زخم احسان ِ عدو میں گم ہے

عباد اللہ

محفلین
زخم احسان ِ عدو میں گم ہے
چارہ گر فک
رِ رفو میں گم ہے
عرصۂ ارض جہنم بھی ابھی
معرضِ ذوقِ نمو میں گم ہے
عکسِ صناعِ ازل اور کہاں
بس ترے آئینہ رو میں گم ہے
ق
خلق امکاں کے بکھیڑوں میں ہے گم
شیخ سادہ ہے وضو میں گم ہے
سر بسر بحر معاصی میں ہے غرق
اور جناں کے تگ و پو میں گم ہے

خوش نہ آیا ہمیں نظارۂ شوق
ہوش ہی تیرے جلو میں گم ہے
اور یہ زخمہ زنِ آہوئے جاں
اثرِ نعرہ ء ھو میں گم ہے
کس کو ہے بحث کا یارا تجھ سے
تو جو تکرار کی خو میں گم ہے
ہم تو آفاق سے ہو بھی آئے
ایک تو ہے من و تو میں گم ہے
لوٹ تو آئے شبستاں سے مگر
من اسی کوچۂ بو میں گم ہے
عباد اللہ

 

محمد وارث

لائبریرین
آپ کی رائے صائب ہے سر ہمیں ان معاملات کی زیادہ سمجھ نہیں محمد وارث سر تصدیق کر دیں تو اور اچھا ہو
شکریہ برادرم یاد آوری کے لیے۔ ہمارے عروض میں بہت سارے معاملات کا اعتبار املا کی بجائے تلفظ پر ہے۔ جب ایک ہی حرف اوپر تلے آ جائے اور ادائیگی ثقیل اور مشکل ہو جائے تو تنافر گردانتے ہیں، آپ کی ترکیب میں رے کی آواز اوپر تلے نہیں نکل رہی، املا میں چاہے رے اکھٹا ہی لکھا جا رہا ہے۔اس لیے ابنِ رضا صاحب بجا فرما رہے ہیں۔اگر یہ الفاظ "اور رفو" کی شکل میں ہوتے تو تنافر ہوتا۔

آخرین یہ کہ تنافر کو عیب کہنا بڑے لوگوں کا معاملہ ہے، چونچلا بھی کہہ سکتے ہیں :) اگر غالب کے کلام میں اور اُس کے خوبصورت اشعار میں لوگ تنافر کا "عیب" ڈھونڈ سکتے ہیں تو ہمیں اُس کو عیب نہ ماننے میں کیا کلام ہو سکتا ہے :)
 

عباد اللہ

محفلین
شکریہ برادرم یاد آوری کے لیے۔ ہمارے عروض میں بہت سارے معاملات کا اعتبار املا کی بجائے تلفظ پر ہے۔ جب ایک ہی حرف اوپر تلے آ جائے اور ادائیگی ثقیل اور مشکل ہو جائے تو تنافر گردانتے ہیں، آپ کی ترکیب میں رے کی آواز اوپر تلے نہیں نکل رہی، املا میں چاہے رے اکھٹا ہی لکھا جا رہا ہے۔اس لیے ابنِ رضا صاحب بجا فرما رہے ہیں۔اگر یہ الفاظ "اور رفو" کی شکل میں ہوتے تو تنافر ہوتا۔

آخرین یہ کہ تنافر کو عیب کہنا بڑے لوگوں کا معاملہ ہے، چونچلا بھی کہہ سکتے ہیں :) اگر غالب کے کلام میں اور اُس کے خوبصورت اشعار میں لوگ تنافر کا "عیب" ڈھونڈ سکتے ہیں تو ہمیں اُس کو عیب نہ ماننے میں کیا کلام ہو سکتا ہے :)
بہت شکریہ سر ہم بھی اسی کفر میں مبتلا ہیں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عباد اللہ بھائی ۔ اچھی تخلیقی کاوش ہے ۔ بہت داد آپ کے لئے ۔ مطلع اچھا ہے ۔ کچھ اشعار توجہ طلب ہیں ۔ انہیں دیکھ لیجئے ۔

عرصۂ ارض جہنم بھی ابھی
معرضِ ذوقِ نمو میں گم ہے

یہ شعر سر پر سے گزر گیا ۔ جہنم کی زمین کا عرصہ (عرصہء ارضِ جہنم) ابھی ذوقِ نمو کے پیدا ہونے کا منتظر ہے ۔ اس کے کیا معنی ہوئے ؟! ذرا سمجھائیے ۔ :)

عکسِ صناعِ ازل اور کہاں
بس ترے آئینہ رو میں گم ہے

؟ واضح نہیں کہ یہ کس سے خطاب ہے ۔ آئینہ رو تو کنایتاً محبوب ہی کو کہا جاتا ہے۔ تو پھر ترے آئینہ رو کا کیا مطلب ؟!

خلق امکاں کے بکھیڑوں میں ہے گم
شیخ سادہ ہے وضو میں گم ہے

امکاں کے بکھیڑوں کی وضو اور شیخ کی سادگی سے کیا رعایت ہے؟؟ یہ قافیہ پیمائی ہے ۔ وضو کی جگہ عبادت یا زہد رکھا جائے تو رعایت بنتی ہے ۔ اس بات کو ایک قدیم شعر کی مدد سے سمجھئے:
مری نمازِ جنازہ پڑھائی غیروں نے ۔۔۔۔ مرے تھے جن کیلئے وہ رہے وضو کرتے
اس شعر میں نماز اور وضو کی رعایت بنتی ہے ۔ دونوں کام دس پندرہ منٹ میں ہونے والے ہیں ۔ اس کے برعکس خلق کا امکان کے بکھیڑوں میں گم رہنا ایک مسلسل عمل ہے اور اس کا شیخ کے وضو سے تقابل نہیں بنتا ۔ وضو کی جگہ عبادت یا زہد رکھا جائے تو رعایت بنتی ہے ۔ لیکن سادگی کا ذکر پھر بھی غیر متعلق ہے ۔

سر بسر بحر معاصی میں ہے غرق
اور جناں کے تگ و پو میں گم ہے

تگ و دَو اور تگ و پُو دونوں مونث ہیں ۔ آپ نے مذکر باندھا ہے ۔ درست کر لیجئے ۔

خوش نہ آیا ہمیں نظارۂ شوق
ہوش ہی تیرے جلو میں گم ہے

یہ قافیہ درست نہیں ۔ یہ جِلَو ہے ۔ لام پر زبر کے ساتھ۔

اور یہ زخمہ زنِ آہوئے جاں
اثرِ نعرہ ء ھو میں گم ہے

اس شعر میں آہوئے جاں ستار بجارہا ہے !؟! یہ شعر ی تصور ذرا عجیب حقیقت سے بعید ہے ۔ نغمہ زن تو ممکن ہوسکتا ہے لیکن زخمہ زن ٹھیک نہیں لگتا ۔

ہم تو آفاق سے ہو بھی آئے
ایک تو ہے من و تو میں گم ہے

آفاق کے عام اور مقبول معنی دنیا کے ہیں ۔ ( شہرہ آفاق ، آفاقی حیثیت وغیرہ) ان معنوں میں یہ واحد استعمال ہوتا ہے ۔ آپ اسے آسمانوں کے معنی میں استعمال کرنا چاہ رہے ہیں یعنی افق کی جمع۔ لیکن اس لفظ کے یہ معنی غریب ہیں۔ اگر یوں کہا جائے ’’ ہم سیر ِ آفاق کر آئے ‘‘ تو پھر آسمانوں کی طرف اشارہ سمجھ میں آئے گا ۔ ویسے کیا اس شعر میں محبوب پر طنز کیا جارہا ہے؟ :)

لوٹ تو آئے شبستاں سے مگر
من اسی کوچۂ بو میں گم ہے

کس کا شبستاں؟؟؟ یقیناً محبوب کا شبستاں ۔ لیکن یہ واضح نہیں ۔ کوچہءبو غیر شاعرانہ ہے ۔ کوچہء رنگ و بو یا کوچہء خوشبو سے پورے معنی نکلتے ہیں ۔ صرف کوچہء بو سے ذم کا پہلو نکلتا ہے ۔ من کے بجائے دل کیوں استعمال نہیں کیا؟کوئی خاص وجہ؟ اور شبستاں کو کوچہ کہنا سمجھ نہیں آتا ۔ کوچہ کے بجائے کنج، گوشہ یا غرفہ زیادہ مناسب ہوگا ۔

امید ہے کہ ان نکات سے آپ کو کچھ رہنمائی میسر آئے گی۔ ایک دفعہ پھر اس اچھی تخلیقی کاوش پر آپ کے لئے داد۔ :):):)
 

عباد اللہ

محفلین
آپ کے توجہ فرمانے پر بہت شکریہ سر
کوچہءبو غیر شاعرانہ ہے ۔
بجا ہے اسے درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں
یہ قافیہ درست نہیں ۔ یہ جِلَو ہے ۔ لام پر زبر کے ساتھ۔
بالکل اصلاح کے لئے ممنون
لیکن سنتے ہیں کہ شاعری میں غلط العام فصیح ہے
تگ و دَو اور تگ و پُو دونوں مونث ہیں ۔ آپ نے مذکر باندھا ہے ۔ درست کر لیجئے ۔
یہ بھی جانے کس ترنگ میں کہہ بیٹھے توجہ دلانے پر ممنون
یہ شعر سر پر سے گزر گیا ۔ جہنم کی زمین کا عرصہ (عرصہء ارضِ جہنم) ابھی ذوقِ نمو کے پیدا ہونے کا منتظر ہے ۔ اس کے کیا معنی ہوئے ؟! ذرا سمجھائیے ۔
اس کے کچھ نہ کچھ معنی ضرور ہمارے ذہن میں تھے سر اظہار اسی صورت ممکن ہو پایا باقی سمجھنے سمجھانے والا کام اگر ہمیں آتا تو کیا اچھی بات تھی

واضح نہیں کہ یہ کس سے خطاب ہے ۔ آئینہ رو تو کنایتاً محبوب ہی کو کہا جاتا ہے۔ تو پھر ترے آئینہ رو کا کیا مطلب
ہم نے اپنے لئے آئینہ رو استعمال کر لیا سر اس میں کوئی قباحت تو نہیں ہے نا :):):)

اس شعر میں آہوئے جاں ستار بجارہا ہے
بجا نہیں رہا سر "اثرِ نعرۂ ھو میں گم ہے":):)
"ویسے زخمہ زنِ آہوئے جاں" سے آپ کیا سمجھے؟؟
آپ کی توجہ پر ایک بار پھر ممنوں ہیں سر کوشش کرتے ہیں اپنی بات کو واضح کرنے کی
دوسری صورت میں
"گر نہیں ہے مرے اشعار میں معنی نہ سہی" کی چھتری میں پناہ شاید مل جائے:):):):):)
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عباداللہ بھائی ، اس مصرع کی چھتری تلے پناہ تو آپ کو نہیں ملے گی ۔ وہاں پہلے ہی بہت زیادہ ہجوم ہے ۔ آپ کو تو ایک ٹانگ رکھنے کی جگہ بھی بمشکل مل پائے گی ۔:):):)

خیر یہ تو ایک مذاق تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ میں اچھی شاعری کی بہت صلاحیت ہے ۔آپ کو زبان پر اچھا عبور ہے اور مجھے یقین ہے کہ آپ شعر میں بہت آگے تک جائیں گے ۔ اس غزل میں معنی تو صرف ایک ہی شعر کے سمجھ نہیں آرہے باقی اشعار میں تو ایسی کوئی بات نہیں ۔ چھوٹی موٹی باتیں تھیں جو میں نے ضروری جانتے ہوئے گوش گزار کردیں ۔ انہیں مثبت انداز میں لیجئے۔ دیکھئے بلا استثناء ہر شعر کے پیچھے کوئی معنی یا مطلب ضرور ہوتا ہے۔ آخرکلام ( نثر یا شعر) کا مقصدہی اپنےکسی خیال کو دوسرے تک منتقل کرنا ہے ۔بغیر معنی کے تو کلام کلام ہی نہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ان مطالب کا ابلاغ قاری تک ہورہا ہے یا نہیں ۔ اگرابلاغ نہیں ہورہا تو پھر وہ شعری کاوش ناکام ہے۔ شعر گوئی کا تمامتر تخلیقی عمل اسی ابلاغ کے مسئلے سے متعلق ہے ۔ یعنی خیال کو اس طرح سے جامہء الفاظ دیاجائے کہ نہ صرف وہ پابندِعروض ہو بلکہ صوتی اور جمالیاتی تقاضے (جنہیں عموماً شعریت بھی کہا جاتا ہے ) پورے کرتے ہوئے خیال کو ممکنہ حد تک صحیح سلامت قاری تک پہنچادے ۔ اب اس تخلیقی عمل کے دوران بعض اوقات شاعر کی ردائے ہنر چھوٹی پڑنے لگتی ہے ۔ یعنی کبھی تو عروض کا سر ڈھانپنے کی کوشش میں معنی کے پاؤں ننگے رہ جاتے ہیں ۔ اور کبھی معنی کے پاؤں ڈھانپنے کے چکر میں عروض ننگے سر ہوجاتی ہے۔ اور کبھی کھینچ تان کر دونوں کو ڈھک بھی دیاجائے تو شعریت بے ستر ہوجاتی ہیں ۔ اب یہ تو طے ہے کہ معنی کلام کی اولین شرط ہے چنانچہ اسے تو کسی صورت قربان نہیں کیا جاسکتا ۔لیکن بقیہ دو پہلوؤں میں لچک موجود ہے ۔ عروض کی پابندی لازم تو ہے لیکن اس میں اتنی آزادی ضرور ہے کہ شاعر اس بحر کا انتخاب کرے جو اس کی طبع کو راس آتی ہو ۔ چھوٹی بحر میں پابندیاں زیادہ ہوتی ہیں ۔ اس میں استعمال کئے جانے والے ممکنہ الفاظ کی تعداد نسبتاً کم ہوتی ہے ۔ بڑی بحر میں بات آسانی سے کہی جاسکتی ہے ۔ مناسب ردیف کا استعمال ( یا عدم استعمال) اورکشادہ قوافی کا انتخاب اظہارِ خیال کو نسبتاً آسان بنادیتے ہیں ۔ مشکل زمینوں مین شعر کہنا مشق کے لئے تو ٹھیک ہوسکتا ہے لیکن سنجیدہ شاعری کے لئے بہت مشکلات پیدا کرتا ہے ۔ اب لے دے کےشعر کے صوتی اور جمالیاتی تقاضے یعنی شعریت کا پہلو رہ جاتا ہے اور اکثر اسی پر آکر تان ٹوٹتی ہے ۔ اسی میں لچک اور رد وبدل کی سب سے زیادہ گنجائش ہے ۔ اکثر اوقات شاعر کو ٹھیک ٹھیک ابلاغ کے لئے زمین کی پابندی کی وجہ سے کچھ ایسا پیرایہ اور ایسی لفظیات کا انتخاب کرنا پڑتا ہے کہ اس میں شعریت کا پہلو کسی حد تک قربان ہو جاتا ہے۔ شعر کی کامیابی کا اصل دارومدار اسی بات پر ہے کہ شعریت کے اس پہلو کو کس حد تک برقرار رکھا گیا ہے ۔ کامیاب اور مؤثر شعر وہی ہے جس میں ابلاغ ہو اور شعریت کے تمام لوازمات کے ساتھ ہو ۔ اعلیٰ شعر وہ ہے جس میں کامیاب ابلاغ کے ساتھ ساتھ خیال بھی اعلیٰ ہو ۔

اس کے کچھ نہ کچھ معنی ضرور ہمارے ذہن میں تھے سر اظہار اسی صورت ممکن ہو پایا

بھائی یہ مسئلہ بہت عام ہے ۔ حل اس کا یہ ہے کہ اشعار لکھنے کے بعد انہیں اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا جائے اور چند ہفتوں کے بعد جب وہ ذہن سے نکل جائین تب انہیں ایک قاری کی غیرجانبدارانہ نظر سے دیکھا جائے یا بقول شخصے دشمن کی نظر سے دیکھا جائے ۔ آپ کو خود اپنی غلطیاں نظر آنا شروع ہوجائیں گی ۔ان میں ردوبدل کی جائے اور پھر اٹھا کر رکھ دیا جائے ۔ کچھ روز بعد پھر نظرِ ثانی کی جائے ۔ یقین کیجے شعر کو سنوارنے کا یہی ایک طریقہ ہے ۔ جب آپ خود اپنے سب سے بڑے ناقد بن جائیں تو سمجھ لیجئے کہ اب آپ اصلاح سے آزاد ہوگئے ۔ :) برسوں پہلے ایک قطعہ کہا تھا اس وقت اسے دہراؤں تو برمحل ہوگا ۔
انہیں یہ ضد ہے کہ اظہار ضروری ہے ابھی
مجھے یہ ڈر ہے کہ ہربات ادھوری ہے ابھی
لاشعوری ہے خیالات کی آمد ، مانا
جامہء حرف کا بُننا تو شعوری ہے ابھی

لیکن سنتے ہیں کہ شاعری میں غلط العام فصیح ہے

بھئی یہ میرے لئے ایک نئی خبر ہے ۔ براہِ کرم ایک دو مثالیں ایسی دکھائیے کہ جہاں کسی نے جِلَو کو جلُو یعنی بروزن وضو باندھا ہو ۔ میں نے تو اسے ہمیشہ جِلَو ہی دیکھا ہے ۔ اسی سے لفظ جلوت نکلا ہے ۔ اگر غلط العام سے آپ کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اس کا تلفظ لام پر پیش کے ساتھ کرتے ہیں (اگرچہ میں نے ایسا بھی کبھی نہیں سنا) تو یہ استدلال پھر ٹھیک نہیں ۔ دیکھئے وزن کو مجھ سمیت بہت سارے لوگ عام گفتگو مین وَزَن یعنی بدن کے طرز پر بول جاتے ہیں ۔ لیکن جب اس لفظ کو شعر میں لایا جائے گا تو زائے ساکن کے ساتھ ہی لایا جائے گا ۔

بجا نہیں رہا سر "اثرِ نعرۂ ھو میں گم ہے":):)
"ویسے زخمہ زنِ آہوئے جاں" سے آپ کیا سمجھے؟؟

بیشک آہوئے جاں اثرِ نعرہ ہو میں گم ہے جیسا کہ دوسرے مصرع میں مذکور ہے۔ آہوئے جاں کا استعارہ آپ نے اپنی روح یا دل کے لئے استعمال کیا ہےیہ تو بات سمجھ میں آرہی ہے ۔ لیکن میرا اشارہ تو آہوئے جاں کی زخمہ زنی کی طرف تھا ۔ استعارے اور تشبیہ میں بھی معقولیت ضروری ہے ۔ اگر میں کہوں کہ مرا طائرِ دل اداس ہے یا گوشہ نشیں ہے تو بات شعریت کے اعتبار سے ٹھیک ہے اور میری کیفیت کا ابلاغ کرتی ہے لیکن اگر یہ کہوں کہ مر ا طائرِ دل کھانا نہیں کھارہا تو قاری کے ذہن میں ایک مضحکہ خیز تصور پیدا ہوگا اور میری کیفیت کا ابلاغ ٹھیک ٹھیک نہین ہوپائے گا ۔
عباداللہ بھائی ۔ آج کچھ وقت میسر تھا تو کچھ باتیں آپ کی غزل کے حوالے سے لکھ دی ہیں ۔ براہِ راست گفتگو تو اگرچہ آپ ہی سے ہے لیکن بالواسطہ ان تمام لوگوں سے ہے جو اصلاحِ سخن کے زمرے سے استفادہ کرتے ہیں ۔ انہین مثبت انداز مین لیجئے گا ۔ :):):)
 
Top