زخمی ہوں اہلِ ذوقِ نظر ایسی چوٹ سے ۔۔۔۔۔ غزل اصلاح کے لئے

ایک غزل اصلاح کی غرض سے پیش ہے۔
چند بے ربط سے خیال، ایک بین السیاراتی عشق اور طبیب صاحبان کو ایک مفید مشورہ اس غزل کے مضامین میں شامل ہے !
استاد محترم جناب الف عین سر، راحیل فاروق بھائی اور تمام احباب سے اصلاح اور مشورؤں کی درخواست ہے
بحرمضارع

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
-------------------------------
عریانیت نمایاں ہو جس فن کی اوٹ سے
زخمی ہوں اہلِ ذوقِ نظر ایسی چوٹ سے

صنفِ وفائے یار وہ بادام کی گِری
جو رَہ میں گِر کے کھو گئی بچے کے کوٹ سے

افکار کو ہے شوقِ نمو، مجھ کو ذوقِ لطف
کھاتا ہوں زخم اس لئے دانستہ چوٹ سے

کہنی ٹکا کے چاند پہ، جب میں کروں مذاق
تم کھِلکھِلا کے ہنس پڑو زہرہ کی اوٹ سے

ماہر ہیں کیمیا میں اگر کر سکیں کشید
عرقِ وفا تمہاری جفاؤں کی کھوٹ سے

طِب کی ترقّیوں کا کمال اس میں جانئیے
ٹیکہ بنائیں عشق کا جب دل کی چوٹ سے

اخبار کے ضمیموں سے ہفتوں میں، کچھ ادیب
ایک آدھ نظم پڑھتے ہیں خبروں کی اوٹ سے

تم سدّ بابِ نکتہءِ کاشف کے واسطے
فتوےٰ نکال لاؤ گے دو چار، نوٹ سے
-----------------------------
 

الف عین

لائبریرین
تکنیکی طور پر تو درست ہے۔
لیکن دو تین اشعار ہی پکار کر تمہارا نام لیتے ہیں۔ باقی اشعار تمہارے نہیں لگتے!
 
بہت خوبصورت کلام ہے شاہ جی۔ زبردست ۔ کیا خوب اور انوکھا انداز ہے۔ بہت عمدہ قبلہ۔
بہت بہت شکریہ حسن بھائی
واہ جی واہ ۔۔ منفرد کلام ۔۔
بہت خوب
نوازش جناب کی۔
بہت خوبصورت کاشف بھائی!

انوکھے خیالات اور پر لطف بندشیں!

ماشاءاللہ۔
حسنِ نظر جناب کا !
جزاک اللہ !
 
کاشف بھائی، تجربہ تو سچ مچ نہایت عمدہ ہے۔ داد قبول کیجیے۔
اور اب کچھ جراحی۔۔۔
عریانیت نمایاں ہو جس فن کی اوٹ سے
زخمی ہوں اہلِ ذوقِ نظر ایسی چوٹ سے
مصرعِ اولیٰ میں نمایاں کی الف گر رہی ہے۔ یہ فارسی لفظ ہے۔ ایک اصول اس معاملے میں نقل کرتا ہوں:
اس سلسلے میں ایک قاعدہ یاد رکھیے۔ فارسی یا عربی الاصل الفاظ کا ایک بھی حرف آپ نہیں گرا سکتے سوائے دو صورتوں کے:
۱۔ اگر ان کے آخر میں ہائے مختفی ہو۔ مثلاً فارسی کے الفاظ راستہ، دیدہ، خفتہ، سادہ وغیرہ اور عربی کے الفاظ عمدہ، مدینہ، وغیرہ، حملہ، وغیرہ کے آخر میں آنے والی ہائے ہوز گرانی جائز ہے۔
۲۔ اگر اس لفظ کے بعد الف سے شروع ہونے والا لفظ آ جائے۔ مثلاً:
خلل پذیر بود ہر بنا کہ می بینی
بجز بنائے محبت کہ خالی از خلل ست​
حافظؔ کے اس شعر کے مصرعِ ثانی میں خالی عربی لفظ ہے جس کی یائے تحتانی بظاہر تقطیع میں گر گئی ہے۔
بجز بنا = مفاعلن
ئِ محبت = فعلاتن
کخالِیَز = مفاعلن
خَلَلَست = فَعِلان
مگر درحقیقت یہ گری نہیں ہے بلکہ، جیسا کہ تقطیع سے ظاہر ہے، اگلے الف سے مل گئی ہے۔ اسی لیے اس الف کو الفِ وصل کہتے ہیں۔ ی حرفِ علت تھی۔ اس کی دوسری مثال حروفِ صحیح سے دیکھیے تو اصول واضح ہو جائے گا:
حالِ دل نہیں معلوم لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا​
غالبؔ کے اس شعر کے مصرعِ اولیٰ کی تقطیع ملاحظہ ہو:
حالِ دل = فاعلن
نہیں معلوم = مفاعیلان
لیکِنِس = فاعلن
قدر یعنی = مفاعیلن
اس میں لیکن، جو عربی الاصل لفظ ہے، کا نون "اس" کی الفِ وصل کے ساتھ مل گیا ہے۔
مندرجہ بالا صورتوں کے علاوہ اگر آپ عربی یا فارسی اصل کے الفاظ کا کوئی بھی حرف گراتے ہیں تو ظلم ہے۔ :):):)
صنفِ وفائے یار وہ بادام کی گِری
جو رَہ میں گِر کے کھو گئی بچے کے کوٹ سے
خیال سے بحث نہیں مگر صنف کا لفظ کچھ اور ہی معانی رکھتا ہے۔ شعرا روایتی طور پر وفا کو جنس سے تعبیر کرتے آئے ہیں۔
سن، اے غارت گرِ جنسِ وفا! سن
شکستِ شیشۂِ دل کی صدا کیا؟
(غالبؔ)​
افکار کو ہے شوقِ نمو، مجھ کو ذوقِ لطف
کھاتا ہوں زخم اس لئے دانستہ چوٹ سے
چوٹ سے زخم دانستہ کھانے کا دعویٰ ہمارے خیال میں اغراق کی حدود میں آتا ہے۔ نیز مصرعِ اولیٰ میں افکار کے شوقِ نمو کا زخم کی افزائش سے تعلق اتنا صریح نہیں کہ لطف دے۔
کہنی ٹکا کے چاند پہ، جب میں کروں مذاق
تم کھِلکھِلا کے ہنس پڑو زہرہ کی اوٹ سے
اسے تو بیت الغزل ہی نہیں بیت المحفل بھی قرار دیں گے ہم۔ بہت اعلیٰ!
ماہر ہیں کیمیا میں اگر کر سکیں کشید
عرقِ وفا تمہاری جفاؤں کی کھوٹ سے
عَرَق عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معیاری تلفظ رائے مہملہ کے فتحہ کے ساتھ ہے۔ یعنی وتدِ مقرون کے وزن پر۔
وحشت کو میری عرصۂِ آفاق تنگ تھا
دریا زمین کو عرقِ انفعال ہے
(غالبؔ)​
طِب کی ترقّیوں کا کمال اس میں جانئیے
ٹیکہ بنائیں عشق کا جب دل کی چوٹ سے
گو ہمیں جانیے کے املا پر بھی تحفظات ہیں مگر ٹیکا کا املا تو اس شعر میں متفق علیہ طور پر غلط ہے۔ ہندی الاصل زیادہ تر الفاظ کو اور خصوصاً اسم ہائے نکرہ کو الف سے لکھنا چاہیے نہ کہ ہائے ہوز سے۔
اخبار کے ضمیموں سے ہفتوں میں، کچھ ادیب
ایک آدھ نظم پڑھتے ہیں خبروں کی اوٹ سے
سمجھ سے باہر۔
تم سدّ بابِ نکتہءِ کاشف کے واسطے
فتوےٰ نکال لاؤ گے دو چار، نوٹ سے
سدِ باب کا لغوی معنیٰ ہے دروازے کو تیغا کرنا۔ یعنی اینٹیں چن کر بند کر دینا۔ سد دیوار کو کہتے ہیں اور باب دروازے کو۔
ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اردو محاورے کے لحاظ سے یہ شعر بالکل غلط ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ یہ بلاغت کے معیار سے کافی دور جا پڑا ہے۔
 
کاشف بھائی، تجربہ تو سچ مچ نہایت عمدہ ہے۔ داد قبول کیجیے۔
اور اب کچھ جراحی۔۔۔

مصرعِ اولیٰ میں نمایاں کی الف گر رہی ہے۔ یہ فارسی لفظ ہے۔ ایک اصول اس معاملے میں نقل کرتا ہوں:


خیال سے بحث نہیں مگر صنف کا لفظ کچھ اور ہی معانی رکھتا ہے۔ شعرا روایتی طور پر وفا کو جنس سے تعبیر کرتے آئے ہیں۔
سن، اے غارت گرِ جنسِ وفا! سن
شکستِ شیشۂِ دل کی صدا کیا؟
(غالبؔ)​

چوٹ سے زخم دانستہ کھانے کا دعویٰ ہمارے خیال میں اغراق کی حدود میں آتا ہے۔ نیز مصرعِ اولیٰ میں افکار کے شوقِ نمو کا زخم کی افزائش سے تعلق اتنا صریح نہیں کہ لطف دے۔

اسے تو بیت الغزل ہی نہیں بیت المحفل بھی قرار دیں گے ہم۔ بہت اعلیٰ!

عَرَق عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معیاری تلفظ رائے مہملہ کے فتحہ کے ساتھ ہے۔ یعنی وتدِ مقرون کے وزن پر۔
وحشت کو میری عرصۂِ آفاق تنگ تھا
دریا زمین کو عرقِ انفعال ہے
(غالبؔ)​

گو ہمیں جانیے کے املا پر بھی تحفظات ہیں مگر ٹیکا کا املا تو اس شعر میں متفق علیہ طور پر غلط ہے۔ ہندی الاصل زیادہ تر الفاظ کو اور خصوصاً اسم ہائے نکرہ کو الف سے لکھنا چاہیے نہ کہ ہائے ہوز سے۔

سمجھ سے باہر۔

سدِ باب کا لغوی معنیٰ ہے دروازے کو تیغا کرنا۔ یعنی اینٹیں چن کر بند کر دینا۔ سد دیوار کو کہتے ہیں اور باب دروازے کو۔
ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اردو محاورے کے لحاظ سے یہ شعر بالکل غلط ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ یہ بلاغت کے معیار سے کافی دور جا پڑا ہے۔
بہت بہت شکریہ راحیل بھائی۔
ایک ایک شعر کا اتنا تفصیلی تجزیہ ۔۔۔ واہ ۔۔ لطف آ گیا !
آپ کے بتائی گئے تمام نکات کو ذہن میں رکھ کر ان شا اللہ تصحیحات کرتا ہوں۔
شاید کچھ وقت زیادہ لگے لیکن تمام اشعار درست کرنے کے بعد دوبارہ محفل میں شیروشکر کرونگا۔
اللہ آپ کے علم میں اور اضافہ فرمائے۔ آمین
جزاک اللہ
 

فاخر رضا

محفلین
یہ طب کی ترقیوں ہی کا کمال ہے کہ آپ اتنی اچھی غزل لکھ رہے ہیں. خدا آپ کو سلامت رکھے اور یونہی لکھتے رہیں
 

عاطف ملک

محفلین
کہنی ٹکا کے چاند پہ، جب میں کروں مذاق
تم کھِلکھِلا کے ہنس پڑو زہرہ کی اوٹ سے

آپ کے interstellar عشق نےتو کمال ہی کر دیا جناب‫!
 
Top