زمین کو کتنا گہرا کھودا جاسکتا ہے

ضیاء حیدری

محفلین
ایک حقیقت مجھے بیان کرنے دیجئے۔
زمین کو کتنا گہرا کھودا جاسکتا ہے، کئی اقوام نے کو شش کی ہے، جرمنی جاپان، امریکہ اور روس۔ سب زیادہ گہرائی میں روس نے ڈرل کیا تھا، تقریبا سات میل سے زیادہ، پھر درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوگیا کہ ڈرل بٹ پگھل نے لگیں، ڈرلنگ کا پروگرام بند کردیا گیا اور ایک سوال پیدا ہو گیا کیا دوزخ زمین کے نیچے ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ ﷜ فرماتے ہیں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ اچانک کسی چیز کے گرنے کی آواز سنی تو نبیﷺ نے فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ یہ کیا ہے؟ ہم نے کہا اللہ ﷯ اور اسکے رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: «هَذَا حَجَرٌ رُمِيَ بِهِ فِي النَّارِ مُنْذُ سَبْعِينَ خَرِيفًا، فَهُوَ يَهْوِي فِي النَّارِ الْآنَ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى قَعْرِهَا» یہ پتھر تھا , جسے ستر سال قبل جہنم میں پھینکا گیا ,تو وہ اب تک جہنم میں گرتا رہا حتى کہ اسکے پیندے میں پہنچ گیا۔ صحیح مسلم: 2844 اس صحیح حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہنم زمین میں ہے, کیونکہ یہ آواز زمین پہ سنی گئی , جسے رسول اللہ ﷺ نے بھی سماعت فرمایا اور آپ کے اصحاب نے بھی۔ سیدنا عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : إِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ بلا شبہ جنت آسمان میں ہے اور جہنم زمین میں ہے ۔ مستدرک حاکم : 8698
 

ہانیہ

محفلین
وہ تو زمین کا core ہے نا۔۔۔۔ جس کے قریب جیسے جیسے جاتے ہیں زمین گرم ہوتی جاتی ہے۔۔۔۔ کیا آپ کا کہنے کا مطلب ہے کہ جہنم زمین کے بیچ میں ہے؟
 

ضیاء حیدری

محفلین
سجین ساتویں زمین میں ہے اور حدیث سے یہ ثابت ہے کہ جہنم بھی ساتویں زمین میں ہے، اس لیے اہل سجین کو جہنم کی تپش اور ایذائیں پہنچتی رہیں گی۔
 

ضیاء حیدری

محفلین
ذرا اس حدیث کا حوالہ بھی عنایت فرما دیں

حضرت مجاہد فرماتے ہیں میں نے حضرت ابن عباسؓ سے عرض کیا جنت کہاں ہے؟فرمایا سات آسمانون کے اوپر، میں نے عرض کیا اور جہنم کہاں ہے؟ تو فرمایا سات تہ بتہ سمندروں کے نیچے۔
(ابن مندہ)

(فائدہ)جب اللہ تعالی کو قیامت برپا کرنا منظور ہوگی تو یہ ساتوں سمندر خشک ہوجائیں گے اورجہنم ظاہر کردی جائے گی۔
حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا جنت ساتویں آسمان کے اوپر ہے اور جہنم نچلی ساتویں زمین پر ہے پھر انہوں نے یہ آیات پڑھیں۔
کَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ
(المطففین:۱۸)

کَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ

نیک لوگوں کا نامہ اعمال علیین میں رہے گا،بدکار(یعنی کافر)لوگوں کا نامہ اعمال سجین میں رہے گا۔
(بیہقی باسناد ضعیف)
 
جنت اور جہنم کا تعلق مابعدالطبیعات (metaphysical) عالم سے ہے ... اور میٹافزیکل ہوتی ہی وہ چیز ہے کہ طبیعات کے قوانین جس کی توجیہ بیان کرنے سے قاصر ہوں.
زمین کے مرکز تک پہنچنے میں کیا امور مانع ہیں، ان کی توجیہ تو فزکس کے قوانین سے معلوم کی جاسکتی ہے ... پھر یہ کوئی میٹافزیکل بات تو نہ ہوئی!
جب ہم جنت اور جہنم کے سائنسی مقام کا تعین کرنے کے مکلف ہی نہیں تو ان تکلفات میں پڑیں ہی کیوں؟؟؟ ہماری توانائیاں جہنم سے بچاؤ کی کوشش میں صرف ہونی چاہئیں نہ کے اس کے فزیکل مقام کو ثابت کرنے میں.
عقیدے کو مشاہدے کی بنیاد پر ثابت کرنے کی کوشش میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ مادی اشیا اپنی حالت تبدیل کرتی رہتی ہیں اس لیے ان کا مشاہدہ کبھی دائما ایک سا نہیں ہو سکتا. کل کوئی تحقیق اس کے برعکس آ گئی تو پھر کیا کریں گے؟
 

ضیاء حیدری

محفلین
جنت اور جہنم کا تعلق مابعدالطبیعات (metaphysical) عالم سے ہے ... اور میٹافزیکل ہوتی ہی وہ چیز ہے کہ طبیعات کے قوانین جس کی توجیہ بیان کرنے سے قاصر ہوں.
زمین کے مرکز تک پہنچنے میں کیا امور مانع ہیں، ان کی توجیہ تو فزکس کے قوانین سے معلوم کی جاسکتی ہے ... پھر یہ کوئی میٹافزیکل بات تو نہ ہوئی!
جب ہم جنت اور جہنم کے سائنسی مقام کا تعین کرنے کے مکلف ہی نہیں تو ان تکلفات میں پڑیں ہی کیوں؟؟؟ ہماری توانائیاں جہنم سے بچاؤ کی کوشش میں صرف ہونی چاہئیں نہ کے اس کے فزیکل مقام کو ثابت کرنے میں.
عقیدے کو مشاہدے کی بنیاد پر ثابت کرنے کی کوشش میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ مادی اشیا اپنی حالت تبدیل کرتی رہتی ہیں اس لیے ان کا مشاہدہ کبھی دائما ایک سا نہیں ہو سکتا. کل کوئی تحقیق اس کے برعکس آ گئی تو پھر کیا کریں گے؟
سیدنا عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : إِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ بلا شبہ جنت آسمان میں ہے اور جہنم زمین میں ہے ۔ مستدرک حاکم : 8698
ہم جنت اور جہنم کے مقام کا تعین سائنسی بنیاد پر نہیں کرتے ہیں، بلکہ احادیث مبارکہ کے مطابق یہ جانتے ہیں کہ مقام جہنم ساتویں زمین پر ہے اور جنت عرش الہی کے نیچے ہے۔
 
سیدنا عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : إِنَّ الْجَنَّةَ فِي السَّمَاءِ ، وَإِنَّ النَّارَ فِي الْأَرْضِ بلا شبہ جنت آسمان میں ہے اور جہنم زمین میں ہے ۔ مستدرک حاکم : 8698
ہم جنت اور جہنم کے مقام کا تعین سائنسی بنیاد پر نہیں کرتے ہیں، بلکہ احادیث مبارکہ کے مطابق یہ جانتے ہیں کہ مقام جہنم ساتویں زمین پر ہے اور جنت عرش الہی کے نیچے ہے۔
ازروئے احادیثِ مبارکہ کیا ہم اس بات کے مکلف ہیں کہ جنت اور جہنم کے وجود پر کامل ایمان رکھیں یا پھر ان کے فزیکل مقام کے تعین کے؟
فرض کریں کہ کل کلاں کو انسان زمین کے مرکز تک کوئی روبوٹ وغیرہ بھیج دیتا ہے، اور اس کو وہاں جہنم کا کوئی مشاہدہ نہیں ہوتا ۔۔۔ پھر؟ کیا ہم از سر نو اپنے عقائد کا تعین کریں گے؟
جنت کے آسمان اور جنہم کے زمین میں ہونی کی مابعدالطبیعاتی کیفیت کیا ہے، یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے سوا شاید کوئی نہیں جانتا۔ آپ کے اصل مراسلے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ زمین کی تہہ یا مرکز تک پہنچنا غالباً کسی مابعدالطبیعاتی عمل کی وجہ سے ممنوع الوقع ہے ۔۔۔ سو دو سو سال پہلے لوگ شاید خلا میں جانے کے بارے میں بھی یہی گمان رکھتے ہوں
اسی لیے کم از کم میں یہ مانتا ہوں کہ ہمارے عقیدے کی بنیاد محض یہ ہونی چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے جو بیان فرما دیا، وہ حقیقت ہے، چاہے ہمارے مشاہدے میں آ سکے یا نہ آ سکے۔ غیب پر ایمان لانا اور کیا ہوتا ہے؟
جن امور کا تعلق مابعدالطبیعاتی عالم سے ہو، ہمیں ان کا فزیکل وجود ثابت کرنے کی مشقت میں پڑنے کی قطعاً ضرورت نہیں ۔۔۔
عصری طبیعات میں ہماری ۳ اسپیشل اور ایک ٹائم ڈائمنشن کے علاوہ ایک پانچویں ’’ہائیر ڈائمنشن‘‘ ہونے کا امکان بڑی مشہور اور معرکۃالآرا بحث ہے۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ اگر یہ پانچویں ڈائمنشن موجود ہے، تو اس میں موجود وجود ہماری اس تھری ڈائمنشنل دنیا سے جس انداز میں انٹریکٹ کریں گے، ہمارے ’’آفاقی‘‘ لاز آف فزکس اس کی توجیہ نہیں کر پائیں گے ۔۔۔ اگر اس ’’فرضی‘‘ پانچویں ڈائمنشن سے کوئی وجود ہماری کائنات کے گزرے تو ہمارا مشاہدہ یہ ہوگا کہ ایک غیرمرئی وجود عدم سے ظہور پذیر ہوا، آہستہ آہستہ بڑا ہوتا گیا، ایک خاص حد تک بڑا ہوا اور پھر واپس آہستہ آہستہ چھوٹا ہوتے ہوتے غائب یا معدوم ہوگیا!!! واضح رہے کہ فزکس کی دنیا میں یہ سب امکانی بحثیں ہیں ۔۔۔ مگر انہیں کلیتاً رد نہیں کیا جاتا ۔۔۔ ہماری موجودہ فزکس کے حساب سے تو یہ بھی میٹافزیکل ہی ہوا!
بہرحال، اصل بات یہی ہے کہ جنت، جہنم، آخرت وغیرہ کا اصل احوال تو صرف خدائے بزرگ و برتر ہی جانتا ہے۔ اس نے کہہ دیا کہ جہنم ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ ہے ۔۔۔ اس کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ زمین کی تہہ میں ہے ۔۔۔ تو ہے ۔۔۔ چاہے اس کی فزیکل کیفیت کچھ بھی ہو ۔۔۔ ہمارا کام اس پر ایمان لانے بعد خود کو اس سے بچانے کی کوشش کرنا ہے ۔۔۔ نا کہ زمین کھود کر اس کا سراغ لگانا۔
امید ہے میں اپنا نکتۂ نظر واضح کر پایا ہوں گا۔
 

فاخر رضا

محفلین
کَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ
(المطففین:۱۸)

کَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ

نیک لوگوں کا نامہ اعمال علیین میں رہے گا،بدکار(یعنی کافر)لوگوں کا نامہ اعمال سجین میں رہے گا۔
(

ان کا ترجمہ یہی ہے
 
یہ غلطی سے لکھ دیا
اصل. میں تو قرآن کی آیات ہیں
حوالہ اصل میں حضرت مجاہد کی بیان کردہ حدیث کا ہے جس میں یہ آیات بھی بیان ہوئی ہیں۔

حضرت مجاہد فرماتے ہیں میں نے حضرت ابن عباسؓ سے عرض کیا جنت کہاں ہے؟فرمایا سات آسمانون کے اوپر، میں نے عرض کیا اور جہنم کہاں ہے؟ تو فرمایا سات تہ بتہ سمندروں کے نیچے۔
(ابن مندہ)
 
Top