زبیر قیصر کا شعری مجموعہ "ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے" ۔۔ اور شاہدشاہنواز کے اشعار، کچھ مماثلتیں

شاہد شاہنواز

لائبریرین
زبیر قیصر کا شعری مجموعہ "ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے" دیکھ کر محسوس ہوا کہ اس پر بہت کچھ کہنے کی ضرورت ہے، تاہم یہاں کچھ حیرتیں میری منتظر تھیں ، یہ جان کر کہ زبیر قیصر بھی انہی راستوں سے گزرا ہے جہاں سے کبھی میرا گزر ہوا تھا اور بہت سے موضوعات پر ہمارے خیالات اور انداز بیان میں حیرت انگیز حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔

خدا نے ہر شخص کو الگ ذہن بخشا ہے اور ذاتی طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ زبیر قیصر کا اور میرا، بلکہ کسی بھی دور کے دو شاعروں کا آپس میں مقابلہ کرنا نہایت احمقانہ قسم کی بات ہے۔ شاعری کو صرف فن سمجھ لیا جائے تو مقابلہ جائز ہوجاتا ہے لیکن تقریباً تمام ہی شعراء یہ متفقہ خیال رکھتے ہیں کہ شاعری فن سے بہت آگے کی چیز ہے۔ اس کا تعلق ہماری زندگیوں اور ہمارے عہد کے مسائل سے ہے۔ ہر شاعر کا ماحول اور اس کے خیالات دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ اور شاعری کا مقابلہ کرنا بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے آپ دو زندگیوں کا مقابلہ کریں کیونکہ ہر شاعر اپنے اشعار اور غزلیات کو اپنی زندگی سمجھتا ہے، سو میں ان زندگیوں کا مقابلہ نہیں کروں گا، بلکہ صرف ان مشترک باتوں کی طرف اشارہ کروں گا جو میرے اشعار اور زبیر قیصر کے اس مجموعے میں پائے جانے والے کلام میں مشترک تھیں۔

اس ضمن میں سب سے پہلی بات یہ کہ ہم دونوں ایک جیسی بحریں استعمال کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ہے متفاعلن متفاعلن متفاعلن ۔۔ عموماً ایک کم استعمال کی جانے والی بحر ہے ، بہت کم شعراء اس میں شعر کہتے ہیں لیکن ہم دونوں نے ہی اسے استعمال کرنا ضروری سمجھا۔۔۔

زبیر قیصر:
ترے عہد سے ہیں بندھے ہوئے مرے رات دن
اسی راہ پر ہیں کھڑے ہوئے مرے رات دن

مجھے آپ اپنی خبر نہیں کہ کہاں ہوں میں
کسی قید میں ہیں پڑے ہوئے مرے رات دن

شاہدؔ شاہنواز:
یہ جو لطف ہے مرے حال پر کوئی بات ہے
مری تاک میں ہے تری نظر کوئی بات ہے

یہ نہیں کہ رہنے کو پاس ان کے مکاں نہیں
یونہی پھر رہے ہیں جو در بدر کوئی بات ہے

زبیر قیصر:
وقت لگتا نہیں بھلانے میں
یہ تو دستور ہے زمانے میں

سارے کردار خود تراشے ہیں
سب حقیقت ہے اس فسانے میں

شاہدؔشاہنواز:
زندگی پل میں بیت جاتی ہے
دیر لگتی ہے موت آنے میں
ہم ہیں شاہد ؔمثال آپ اپنی
ہم سا کوئی نہیں زمانے میں

زبیر قیصر:
دور ہوسکتے نہیں عہد نبھانے والے
زور جتنا بھی لگا لیں یہ زمانے والے

راز اس پر بھی کھلا ہوگا محبت کرکے
کیسے زندہ ہیں یہاں دل کو لگانے والے
شاہدؔشاہنواز:
خاک سے ہم کو بنایا ہے بنانے والے
تو نے سب نقش بنائے ہیں مٹانے والے

تجھ پہ الزام لگاتے تو نہیں تھکتے ہیں
بھول جاتے ہیں ستم اپنے زمانے والے

زبیر قیصر:
روشنی، دلکشی کے بارے میں
بات کر زندگی کے بارے میں

کٹ گئی زندگی اندھیروں میں
کیا کہیں روشنی کے بارے میں

شاہدؔ:
دوستو! زندگی کے بارے میں
ہم نے سوچا خوشی کے بارے میں
ہم نے دیکھا بلندیوں کی طرف
سوچ کر آگہی کے بارے میں

ایک اور مشترک بات دیکھئے۔
اشک میں صورت تلاش کرنے کی بھول، دونوں ہی کرتے ہیں۔۔۔

زبیر قیصر:
کسی نے اشک کی صورت گرا ڈالا
کوئی موتی بنا کر مجھ کو لے جائے

شاہدؔشاہنواز:
میں روتاہوں تو لگتا ہے کہ جیسے پھٹ گیا ہے دل
لہو آنکھوں سے میری اشک کی صورت ٹپکتا ہے

ہم دونوں کو "تم بھی" اور "ہم بھی" کی تکرار اچھی لگتی ہے:

زبیر قیصر:
ایک سی سوچ تھی، ایک سے خواب تھے
تم بھی بے مثل تھے ، ہم بھی نایاب تھے

شاہدؔشاہنواز:
سنگدل ہو گئے برابر کے
تم بھی پتھر کے ، ہم بھی پتھر کے


یہاں تو ایسا لگتا ہے دونوں ساتھ ہی بیٹھ کر سوچ رہے تھے۔۔
شاہدؔ شاہنواز:
آنکھوں سے نہاں صورتِ مہتاب ہے اب تک
اک خواب جو دیکھا تھا بس اک خواب ہے اب تک

زبیر قیصر:
آنکھوں میں ہیں آباد ترے خواب ابھی تک
رکھا ہے تری یاد نے بے تاب ابھی تک

قیصر مرے لفظوں سے جھلکتا اسے دیکھو
آنکھوں سے جو اوجھل رہا مہتاب ابھی تک

کچھ کہانی اور زبانی کا تذکرہ بھی، تو زبیر قیصر لکھتے ہیں:

محبت کی نشانی یاد رہتی ہے
ہمیں تیری کہانی یاد رہتی ہے

کبھی تصویر مانگی ہی نہیں تجھ سے
تری صورت زبانی یاد رہتی ہے ۔۔۔

شاہدؔشاہنواز:
ہم پیار کی باتیں کیا جانیں اور پریم کہانی کون لکھے
دل آتا جاتا رہتا ہے، جاں آنی جانی ہوتی ہے
چاہے سوچوں میں چیخیں ہوں، ظالم ہر بات پہ ہنستا ہے
الفت کی کہانی جیسی ہو، اشکوں کی زبانی ہوتی ہے

ٹیگ نامہ:
محترم الف عین صاحب
محترم محمد یعقوب آسی صاحب
شمشاد بھائی
ظفری
 
آخری تدوین:
بالکل ایسا ہوتا ہے شاہد شاہنواز صاحب۔

ہمارے دوست ہیں اقبال احمد قمر، جہلم سے تعلق ہے آج کل دمام (سعودی عرب) میں ہوتے ہیں۔ ان کی پہلی کتاب مجھ تک پہنچی تو میں بھی شاید اسی طور چونکا تھا جیسے آپ زبیر کی کتاب پڑھ کر چونکے ہیں۔ مہینوں بعد وہ پاکستان آئے تو ایک پورا دن میرے اور کچھ دوستوں کے ساتھ گزرا۔ ہم لوگوں نے اقبال احمد قمر کے اعزاز میں ایک محفلِ شعر بھی برپا کی اور اس سے پہلے میں نے ان کے اور اپنے افکار و احساسات کے اشتراکات پر مبنی اپنا ایک مضمون پڑھا۔ عنوان تھا: ’’سانجھ کا چور‘‘۔

جاری ہے۔
 

سانجھ والے اس عنصر کا سطحی سا تجزیہ بھی کریں تو کچھ چونکا دینے والے اور کچھ رنجیدہ کر دینے والے عوامل سامنے آتے ہیں۔ مثلاً:
کئی دہائیاں ہو گئیں، پوری دنیا کچھ عجیب بلکہ متضاد کیفیات کا شکار ہو رہی ہے، بے چینی اور بے حسی بیک وقت موجود ہیں۔ حقیقی مسرتیں عنقا ہو رہی ہیں اور انسان ظاہری چمک دمک اور چکاچوند میں پڑ کر شاید اپنے احساسِ محرومی کو دبانا چاہ رہاہے۔ روپے کی دوڑ کے پیچھے بھی شاید یہی جھوٹی کوشش کار فرما ہے۔ اور اس دوڑ نے ایک نئے دکھ کو جنم دیا: گھر کی سطح پر اپنے دل میں بسنے والوں سے جبری دوری اور خاندان اور قبیلے کی سطح پر رشتوں کے ٹوٹنے کا دکھ۔ بھر ایک سلسلہ چل نکلتا ہے، ایک دکھ سے دوسرا دکھ پھوٹتا ہے۔
دوسرا بہت بڑا عنصر کرہء ارض پر برپا سیاسی اکھاڑ بچھار ہےجس میں انسان کی فلاح کے نام پر انسانیت کی تذلیل کے سامان ہوتے ہیں۔ عالم انسانیت کی طبقاتی تقسیم پچھلی چار پانچ دہائیوں سے عجیب و غریب بھیس بدل کر مصروفِ عمل ہے۔ دوہرے معیارات جس قدر آج کل مؤثر ہیں، پہلے شاید اس طرح نہیں ہوتا ہو گا۔ یہاں تک کہ انسان خدا سے برگشتہ ہو رہا ہے۔ خدا کا انکار کتنی مایوسیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے، مایوسی کی انتہا اس کا ادراک بھی نہیں ہونے دے رہی۔ ادھر حالات ہیں کہ بدلنے کا نام ہی نہیں لے رہے، ایک عجیب سی مردنی اور یکسانیت ہے جو عرصے سے چھائی ہوئی ہے۔

ایسے میں سچائی کو محسوس کرنے والے دل، سوچنے والے دماغ اور اظہار کی صلاحیت سے معمور لسان و قلم کم و بیش ایک ہی انداز میں محسوس کرتے، سوچتے اور اس کو رقم کرتے ہیں۔ میں یا آپ فکری اور حسی کے ساتھ ساتھ اظہار کی سطح پر جس کے کتنے قریب ہوں گے ، اس کے ساتھ سانجھ کا احساس اتنا ہی زیادہ اور مضبوط ہو گا اور یہی سانجھ اظہار کا پیرایہ بھی اختیار کرے گی۔ زبیر قیصر کے اولین شعری مجموعے کے حوالے سے آپ کے مشاہدات درست اور منطقی ہیں، تاہم حیرت انگیز ہر گز نہیں۔

میں زبیر قیصر کے اب تک کےسارے شعری سفر کا کچھ کچھ مشاہدہ رکھتا ہوں، اس میں بہت صلاحیتیں ہیں۔ نوجوان ہے نا، خون گرم ہے اس لئے کچھ جلدی کر جاتا ہے بس! اور ہاں آگ اور دھوئیں کے اس برفانی دور میں یہ گرمی بھی تو غنیمت ہے۔ اللہ کرے یہ گرمی ہر قلب کو گرما دے!
 
شاہد میں جہاں تک سمجھ پایا ہوں کہ یہ سب بات شائد اسلئے ہوتی ہے کہ ہم میں سے اکثر کسی نہ کسی پسندیدہ شاعر کی چھاپ اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتے ہیں، مطالعہ کی کثرت اور خاص کر کے اُس پسندیدہ شخصیت کی ہمیں اگر وہ نہیں بھی بنا پاتی تو کہیں نا کہیں اُس کا پرتو جھلکتا۔ اب اگر دو حضرات یکساں کیفیت کا شکار ہوں گے تو دونوں میں خیالات اور افکار کے ساتھ ساتھ ادائگی کا یکساں ہوتا قطعا اچنبھے کی بات نہیں ہے۔
غیر معمولی بات تو یہ ہوتی ہے کہ جب دو انجان اور مختلف الخیال لوگوں کے تصورات یکساں ہو جائیں
میرے ساتھ جو ہوا اُس پر بات کر سکتا ہوں کہ ہمہ وقت اپنی کم علمی اور کم مائگی پر نوحہ خواں رہتا ہوں۔ مطالعہ کی فرصت ہی نہ دی اب تک شکم پروری نے، بس ایک اندرونی خواہش نے لکھنے پر مجبور کیا، عام شاعروں کی طرح 50 ، یا 60 ہزار اشعار ازبر بھی نہیں کئے کہ کسی اُستاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کی شرط ہے
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بہترین اساتذہ عنایت فرما دئے اور میں اپنے ہی ٹوٹے پھوٹے خیالات کو اپنے ہی انداز میں کہ ڈالتا ہوں
زبیر قیصر اور آپ ماشا اللہ مشہور شعرا میں سے ہیں اور پھر دونوں صاحب علم و فن بھی ہیں، شائد کوئی یکساں پسند و ناپسند اس مماثلت کا سبب رہی ہو گی :biggrin:
 
Top