زباں آزاد ہے نہ ذہن ہی آزاد ہے تیرا - برائے اصلاح

زباں آزاد ہے نہ ذہن ہی آزاد ہے تیرا
تبهی یہ حال ہے کہ حال یوں برباد ہے تیرا

شرافت آبرو غیرت دیانت سب ہی بکتے ہیں
کبهی یہ سوچ کس دولت سے گهر آباد ہے تیرا

یہاں تو چار سو محفل ہے رنگوں کی بہاروں کی
تو پهر کیا بات ہے کہ دل بہت ناشاد ہے تیرا
 

اسد قریشی

محفلین
بحرِ ہزج، میں اچھے اشعار کہے ہیں آپ نے، تکنیکی اعتبار سے تو کوئی خامی نہیں ماسوائے اس کے کہ آپ نے لفظ "نہ" اور "کہ" کو دو حرفی باندھا ہے، اس کی اجازت اعجاز عُبید صاحب ہی دے سکتے ہیں میرے ناقص علم کے مطابق اس کو مناسب نہیں سمجھا جاتا۔

نیز آپ کے دوسرے شعر کے دونوں مصروع میں ربط مجھے محسوس نہیں ہوا ممکن ہے میں ہی صحیح سمجھ نہ پایا ہوں، کسی اور دوست یا پھر اعجاز صاحب کی رائے کا انتظار کرتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
ابھی ہر جگہ وہی ’کہ‘ اور ’نہ‘ کی اغلاط درست کرتا آیا ہوں۔ اسد کی دونوں باتوں سے متفق ہوں۔
’جو‘ کے اضافے سے درست ہو سکتے ہیں دو اشعار، مطلع میں ’نے‘ کے ساتھ۔ یعنی

زباں آزاد ہے نے ذہن ہی آزاد ہے تیرا
تبهی یہ حال ہے جو حال یوں برباد ہے تیرا

شرافت آبرو غیرت دیانت سب ہی بکتے ہیں
کبهی یہ سوچ کس دولت سے گهر آباد ہے تیرا
؟؟
یہاں تو چار سو محفل ہے رنگوں کی بہاروں کی
تو پهر کیا بات ہے جو دل بہت ناشاد ہے تیرا​
 
Top