کوئی ہوچی منہ یا نیلسن منڈیلا نازل ہوجائے تاکہ قوم کو ان موروثی سیاست دانوں سے نجات ملے جو گذشتہ 42برسوں سے ‘ اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں قائداعظم بھی اگر چاہتے تو بڑی آسانی سے یہ وصیت کرجاتے یا اپنی زندگی میں اپنی بہن فاطمہ جناح کو اپنی سیاسی پارٹی کی قیادت کیلئے لانچ کرجاتے جس طرح پی پی پی والے اب بے نظیر کے بعد ان کے فرزند کو لانچ کرنے والے ہیں یہ اگست کا مہینہ ہے اور ہر سال ہمارے لیڈر 14اگست یعنی یوم آزادی پر قائداعظم کے فرمودات دہراتے نہیں تھکتے پر جہاں تک ان پر عمل کا تعلق ہے وہ ان کی ڈکشنری میں سرے سے موجود ہی نہیں

قارئین نے سیلاب سے متاثرہ افراد اور معاشی استحصال کے شکار افراد کے تاثرات مختلف ٹیلی ویژن چینلز پر ضرور دیکھے ہوں گے جن میں انہوں نے سیاسی جماعتوں اور اشرافیہ کی بے حسی اور ان سے لا تعلقی پر کف افسوس ملا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
کیا یہ کتاب ہے؟ دونوں مضامین مختلف شخصیات پر ہیں، ان دونوں کو یہاں جمع کرنے کی ضرورت؟
 

Dilkash

محفلین
محترم الف عین صاحب
یہ کالمز ہیں اور چونکہ موڈریٹر صاحب کا حکم تھا کہ جہاں نثر کے علاوہ اور کہیں نہیں لگنا چاہیے لہذا دونوں شخصیات کے دو الگ الگ کالمز لگاتا ہوں ایک زمرے میں تاکہ سپیس کی بچت رھے۔
وہ بھی اپ جیسے شخصیتوں کے لئے لگاتا ہوں ورنہ میں نے دیکھا ہے کہ میرے لگائے ہوئے مضامین احباب سالوں میں بھی نہیں دیکھتے۔
زمرے اپکے سامنے ہیں اپ خود دیکھ لیجئے کہ کتنے لوگوں نے ہمارے لگائے ہوئے کالمز دیکھے ہیں

کچہ لوگوں کا خیال ہے کہ اردو صرف انکی میراث ہے باقی لوگ اردو کیا جانتے ہیں۔
لھذا وہ اپنے مخصوص لوگوں اور اخباروں یا علاقوں سے وابسطہ لوگوں کی تحریریں پڑھتے ہیں
گستاخی کے لئے معذرت چاھتا ھوں۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
محترم الف عین صاحب
یہ کالمز ہیں اور چونکہ موڈریٹر صاحب کا حکم تھا کہ جہاں نثر کے علاوہ اور کہیں نہیں لگنا چاہیے لہذا دونوں شخصیات کے دو الگ الگ کالمز لگاتا ہوں ایک زمرے میں تاکہ سپیس کی بچت رھے۔
وہ بھی اپ جیسے شخصیتوں کے لئے لگاتا ہوں ورنہ میں نے دیکھا ہے کہ میرے لگائے ہوئے مضامین احباب سالوں میں بھی نہیں دیکھتے۔
زمرے اپکے سامنے ہیں اپ خود دیکھ لیجئے کہ کتنے لوگوں نے ہمارے لگائے ہوئے کالمز دیکھے ہیں

کچہ لوگوں کا خیال ہے کہ اردو صرف انکی میراث ہے باقی لوگ اردو کیا جانتے ہیں۔
لھذا وہ اپنے مخصوص لوگوں اور اخباروں یا علاقوں سے وابسطہ لوگوں کی تحریریں پڑھتے ہیں

گستاخی کے لئے معذرت چاھتا ھوں۔

ایک سو فیصد بات درست ہے یہ بات صرف اخباروں تک ہی نہیں بلکے ہر جگہ پر ہے
 

الف عین

لائبریرین
محترم الف عین صاحب
یہ کالمز ہیں اور چونکہ موڈریٹر صاحب کا حکم تھا کہ جہاں نثر کے علاوہ اور کہیں نہیں لگنا چاہیے لہذا دونوں شخصیات کے دو الگ الگ کالمز لگاتا ہوں ایک زمرے میں تاکہ سپیس کی بچت رھے۔
وہ بھی اپ جیسے شخصیتوں کے لئے لگاتا ہوں ورنہ میں نے دیکھا ہے کہ میرے لگائے ہوئے مضامین احباب سالوں میں بھی نہیں دیکھتے۔
زمرے اپکے سامنے ہیں اپ خود دیکھ لیجئے کہ کتنے لوگوں نے ہمارے لگائے ہوئے کالمز دیکھے ہیں

کچہ لوگوں کا خیال ہے کہ اردو صرف انکی میراث ہے باقی لوگ اردو کیا جانتے ہیں۔
لھذا وہ اپنے مخصوص لوگوں اور اخباروں یا علاقوں سے وابسطہ لوگوں کی تحریریں پڑھتے ہیں
گستاخی کے لئے معذرت چاھتا ھوں۔

درست ہے، لیکن دلکش اس صورت میں تھریڈ کاعنوان اس قسم کا ہی رکھیں ’داکٹر اعوان کی تحریرین" اور ’مظہر شاہ کے کالم‘، تاکہ معلوم ہو جائے کہ اس تھریڈ میں نئے کالم بھی متوقع ہیں۔ ورنہ میرے جیسے لوگ جو ایک بار دیکھ لیتے ہیں، دوبارہ نہیں آتے۔ کہ صرف بحث ہو رہی ہو گی۔
 
ویسے یہ وارثتی سیاست اب اس ملک کے عوام کو ایک آنکھ نہیں بھاتی وہ اب یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ آخر کیوں پی پی پی ‘ن۔ لیگ جے یو آئی (ف) جے یوآئی (س)‘(ق) لیگ ‘پگاڑا لیگ‘ چٹھہ لیگ‘ اے این پی ‘جے یو پی وغیرہ وغیرہ کی قیادت انہی خاندانوں میں رہے جو عرصہ دراز سے ان سیاسی پارٹیوں پر حکمرانی کررہے ہیں

ان ہی لوگوں کی خاندانی سیاست نے پاکستان کو برباد کردیا ہے۔ کبھی کسی غریب کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیا ان پارٹیوں نے۔
 
Top